کھجور کا تنا جنّت الخلد میں:حافظ ابنِ حجر ؒ عسقلانی ؒ سیّدنا بریدہؓ کی روایت سنن دارمی کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ ’’حضوراکرمﷺ نے جب اس خشک تنے کو پیار و محبّت سے چُپ کراویا، تو اس سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ ’’اگر تیری چاہت ہو تو تجھے سابقہ حالت پر لوٹا دیا جائے، تاکہ تُو سرسبز و شاداب ہوکر میوہ جات سے لد جائے اور اگر تیری چاہت ہو، تو تجھے بہشتِ جاوداں میں بٹھا دیا جائے، تاکہ تُو جنّت کی نہروں اور چشموں سے سیراب ہوکر جنّت کی اَبدی بہاروں سے لُطف اندوز ہو اور تیرا پھل جنّت کے مکین کھائیں۔‘‘ کھجورکے تنے نے جواب دیا۔ ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں جنّت میں جانا پسند کروں گا۔‘‘ پھرآپؐ نےصحابہ کرامؓ سے مخاطب ہو کر فرمایا ’’اس نے جنّت الخلد کو اختیار کرلیا ہے۔ یعنی اس نے جہانِ فانی پر عالمِ جاودانی کو ترجیح دی۔‘‘ چناں چہ حضوراکرمﷺ کے حکم پر اُسے اُسی جگہ یا منبر کے نیچے گڑھا کھود کر دفن کر دیا گیا اور اب وہ جنّت کی لازوال نعمتوں سے لُطف اندوز ہورہا ہے۔‘‘ (تاریخِ مدینہ منوّرہ، محمد عبدالمعبود،387)۔
منبر شریف کی تبدیلی: 654ہجری بمطابق 1256عیسوی میں مسجدِ نبویؐ میں آتش زدگی کا رُوح فرسا حادثہ پیش آیا، جس میں اصل منبر شریف بھی نذرِ آتش ہوا، چناں چہ اس کا جو حصّہ بچ گیا تھا، وہ ایک صندوق میں بند کرکے استوانہ حنانہ کے قریب دفن کردیا گیا۔ دو سال بعد یمن کے بادشاہ ملک مظفر شاہ نے صندل کی لکڑی کا خُوب صورت منبر بنوا کر بھیجا۔ منبر کی تبدیلی کئی مرتبہ ہوئی اور اخری منبر998ہجری بمطابق 1589ء میں سلطنتِ عثمانیہ کے فرماں روا، سلطان مراد خاں نے سنگِ مرمر کا انتہائی خُوب صورت، دیدہ زیب اور کاری گری کے بہترین نمونے کی صُورت بھیجا۔ آج بھی مسجد نبویؐ میں وہی دیدہ زیب منبر موجود ہے۔ (تاریخِ مسجدِ نبویؐ،محمد الیاس عبدالغنی،119)۔حضرت ابوہریرہؓ سےروایت ہے کہ حضوراکرم ﷺ نے فرمایا ’’میرے گھر اور منبر کادرمیانی ٹکڑا جنّت کے باغوں میں سے ایک باغیچہ ہے اور میرا منبر میرے حوض (کوثر) پرہوگا۔‘‘ (صحیح بخاری،1888، 1196)۔
’’اسطواناتِ رحمت‘‘، مسجد نبویؐ کے ستون: حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسجد کے27ستون تھے، جو درحقیقت کھجور کے تنے تھے۔ عہدِ عثمانی تک یہ ستون جوں کے تُوں رہے، البتہ توسیع کے وقت کھجور کے تَنوں کی جگہ منقّش پتّھر کے ستون نصب کردیئے گئے۔ ان ستونوں میں سے ریاض الجنۃ کے احاطے میں واقع8ستون اپنا تاریخی پس منظر رکھتے ہیں۔ یہ آٹھوں ستون بڑی فضیلتوں کے حامل ہیں۔ یہاں صحابہ کرامؓ کثرت سے نوافل ادا کرتے تھے۔ چناں چہ انہیں ’’اسطواناتِ رحمت‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ تُرکوں نے ان ستونوں پر سنگِ مرمر چسپاں کرکے بالائی حصّے پر اسطوانہ کا نام کندہ کروادیا۔
1۔ اسطوانہ مخلقہ۔ اسطوانہ حنانہ:یہ ستون قبلے کی سمت محرابِ نبویؐ سے متصل امام کے دائیں جانب واقع ہے۔ اس ستون پر خلوق نامی خُوشبو کثرت سے لگائی جاتی تھی، جس کی وجہ سے خلوق خوشبو سے معطر ستون کے نام سے مشہور ہے۔ اس پر جلی لفظوں سے ’’ھٰذہِ اسطوانۃ المخلقہ‘‘ لکھا ہوا ہے اور یہی وہ جگہ ہے، جہاں منبر تیارہونے کے بعد کھجور کا خشک تنا فراقِ نبیؐ میں رونے لگا تھا۔ اس لیے اس کا نام ستونِ حنانہ یعنی رونے والی اُونٹنی والا ستون پڑگیا۔
2۔ اسطوانہ عائشہؓ:اسے اسطوانہ مہاجرین اور اسطوانہ القرع بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ریاض الجنۃ کے وسط میں ہے اور جانبِ قبلہ جانبِ منبر اور جانبِ روضۂ اَطہر سے تیسرا اسطوانہ ہے۔ اس پر بھی ’’ھٰذہ اسطوانۃ سیّدۃ عائشہؓ‘‘لکھا ہوا ہے۔ اس جگہ پر آپؐ نے تحویلِ قبلہ کے چند دنوں بعد تک نماز پڑھائی۔ یہ ستون اکثر مہاجر صحابہؓ کی سجدہ گاہ اور مقامِ نشست تھا۔ سیّدہ عائشہ صدیقہؓ نے اس مقام کی فضیلت کے بارے میں آگاہ فرمایا تھا، لہٰذا اس کا نام اسطوانہ عائشہؓ معروف ہوگیا۔ (روضہ شریف، ڈاکٹر احمد محمد شعبان،32)۔
3۔ اسطوانہ توبہ:اسے اسطوانہ ابولبابہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ مشرقی سمت میں اسطوانہ عائشہؓ کے پہلو میں ہے۔ جانبِ قبلہ سے تیسرا، منبر سے چوتھا اور قبرِ مبارک سے دُوسرا ستون ہے۔ یہ وہ ستون ہے، جس سے مشہور انصاری صحابی حضرت ابو لبابہؓ نے قبولیتِ توبہ تک خود کو باندھے رکھا تھا۔
4۔ اسطوانہ سریر:یہ ستون حجرۂ نبویؐ کی جالیوں سے بالکل متصل ہے اور اسطوانہ توبہ سے مشرق کی سمت منبر شریف سے چوتھا اور سیّدہ عائشہ صدیقہؓ کے حجرے کے بالکل قریب ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چارپائی اور چٹائی اس ستون کے قریب بچھائی جاتی تھی۔ سیّدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضور اَقدسؐ اعتکاف کے دوران اپنا سر مبارک دروازے کی جانب کر لیا کرتے تھے اور مَیں آپؐ کے سر میں کنگھی کر دیا کرتی تھی۔ (بخاری شریف،271/1)۔
5۔ اسطوانہ حرس:یہ اسطوانہ علیؓ کے نام سے بھی موسوم ہے۔ یہ شمال کی جانب باب حجرہ کے مقابل اسطوانہ توبہ کے پیچھے والا ستون ہے۔ حرس کے معنیٰ پاسبانی و حفاظت کے ہیں۔ سیّدنا علی ابن طالبؓ اسی جگہ پر بیٹھ کر حفاظت و نگرانی کا فریضہ انجام دیا کرتے تھے، اسی لیے یہ اسطوانہ حرس کے نام سے مشہور ہوگیا۔
6۔ اسطوانہ وفود:یہ اسطوانہ حرس سے شمال میں پہلا ستون ہے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم باہر سے آنے والے وفود سے ملاقات کے لیے اس جگہ تشریف فرما ہوتے تھے، چناں چہ یہ اسطوانہ وفود کے نام سے مشہور ہوا۔
7۔ اسطوانہ تہجّد:یہ ستون سیّدہ فاطمۃ الزھرہؓ کے حجرہ مبارک کے شمال میں واقع ہے۔ اس کے بالمقابل اصحابِ صُفّہ کا چبوترا ہے۔ بابِ جبرئیل سے مسجد میں داخل ہوں، تو یہ جگہ عین سامنے پڑتی ہے۔ اس کے دائیں جانب شمال میں صُفّہ کا چبوترا ہے۔ اس مقام پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ تہجّد ادا فرماتے تھے۔
8۔ اسطوانہ جبرئیل علیہ السلام:یہ ستون اس وقت روضۂ مبارک کی جالی کے اندر آگیا ہے۔ اس جگہ سیّدنا جبرئیل علیہ السلام حضرت دحیہ کلبیؓ کی شکل میں آتے اور حضورؐسے ملاقات کرتے تھے۔ یہ جگہ حضرت فاطمہؓ کے گھر سے متصل تھی۔ حضورﷺجب حجرۂ عائشہؓ سے آتے تو اس مقام پر ٹھہر کر صاحب زادی سے گفتگو فرماتے تھے۔
مکبرہ یا مقصورہ مبلّغین: حضرت نافعؓ بیان کرتے ہیں کہ سیّدنا عُمر فاروقؓ نے فرمایا کہ حضرت بلالؓ مسجد نبویؐ سے متصل اُمّ المومنین سیّدہ حفصہ بنتِ فاروقِ اعظمؓ کے مکان میں واقع مینار پر چڑھ کر اذان دیا کرتے تھے۔ (اخبارِ مدینہ،86)۔
شیخ ابراہیم رفعت پاشا لکھتے ہیں کہ ’’عہدِ نبویؐ اور دورِ خلفائے راشدین میں مؤذن کے لیے جگہ متعین نہ تھی۔ مسجد کے مغرب میں سیّدنا عبداللہ بن عُمرؓ کے مکان میں واقع ایک ستون پر، جسے دارالعشرہ کہا جاتا تھا، حضرت بلالؓ اذان دیا کرتے تھے۔ اور اس پرسیڑھی کے ذریعے چڑھتے تھے۔ اموی خلیفہ، ولید بن عبدالملک کے عہد میں مدینے کے گورنر حضرت عُمر بن عبدالعزیزؒ نے مسجد نبویؐ کے چاروں کونوں میں اذان کے لیے مینار بنوائے تھے۔
سعودی حکومت کے دَور میں مدینہ منوّرہ میں برقی نظام قائم ہوجانے کے باعث مسجد نبویؐ میں لائوڈ اسپیکر بھی نصب کر دیئے گئے، جن پر اذان دی جانے لگی۔ محرابِ نبویؐ کے سامنے 250سینٹی میٹر اُونچا ایک مقصورہ بنا ہوا ہے، جو آٹھ خُوب صورت ستونوں پر قائم ہے۔ اس کے جنوب مغرب میں اُوپر چڑھنے کے لیے زینہ ہے، جس کا دروازہ اذان دینے کے وقت کے علاوہ مقفّل رہتا ہے۔ اس پر لائوڈ اسپیکر اور براڈکاسٹ کے آلات بھی نصب ہیں۔ مؤذن اور چند مخصوص رفقاء اس پر نماز پڑھتے ہیں۔ (تاریخِ مدینہ منوّرہ،محمد عبدالمعبود،413)۔
مدینہ منوّرہ کی دُوسری تاریخی مساجد
مسجد قباء: یہ مدینۂ منوّرہ میں زمانۂ اسلام میں تعمیر ہونے والی پہلی مسجد ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید میں فرماتا ہے ’’یقیناً وہ مسجد، جس کی بنیاد شروع دن ہی سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے، اس بات کی زیادہ حق دار ہے کہ آپ اس میں (عبادت کے لیے) کھڑے ہوں۔ ‘‘(سورئہ توبہ آیت، 108)۔ اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جب مکّہ مکرمہ سے ہجرت فرماکرقباء پہنچے، تو آپؐ نے یہ مسجد تعمیر فرمائی اور اس کی تعمیر میں بنفس نفیس شریک ہوئے۔ آپؐ گاہے بہ گاہے، خصوصاً ہفتے کے روز یہاں تشریف لاتے اور نماز ادا فرماتے تھے۔
سیّدنا ابنِ عُمرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر ہفتے پیدل یا سوار مسجدِ قباء میں تشریف لاتے اور وہاں دو رکعت نمازادا فرماتے تھے۔ (صحیح بخاری، 1193)۔ حضرت سہل بن حنیفؓ سے مروی ہے کہ ’’حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ’’جو شخص گھر سے نکل کر مسجدِ قباء میں آئے اور یہاں دو رکعت نماز پڑھے۔ اُسے ایک عُمرے کا ثواب ملے گا۔‘‘ (سنن ابنِ ماجہ 453/1)۔
حضرت عُمر بن عبدالعزیز نے پہلی مرتبہ مینار تعمیر کروایا۔ اُن کے بعد بھی ہر دور میں حکم رانوں نے مسجد کی تعمیر و توسیع پر خصوصی توجہ دی۔ 1968ء بمطابق1388ہجری میں شاہ فیصل نے اَزسرنو اس کے شمالی جانب اضافہ کرکے ایک نئی خُوب صورت مسجد تعمیر کروائی۔ 1405ہجری 1984 عیسوی میں شاہ فہد نے تعمیر و توسیع کا حکم دیا۔ چناں چہ اب مسجد کا مجموعی رقبہ 13500مربع میٹر ہوگیا، جس میں بیک وقت بیس ہزار افراد نماز ادا کر سکتے ہیں۔ مسجد میں 56چھوٹے گنبد، 6بڑے گنبد اور چار خُوب صورت مینار ہیں۔
مسجدِ جمعہ: حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد قباء سے مدینہ منوّرہ تشریف لے جاتے ہوئے راستے میں بنو سالم بن عوف کے محلّے میں نمازِ جمعہ ادا فرمائی۔ صحابہ کرامؓ نے اس جگہ مسجد تعمیرکردی۔ چناں چہ اسے مسجدِ جمعہ کہا جانے لگا۔ حضرت عُمر بن عبدالعزیزؒ نے اپنے دورِ گورنری میں اسے دوبارہ تعمیر کروایا۔ شاہ فہد کے دور میں مسجد کی نئی تعمیر اور توسیع ہوئی، چناں چہ اب اس کا رقبہ1630مربع میٹر ہے۔ بیک وقت 650 نمازی مسجد میں سما سکتے ہیں۔ اس مسجد میں ایک گنبد ہے، جس کا قطر 12میٹر ہے اس کے علاوہ چار چھوٹے قُبّے بھی ہیں۔ اس کے مینار کی بُلندی 25 میٹر ہے۔ مسجدِ جمعہ، قباء سے 500 میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ (تاریخ مدینۂ منوّرہ، 105)۔
مسجد اجابہ: اس مسجد میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمّت کے لیے دُعائیں کی تھیں، پہلی دُعا تھی کہ میری اُمّت قحط سالی سے ہلاک نہ ہو۔ یہ دُعا بارگاہِ الٰہی میں قبول ہوگئی۔ دُوسری تھی، میری اُمّت غرق ہوکر تباہ نہ ہو۔ اسے بھی منظور فرمالیا گیا۔(صحیح مسلم 2216/4)۔ مسجدنبویؐ کے شمال مشرقی میں یہ مسجد 580میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ عہدنبویؐ میں بنو معاویہ کے محلّے میں تعمیر ہوئی تھی، اس لیے اسے مسجدِ بنو معاویہ بھی کہتے ہیں۔
مسجد قبلتین: حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہاں بیت المقدس کی طرف مُنہ کر کے نماز پڑھا رہے تھے کہ قبلہ کی تبدیلی کا حکم نازل ہوا۔ دو رکعتیں مکمل ہو چکی تھیں۔ ابھی تیسری رکعت شروع ہی کی تھی کہ وحی نازل ہوگئی۔ ’’ترجمہ:’’ہم آپ کے رُخِ اَنور کو بار بار آسمانوں کی جانب اُٹھتا دیکھ رہے ہیں، لہٰذا ہم آپ کا مُنہ اسی قبلے کی جانب پھیر دیتے ہیں، جو آپ کو پسند ہے، آپ اپنا مُنہ مسجد ِحرام (کعبہ) کی جانب پھیر لیجیے، اور جہاں کہیں بھی ہوں، اپنا رُخ (مسجدِ حرام) کی طرف کرلیا کریں۔‘‘ (سورۃ البقرہ،144) بیت المقدس مدینے کے شمال میں ہے، جب کہ کعبۃ اللہ جنوب میں واقع ہے۔
چناں چہ حکم ملتے ہی آپﷺ جنوب کی جانب چلے گئے اور صحابہؓ نے بھی اپنا رُخ تبدیل کرلیا۔ قبیلہ بنو سلمہ کی جس مسجد میں یہ واقعہ پیش آیا، وہ’’ مسجدِ قبلتین‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ یعنی دو قبلوں والی مسجد۔ یہ مسجد مدینہ منوّرہ کے شمال مغرب میں مسجدِ نبویؐ سے ساڑھے تین کلومیٹر کے فاصلے پر وادئ عقیق کے قریب واقع ہے۔ 1543 عیسوی میں عثمانی سلطان سلیمان اعظم نے اس کی تعمیرِ نو کروائی تھی۔ بعدازاں، سعودی دَور میں شاہ فہد نے اسے اَزسرنو تعمیر کروایا۔ مسجد کی اس نئی عمارت میں دو منزلیں ہیں۔ مینار بھی دو ہیں اور گنبد بھی دو ہیں۔ اسی طرح سے محراب بھی دو ہیں ایک شمال میں بیت المقدس کی جانب دُوسری جنوب میں مکّہ مکرمہ کی جانب۔ مسجد کا مجموعی رقبہ 3920مربع میٹر ہے۔ (سیرتِ رحمۃ للعالمین، صفحہ 232)۔
مسجد ابوذر (مسجد السجدہ): یہ مسجد شارع ابوذر پر مسجدِ نبویؐ سے شمال کی جانب نو سو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس کا ایک نام مسجد شُکر بھی ہے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ سے مروی ہے کہ اس جگہ آپؐ نے اتنا طویل سجدہ کیا کہ میں ڈرگیا، کہیں اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو اپنے پاس نہ بُلا لیا ہو۔ اس موقعے پر حضورﷺ نے فرمایا، ’’جبرئیل نے مجھے خوش خبری دی تھی کہ جو مجھ پر درودشریف پڑھے گا، اللہ اس پر رحمت فرمائے گا اور جو مجھ پر سلام کہے گا، اللہ تعالیٰ اُسے سلامتی دے گا۔‘‘ اس پر آپؐ نے یہاں طویل سجدئہ شُکر ادا فرمایا۔ (مسندِ احمد130/3حدیث نمبر 1664)۔ اس وقت یہ مسجد ابوذر کے نام سے معروف ہے۔ حکومتِ سعودیہ نے1421ہجری بمطابق 2000عیسوی میں اسے خُوب صورت انداز میں دوبارہ تعمیر کروایا۔ اس وقت مسجد کارقبہ324 مربع میٹر ہے۔
مسجدِ میقات (مسجدِ شجرۃ):یہ مسجد وادئ عقیق کے مغربی سمت میں مسجد ِ نبویؐ سے تقریباً بارہ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس کی پہلی تعمیر حضرت عُمر بن عبدالعزیزؒ کے عہدِ امارت میں انجام پائی۔ اس کی آخری بار تعمیر و توسیع شاہ فہد بن عبدالعزیز کے دَور میں ہوئی۔ اس کے رقبے میں کئی گنا اضافہ کرکے اسے نہایت خُوب صورت جدید انداز میں تعمیر کیا گیا، جس میں مسجد سے ملحق غسل خانے، وضو خانے اور احرام پہننے کی جگہیں بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ گاڑیوں کی پارکنگ کا بھی معقول انتظام ہے، مسجد کی موجودہ پیمائش چھے ہزار مربع میٹرہے۔ مسجد کے درمیان میں ایک ہزار مربع میٹر پرکھلا صحن رکھا گیا ہے۔ مسجد میں ایک نہایت دل فریب اور خُوب صورت مینار بھی ہے، جو اس کے حُسن کو چار چاند لگاتا ہے، اس مینار کی بُلندی 64میٹر ہے۔ (جاری ہے)