• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

روبوٹس: تخلیقی صلاحیتوں کے حامل، انسانوں سے زیادہ ذہین !!

چینی ٹیلی ویژن کا اینکر انتہائی پُراعتماد انداز سے خبریں پڑھتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ ’’میری کوشش ہوگی کہ آپ کو تازہ ترین تبدیلیوں سے آگاہ کرتا رہوں، کیوں کہ خبروں کا مواد میرے سسٹم میں چوبیس گھنٹے، کسی رکاوٹ کے بغیر ٹائپ ہوتا رہتا ہے۔ اِس سے پہلے کہ مَیں خبریں ختم کروں، میری طرف سے دنیاکےتمام صحافیوں کےلیے نیک تمنّائیں۔ مَیں جانتا ہوں کہ مجھے ابھی خُود میں بہت بہتری لانے کی ضرورت ہے۔‘‘ لیکن…یہ نیوز اینکر کوئی انسان نہیں، بلکہ آرٹیفیشل انٹیلی جینس، یعنی مصنوعی ذہانت یا اے۔ آئی سے تیار کردہ ایک روبوٹ تھا۔ 

اِسے پہلی بار چین میں منعقدہ عالمی انٹرنیٹ کانفرنس میں پیش کیا گیا۔ یہ روبوٹ اینکر24 گھنٹے کام کرسکتا ہے، ویڈیوز سے ازخُود معلومات حاصل کرکے خبریں بناتا ہے اور پھر کسی بھی پروفیشنل اینکر کی طرح اُنہیں اسکرین پر پڑھتا بھی ہے۔ یہ اینکر مشہور چینی خبر رساں ایجینسی ’’زن ہوا‘‘ سے وابستہ ہے، جسے اُس نے سرچ انجن ’’سوگوا‘‘ کے اشتراک سے تیار کیا۔ یہ روبوٹ نیوز اینکر، میڈیا انڈسٹری کے لیے ایک انقلاب ہے، جب کہ اے-آئی کے ایسے ہی انقلابات دنیا کی ہر صنعت میں رُونما ہورہےہیں، لیکن جس تیزی سے روبوٹس، انسانوں کی یا مشینی ذہن، انسانی ذہن کی جگہ لے رہے ہیں، اس نے انسانی معاشرے کو کئی چیلنجز سے دوچار کردیا ہے۔ 

یہ صرف انسانی روزگار کا مسئلہ نہیں، بلکہ اس نے سیاست، اقتصادیات اور دوسرے تمام شعبوں کوانقلاب کے خوف سے دوچار کردیا ہے۔ کیا مشینیں، انسانوں کی جگہ لے لیں گی؟ یہ ایک اہم سوال بن چُکا ہے۔ اِس انقلاب کا خوف اِس لیے بھی ہے کہ خُود اس ٹیکنالوجی کے موجد کا کہنا ہے کہ ’’یہ اے۔آئی کے روبوٹس ایک روز ذہانت اورکام میں انسانوں سے آگےنکل جائیں گے۔‘‘جس نیوز اینکر کا ہم نے ذکر کیا، وہ تو2019 ء کی بات تھی، لیکن گزشتہ ماہ کویت میں بھی ایک روبوٹ خاتون نیوز اینکر نے خبریں پڑھنا شروع کی ہیں۔ اُس نے اسکرین پر نمودار ہوکر کہا ’’میرا نام Fedha ہے اور مَیں کویت کی پہلی اے-آئی نیوز اینکر ہوں۔ بتائیں، آپ کیسی خبریں سُننا پسند کرتے ہیں۔‘‘

گزشتہ صدی نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں جو ترقّی دیکھی، وہ انسان کے وجود میں آنے سے اب تک کی تمام ایجادات پر بھاری ہے۔ نیوکلیئر سائنس میں پیش قدمی، ایٹم بم کی ایجاد، انسان کا چاند پر اُترنا اور مریخ کی تسخیر اِس ترقّی کی نمایاں مثالیں ہیں، تو ریڈیو، ٹی وی، سیٹلائٹ نے بھی مواصلات کی دنیا بدل ڈالی اور مغرب نے اِنہی کی مدد سےسوویت ایمپائر تہس نہس کی۔ پھر موبائل فون اور انٹرنیٹ نے دنیا کے گلوبل ویلیج کے خواب کو تعبیر دی۔ موبائل فون کی شکل میں پوری دنیا امیر، غریب کے ہاتھوں میں سمٹ گئی، وہیں اس نے علم اور معاشی ترقّی کی نئی راہیں بھی کھولیں۔ 

اِسی لیے ہمارے مُلک میں کہا جارہا ہے کہ یہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے اور یہی عوامی انقلاب لاتا ہے۔ اِسی سوشل میڈیا نے ہمارے معاشرے کو اِن دنوں ایک آزمائش اور شکست و ریخت سے دوچار کر رکھا ہے۔ اِسی طرح میڈیکل ٹیکنالوجی کی پیش رفت بھی غیر معمولی، بلکہ ناقابلِ یقین ہے، جس کا ایک مظاہرہ کورونا وبا کے دَوران دیکھا گیا، جب صرف چند ماہ میں تیار ہونے والی ویکسین نے دنیا کو وبا کی تباہ کاریوں سے نجات دِلادی، جب کہ خود ڈاکٹرز اور طبّی ماہرین بھی اس امر پر یقین کرنے کو تیار نہ تھے۔ ایٹم بم نےجنگ کی ہیئت بدلی، سیٹلائٹ نےذہنوں پر براہِ راست اثرانداز ہونے کی تبدیلی دیکھی، تو انٹرنیٹ نے معاشرے میں فرد کی آزادی اور معاشرتی اقدار کے لیے ایسے چیلنجز پیدا کیے، جن سے معاشرے نبردآزما ہونے میں پریشانی کا سامناکررہے ہیں۔

جب اِس نوعیت کی کوئی انقلابی ایجاد سامنے آتی ہے، تو اصل مسئلہ اُسے سیاست اور معاشرت کے تابع کرنے کے لیے قوانین وضع کرنا ہوتا ہے۔ انسانی آزادی، ہر فرد کا اوّلین حق تو ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ مادر پدر آزادی خُود اُس کےلیےاورمعاشرے کےلیےتباہ کُن ثابت ہوتی ہے۔ اِسی لیے اِس آزادی کو کسی نہ کسی حد میں رکھنا ضروری ہے۔ آرٹیفیشل انٹیلی جینس جس تیزی سے ہماری زندگیوں اورخاص طور پرترقّی یافتہ ممالک کےمعاشرے پر اثر انداز ہورہی ہے، اس نے لازم کردیا کہ اس ٹیکنالوجی سےمتعلق ضروری قوانین مرتّب کیے جائیں۔ 

اِس ضمن میں جو خدشات سامنے آ رہے ہیں، اُن کا تعلق غلط معلومات کے پھیلاؤ اور روزگار کے مواقع میں کمی سے متعلق ہے۔ امریکا اور برطانیہ دونوں ہی نے اِس سلسلے میں گزشتہ ہفتے اہم پیش رفت کی۔ امریکا میں ٹیکنالوجی انڈسٹری کے بڑے ناموں کو وائٹ ہاؤس بلایا گیا اور اُنھیں ہدایت کی گئی کہ وہ عام لوگوں کو مصنوعی ذہانت کےمنفی اورمضراثرات سے محفوظ رکھنےکو یقینی بنائیں۔ اُن میں گوگل کے سندر پچائی، مائکرو سافٹ کے ستیاناڈیلا اور اوپن آئی اے کے ایم آلٹم شامل تھے۔ انھیں یاد دِلایا گیا کہ اُن پر معاشرے کے تحفّظ کی اخلاقی ذمّےداری عاید ہوتی ہے۔ وائٹ ہاؤس نے یہ بھی وارننگ دی کہ اس سیکٹر پر کڑی نظر رکھی جائے گی۔ 

امریکا اے-آئی کا لیڈر ہے اور اس کی ممتاز اور بڑی ٹیکنالوجی کمپنیز نے اس شعبے میں انقلابی اور برق رفتار پیش قدمی کی ہے۔ انھوں نے چیٹ جی پی ٹی اور بارڈ جیسے سافٹ ویئر تیار کیے ہیں، جن کی مدد سے سیکنڈز میں کمپیوٹر کوڈز نکالے جاسکتے ہیں۔ اُن کا کمال یہ ہے کہ یہ تخلیق تک کرسکتے ہیں، جو اب تک صرف انسانی ذہن کا خاصّہ تھا۔ یہاں تک کہ ان کی مدد سے شاعری بھی کی جاسکتی ہے۔ اور یہ سب اس خُوب صورتی اور پرفیکشن سے ہوتا ہے کہ کوئی گمان بھی نہیں کرسکتا کہ یہ کسی مشین نے کیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اِس ٹیکنالوجی سے انسانی ذہن کی ہُوبہو نقل کی جا رہی ہے۔ 

اِسی تشویش ناک صُورتِ حال نے بہت سے اندیشوں کو جنم دیا ہے۔ یہ سوال سامنے آیا کہ اے-آئی کے فوائد زیادہ ہیں کہ مضراثرات۔ آرٹیفیشل انٹیلی جینس کے موجد، ہنٹن نے، جن کا تعلق گوگل سے تھا، اپنی نوکری سے استعفا دیتے ہوئے کہا کہ ’’مجھے اپنے کام پر افسوس ہے۔‘‘ اُنہوں نے کہا کہ ’’اے-آئی چیٹ پائس کے چند خطرات ڈرا دینے والے ہیں اور یہ کہ چیٹ بوٹس جلد ہم سے زیادہ ذہین ہوں گے۔‘‘ امریکی فیڈرل ٹریڈ کمیشن نے اس کا نوٹس لیا اور اس کی سربراہ کا کہنا ہے کہ ’’آرٹیفیشل انٹیلی جینس کو ریگیولیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘

ظاہر ہے، فیڈرل ٹریڈ کمیشن، انڈسٹری ریگیولیٹر ہے اور اس کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ قوانین مرتّب کر کے امریکی ایوانوں کے سامنے پیش کرے۔ آرٹیفیشل ٹیکنالوجی کا سب سے بڑا چیلنج تو کاپی رائٹ ایکٹ ہوگا، کیوں کہ اس سے یہ قانون بےاثر ہوجائے گا، کوئی بھی نقل بغیر اجازت کے تیار ہو سکتی ہے اور وہ بھی سیکنڈز میں۔ دوسری طرف اِس ٹیکنالوجی سے آواز کی ہُو بہو نقل میں آسانی سے فراڈکےواقعات میں غیر معمولی اضافہ ہوگا۔ پھر اِسی ٹیکنالوجی سے تیار شدہ ویڈیوز اور آڈیوز کے ذریعے جھوٹی خبریں پھیلائی جاسکتی ہیں۔ ہمارے مُلک میں، جو ابھی اے-آئی کی ابتدائی مہارت بھی حاصل نہیں کرسکا، پہلے ہی آڈیو اور ویڈیو لیکس نے سیاسی بھونچال برپا کر رکھا ہے۔ 

ہم تو ابھی تک شعبۂ صحافت کے طلبہ کو صرف پروپیگنڈا اور گوئیبلز کے جھوٹ وغیرہ ہی پڑھا رہے ہیں، جب کہ دنیا لمبی چھلانگ لگا کر کہاں سے کہاں پہنچ چُکی ہے۔ یہ ٹیکنالوجی اُس وقت زیادہ خطرناک ہوجاتی ہے، جب یہ منفی ہاتھوں میں پہنچ جائے یا طالع آزماؤں کی دسترس میں آجائے۔ ڈیپ ویڈیوز کے ذریعے معمولی اجتماعات کو بھی بڑے اور تاریخی جلسے بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ لیڈر کا ایسا امیج بنایا جاتا ہے، جیسے وہ کسی اور ہی دنیا کی مخلوق ہے، چاہے اُس کے کارنامے صفر ہی کیوں نہ ہوں۔ جیسا کہ ہمارے ہاں ہو رہا ہے۔ 

بدقسمتی سے ہمارے میڈیا میں اس کا رواج ہے اور نہ ہی وہ ذہن ہیں، جو اِس طرح کی ٹیکنالوجی سے درپیش خطرات پر مبنی ڈرامے، سیریلز یا فلمز تیار کرسکیں اور پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے عوام بھی اِس طرح کی تخلیقی چیزیں دیکھنے میں دل چسپی نہیں رکھتے۔ یونی ورسٹیز کے میڈیا ڈیپارٹمنٹس میں بھی ان پر کوئی تحقیق ہو رہی ہے اور نہ ہی وہاں ایسے اساتذہ ہیں، جو ان موضوعات کو سائنسی تحقیق کا سبجیکٹ بنا سکیں۔ یہ میڈیاڈیپارٹمنٹس ایک صدی قبل کے زمانے میں خُوش ہیں۔ اگر کوئی بُھولا بھٹکا، ٹیکنالوجی سے آشنا استاد وہاں آ بھی جائے، تو اسے غیر علمی اور اکیڈمک کہہ کر فارغ کردیا جاتا ہے۔ 

جب کہ ہالی وُڈ، بالی وُڈ اور دوسری میڈیا انڈسٹریز اِس ضمن میں بہت کام کر چُکی ہیں اور کر رہی ہیں، جس سے معاشرے کےہرطبقے کو اے-آئی سے درپیش خطرات سےآگاہی حاصل ہورہی ہے۔ بے لگام سوشل میڈیا ہمیں بہت پریشان کر رہا ہے کہ اس نے لوگوں کے لیے اپنی عزّت تک محفوظ رکھنا مشکل کردیا ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ سوشل میڈیا کو کسی ضابطے میں لانے کی بجائے اُسے مزید چُھوٹ ملتی جا رہی ہے اور اس پر جھوٹ پھیلانے والے ہیرو بنتے جا رہے ہیں۔ ان کی واہ واہ کی جاتی ہے کہ ’’دیکھا مخالفین کو کیسے ذلیل کیا۔‘‘ہمارے ہاں فرانزک آڈٹ کروانے کا ذکر اِس قدر عام ہے کہ ڈر لگتا ہے کہ اگر حکومت نے فوری قوانین بنا کر اِس سلسلے کو ریگیولیٹ نہیں کیا، تو جگہ جگہ فرانزک آڈٹ کی دکانیں کُھلی ہوگی، جیسے آج چوری کے یا اسمگل شدہ موبائل فونز جگہ جگہ بِکتے ہیں۔ 

ہمارے سیاسی رہنما ایک دوسرےکونیچا دِکھانے کی دُھن میں معاشرے کو تباہ کُن اثرات میں جھونکنے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ ان سوشل میڈیائی ہیروز کو بُلا بُلا کر داد دیتے ہیں۔ جب مغربی معاشرے میں صحافت کا آغاز ہوا، تو اُنھوں نے فوراً اِسے بے لگام ہونے سے روکنے کے اقدامات پر غور شروع کردیا۔ وہاں حکومتی اور قانونی سطح پر ہتکِ عزّت جیسے سخت قوانین بنے، تو دوسری طرف خُود صحافیوں نے رضاکارانہ طور پر ایک ضابطۂ اخلاق مرتّب کیا، جس کی عدم پیروی کا مطلب اپنے پروفیشنل کیریئر کے خاتمے کے مترادف ہے۔ قوانین کی خلاف ورزی کی صُورت میں سزا تو ملتی ہی ہے، ملوّث فرد اور ادارے کی ساکھ بھی ختم ہو جاتی ہے۔ 

ہمارے ہاں بھی صحافی اِس طرح کے ضابطۂ اخلاق کی پاس داری کی قسمیں تو کھاتے ہیں، لیکن جہاں اُن میں سے کوئی اس کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو، تو پھر سب کو آزادیٔ اظہار خطرے میں پڑجانے کی فکر لاحق ہوجاتی ہے۔ وہ افراد بیانات دینے لگتے ہیں، جنھیں صحافت کی الف بے کا بھی پتا نہیں ہوتا۔ دراصل، ہم نے صحافیوں کی تربیت پر توجّہ دی اور نہ ہی اُنہیں ضابطۂ اخلاق کی پابندی کی اہمیت سے روشناس کروایا۔ اُن کا ایک ہی کام ہےکہ بس اپنے اپنے پسندیدہ لیڈرز اور جماعتوں کےلیے بولتے جائو، چاہے اِس سے سارا معاشرہ ہی کیوں نہ تباہ ہوجائے۔

وائٹ ہاؤس میں ہونے والے اجلاس میں جدید ٹیکنالوجی کے کرتا دھرتائوں کو بتایا گیا کہ اپنی پراڈکٹس کی سیکیوریٹی اُن کی ذمّے داری ہے۔ ساتھ ہی اُنھیں یہ بھی تنبیہہ کی گئی کہ امریکی انتظامیہ اِس سلسلے میں نئے قوانین بنانے کی تیاری کرچُکی ہے۔ دوسرے الفاظ میں ان کمپنیز کے ایگزیکٹیوز کے ساتھ اُن قوانین کو شیئر کیا گیا، جن کے ذریعے حکومت اِس شعبے کو ریگیولیٹ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ حکومتوں کا کمال یہی ہوتا ہے کہ وہ معاشرے اور سیاست کو عالمی اور قومی پس منظر میں بھانپ کر اُن کے نقصانات شروع ہونے سے قبل ہی سدّباب کے قوانین لے آئیں، یہ نہیں کہ جب چڑیاں کھیت چُگ جائیں، تو پھر ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھیں۔ 

پھر اِس طرح کے معاملات پر سیاست بھی نہیں کی جاتی کہ یہ معاشرے اور انسانیت کے معاملات ہیں۔ بالکل اِسی قسم کے اقدامات موسمیاتی اثرات سے نمٹنے کے لیے کیے گئے۔ کیا اچھا ہوا اور کیا بُرا، یہ ایک الگ بحث ہے، تاہم عالمی سطح پر اس معاملے سے ہم آواز ہوکر نمٹنے کا عزم تو پیدا ہوا۔ وائٹ ہاؤس اجلاس کے بعد چیٹ جی پی ٹی کے چیف ایگزیکٹیو نے بتایا کہ تمام سربراہان حیران کُن حد تک اِس معاملے پر ایک پیج پر ہیں۔ امریکی نائب صدر نے اِس اجلاس کے بعد ایک بیان میں کہا کہ نئی ٹیکنالوجی پرائیویسی اور سِول حقوق کے لیے خطرہ بن سکتی ہے، تاہم یہ زندگیاں بچانے میں بھی کام آسکتی ہے۔

اِسی سلسلے میں حکومت نے فوری اقدامات کیے ہیں اور نیشنل فائونڈیشن کے سات نئے تحقیقی مراکز قائم کرنے کے لیے140 ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے۔ برطانیہ میں اے-آئی انڈسٹری پر نظر ثانی کرنے کا فیصلہ کیا گیا،جس کے دَوران چیٹ جی پی ٹی جیسے سافٹ ویئرز کی بھی جانچ ہوگی۔ اب یہ پوری مغربی اور ترقّی یافتہ دنیا کا ایک اہم معاملہ بن چُکا ہے۔ مارچ میں ایلون مسک اور ایپل کی جانب سے کُھلے خطوط میں مصنوعی ذہانت کی ترقّی کو کچھ تک عرصے روکنے کی اپیل کی تھی، تاہم مائکرو سافٹ کے بل گیٹس نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی پابندیوں سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔

آرٹیفیشل انٹیلی جینس سے متعلق قانون سازی میں عالمی سیاسی رائے عامّہ ہم وار کرنا بھی ایک چیلنج ہے۔ امریکی انڈسٹری کو یہ خطرہ ہے کہ اگر قوانین زیادہ سخت ہوئے، تو اس کا فائدہ چین کو ہوگا، کیوں کہ اُس پر یہ قوانین لاگو نہیں ہوں گے۔ اِسی لیے ماہرین، دانش وَروں اور سیاست دانوں کی رائے یہی ہے کہ عالمی رہنمائوں کو آرٹیفیشل انٹیلی جینس سے درپیش خطرات کے سدّ ِباب اور قانون سازی کے لیے ایک پیج پر آنا ہوگا۔

سنڈے میگزین سے مزید