• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارا پاکستان اپنی تاریخ کے جاری لرزتے مرحلے میں جن انٹرسٹ گروپس اور ان کے کرتادھرتائوں کے ہتھے چڑھ گیا ہے وہ سب مل کر عوام اور ان کی مملکت کےساتھ کیا کر رہے ہیں؟ بار بار سوچ کر جواب ایک ہی آ رہا ہے۔ ریاستی ادارے ہوں یا ان سے منسلک آئین سے وفا کا حلف اٹھا کر مقتدر ہوئے طاقتور افراد یا مخصوص و محدود مشترکہ گروہی و انفرادی اغراض کے شتر بے مہار چند سرگرم ٹولےمل ملا کر 23 کروڑ کی مملکت کو ایسے چلا رہے ہیں جسے عوام اور ساری دنیا دانتوں میں انگلی دبائے آنکھیں پھاڑے دیکھ رہی ہے کہ پاکستان یہ کیسے چل رہا ہے؟ یہاں یہ واضح کرنا ہی ضروری نہیں بلکہ جتلانا بھی لازم ہے کہ بیچاری جکڑی ریاست کے پیپل ایٹ لارج اس دھندے میں شامل ہیں نہ اسکے قریب ہیں، ہو بھی نہیں سکتے۔ جو کچھ اور جیسا پاکستان میں ہو رہا اور جو کر رہے ہیں اسلامی جمہوریہ کے 75سال، ساڑھے سات عشرے گزرنے کے بعد بھی مملکت کے سادہ دل بندے صبر و شکر پر ہی سسکتے سلگتے ماحول میں جی رہے ہیں جبکہ وہ دو تین ملین اہل زر اور درو دربار والوں اور برے زمانے کے تفکرات سے آزاد محدود ترین کے مقابل ساڑھے 22 کروڑ ہیں۔ قارئین کرام! یہ ہے وہ ملکی صورتحال جس میں ہم نے پاکستان کو بلا کے سیاسی انتشار و عدم استحکام، دلدل میں دھنسی قومی معیشت، ٹیلر میڈ قانون سازی کے فنکاروں اور آئین و قانون سے ماورا جملہ النواع کے حکام و منتظمین کے بنائے ضابطوں اور اقدامات پر حال میں جینا ہے اور مستقبل سازی کرنی ہے۔ زندگی کے تجربات و مشاہدات سے بھی یہ ہی سمجھایا اور مختلف سماجی علوم کے ماہرین نے اپنے تجسس و تحقیق سے جو نتائج بیش بہا مکمل قابل اطلاق نالج کی شکل میں حاصل کئے، اس کی روشنی میں مطلوب و مقرر اہداف کے یقینی حصول کا یہ سنہری اصول سکہ بند ہے کہ ’’فیصلہ سازی صورتحال کے مطابق کی جائے‘‘ لیکن، یہ لیکن بہت بڑا ہے کہ صورتحال کا زیادہ سے زیادہ درست تجزیہ کیونکر کیا جائے؟درد سر کےواسطے صندل لگانا ہے مفید/ اس کاگھسنا اور لگانا درد سر یہ بھی تو ہے۔

الیکشن 2018ءکے نتائج سے عمران خان کی سیاسی جدو جہد سے بھی پی ٹی آئی نے جو پارلیمانی کامیابی حاصل کی وہ اتنی تو نہیں تھی کہ وہ تنہا حکومت بنا لیتی تاہم وہ سب سے بڑی اور اکثریتی پارلیمانی گروپ تو ایٹ لارج خود بن گئی۔ یہ لغو ہے کہ عمران خان لاڈلہ تھا اور اسٹیبلشمنٹ ہی عمران کو اقتدار میں لے کر آئی، ہاں حصول حکومت کیلئے جو دس بارہ یا چودہ پندرہ نشستوں کا مارجن رہ گیا تھا وہ پی ٹی آئی کی ملک گیر مقبولیت اور انتخابی کامیابی دونوں کو دیکھ کر اسٹیبلشمنٹ نے صورتحال کے مطابق یہ درست ہی فیصلہ کیا تھا کہ جو تھوڑی بہت کسر رہ گئی ہے اس میں خان کو اتنی اشیر باد ضرور دے دی جائے کہ وہ تنگ مارجن سے ہی سہی اب حکومت میں آ جائے اور باقی چھوٹی پارلیمانی جماعتیں اتحاد میں شامل کرکے اسے مستحکم کردیا جائے۔ پھر یہ مہربانی بھی شیئرڈ تھی اس میں خود پی ٹی آئی کے ہی سرگرم صاحب ثروت اور خان کے دست راست جہانگیر ترین کے شیئر کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اس کو پی ٹی آئی کی اپنی کمائی ہی تصور کیا جانا چاہئے۔ سو یہ قطعی غلط تجزیہ یا پروپیگنڈہ ہے کہ عمران خان خالصتاً اسٹیبلشمنٹ کی ہی مہربانی سے اقتدار میں آئے۔ ہاں! اسٹیبلشمنٹ یہ حساب کتاب غلط کرگئی کہ اس کی اشیر باد سے جو (ن) لیگ اور پی ٹی کی پہلی حکومتیں بنی رہیں ان کی قیادت کی طرح خان بھی کافی عرصے تک ان کا تابعِ مہمل بن کر رہے گا۔ یہ اندازہ بالکل غلط ثابت ہوا خود خان نے حکومت میں آتے ہی پنجاب جیسے وسیع تر بیش بہا اور پاکستانی قومی سیاست کے غالب صوبے میں بزدار جیسےمنکسرالمزاج کو وزیر اعلیٰ بنا کر اپنے پیر پر کلہاڑی چلا دی۔ حالانکہ یہاں بمطابق وزیر اعلیٰ لاکرعمران خان اگلے دس سال کا حکمران بننے کی سیاست باآسانی کر سکتاتھا۔ لیکن یہ خود اعتمادی مہلک ثابت ہوئی۔ مقابل اسٹیٹس کو کی سیاست کو کائونٹر کرنے کا ویژن اورا سٹریٹ وزڈم مطلوب سے کہیں زیادہ کمزور نکلا۔ عمران کے امتیازات میں کوئی شک نہیں پاکستان میں عشروں سے ناپید تھے اور جدو جہد اور ٹارگٹس کا تعاقب حیران کن رہا۔ سو مکمل ثابت ہے کہ یہ لاڈلے اور سلیکٹڈ کا بیانیہ مکمل لغو اور بے اثر ہے تاہم اقتدار سے فارغ ہوتے ہی عوامی ردعمل کی نفسیات کو ایک ہی دن میں مکمل پڑھتے اور سمجھتے خان نے جو جتنی اور جیسی صراحت سے عوم رابطہ مہم قطعی تنہاتیار کرکے بغیر کی مشاورت کے جتنا بڑا اور سرگرم عمل (عوامی رابطہ) شروع کردیا اس نے خود کو 13 جماعتی دولت راج (اولا کارگی) ڈرائونہ خواب بنا دیا اور دولت راج خوف بڑھتا ہی گیا۔ الیکشن2018ء کے بعد قومی سیاست کے اسٹیک ہولڈرز کی فیصلہ سازی میں اپنے تئیں اور اپنی انفرادی و گروہی سیاست کیلئے ’’بہترین‘‘ فیصلہ سازی مولانا صاحب نے شکست خورد ہ ہو کر بھی کی، ان کی پارلیمان سے بذریعہ ووٹ مستقل ہوتی بے دخلی پر انہوں نے عمران مخالف اپوزیشن پی پی اور ن لیگ کے درمیان، بڑے اتحاد کے قیام کیلئے کامیاب بریجنگ کرکے خان حکومت کیلئے ایک دردسر اپوزیشن تیار کردی اور خود غیر پارلیمانی ہو کر بھی اپوزیشن سیاست کے سرخیل بن گئے، صاحبزادے کی رونمائی بھی وفاقی وزارت سے ہو کر اپنی موروثی سیاست پکی کردی۔

ن لیگ نے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے مہنگائی کے خلاف دھواں دھار پروپیگنڈہ کرکے اچھی بھلی بلکہ صورتحال کے مطابق بہترین نتائج دیتی حکومت اور قیادت کو تیزی سے غیر مقبول کرنے میں غیرمعمولی کامیابی حاصل کی۔ پھر واضح مشکل بنی گورننس ہتھیانےکیلئے زرداری سے مکمل گٹھ جوڑ کرکے خان، اسٹیبلشمنٹ دوری کا فائدہ اٹھانے کے فیصلے میں خود حکومت میں آ کر ’’مشکل فیصلوں‘‘ کے نتائج سے نظریں چرا کر جو فیصلہ سازی کی اس کے مقابل خان کی بے قابو مقبولیت نے پی ڈی ایم کی کل سیاست کو جینوئن طریق سےسبوتاژ کردیا۔ اب دولت راج (اولا گارکی) الیکشن کے خوف میں مبتلا آئین و عدلیہ سے لڑنے بھڑنے پر اتر آیا ہے۔ دنیا بھر میں پاکستانی جدید اولا گارکی کی کیس اسٹڈی زیر مطالعہ ہے جس سے گروہی، ٹولوں اور خوفزدہ، شکست خوردہ سیاسی جماعتیں عوام کو اپنے تئیں ٹکے ٹوکری کرکے رائے عامہ کا تمام غصہ اور بدلہ خان کے سرمنڈھ رہے ہیں۔ اس سارے گندھے دھندے سے جس طرح قومی سیاست و معیشت اور انتظامیہ کی برباد ی ہو رہی ہے اس کا علاج اب کسی جماعت کےپاس نہیں، سوائے آئینِ پاکستان کہ جو کہتا ہے بذریعہ الیکشن بحران سے نکلو۔ یہ تشریح عدلیہ نے ایک خالصتاً آئینی و عدالتی فیصلے میں کر دی۔ بس اب بھی جاری دھما چوکڑی میں قدرتی فیصلہ سامنے آیا چاہتا ہے کہ الیکشن میں ریاستی اداروں کے بانجھ اور اولا گارکی کے عدلیہ پر پے در پے حملوں کے بعد صرف یہ ثابت ہونا رہ گیا ہے کہ ’’طاقت کا سرچشمہ عوام‘‘ نعرہ ہی نہیں حقیقت ہے، الگ ہے کہ نعرہ زن اب اولاگارکی میں اپنی چمک کے ساتھ شامل ہے۔ وما علینا الاالبلاغ۔

تازہ ترین