ابھی پچھلے دنوں ایک ٹی وی میں کسی روحانی بزرگوار کے خانوادے کا احوال دکھایا گیا۔ غالباًفیصل آباد میں کسی اللہ سے لو لگانے والے پرانے بزرگ کے یہ لوگ باقیات میں سے تھے غالباً دوسری اور تیسری نسل تھی جنہوں نے خاکی(مٹی کے رنگ) رنگ کی شلوار قمیض کو اور اپنے بزرگ والد کے مشن کو مقصدِ حیات بنالیا تھا۔ یہ اللہ سے لو لگانے والوں کا وتیرہ رہا ہے کہ وہ روحانی طور پر اپنی انفرادیت برقرار رکھتے ہیں خواہ کسی ٹیلے پر بیٹھ کر عبادت میں مشغول رہنا ہو، یا کسی دریا کے کنارے جھونپڑی میں عبادت کرنا ہو، یا پھر ہرے رنگ کا یا کسی دوسرے رنگ کا چوغہ پہن کر عبادت کو منفرد پہچان دینا ہو تو یہ بزرگ اپنی پہچان اپنا طریقہ اپنا لیتے ہیں۔ بہر حال اپنے خاندانی بزرگوار کے کارناموں کے ساتھ ساتھ انہوں نے خاکی رنگ کے پہناوے کی وجہ یہ بتائی کہ ہماے والد اسی لئے یہ رنگ پہنتے تھے کہ ایک تو وہ آرمی میں رہے اسی لئے انہیں یہ رنگ پسند تھا دوسرا یہ کہ مرنے کے بعد سب نے مٹی میں جانا ہے پھر یہ کہ انسان کی تخلیق بھی مٹی سے ہی ہوئی تھی اس لئے انہیں خاص رغبت رہی اس رنگ سے۔
اب بتائیے کہ ہر انسان کی اگر ایسی ہی سوچ ہو جائے کہ اس نے خاک کا پیوند ہوجانا ہے تو اپنے نیک اعمال میں اضافہ کرکے وہ خود کو خدا کے قریب لاسکتا ہے۔ مگر ہم دنیاوی کاموں میں خوب کوشش کرتے ہیں کہ کامیاب ہوں مگر عبادت میں ریاضت ہم نہیں کرسکتے بلکہ اگر ہمیں یکسوئی حاصل ہوجائے تو ہم بھی پھر خدا کے برگزیدہ بندے ہو جائیں ہر انسان خدا کے نزدیک ہونے کا دعویدار ہو۔ تو بات ہورہی تھی خاکی پیرہن والوں کی دوران گفتگو انہوںنے بتایا کہ ان کے یہاں کئی ہزار لوگوں کیلئے دسترخوان کا انتظام ہوتا ہے اور یہ اب سے نہیں کئی سال سے ان کے بزرگ والد نے شروع کیا تھا اور پھر یہ دیکھئے کہ انہوںنے یہ دعویٰ بھی کیا کہ لنگر کے یہ تقسیم صرف پاکستان تک محدود نہیں اس کا دائرہ کار یورپ و امریکہ تک پھیلا ہوا ہے۔ انگلینڈ میں بھی وسیع تر پیمانے پر انتظام ہے اور اس سے بھی زیادہ جرمنی اور امریکہ میں ہے۔ ہم تو سمجھے کہ لنگر پر غریب غرباء کا اور غریب ترین ممالک کے متاثرین کا حق ہوتا ہے مگر ہم حیران ہوئے کہ خوشحال، ترقی یافتہ اور ہر سہولت سے آراستہ زندگی گزارنے والے امیر ممالک کے امیر آسودہ حالوں میں لنگر کا لنگرانداز ہونا کچھ مناسب نہیں لگتا۔ ہمارے ملک کے بھوک سے متعلق تمام درد کیا دور ہوگئے ہیں جو ضرورت مند اور حقداروں کو چھوڑ کر آسودہ حال لوگوں میں لنگر بانٹا جارہا ہے۔ کیا ہمارے نہایت غریب بچے اور بوڑھے کوڑا کرکٹ میں سے کھانے کی چیزیں اپنے لئے وہاں سے تلاش نہیں کررہے ہوتے ہیں کہ چھان پھٹک کرنے کے بعد شاید کچھ مل جائے کھانے کی چیز۔ حالانکہ ہمارے ملک میں مخیر حضرات اپنے اپنے حصے تین چار خاندان کی کفالت کی ذمہ داری لگالیں تو آدھی سے زیادہ بھوک ننگ ختم ہوجائے گی مگر یہ نہایت معقول عمل کرنے کو شاید کوئی بھی تیار نہیں کون چاہے گا کہ غریب کا پیٹ بھرے اور وہ ان کی غلامی سے محروم ہوں۔ ’’لنگر‘‘ یہ ایک لفظ ہے کہ جس نے اپنے مطالب میں وسیع معنویت رکھی ہے۔ ویسے تو اسکے دو واضح معنی ہیں ایک دستر خوان سے متعلق ہے کہ خیرات خانہ، وہ جگہ یہاں روزانہ فقیروں کو کھانا تقسیم ہو، فقرائو یتیم و مساکین کی بھوک پوری کی جاتی ہو، کسی مخیر کے دسترخوان کو بھی لنگر کہا جاتا ہے۔ پھر دوسرے معنی لنگر کے یہ ہیں کہ کسی بادبانی کشتی، جہاز اور یا قافلہ کا ٹھہرائو۔ لوہے کی زنجیر یا رسہ سے جو کسی بھاری چیز کیساتھ کنارے پر باندھتے ہیں، کوئی خیمہ کھڑا کرنے کے موٹے رسے کو باندھا جائے تو وہ بھی لنگر کہلاتا ہے۔ اس سے متعلق کئی محاورے بھی ہیں مثلاً ’’لنگر اٹھانا‘‘ یعنی کشتی یا جہاز کا رسہ کھول کر آگے کو چلانا۔ ’’لنگر بٹنا‘‘۔ غرباء میں روزانہ مفت کھانا تقسیم ہونا۔ ’’لنگر کا ٹکڑا‘‘ یعنی کہ خیرات کا کھانا بھیک وغیرہ۔ ’’لنگر کرنا‘‘ کا مطلب جہاز یا کشتی کا ٹھہرانا۔اس کا واضح مطلب اور ہماری تمہید سمجھ میں آگئی ہوگی کہ یورپ جیسے امیر ممالک میں لنگر یعنی کھانے کا دسترخوان لنگر انداز ہوگیا۔ حالانکہ یہاں کی آدھی سے زیادہ ایشین کمیونٹیز سوشل بینیفٹ پر ہیں اور ان کے پاس کھانے کی کمی نہیں ہوتی اور بہت سے لوگ بزنس اور اچھی جاب سے خوب کمالیتے ہیں ان کے پاس بھی کسی چیز کی کمی نہیں ہوتی اور بہت سے ایسے ہوتے ہیں جو مانگنے کی بجائے یورپین ممالک میں بھی محنت سے کماکر کھانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ تو یہاں تو کوئی بھی بھوکا نہیں رہتا تو پاکستان سے لنگر لاکر یہاں کسے کھلانا ہے لیکن شاید یورپ و امریکہ میں بھی لوگ لنگر کو تبرک کا پاکیزہ کھانا سمجھ کر کھاتے ہوں۔ صاحب حیثیت حضرات کو خواہ وہ کوئی گدی نشین ہوں، روحانی بزرگوں کے سلسلے سے تعلق رکھتے ہوں یا پھر برگزیدہ خدا کے بندے ہوں ان کے پاس تو غرباء کی اور ضرورت مندوں کا جم غفیر رہتا ہے تو وہ ان کا خیال ہی رکھ لیں تو ملک کے غریب لوگ بھوکے نہ رہیں۔ یہاں کسی کو کسی لنگر کی ضرورت نہیں۔ ہاں ایک اہم بات سمجھ میں آئی کہ یہ دین و مذہب کا پرچار کرنے والے روحانی لوگ شاید لنگر کے بہانے اپنی روحانیت کا پرچار ان ممالک تک وسیع کرنا چاہتے ہوں کہ دائرہ کار اسی بہانے بڑھایا جائے تو لوگ لنگر کھانے کے ساتھ ساتھ وہاں موجود بڑے سے منی بکس میں پونڈ، ڈالر اور یورو کرنسی عطیے کے طور پر ڈالتے جائیں اور دوسری بات یہ کہ ان کے روحانی کاروبار بھی یہاں چلنا شروع ہوجائیں پھر تو شاید مذہب بھی خوب پھیلے گا مسلمانوں کی لنگر کے سلسلے کی دریا دلی کا خوب ڈنکا بجے گا۔ ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے کہ غرباء کیلئے کہیں نہ کہیں پر، مسجدوں میں، درباروں میں، درگاہوں میں لنگر کھولے جاتے رہے ہیں۔ یہ لنگر کی لنگر اندازی وہاں اچھی لگتی ہے جہاں قحط پڑا ہو، جہاں سیلاب آئے ہوئے ہوں، جہاں غرباء کی پسماندہ بستیاں ہوں، جہاں جس ملک میں میں ہر دم جنگ جاری ہو۔ جہاں بستیاں اجڑتی ہوں، جہاں بچے محنت مزدوری کے بعد اپنے گھر کے بڑے بن جائیں۔