میرے گھر کے آس پاس چند خالی پلاٹ ہیں۔ ان پلاٹوں کے اِردگرد اینٹوں بجری اور ریت کے ڈھیر نظر آتے ہیں۔ کل میں نے ایک پلاٹ میں ایک شخص دیکھا جو اپنی وضع قطع اور معمولی لباس سے مزدور لگ رہا تھا۔ اس کے سامنے ایک بالٹی پڑی تھی۔ اس نے بالٹی میں ہاتھ ڈالا اور اپنا گیلا ہاتھ اپنے رخساروں پر ملنے لگا۔میں نے سوچا کہ مزدور اپنے گیلے ہاتھ سے اپنے چہرے کی گرد صاف کررہا ہے۔ یہ کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں تھا۔ ان پلاٹوں میں روزانہ مزدور نظر آتے ہیں جن کے ہاتھ پاؤں اور چہرے گرد آلود ہوتے اور وہ اسی طرح پانی سے اپنے ہاتھ منہ دھوتے ہیں۔ میں اپنے کاموں میں مصروف ہوگیا۔ ایک گھنٹے بعد میں نے اس مزدور کے چہرے کی طرف دیکھا تو اس پر صابن کی جھاگ چمک رہی تھی۔ اس نے اپنے ایک ہاتھ میں ایک ٹوٹا ہوا آئینہ بھی تھام رکھا تھا۔ وہ اس آئینے میں اپنی آنکھوں کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ اس کی آنکھیں اس سے بہت کچھ کہہ رہی تھیں۔ شاید وہ جو سوال کررہی تھیں، وہ ان کا سوال سمجھ کر جواب دینے کی کوشش کررہا تھا یا سوال کا جواب سوال کی صورت میں دے رہا تھا۔ آج صبح مزدور جب پلاٹ پر آیا تو مالک نے کہا کہ آج کام بند رہے گا۔ اس نے خود کو فارغ سمجھا تو اس کے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے۔ اس نے اپنے چہرے کو دیکھتے ہوئے شکستہ آئینے میں اپنا ٹوٹا ہوا دل بھی دیکھ لیا ہوگا۔ اس نے سوچا کہ اس فارغ وقت سے کچھ فائدہ اُٹھانا چاہیے۔ اس نے شیو کرنے کا پروگرام بنایا۔ اس نے تھوڑی دیر کے لیے سوچا ہوگا کہ شیو کرنے سے کوئی حیران کُن نتیجہ تو نہیں نکلے گا اور نہ ہی بال بچوں کے لیے آٹے کا انتظام ہوسکے گا۔ اس نے بڑے جوش و جذبے کے ساتھ جھاگ کو سیفٹی سے ہٹانے کا کام شروع کردیا۔ اس نے سیفٹی چلاتے ہوئے خود کو تخیل میں وہ مزدور سمجھ لیا ہوگا جو پہاڑی علاقوں میں سڑکوں پر برف گرنے کے بعد کرین سے برف ہٹاتا ہے۔ وقت تو اس کے لیے بے معنی ہوگیا تھا۔ وطنِ عزیز میں تو وقتِ عزیز کی وقعت ہی ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ مزدور نے آج وقت گزارنا تھا۔ اسی روز میرا بیٹا گھر سے موٹر سائیکل لے کر نکلا تو دو گھنٹے بعد واپس آیا۔ کہنے لگا ’’پیٹرول پمپ پر دو گھنٹے گزار آیا ہوں۔ وقت کا پتا ہی نہیں چلا۔ اس مزدور سے کوئی پوچھتا کہ اس کا وقت کیسے گزر رہا ہے۔ اس نے اپنے چہرے پر بارِ دگر جھاگ سجائی اور پھر سیفٹی کو جوں کی رفتار سے چلانا شروع کیا۔ شیو کرنے کا یہ سلسلہ دو گھنٹے تک جاری رہا۔پھر میں نے دیکھا کہ مزدور ایک خشک سی باریک لکڑی سے زمین پر لکیریں لگا رہا ہے۔ میں نے سوچا کہ شاید وہ ’’بارہ ٹینی‘‘ کھیلنے کے لیے لکیریں کھینچ رہا ہے۔ تھوڑی دیر بعد اس نے خشک لکڑی کو دُور پھینک دیا اور اپنے ہاتھوں کی اُنگلیوں کو ریت ملی مٹی میں اِدھر اُدھر پھیرنا شروع کردیا۔ مجھے اس لمحے ایک شاعر کا خیال یاد آگیا۔
میں نے تو یونہی راکھ میں پھیری تھیں اُنگلیاں
دیکھا جو غور سے، تری تصویر بن گئی
میں نے دیکھا کہ مزدور اکیلا نہیں ہے۔ اس کا غم بانٹنے کے لیے اس کے پاس دو طوطے موجود ہیں۔ اس نے ایک پیالی لی اور اسے بالٹی میں ڈال کر نکالا تو وہ لبالب بھری ہوئی تھی۔ اس نے طوطوں کو پانی پلایا۔ اس نے ایک طوطے کو ہتھیلی پر بٹھا لیا اور اپنی ہتھیلی کو اِدھر اُدھر ہلایا۔ شاید وہ طوطے کو ہلا کر پانی اس کے پورے جسم میں اور اس کی ٹیل تک پہنچانا چاہتا تھا۔ تھوڑی دیر بعد مزدور نے پیالی پانی سے بھر کر طوطوں کو پیش کی۔ طوطوں نے پانی کی پیش کش کو بصد شوق قبول کیا۔
ہمارا ایک دوست شدید گرمی میں اپنے ایک دوست کے گھر گیا۔ اس نے پانی مانگا تو سادہ پانی کا گلاس آگیا۔ ہمارے دوست نے سوچا کہ شاید غلطی سے سادہ پانی آگیا ہے، اس نے پھر کہا ’’یار! زیادہ تکلف نہ کرنا، پانی لانا۔‘‘ ٹرے میں پھر سادہ پانی آگیا۔ دوست بولا۔ ویسے میں آپ کے سچے جذبے کی قدر کرتا ہوں۔ بہرحال مزدور نے اپنے پُرخلوص اور سچے جذبے کے تحت طوطوں کو چار مرتبہ پانی پلایا۔مزدور نے طوطوں سے بات چیت شروع کردی۔
’’اے طوطو! تم سمجھ رہے ہو گے کہ میں تمہیں پانی پلا کر تمہاری خدمت کررہا ہوں۔ مجھے تو آج مزدوری نہیں ملی۔ میں تو آج فارغ ہوں۔ میں اپنا وقت گزار رہا ہوں۔ تم سوچ رہے ہو گے کہ آج مجھ پر کیا بیت رہی ہوگی۔ میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ تمہیں تو میں نے پانی پلا دیا ہے۔ تمہاری تو موج ہے، تمہیں تودانہ مل ہی جائےگا لیکن میرے بچوں کو روٹی کون کھلائے گا۔
ایک طوطے نے مزدور سے پوچھا
تمہیں اس حال کو کس نے پہنچایا ہے؟
مزدور نے جواب دیا۔
ویسے انسان کو ایک جگہ سے دوسری جگہ زیادہ تر پیٹرول ہی پہنچاتا ہے۔ میرے حال کو بُرے حال تک اس آگ لگنے پیٹرول ہی نے پہنچایا ہے۔ ہماری پالیسیاں ایک جگہ قیام ہی نہیں کررہیں۔ ڈالر، پیٹرول اور دیگر بہت سی اشیا ایک جگہ نہیں ٹھہر رہیں تو غریب آدمی کا دماغ ٹھکانے نہیں رہے گا۔ پہلے عام آدمی کے ہوش وہواس قائم تھے تو کام کی بات اس کے منہ سے نکلتی تھی۔ اب وہ اس قسم کی باتیں کرتا ہے۔
پیٹرول ہزار روپے لیٹر کردو
ڈالردو ہزار روپے کاکردو
میں چند دن کا مہمان ہوں
میں نے کون سا زندہ رہنا ہے