• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر صائمہ منذر، کراچی

خون کے سرطان سے آگاہی کے لیے ہر سال28 مئی کو دنیا بَھر میں’’ بلڈ کینسر ڈے‘‘منایا جاتا ہے اور اِس مناسبت سے مختلف تقاریب، سرگرمیوں کا انعقاد ہوتا ہے۔ یہ دن منانے کا مقصد خون کے کینسرز سے متعلق آگاہی فراہم کرنا اور ہڈیوں کا گُودا عطیہ کرنے کے رجحان کو فروغ دینا ہے۔زیرِنظر مضمون معلومات و آگہی فراہم کرنے کے ضمن ہی میں ایک کوشش ہے۔

کینسر یا سرطان، خواہ کسی بھی قسم کا ہو، ایک مہلک اور جان لیوا مرض ہے۔ طبّی پہلو سے یہ مرض خطرناک تو ہے ہی، نفسیاتی و مالی اعتبار سے بھی یہ مریض اور اُس کے خاندان کے لیے بہت سی مشکلات کا باعث بنتا ہے، کیوں کہ اس میں مبتلا شخص ہی کو نہیں، اُس کے خاندان کو بھی سخت تکالیف سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہ مرض بچّوں اور بڑوں، دونوں کو لاحق ہو سکتا ہے۔ دراصل ہمارا جسم مختلف خلیوں (Cells) سے مل کر بنا ہے اور ان خلیوں کا انسانی جسم میں وہی کردار ہے، جو کسی عمارت میں اینٹوں یا بلاکس کا ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے ان خلیوں کے کنٹرول کے لیے انسانی جسم میں ایک جامع نظام مرتّب کیا ہے، مگر جب اس نظام میں معمول کے برعکس کوئی تبدیلی رُونما ہونے لگے، تو یہ نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔

ان خلیوں کی افزائش غیر معمولی طور پر بڑھنے لگتی ہے اور یہ جو بڑھتے بڑھتے ایک ٹیومر کی شکل اختیار کر لیتے ہیں اور ایسی صُورت میں اس بیماری کو کینسر یا سرطان کہا جاتا ہے۔ سرطان کی یوں تو بہت سی اقسام ہیں، لیکن اگر ہم خون کے سرطان کی بات کریں، تو یہ مرض براہِ راست خون کے نظام پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اِس سے خون کی تشکیل کے نظام میں نقائص ظاہر ہوتے ہیں اور یہ خون کے خلیوں کی پیداوار اور کام کو متاثر کرتا ہے۔ عموماً یہ مرض بون میرو( ہڈی کے گُودے) میں شروع ہوتا ہے، جہاں سے خون بنتا ہے۔اِس سرطان کی بھی مختلف اقسام ہیں،جیسے لیوکیمیا(Leukemia)، لِمفوما (Lymphoma)، مائیلوما (Myeloma) اور MPN (Myeloproliferative Neoplasm)۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بَھر میں خون کے سرطان کے سالانہ1.24 ملین کیسز سامنے آتے ہیں، جو کینسرز کے تمام کیسز کا تقریباً2 سے3 فی صد ہے اور لیوکیمیا سے ہونے والی اموات، کینسرز سے ہونے والی مجموعی اموات کا3.1 فی صد ہیں۔

مختلف کینسرز کی علامات بھی مختلف ہوتی ہیں۔ کچھ سرطان واضح علامات ظاہر کرتے ہیں، جب کہ کچھ کی علامات زیادہ واضح نہیں ہوتیں۔اِسی طرح خون کے سرطان کی مختلف اقسام میں خطرے کے عوامل بھی مختلف ہیں۔ اگرچہ کچھ کینسرز کے خطرناک عوامل کنٹرول کیے یا روکے جا سکتے ہیں، لیکن بلڈ کینسرز کے خطرے کے زیادہ تر شناخت شدہ عوامل عُمر، نسل یا جنس میں الگ الگ ہوسکتے ہیں۔ 

لیوکیمیا خون اور ہڈیوں کے گُودے کا سرطان ہے اور اِس کی علامات میں ہڈیوں، جوڑوں کا درد، کم زوری، پیلاہٹ، غیر ضروری خون کا بہائو، وزن میں کمی، غدود، تلّی، جگر کا بڑھ جانا اور پیٹ پھول جانا شامل ہیں۔ سرطان کی شرح بچّوں میں26فی صد ہے، جس کی عام علامات میں سَر درد، نظر کا دھندلا پَن، چکر آنا، دورے پڑنا، پیدل چلنے یا چیزیں پکڑنے میں دشواری پیش آنا سرِفہرست ہیں۔ مدافعتی نظام کے خلیوں کا سرطان لِمفوما کہلاتا ہے۔ 

اِس قسم کے سرطان میں غدود یا لمف نوڈز (Lymph Nodes) متاثر ہوتی ہیں۔ لِمفوما کی علامات کا انحصار جسم کے متاثرہ حصّے پر ہوتا ہے، مگر غدودوں کی سوزش عام علامت ہے۔ مائیلوما ہڈی کے گُودے کا سرطان کہلاتا ہے۔ ویسے تو زیادہ تر کیسز میں خون کے سرطان کی علامات ابتدائی مرحلے میں ظاہر نہیں ہوتیں، تاہم، اس کی عام علامات میں ہڈیوں میں درد، وزن کا تیزی سے کم ہونا، بھوک نہ لگنا، تھکاوٹ، سر چکرانا، عضلات میں درد، خون کی کمی، جِلد میں غیر معمولی تبدیلی، بخار اور طویل عرصے تک کھانسی رہنا شامل ہیں۔ یہ مرض ہر عُمر کے فرد کو متاثر کرسکتا ہے، جس میں بچّے بھی شامل ہیں۔ویسے بچّوں میں جو سرطان پائے جاتے ہیں، اُن میں خون کا سرطان سرِفہرست ہے۔ دیگر اقسام میں مسلز، ہڈیوں اور گُردوں کے سرطان شامل ہیں۔

یاد رہے، بچّوں میں لیوکیمیا کے علاج کے بہت اچھے نتائج سامنے آتے ہیں۔خصوصاً خون کے سرطان کی تشخیص جس قدر جَلد ہو، علاج کی کام یابی کے امکانات اُتنے ہی بڑھ جاتے ہیں۔ عام طور پر تشخیص کے لیے سی بی سی اور بون میرو ٹیسٹ تجویز کیا جاتا ہے۔ اس سرطان کا علاج تو ہیماٹولوجسٹ کرتے ہیں، لیکن اس میں بھی مختلف شعبوں کے افراد کی معاونت لازم ہے۔جب کہ عمومی کینسرز کا علاج مختلف طریقوں سے کیا جاتا ہے، جن میں آپریشن، ادویہ اور شعاؤں کے ذریعے علاج شامل ہے۔

یہ ضروری نہیں کہ ڈاکٹر علاج کے لیے کسی ایک ہی طریقے پر انحصار کریں، بعض اوقات ایک سے زیادہ طریقے بھی اختیار کیے جا سکتے ہیں،لیکن ہر علاج کا اوّلین مقصد اس مرض کا جڑ سے خاتمہ ہے اور یہ صرف اُسی صُورت ممکن ہے، جب سرطان کی تشخیص جَلد ہو۔ تاخیر سے تشخیص پر مرض کا مکمل خاتمہ مشکل ہوجاتا ہے، البتہ معالج کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ مرض پر قابو پاکر متاثرہ فرد کی زندگی کا دَورانیہ بڑھایا جائے۔نیز، اگر بیماری کی شدّت بہت زیادہ ہے، تو مریض کی تکلیف کم سے کم کی جائے اور جتنی زندگی باقی ہے، اُسے بہتر بنانے کی کوشش کی جائے۔

خون کے سرطان کے علاج کے لیے مرض کی نوعیت اور شدّت کے مطابق ہی طریقۂ علاج منتخب کیا جاتا ہے، لیکن اِس نوعیت کے کینسرز میں سرجری کی نسبت کیمو تھراپی زیادہ مؤثر ثابت ہوتی ہے۔پھر لیوکیمیا اور مائیلوما کے بعض مریضوں کے مکمل علاج یا بیماری پر کنٹرول کے لیے ڈاکٹر بون میرو ٹرانس پلانٹ کا مشورہ بھی دیتے ہیں۔ 

یاد رہے، ہڈیوں کے گُودے کی تبدیلی کے خاص طریقۂ کار کو بون میرو ٹرانس پلانٹ کہا جاتا ہے۔ اس طریقۂ علاج میں خون کے خلیے بنانے والے خاص خلیے کو عطیہ کرنے والے کے جسم سے نکال کر وصول کنندہ یا سرطان کے مریض میں داخل کیا جاتا ہے، جس کے بعد یہ صحت مند اسٹیم سیل، خون کے صحت مند خلیوں کی افزائش میں کارآمد ثابت ہوتا ہے، لیکن اِس مرحلے میں سب سے اہم امر عطیہ کرنے والے اور وصول کنندہ کے ہڈیوں کے گُودے میںhuman leukocyte antigen marker کا یک ساں ہونا ہے اور یہ صرف تین بچّوں میں سے ایک بچّے کا اپنے لواحقین سے میچ کرتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ روز مرّہ زندگی میں ورزش کو اپنا معمول بنائیں، وزن کنٹرول میں رکھیں، تمباکو نوشی، پان، چھالیا، گٹکے، الکوحل سے مکمل پرہیز کریں۔ 

تازہ پھل اور سبزیاں استعمال کریں۔ خود کو دھوپ کی تپش، ماحولیاتی آلودگی اور کیمیکلز وغیرہ سے بچائیں اور جس قدر ممکن ہو، پروسیسڈ کھانوں (processed food)سے اجتناب برتیں۔ویسے تو مرض خواہ کوئی بھی ہو، کام یاب علاج کا دارومدار بروقت تشخیص پر ہے، لیکن سرطان کے مرض میں تو بروقت تشخیص کی اہمیت دوچند ہے۔ (مضمون نگار، کنسلٹنٹ ہیماٹولوجسٹ ہیں اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بلڈ ڈیزیز اینڈ بون میرو ٹرانسپلانٹیشن (NIBD) میں بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر خدمات سر انجام دے رہی ہیں)

سنڈے میگزین سے مزید