موٹاپا، غیر معمولی یا ضرورت سے زاید چربی جمع ہونے کو کہتے ہیں۔ اسے عام زبان میں’’وزن کا بڑھنا‘‘ بھی کہا جاتا ہے اور اسے ناپنے کا پیمانہ باڈی ماس انڈیکس ہے، جو کسی شخص کے قد کو وزن سے تقسیم کرکے حاصل کیا جاتا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کےمطابق، اگر کسی شخص کا وزن 25 بی ایم آئی سے زیادہ ہو جائے، تو اُسے زیادہ وزن قرار دیا جائے گا اور اگر وہ30 کی حد پار کرلے، تو اُسے موٹاپا کہتے ہیں، جب کہ اگر بی ایم آئی40 سے زاید ہو جائے، تو ایسا شخص’’ موٹاپے کا مریض‘‘ قرار پائے گا، جس کا علاج کیا جانا ضروری ہے۔ موٹاپا اب پوری دنیا کا مسئلہ بن چُکا ہے۔
عالمی ادارۂ صحت کے اعداد وشمار کے مطابق، دنیا میں تقریباً39 فی صد افراد موٹاپے کا شکار ہیں اور دیہات کی نسبت شہر علاقوں میں اس کی شرح زیادہ ہے۔پاکستان موٹاپے کے لحاظ سے دنیا میں نویں نمبر پر ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں بچّے اور عورتیں موٹاپے کی زیادہ شکار ہیں اور اگلے چند سالوں میں اس کے دُگنا ہونے کا امکان ہے۔
موٹاپا خود تو ایک بیماری ہے ہی، دیگر بیماریاں پھیلانے کا ایک بڑا سبب بھی ہے۔مثلاً ذیابطیس، دل کی بیماریاں، جوڑوں کا درد، کمر کی تکلیف، بلند فشارِ خون، کولیسٹرول کا بڑھ جانا، سوتے میں خراٹے لینا، رات کو نیند پوری نہ کر سکنا اور سارا دن بیٹھے بیٹھے سونا، چلتے ہوئے سانس کا پُھولنا، دمہ، پیشاب پر کنٹرول کم ہونا، خواتین میں ماہ واری نظام متاثر ہونا، لڑکیوں کے چہرے پر بالوں کا اُگنا اور بانجھ پن جیسے امراض موٹاپے سے جنم لے سکتے ہیں۔اِسی طرح، خواتین کے کچھ مخصوص کینسرز بھی اس کی وجہ سے لاحق ہوسکتے ہیں اور اِن بیماریوں کی روک تھام صرف اسی صورت ممکن ہے کہ موٹاپے سے نجات پائی جائے۔
جنوبی ایشیا میں(بشمول پاکستان) ایک خاص قسم کا موٹاپا نسبتاً زیادہ پایا جاتا ہے،جسے’’ truncal Obesity ‘‘کہتے ہیں، اس میں پیٹ اور جگر میں چربی زیادہ مقدار میں جمع ہو جاتی ہے اور اوپر بیان کی گئی بیماریوں کی جڑ، موٹاپے کی یہی خاص قسم ہے۔ایسی صُورت میں اگرچہ جسم میں انسولین موجود ہوتی ہے، مگر وہ اس چربی کی وجہ سے کام کرنے کے قابل نہیں رہتی،نتیجتاً انسولين کے مسلسل اضافے سے چربی پیٹ، جگر، بازؤں (Muscles)، کمر اور کندھوں کے بیچ میں( جسے Buffalo Hump یا Double Chin اور جنہیں Ectopic Siteکہتے ہیں) جمع ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ چوں کہ انسولین کام کرنا چھوڑ دیتی ہے، تو نتیجتاً ذیابطیس کا مرض لاحق ہو جاتا ہے۔نیز، کولیسٹرول بھی بڑھ جاتا ہے،جس سے دل کی بیماریوں کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔
موٹاپے کی وجوہ
موٹاپا پوری دنیا میں ایک وبا کی شکل اختیار کر چکا ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ کھانے پینے میں بداحتیاطی ہے۔کولڈ ڈرنکس، فاسٹ فوڈز اور بیکری مصنوعات کے زیادہ استعمال سے، جو نہ صرف زیادہ کاربو ہائیڈریٹس بلکہ زیادہ حراروں کا بھی ذریعہ ہیں،وزن تیزی سے بڑھ کر موٹاپے کی صُورت اختیار کر لیتا ہے، یعنی یہ گذائی اجناس چربی بڑھاتی ہیں۔ علاوہ ازیں، گندم کی روٹی اور چاول وغیرہ کا زیادہ استعمال، Saturated Fatty Acid اورTrans fatty سے بھی، جو سموسوں، پکوڑوں، مکھن، کیکس اور بسکٹس وغیرہ میں ہوتے ہیں، موٹاپے میں اضافہ ہوتا ہے۔ ایک اور اہم وجہ Sedentary life Styleہے، یعنی دکان یا آفس میں گھنٹوں بیٹھ کر کام کرنا، چھوٹے فاصلے تک بھی کار یا موٹر بائیک کا استعمال۔
گویا ہم کھانے پینے کی صُورت توانائی تو زیادہ لیتے ہیں، لیکن خرچ کم کرتے ہیں اور اِس طرح موٹاپے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ایک اور خاص وجہ وزش نہ کرنا بھی ہے۔کھیلوں سے دُوری، انٹر نیٹ اور ٹی وی پر وقت گزارنا، راتوں کو دیر تک جاگنا اور ساتھ میں جنک فوڈز وغیرہ استعمال کرنا اور دن کو دیر تک سونا بھی موٹاپے کے اہم اسباب ہیں۔ ہمارے ہاں موٹاپے کو غلط طور پر امیر اور کھاتے پیتے گھرانے کی علامت بھی تصوّر کیا جاتا ہے۔یعنی جو بچّہ موٹا ہو، اُسے صحت مند بچّہ کہتے ہیں، حالاں کہ وہ ایک بیمار بچّہ ہے، تو اِسی طرح کسی شخص کا بڑھا ہوا پیٹ اور موٹاپا اُس کے امیر ہونے کی نشانی سمجھا جاتا ہے، حالاں کہ یہ تصّورات قطعاً غلط ہیں اور ان کا سدّباب ضروری ہے۔
روک تھام
موٹاپے سے نجات کے لیے بے حد ضروری ہے کہ اپنے طرزِ زندگی میں مثبت تبدیلی لائی جائے اور’’ صحت بخش گذا کے استعمال‘‘ کے اصول پر عمل پیرا ہوا جائے۔آپ اپنی زندگی میں کچھ سادہ اور آسان تبدیلیاں کرکے اپنا وزن باآسانی کم کر سکتے ہیں۔ کھانے میں ہر روز سبزی، پھل استعمال کریں کہ ان میں حرارے(کیلوریز) کم اور فائبر زیادہ ہوتا ہے۔ اس بات کے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ ان کے استعمال سے موٹاپے کا خطرہ کم ہوتا ہے۔ پروسیسڈ فوڈ سے بچیں، جیسے سفید آٹے، کباب، برگرز، پکوڑوں اور سموسوں وغیرہ سے۔ اس کے علاوہ، روٹی اور چاول کم مقدار میں لیں۔ چینی کا استعمال بہے کم کر دیں۔آئس کریم، چاکلیٹس، مٹھائیوں اور کیکس وغیرہ سے احتیاط ضروری ہے کہ یہ اشیاء چینی سے بھرپور ہوتی ہیں اور وزن میں بہت اضافے کا باعث بنتی ہیں۔
کھانا ہمیشہ گھر ہی پر بنانا چاہیے کہ گھر کے کھانے سے موٹاپے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔اِسی طرح بادام، پستہ، کاجو وغیرہ جیسے خشک میوہ جات کا استعمال کریں۔روزانہ ورزش کریں،جس کے لیے سب سے اچھا وقت نمازِ فجر اور ناشتے کے درمیان کا ہے، کم از کم ایک گھنٹہ تیز واک کرنی چاہیے اور پھر ہلکی پُھلکی ورزش بھی کریں، وقت پر سوئیں اور صبح سویرے اٹھیں، اس سے آپ کی صحت اچھی رہے گی۔اس ضمن میں اپنے معالج سے ضرور مشورہ کریں، وہ وزن اور طرزِ زندگی کی بنیاد پر ضروری احتیاطی تدابیر سے آگاہ کردے گا۔ اگر غذا اور ورزش سے وزن کم نہ ہو، بلڈ پریشر اور ذیابطیس کنٹرول سے باہر ہو، جوڑوں کے درد، سانس کے پُھولنے، راتوں کو نیند نہ آنے جیسے مسائل برقرار ہوں، تو پھر وزن کم کرنے والے سرجن سے مشورہ کریں، جنھیں ’’بیریٹرک سرجن‘‘ کہا جاتا ہے۔
وہ تفصیلی معاینے کے بعد آپریشن سے متعلق کوئی تجویز دے سکیں گے۔ آج کل موٹاپے سے نجات کے لیے پاکستان میں بھی بہت آپریشنز ہو رہے ہیں۔اِس مقصد کے لیے مختلف طرح کے آپریشنز ہوتے ہیں۔ ایک آپریشن میں معدے کو چھوٹا کیا جاتا ہے، جسے Sleeve کہتے ہیں، اس کے بعد مریض کم کھاتا ہے اور اُسے بھوک بھی کم لگتی ہے۔اس کے علاوہ، معدے میں ایک چھوٹا پاؤچ بنایا جاتا ہے اور چھوٹی آنت کو اُس پاؤچ کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں۔
اِس طرح بھی مریض کم کھاتا ہے، اُسے بھوک کم لگتی ہے اور کم سے کم خوراک جذب ہوتی ہے۔ یوں چار سے چھے ماہ کے اندر موٹاپا ختم ہو جاتا ہے۔ یہ آپریشن لیپرواسکوپی سے پانچ چھوٹے سوراخوں کی مدد سے کرتے ہیں اور مریض کو ایک دن کے اندر اسپتال سے فارغ کردیا جاتا ہے، یعنی چوں کہ اِس میں کوئی چیر پھاڑ نہیں ہوتی، تو پیٹ پر زخم بھی نہیں ہوتے۔ (مضمون نگار، بولان میڈیکل کمپلیکس اسپتال، کوئٹہ میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں)