• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عدالت عظمیٰ کے مشورے پر پاکستان تحریک انصاف اور حکومتی اتحاد کے نامزد کردہ اراکین کے وفود کے درمیان مذاکرات کے ادوار کے انعقاد کے بعد الیکشن کے ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ نہ ہو سکا اورجہاں سے چلے تھے وہیں پر دوبارہ آکر کھڑے ہو گئے ۔ پاکستان تحریک انصاف اپنی ریڈ لائن سے آگے بڑھنے کو تیار نہیں اور پی ڈی ایم کی حکومت اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کا ارادہ نہیں رکھتی ۔ لہٰذا مذاکرات کا کوئی نتیجہ بر آمد نہ ہو سکا۔ 14مئی کو پنجاب میں انتخابات کا انعقاد نظر نہیں آ رہا اور بال دوبارہ عدالت عظمیٰ کے کورٹ میں فیصلے کے لئے آ گئی ہے۔

انتخابات کے ہونے یا نہ ہونے کی بحث میں سیاسی جماعتوں کے اندرونی اختلافات بھی نمایاں ہوتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ ٹکٹوں کی تقسیم کا فیصلہ ہونے کے بعد جن جان نثارورکرز کو ٹکٹس نہ مل سکے وہ بد دل ہو گئے ہیںمگر بادلِ نخواستہ پارٹی ڈسپلن کے پابند نظر آ رہے ہیں کیونکہ ابھی انتخابات کا انعقاد واضح نہیں ہے لہٰذا وہ پارٹی چھوڑ کر تماشا نہیں بننا چاہ رہے کیونکہ اگر کچھ عرصہ بعد انتخابات کا انعقاد واضح ہو گیا تو ٹکٹوں کے دوبارہ ملنے کا مرحلہ آ سکتا ہےاور اس میں ٹکٹ ملنے کا چانس بن سکتا ہے۔

مذاکرات کے دوران سخت موقف اپنا کر دونوں سائیڈز نے عدالت عظمیٰ کے حکم کی تعمیل کر دی ہے۔ تحریک انصاف نے تو اپنی رپورٹ عدالت عظمیٰ میں جمع بھی کروا د ی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف برادر سے مشورے کیلئے برطانیہ کے بادشاہ کی رسم تاج پوشی کے بہانے عازم لندن ہو چکے تا کہ آنے والے واقعات اور الیکشن کے بارے میں ان سے رہنمائی حاصل کر سکیں ۔ میاں محمد نواز شریف تو پہلے دن سے الیکشن کے حق میں تھے مگر پی ڈی ایم میں اپنے اتحادیوں کی وجہ سے اپنے موقف پر عمل کروانے میں ناکام رہے۔ اب ہوش ربا مہنگائی کے پس منظر میں حکومتی اتحاد کا الیکشن سے ہچکچانہ قدرتی امر ہے کوئی بھی سیاسی پنڈت اتنی سخت مہنگائی کے پس منظر میں پی ڈی ایم کی جیت نا ممکن ہی قرار دے گا لہٰذا پی ڈی ایم مختلف حیلے بہانوں سے الیکشن کا التواچاہتی ہے تا کہ معاشی حالات کچھ بہتر ہو جائیں۔ دوسری طرف آئی ایم ایف کی طرف سے معاہدہ میں تا خیر مہنگائی کے حوالےسے مزید مشکلات پیدا کررہی ہے۔ آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری کرنے کے باوجود حکومت کو ابھی تک معاہدے کیلئے کوئی گرین سگنل نہیں دیا گیا۔ اس کی وجہ شخصیات کا تصادم نظر آ تا ہے۔ پی ڈی ایم حکومت کو وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے جو توقعات تھیں وہ تمام کی تمام معدوم ہو گئی ہیں۔ اسحاق ڈار معاشی بہتری کا جس طمطراق سے اعلان کر کے آئے تھے وہ اب قومی مایوسی میں بدل چکا اور قوم میں اس وقت معاشی ابتری و مایوسی بلندیوں کو چھورہی ہے۔ جس کا حل کسی کے پاس نہیں ۔ لہٰذا اس وقت فوری طور پر قوم کو الیکشن کی طرف جانا چاہئے تا کہ ملک میں سیاسی استحکام آئے جس کے بعد نتیجتاً معاشی استحکام آئے گا ۔ اس سلسلے میں عمران خان کا ویژن اور تحریک انصاف کا مطالبہ سیاسی بلوغت کا غماز ہے اور ملکی مسائل کا واحد حل ہے کہ فوری طور پر صاف شفاف انتخابات کروائے جائیں۔ عمران خان کی ولولہ انگیز قیادت میں قوم متحد ہو کر جس طرح الیکشن کا مطالبہ کر رہی ہے اس کی مثال ماضی میں کہیں نہیں ملتی۔ 1970ء کے الیکشن میں بھی قوم ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ اس طرح نہیں کھڑی تھی جس طرح عمران خان کے ساتھ کھڑی ہے، اگر اس وقت الیکشن کاا علان ہو جاتا ہے تو عوام کونہ پارٹی منشور کو دیکھنا ہے نہ کسی امیدوار کو، انہوں نے صرف عمران خان کی شخصیت کے سحر میں بلے پر ٹھپے لگا کر تحریک انصاف کو ایوانوں میں دھکیل دینا ہے۔ یہی خوف ہے جو حکمرانوں کو الیکشن کا انعقاد روکنے پر مجبور کر ر ہا ہے۔

تاہم یہ تاخیری حربے کب تک قوم کو الیکشن سے دو ر رکھیں گے آخر ایک دن تو الیکشن منعقد ہوں گے۔ جتنی انتخابات کے انعقاد میں تاخیر ہو رہی ہے عمران کی پاپولیرٹی میں اتنا ہی اضافہ ہو رہا ہے۔ نواز شریف کا گزشتہ سال عمران خان کے خلاف عدم اعتماد ہونے کے بعد حکومت بنانے کے فوراً بعد انتخابات کیلئے جانے کا مشورہ سو فی صد درست تھا مگر پی ڈی ایم کو ان کی سیاسی بصیرت کے بجائے آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن کی سیاسی بلوغت پر بھروسہ کرنا پڑا جس کی وجہ سے وہ معاشی گرداب میں پھنس گئے اور اب نکلنے کیلئے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں۔

الیکشن کی واضح صورت حال نہ ہونے کے باوجود عمران خان نے سیاسی پارہ گرم رکھا ہوا ہے اور تسلسل سے سیاسی سر گرمیوں کا انعقاد کر کے اپنی پارٹی کے ورکرز کا خون گرما رہے ہیں۔ ان کی یہ سیاسی چال آنے والے الیکشن میں ان کی پارٹی کی جیت میں بنیادی کردار ادا کرے گی ،موجود سیاسی و اقتصادی حالات اس بات کے متفاضی ہیں کہ فوری طور پر صاف شفاف الیکشن منعقد کئے جائیںاور ایک متفقہ لائحہ عمل تیار کر کے اس کو قابل عمل بنایا جائے تا کہ کوئی بھی پارٹی انتخابات کے بعد اس کی شفافیت پر انگلی نہ اٹھا سکے اور سیاسی عمل پٹری پر چڑھ سکے۔

تازہ ترین