سورۃ الحجرات مسلمانوں کو تحقیق کا درس دیتی ہے ۔یہ سورت سماجی، معاشرتی اور سیاسی اُمور سے متعلق واضح درس دیتی ہے کہ ملّتِ اسلامیہ کی تشکیل کن بنیادوں پر ہونی چاہیے۔اسی طرح سیرتِ نبوی ﷺ میں ہمیں عمرانیات، نفسیات اور اخلاقیات جیسے سماجی علوم کا بہترین نمونہ ملتا ہے ۔مگر بدقسمتی سے مسلمانوں سے اپنا وَرثہ سنبھالا نہیں گیا اور اپنی تمام ترتعلیمات، قوّت، قابلیت جنگوں، فرقہ واریت اور غیر اسلامی رسوم و رواج میں صرف کردیں۔ سماجی علوم پر جن مسلمانوں نے کام کیا، اُن میں محمّد بن زکريا الرازی، فارابی، امام غزالی، ابنِ خلدون اور شاہ ولی اللہ جیسے مشاہیر کے نام شامل ہیں۔صحت، تعلیم، روزگار، لسانی، مذہبی اور مسلکی بنیادوں پر تفریق، غریب، متوسّط اور امیر طبقوں کے معاملات کی تفہیم، جیسے مسائل تاحال توجّہ طلب ہیں۔
اس ضمن میں ایک بہت بڑا مسئلہ شادی میں تاخیر اور اس کے معاشرے پر اثرات ہیں اور اس حوالے سے ہمیں ’’نکاح میں تاخیر کے اسباب اور اُن کا حل‘‘ تلاش کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ ہماری نظر میں اس موضوع پر تحقیق کرکے کسی مثبت نتیجے پر متفق ہوکر ایک بہت بڑا سماجی مسئلہ حل کیا جاسکتا ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ اُمّت کے معتدل مزاج، اجتماعیت پسند اور جدید سماجی علوم پر دسترس رکھنے والے علما ءو محقّقین آگے بڑھیں اور مسلمانوں کو نکاح میں آسانی کی ترغیب دیں، کیوں کہ خاندانی نظام کی مضبوطی ہی میں مسلمانوں کی نشاۃِ ثانیہ کا راز پنہاں ہے۔
ارشادِ ربّانی ہے’’اےلوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو ،دَر حقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے، جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار ہے۔ یقیناً اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔‘‘ (سورۃ الحجرات)۔ اسی طرح رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا’’نکاح میری سنّت ہے، جس نے میری سنّت سے رُوگردانی کی، وہ ہم میں سے نہیں۔“(متفق علیہ، بخاری و مسلم)۔
حضرت آدمؑ جنّت میں تھے، جہاں اُنہیں ہر سہولت میّسر تھی،لیکن اللہ نے اُن کو بنایا ہی اس طرح تھا کہ اُن کی جبلت میں ایک تشنگی رکھی ،جس کا اظہار اُنہوں نے خالقِ کائنات سے کیا اور پھر اللہ نے اُن کی تسکین کے لیے انہی کی پسلی سے امّاں حواؑ کو پیدا فرمایا۔ یہاں یہ بات واضح ہوگئی کہ اولادِ آدم ؑ میں محبّت اور نکاح کا جذبہ مِن جانب اللہ ہے۔ چناں چہ اب یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ اس جذبے کی جائز طریقے سے تسکین کرتا ہے یا ناجائز طریقے سے۔ دنیا میں اس ضمن میں کیا روش اختیار کی جارہی ہے، اس سے ہمیں کچھ لینا دینا نہیں ۔ ہمارا سروکار تو صرف اپنے مسلم معاشرے ہی سے ہونا چاہیے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اپنے اکابرین کی تمنّاؤں کے مطابق ہم پاکستان کو ایک فلاحی اسلامی ریاست نہیں بناسکے، کیوں کہ اگر ہم کام یاب ہوجاتے، تو یہاں نکاح جیسے پاکیزہ امر میں تاخیر کا مسئلہ زیرِ بحث ہی نہ ہوتا۔ایک اسلامی فلاحی ریاست میں ہر ہنرمند نوجوان کو بروقت نوکری مُہیا کرنا،ہر پڑھے لکھے، قابل نوجوان کوباعزّت عُہدہ تفویض کرنا، روزگار کے مواقع پیدا کرنا اور اُن کی اہلیت کے مُطابق اُنہیں کھپانا’’Right man for right job‘‘ہیومن ریسورس مینجمنٹ کا زرّیں اصول ہے،لیکن ہمارے یہاں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ روز بہ روز بڑھتی بے روزگاری، منہگائی اور لڑکی والوں کے مطالبات نےکہ لڑکا کم از کم ماہانہ 50، 60 ہزار روپےکماتا ہو ، شادی بیاہ کے معاملات مزید پیچیدہ کردئیے ہیں۔
اب جس معاشرے میں ملازمتوں ہی کی کمی ہو، ہزاروں تعلیم یافتہ نوجوان بےروزگار ہوں، وہاں 25 سے 35سال کی عُمر کے لڑکوں کی شادی کا تصوّر ممکن ہو بھی تو کیسے۔ پھر اس دوران لڑکیوں کی عُمریں بھی بڑھتی جاتی اور نکاح میں تاخیر ہی ہوتی چلی جاتی ہے۔ نکاح میں تاخیر کے دیگر اسباب میں لڑکے والوں کی جانب سے بھاری بھرکم جہیز کی فرمائش، لڑکی والوں کا حد سے زیادہ مہر مانگنا، غیر اسلامی، لغو رسومات، ’’بِگ فیٹ وَیڈنگ‘‘ کے نام پر دکھاوا بھی شامل ہیں۔ اسی طرح یہ فضول رواج کہ لڑکی اپنی پسند سے شادی نہیں کر سکتی، لڑکی یا لڑکی کے گھر والوں کا شادی کا پیغام بھیجنا معیوب سمجھا جانا،گھر کے تمام بچّوں کی ترتیب وار شادی ہونا بھی انتہائی فرسودہ ہے۔
نیز، آج کل قریباً ہر کسی کی یہی خواہش اور چاہت ہے کہ ان کے بچّوںکا رشتہ ارب پتی نہیں، تو کم از کم کروڑپتی خاندان میں جُڑے۔اسی سوچ کے تحت انتہائی کم عُمر لڑکیوں کی شادیاں ان سے بہت بڑی عُمر کے مَردوں سے کردی جاتی ہیں۔ یہی نہیں، لڑکے والوں کی بےجا ڈیمانڈز جیسے لڑکی حسین و جمیل، کم عُمر، اعلیٰ تعلیم یافتہ یا ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ باورچن جیسا لذیذ کھانا پکانے والی، ماسی کی طرح کام کرنے والی اور دھوبن کی طرح اچھے کپڑے دھونے والی بھی ہو، ناقابلِ قبول ہیں۔
بات یہ ہے کہ اگر ریاست اپنا کام نہیں کر رہی،تو ہمیں اپنے حصّے کی شمع جلانی چاہیے کہ بقول احمد فراز ؎ شکوۂ ظُلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا… اپنے حصّے کی کوئی شمع جلاتے جاتے۔ تو اگر اس مسئلے کے حل کی بات کی جائے، تو مفتی سعید خان ندوی دامت برکاتہم العالیہ نکاح کے حوالے سے اپنے ایک بیان میں فرماتے ہیں کہ ’’سب سے پہلے تو گھر کے سربراہ، یعنی مرد کو یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ انسان کے کسی گناہ کا ذمّے دار دوسرا فرد نہیں ہوسکتا، لیکن ایک باپ نے اگر اپنے بیٹے یا بیٹی کی شادی میں بے جا تاخیر کی اور اس کی پاداش میں وہ اپنے جذبات کی تسکین کے لیے خدانخواستہ کسی غیر فطری یا غیر شرعی عمل کی جانب متوجّہ ہوگئے، تو اس کا وبال سراسر باپ پر ہو گا۔
اسی لیے باپ کی ذمّے داری ہے کہ اس ضمن میں بہت سنجیدگی کا مظاہرہ کرے۔‘‘نوجوانوں کا محض شادی نہ ہونے کی بنا پر بے راہ روی کا شکار ہوجانا، اسلامی معاشرے کی موت ہے۔معذرت کے ساتھ آج ہمارے بعض دینی حلقوں یا خطبوں میں ایک بات اکثر سُننے کو ملتی ہے کہ ’’نوجوان فحاشی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ لڑکوں کو اپنی نظریں نیچی رکھنی چاہئیں،تو لڑکیوں کو پردہ کرنا چاہیے۔‘‘ بے شک یہی شریعت ہے، لیکن کشتی میں سوراخ ہو، تو کتنے ہی ڈول پانی نکال لو، کشتی ضرور ڈوبے گی۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر کم عُمری میں نکاح کا رواج فروغ پا جائے، تو ہماری نسلِ نو موجودہ دَور کے فتنوں سے محفوظ رہ سکتی ہے۔
نیز، موبائل پر فحش مواد دیکھنے سے لے کر لڑکیوں کو ہراساں کرنے، زیادتی کے واقعات تک میں خاطر خواہ کمی آسکتی ہے۔عقبہ بن عامر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ’’سب سے بہتر نکاح وہ ہے، جس میں آسانی زیادہ ہو۔‘‘اسی طرح حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ’’رسول اللہﷺ نے فرمایا”جب تمہارے یہاں کوئی ایسا شخص نکاح کا پیغام دے، جس کے دین و اخلاق سے تم مطمئن ہو، تو اُس سے نکاح کردیا کرواور اگر تم نے ایسا نہیں کیا، تو زمین میں زبردست فتنہ و فساد پھیل جائے گا۔“
اس حدیثِ مبارکہؐ کی روشنی میں ذرا سوچیں کہ کیا آج ہمارے آس پاس ایسا نہیں ہورہا، مانا کہ لڑکے والوں کے مطالبات کا کوئی شمار ہی نہیں، لیکن کیا یہ بھی درست نہیں کہ لڑکی والے بھی تو کسی شریف، لیکن مفلس لڑکے کا رشتہ قبول نہیں کرتے۔ ایک ایسا لڑکا، جو نہ جہیز مانگ رہا ہے اور نہ زیادہ مہر دے سکتا ہے، اُس کو بے عزّت کرکے، اس کا رشتہ ٹھکراکر اپنے سے اونچے لوگوں کے یہاں لڑکی کا رشتہ کرنا اور پھر بعد میں لڑکی پرظُلم ہونے پر آنسو بہانا کہاں کا انصاف ہے۔ معاشرے کی اکائی ایک خاندان ہے اور خاندان شادی کے پاکیزہ بندھن ہی سے وجود میں آتا ہے۔ اس کے ذریعے نہ صرف انسانی جذبوں کی جائز تکمیل ہوتی ہے، بلکہ نسلِ انسانی کی افزائش کا بھی سہرا بھی اسی کے سر ہے۔
ایک مضبوط خاندان ہی میں خواتین محفوظ رہ سکتی ہیں اور ایسا صرف اُسی صُورت ممکن ہے جب شادی وقت پر ہو۔ اس سلسلے میں پڑوسیوں اوررشتے داروں کو بھی چاہیے کہ وہ ایسے لڑکوں کی، جو نفیس طبیعت، متّقی، شریف اورباکردار ہوں، شادیاں کروانے میں مدد اور انہیں اپنے پَیروں پر کھڑا کرنے کابندوبست کریں۔ یاد رکھیں، صرف مسائل کا تذکرہ کرکے بات ختم کرنے سے کچھ نہیں ہوسکتا، اب ہمیں عملی طور پر کچھ کرنا ہوگا۔ اسی طرح شادی بیاہ کی تقاریب میں بے جا خرچ اور نِت نئے ایونٹس کا انعقاد بھی شادی میں تا خیر کا باعث بن رہا ہے۔اس میں بھی معتدل رویہ اختیار کرنے کی بےحد ضرورت ہے۔
ہندوؤں کی طرح ہمارے یہاں بھی شادی کے وقت ذات پات، دَھن دولت، شکل و صورت،ہم زبان ہونے کی شرط بھی زور پکڑتی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عدم برداشت کے بڑھتے ہوئے رجحان کی بدولت اب ایک ہی مسلک کے لوگ بھی صرف اُسی گھرانے میں شادی کرنا چاہتے ہیں، جہاں اُن کی مخصوص کمیونٹی کے لوگ ہوں، تاکہ کسی قسم کا کوئی اختلاف ہی سامنے نہ آئے۔ یہ محتاط روش وقتی طور پر تو شاید اچھی لگے، لیکن مجموعی طور پر ہم جس تقسیم دَر تقسیم کے عمل کی جانب تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ اس میں ایک وقت ایسا آئے گا کہ شادیاں ایک مشکل ترین امر بن جائیں گی اور نوجوان اس سے راہِ فرار اختیار کرنے پہ مجبور ہوجائیں گے۔
اس لیے ابھی سے ہمارے عُلماء،مشائخ اور فلاحی اداروں کو چاہیے کہ فرقہ پرستی اور لسانیت کے طوفانوں پر بند باندھیں اورصرف مسلمان ہونے پر فخر کرنے کا مزاج عام کریں۔ ورنہ وہ وقت دُور نہیں، جب شادی سے قبل لڑکے کی تعلیم، کردار و اخلاق دیکھنے کے بجائے صرف اور صرف افکار،نظریات، ذات پات، مال و دولت ہی دیکھی جائے گی۔ان تمام باتوں کو مد ّ ِ نظر رکھ کےاگر ہم شادی کے معاملے میں تاخیر کے اسباب رَد کرتے ہوئے ،’’کم خرچ، بالا نشین‘‘ والا معاملہ اپنائیں،لڑکے کی شرافت کو اس کی مفلسی پر ترجیح دیں، لڑکی کی سیرت کو اُس کے جہیزاور صُورت پر فوقیت دیں اور شادی کی تقریب کو زحمت نہ بنائیں ،تو بہت حد تک شادی بیاہ میں تاخیر کے عذاب سے بچ سکتے ہیں۔