تمام معاشی فیصلے سیاسی نوعیت کے نہیں ہوتے لیکن تمام سیاسی فیصلوں کے معاشی اثرات ضرور ہوتے ہیں۔ یہ وہ فارمولہ ہے جو دنیا کی قومی سیاسی اور معاشی بہبود کا ضامن ہے۔ ریاست کی معاشی اور مالی حالت کا انحصار اس کی سیاسی ہم آہنگی پر ہوتاہے۔ پاکستان اپنی تاریخ کے بدترین سیاسی بحران کا سامنا کر رہا ہے لیکن سب اس بات پر متفق ہیں کہ معاشی حالت ملک کی سیاسی صورتحال سے کہیں زیادہ خراب ہے۔ پاکستان کے لئے اس بحران سے باہر نکلنے کا واحد راستہ بات چیت، مذاکرات اور معاشی بحالی میں مضمر ہے۔ ملک میں سیاسی تنازعات بنیادی طور پر سیاسی پارٹیوں کو متاثر کرتے ہیں جب کہ معاشی حالات طبقے، مسلک، زبان اور صوبوں سے قطع نظر ہر کسی کو متاثر کرتے ہیں ۔ وقت تیزی سے گزرتا جا رہا ہے جو سیاسی فیصلے کئے جا رہے ہیں وہ ملک کے مالی مستقبل کے ساتھ کھلواڑ ہیں،اس سے پہلے کہ ناقابل تلافی نقصان ہو جائے اصلاح کر لینی چاہئے ۔
پچھلے ایک سال کے تجزیے سے پتہ چل سکتا ہے کہ سیاسی عدم استحکام اور قیمتوں میں بین الاقوامی اضافے نے معیشت کو نقصان پہنچایا ۔ پچھلی صدی تک یہ خیال کیا جاتا تھا کہ معاشیات اور مالیاتی منڈیاں خالص ریاضی کے اصولوں دو جمع دو، چار کے تحت چلتی ہیں لیکن جدید دنیا میں ایسا نہیں ہے۔ آج مارکیٹیں مکمل طور پر اندازوں پر چلتی ہیں۔ کیپٹل مارکیٹس اور اسٹاک ایکسچینج ماضی اور حال کے حالات کی بنیاد پر مستقبل کی پیشیں گوئی پر چلتے ہیں۔ مارکیٹ میں تیزی یا مندی کے رجحانات کی بنیاد پر کیپٹل مارکیٹوں میں اربوں ڈالر حاصل کئے جاتے ہیں۔ اب اگراسی تناظر میں ہم پاکستان کو دیکھیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ سیاسی عدم استحکام پاکستان کی معاشی حالت کا ذمہ دار ہے۔ ہر طرح کے سرمایہ کار، خواہ ملکی ہو یا بین الاقوامی،سرمایہ کاری اور اقتصادی منصوبے شروع کرنے سے خوفزدہ رہتے ہیں۔ مارکیٹ خوف زدہ اور اہم بین الاقوامی براہ راست سرمایہ کاری میں رکاوٹ بن جاتی ہے جو کمزور معاشی نظام کے لئے تازہ ہوا کا جھونکا ہوتی ہے۔ پاکستان کو معاشی بحالی کےلئے، ملک میں سلامتی اور استحکام کے تصور کو بے داغ بنانا ہو گا۔ اور یہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک مذاکرات، آگے بڑھنے اور قانون کی حکمرانی کی پاسداری کے لئے ٹھوس اقدامات نہ ہوں۔
بین الاقوامی مارکیٹ میں پاکستان کے لئے اشاریے بہتر ہو رہے ہیں، بحالی کی ٹھوس صلاحیت موجود ہے۔ یوکرین جنگ کی وجہ سے دنیا بھر میں کھانے پینے کی اشیاء اور ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے سرکار ی خزانے پر بھاری بوجھ ڈالا۔ اب، قیمتیں مستحکم ہو رہی ہیں۔ پاکستان کی اہم درآمدات میں ایندھن، پام آئل اور مشینری شامل ہیں جن کی قیمتیں اب مستحکم ہو رہی ہیں۔ اس سے قومی زرمبادلہ کے ذخائر کو کچھ ریلیف ملے گا اور مہنگائی میں قدرے کمی آئے گی۔ ایندھن کی قیمتیں صارفین کو ریلیف فراہم کریں گی اور کاروباری مالکان کو کام کو وسعت دینے اور معاشی سرگرمیاں پیدا کرنے کا موقع میسر آئے گا۔ لیکن ان تمام پیش رفتوں کو صحیح مکالمے، سیاسی تنازعات کے پرامن حل اور آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کی طرف جانے والے اعلان کردہ روڈ میپ کے ساتھ مکمل ہونا چاہئے۔
آزادانہ اور منصفانہ انتخابات سیاسی ڈھانچے کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت کی بقا کے لئےبے حد ضروری ہیں۔ اندرون اور بیرون ملک تاجر برادری میں یہ تاثر عام ہے کہ موجودہ حکومت 2023 کے آخر تک اقتدار میں رہے گی۔ انتخابات کے بعد جیسے ہی نئی حکومت آئے گی معاشی پالیسیاں، ٹیکس کے اقدامات اور کاروباری مالکان کے لئے ریلیف میں تبدیلیاں آئیں گی۔ انتخابات کے بعد جو بھی پالیسی اختیار کی جائے گی اس میں کم از کم اگلے چار سال تسلسل رہے گا۔ یہ تاثر سرمایہ کاری اور معاشی مواقع کے لئے حوصلہ مند ہو گا جو مالیاتی نظام کی اشد ضرورت ہے۔طویل مدتی پروگرام، حکومت کی ملکیتی کمپنیوں کی نجکاری کے فیصلے منتخب حکومت ہی لے سکتی ہے ۔ حکومت کی طرف سے لیا گیا ہر فیصلہ پاکستان میں اربوں روپے کے کاروبار کو تقویت بھی دے سکتا ہے اور اس کی بیخ کنی بھی کر سکتا ہے ۔
کچھ محققین کا خیال ہے کہ پاکستان کو اب آئی ایم ایف کی اسکیموں سے باہر نکلنا چاہئے اور لیکویڈیٹی کے دیگر راستوں کی طرف دیکھنا چاہئے۔ چین پاکستان کا دیرینہ اتحادی ہے جس نے ہمیشہ مشکل وقت میں اس کاساتھ دیا ہے۔ پاکستان نے بہت سے ایسے اقدامات کئے ہیں جو ثمر آورہورہے ہیں ۔ چین کے ساتھ تجارت، اقتصادی سرگرمیوں اور استحکام کے امکانات کو بڑھایا جانا چاہئے۔ قرضوں سے نکلنے کا راستہ تعاون اور مشترکہ منصوبے ہیں۔ نیا ورلڈ آرڈر آرہا ہے اور پاکستان کا اس میں مرکز ی کردار ہو گا۔ ایک ہفتہ قبل ایران کے ساتھ سرحدی منڈیوں اور ٹرانسمیشن لائن کا آغاز جیو اسٹرٹیجک پوزیشن کے حوالے سے بے پناہ مواقع کا ایک چھوٹا سا ثبوت ہے۔
پاکستان میں بڑی صلاحیتیں موجود ہیں لیکن یہ صلاحیتیں پرامن ماحول میں ہی پنپ سکتی ہیں۔ بات چیت، ہم آہنگی اور باہمی اتفاق کا ماحول۔ موجودہ معاشی بحران کی جڑیں سیاسی عدم استحکام سے نکلی ہیں لیکن اس کے نتائج سب کو بھگتنا پڑ رہے ہیں۔ موجودہ بحران جاری رہنے کی صورت میں جو نقصانات ہو سکتے ہیں، وہ ناقابل تصور ہیں۔ کاروباری برادری کو آگے آنا چاہئے اور طاقت ور حلقوں کو اس حساس صورتحال سے آگاہ کرنا چاہئے جو ہماری نسلوں کا مستقبل اور ہماری ناقابل یقین حد تک طاقتور قوم کی صلاحیتوں کو داؤ پر لگا رہی ہے۔
(مضمون نگار جناح رفیع فاؤنڈیشن کے چیئرمین ہیں)
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)