چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ 9 مئی کے واقعات کا فائدہ ہوا کہ عدلیہ کے خلاف بیان بازی بند ہو گئی۔
یہ بات چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں آڈیو لیکس کمیشن کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان، عابد زبیری و دیگر کی درخواستوں پر سماعت کے دوران کہی۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ سماعت کر رہا ہے جس میں جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس حسن اظہر رضوی بھی شامل ہیں۔
سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان اعوان نے بینچ میں چیف جسٹس کی شمولیت پر اعتراض کر دیا اور کہا کہ درخواست ہے کہ چیف جسٹس اس بینچ کا حصہ نہ بنیں۔
چیف جسٹس عمر عطاءبندیال نے استفسار کیا کہ آپ کا مطلب ہے کہ میں بینچ سے الگ ہو جاؤں؟ عدلیہ بنیادی انسانی حقوق کی محافظ ہے، آپ ہمارے انتظامی اختیار میں مداخلت نہ کریں، ہم حکومت کا مکمل احترام کرتے ہیں، حکومت نے چیف جسٹس کے اختیارات کو ریگولیٹ کرنے کی قانون سازی جلدی میں کی، حکومت کیسے ججز کو اپنے مقاصد کے لیے منتخب کر سکتی ہے؟ آپ کی درخواست قابلِ احترام ہے، چیف جسٹس کا عہدہ ایک آئینی عہدہ ہے، مجھے معلوم تھا کہ آپ یہ اعتراض اٹھائیں گے، عدلیہ وفاقی حکومت کے ماتحت نہیں، آئین میں اختیارات کی تقسیم ہے۔
چیف جسٹس پاکستان عمرعطاء بندیال نے سوال اٹھایا کہ چیف جسٹس کی مشاورت کے بغیر کیسے اقدام کیا گیا؟ انکوائری کمیشن ایکٹ 1956ء میں بھی مشاورت کا نہیں تھا، یہ ایک پریکٹس ہے، کمیشن کے لیے جج چیف جسٹس نامزد کرے گا، ایسے 3 نوٹیفکیشن واپس لیے گئے جن میں چیف جسٹس کی مشاورت شامل نہ تھی، سپریم کورٹ کے اس حوالے سے 5 فیصلے بھی موجود ہیں، براہِ مہربانی حکومت سے کہیں کہ آئین پر اس کی روح کے مطابق چلے، کمیشن آف انکوائری ایکٹ 2017ء میں مشاورت کا نہیں کہا گیا، جانے انجانے میں ججوں میں دراڑ ڈالنے کی کوشش کی گئی، حکومت نے کمیشن میں ضمانت اور فیملی میٹرز کو بھی ڈال دیا۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ یہ معاملہ حل ہو سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایسا ہے تو جائیں اسے حل کریں، پھر ہم بھی آپ کی مدد کریں گے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ قانون کے کیس سمیت دیگر میں فل کورٹ کی درخواست کی۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں قانون میں لکھا ہے کہ 5 ججز کا بینچ ہو، آپ کی فل کورٹ کی درخواست تو اس قانون کے بھی خلاف تھی، ہم نے 8 ججوں کا بینچ بنایا۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ قانون 5 ججز کے بینچ کا کہتا تھا تو 5 جج کیوں نہیں تھے؟
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ الیکشن کے کیس میں جیسے آپ کو بتایا اگر ہم سے مشورہ کرتے تو آپ کی مدد کرتے، آئین کا احترام کریں، ہمارے بغیر پوچھے عدلیہ کے امور میں مداخلت کریں گے تو!...، اسے کے ساتھ ہی چیف جسٹس نے فقرہ ادھورا چھوڑ دیا۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ اٹارنی جنرل محترم! آپ کا اور آپ کی مؤکل وفاقی حکومت کا احترام کرتے ہیں، اداروں کا احترام کریں اس میں عدلیہ بھی شامل ہے، 9 مئی کے واقعات کا فائدہ یہ ہوا کہ عدلیہ کے خلاف بیان بازی بند ہو گئی، وفاقی حکومت چیزیں آئین کے مطابق حل کر دے تو ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل پر برہم ہوتے ہوئے کہا کہ اگر جھگڑنا ہے تو پھر اٹارنی جنرل تیاری کر کے آئیں۔
سپریم کورٹ میں عابد زبیری کے وکیل شعیب شاہین نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ فون ٹیپنگ بذاتِ خود غیر آئینی عمل ہے، انکوائری کمیشن کے ضابطہ کار میں کہیں نہیں لکھا کہ فون کس نے ٹیپ کیے؟ حکومت تاثر دے رہی ہے کہ فون ٹیپنگ کا عمل درست ہے، حکومت تسلیم کرے کہ ہماری کسی ایجنسی نے فون ٹیپنگ کی۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ فون ٹیپنگ پر بینظیر بھٹو حکومت کیس موجود ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں بھی اصول طے کیے ہیں، کس جج نے ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی کی اس کا تعین کون کرے گا؟
عابد زبیری کے وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ آرٹیکل 209 کے تحت یہ اختیار سپریم جوڈیشل کونسل کا ہے، جوڈیشل کونسل کا اختیار انکوائری کمیشن کو دے دیا گیا۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ٹیلی فون پر گفتگو کی ٹیپنگ غیر قانونی عمل ہے، آرٹیکل 14 کے تحت یہ انسانی وقار کے بھی خلاف ہے، اس کیس میں عدلیہ کی آزادی کا بھی سوال ہے۔
وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ ایک ٹوئٹر اکاؤنٹ پر مبینہ آڈیو آتی ہے پھر پورا میڈیا اسے چلاتا ہے، مبینہ آڈیوز پر وفاقی وزراء پریس کانفرنسز کرتے ہیں، مبینہ آڈیوز کی بنیاد پر میڈیا ٹرائل شروع ہو جاتا ہے، جان بوجھ کر عدلیہ کے وقار کو نقصان پہنچایا گیا، عدالت اگر خاموش رہی تو ریاستی ادارے تباہ ہو جائیں گے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو خود انکوائری کمیشن کی کارروائی سے انکار کر دینا چاہیے، شاید جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریکارڈنگ کرنے والوں کا اس لیے نہیں پوچھا کہ وہ ٹی او آرز سے باہر نہیں جا سکتے، انکوائری کمیشن نے پورے پاکستان کو نوٹس جاری کیا لیکن کیا یہ پوچھا گیا کہ ریکارڈنگ کس نے کی؟
’’حکومت نے شوگر کوٹڈ الفاظ سے جوڈیشل کونسل کے اختیارات میں مداخلت کی ‘‘
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی موجودگی میں انکوائری کمیشن کیسے کارروائی چلا سکتا ہے؟ وفاقی حکومت نے شوگر کوٹڈ الفاظ سے جوڈیشل کونسل کے اختیارات میں مداخلت کی کوشش کی، حکومت نے اختیارات کی تقسیم کے ڈھانچے کو متاثر کرنے کی کوشش کی، احترام کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ حکومت حاضر سروس ججز کے خلاف ایسا کیسے کر سکتی ہے؟ ججز کے کنڈکٹ کا تعین انکوائری کمیشن کے ذریعے کیسے کیا جا سکتا ہے؟
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کا کہنا ہے کہ لگتا ہے کہ حکومت نے سب کچھ پھر سے جلد بازی میں کر دیا۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ایک سینئر جج کو یہ ٹاسک سونپ دیا گیا کہ ججز کے کنڈکٹ کا جائزہ لے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ انکوائری کمیشن کی بنیاد پر سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی نہیں ہو سکتی، سپریم جوڈیشل کونسل آزاد فورم ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ بظاہرحکومت نے اختیارات کی تقسیم کے آئینی ڈھانچے کو متاثر کیا، جب ٹی وی چینلز مبینہ آڈیوز چلاتے رہے تو پیمرا کیا کر رہا تھا؟ کابینہ کے وزراء مبینہ آڈیوز پر پریس کانفرنسز کرتے رہے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ آج کیس کی پہلی سماعت ہے، میں اختیارات کی تقسیم پر دلائل دوں گا۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کسی جج کا مس کنڈکٹ ہوا یا نہیں، جج سے حکومت تحقیقات کرائے سمجھ سے بالا ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے آڈیو لیکس کے خلاف درخواستوں پر آج کی سماعت مکمل کر لی، آج کی سماعت کا مختصر اور عبوری حکم بعد میں سنایا جائے گا۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے مبینہ آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کے خلاف درخواستوں پر لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔
آڈیو لیکس کی انکوائری کے لے قائم جوڈیشل کمیشن کے خلاف خلاف عمران خان، صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری، ریاض حنیف راہی اور مقتدر شبیر نے درخواستیں دائر کی تھیں۔
حکومت کی جانب سے بنائے گئے جوڈیشل کمیشن نے پہلا اجلاس پیر کو منعقد کیا تھا اور اس کا اگلا اجلاس کل (ہفتے کو) صبح 10 بجے سپریم کورٹ بلڈنگ میں طلب کیا گیا ہے۔