• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کنجِ دل میں مِرے اِک پھول کِھلا عید کے دن ...

تحریر: نرجس ملک

ماڈلز: نیلم، ایلف خان، محمّد حسن

ملبوسات: فائزہ امجد اسٹوڈیو (ڈی ایچ اے، لاہور)

آرائش : دیوا بیوٹی سیلون

عکّاسی و اہتمام : عرفان نجمی

لے آؤٹ : نوید رشید

پرویز ساحر کا ’’عید کے دن‘‘ کے عنوان سے بڑا خُوب صُورت، منفرد سا کلام ہے۔ ؎ مجھ سے ہنستے ہوئے جس دَم مِلا وہ عید کے دن… کُنجِ دِل میں مِرے اِک پھول کِھلا عید کے دن… کیا خبر کل تجھے کس بات پہ رونا پڑ جائے… خُوب جی بَھر کے تُو خُوش ہو لے دِلا! عید کے دن… جانے کیا سوچ کے سینے سے لگایا اُس کو… برسرِ راہ گزر جو بھی مِلا عید کے دن… ایسے ملنے کو کبھی ملنا نہیں کہتے ہیں… دِل سے دِل، ہاتھ سے تُو ہاتھ مِلا عید کے دن… آج اُس نے بھی کہا ’’عید مبارک‘‘ ساحرؔ… میری چاہت کا مِلا مجھ کو صلہ عید کے دن۔ اور حقیقت بھی یہی ہے، اُمّتِ مسلمہ کے اصل خوشی کے تہوار تو ’’عیدین‘‘ ہی ہیں، باقی تو سب ہمارے اپنے تراشیدہ کچھ عذر، جواز، حیلے بہانے، ڈھونگ، فریب ہی ہیں۔ کبھی رسوم و رواج کے نام پر، تو کبھی تہذیب و ثقافت کے عنوان سے، کبھی عالمی ایام کے مواقع کہہ کر، تو کبھی یوں ہی جی کے بہلانے کو مِل بیٹھ کے کوئی کھیل تماشا، شور شرابا، ہلّا گُلّاکرلیا جاتا ہے۔

جب کہ دینِ اسلام کی تعلیمات کے مطابق تو ہمارے دو ہی تہوار ہیں، عیدالفطر اور عیدالاضحٰی۔ جیسا کہ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ اہلِ مدینہ (یاد رہے، خالص اسلامی فکر کے ساتھ سماجی و اجتماعی زندگی کا آغاز ہجرتِ مدینہ کے بعد ہی ہوا) دو دن بطور تہوار منایا کرتے تھے، جن میں وہ کھیل تماشے کیا کرتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے پوچھا، ’’یہ دو دن جو تم مناتے ہو، اِن کی حیثیت و حقیقت کیا ہے؟‘‘ (یعنی ان تہواروں کا تاریخی پس منظر کیا ہے) انہوں نے عرض کیا۔ ’’ہم عہدِ جاہلیت میں یہ تہوار اسی طرح منایا کرتے تھے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’اللہ تعالیٰ نے اِن دونوں تہواروں کے بدلے تمہارے لیے اِن سے بہتر دو دن مقرر کردیے ہیں۔ یومِ عیدالاضحٰی اور یومِ عیدالفطر‘‘ (سنن ابی دائود)۔

صاحبانِ علم و فضل نے عید کے معنی اور وجۂ تسمیہ بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ عید کا لفظ ’’عود‘‘ سے مشتق ہے، جس کے معنی ’’لوٹنا‘‘ کے ہیں۔ چوں کہ یہ دن مسلمانوں پر بار بار لوٹ کے آتا ہے، اِس لیے اِسے عید کہتے ہیں۔ جیسا کہ ابن العربی نے کہا کہ ’’عید کو عید اِس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ دن ہر سال مسرت کے ایک نئے تصور اور احساس کے ساتھ لوٹ کے آتا ہے۔‘‘ جب کہ مفتی منیب الرحمٰن نے اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ ’’رُوح کی لطافت، قلب کے تزکیے، بدن و لباس کی طہارت اور مجموعی شخصیت کی نفاست کے ساتھ انتہائی عِجزو انکسار اور خشوع و خضوع کے ساتھ تمام مسلمانوں کا اتحاد و اخوّت کے جذبے سے سرشار ہوکر اللہ رب العزت کی بارگاہ میں سجدۂ بندگی، نذرانۂ شُکر بجا لانے کا نام عید ہے۔‘‘ 

چوں کہ اُمّتِ مسلمہ اپنی ترکیب میں، عقائد و نظریات کے اعتبار سے تمام اقوام سے الگ، منفرد و ممتاز ہے، تو اِس کے تہوار بھی دیگر اقوامِ عالم سے یک سر جداگانہ ہیں۔ ’’عیدالفطر‘‘ اگر ربِ دوجہاں کے اپنے مہینے، رحمتوں، برکتوں، مغفرتوں کے خزینے ماہِ صیام کا انعام ہے تو ’’عیدالاضحٰی‘‘ اور فریضۂ حج کی نسبت ہمارے جدِ امجد سیدنا ابراہیمؑ سے ہے۔ بظاہر عیدِ قرباں، پیغمرانِ خدا حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کی قربانی سے منسلک و مشروط ہے، لیکن درحقیقت اِس کا مطلب و مفہوم، فلسفہ و رُوح اور حکمت و پیغام رب تعالیٰ کی رضا و خوش نُودی کے لیے اُس کے ہر حُکم کے سامنے سرِتسلیم خم کرنا ہے۔ 

اسوۂ ابراہیمیؑ کو اپنا نصب العین، مقصدِ حیات ماننا، ایثار و قربانی سے معمور سیرتِ ابراہیمؑ کو مشعلِ راہ بنانا ہے۔ ؎ بے خطر کُود پڑا آتشِ نمرود میں عشق، جیسے جذبۂ بےخُودی سے سرشار ہونا ہے۔ ؎ آج بھی ہو جو براہیمؑ کا ایماں پیدا… آگ کرسکتی ہے، اندازِ گلستان پیدا، جیسا ایمان و ایقان چاہیے۔ ؎ سِکھائے کس نے اسماعیلؑ کو آدابِ فرزندی، جیسی اطاعت و فرماں برداری کی ضرورت و حاجت ہے اور ؎ غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم… نہایت اِس کی حسینؓ، ابتدا ہیں اسماعیلؑ، جیسی خُود سپردگی، عشق و جنون، شجاعت و بہادری، صبر و استقامت اور ایثار و قربانی کی طلب، پیشوائی و رہبری مقصود و مطلوب ہے۔

بہرکیف، چوں کہ اُمّتِ مسلمہ کا سب سے بڑا تہوار، عیدالاضحٰی، عیدِ قرباں، بقرعید یا عرفِ عام میں ’’بڑی عید‘‘ دوچار قدم ہی کی مسافت پرہے، تو ہماری جانب سے مسلمانانِ عالم اور خصوصاً اہلِ وطن کو مناجاتِ دلی کے ساتھ پیشگی یہ عیدِ ایثار، عیدِ قرباں، عیدالاضحٰی بہت بہت مبارک ہو۔ نیز، اس دُعا کے ساتھ کہ ؎ عُمر بھرہنستی مُسکراتی رہیں…تیرے آنگن میں عید کی خوشیاں۔ ’’بزمِ عید الاضحٰی‘‘ کی صورت یہ چھوٹا سا نذرانۂ تہنیت بھی قبول فرمائیے۔

سنڈے میگزین سے مزید