السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
’’آدمی‘‘ کی کمی پوری
آج پھرمیگزین کےپہلے صفحے پر لاکھوں کے انعامات نظرآئے، کبھی ہم بھی ’’جنگ پزل‘‘ بَھراکرتےتھے، لیکن کبھی کوئی انعام نہیں نکلا۔ ’’سرچشمہ ہدایت‘‘ میں مدینہ منوّرہ کی تاریخ اور حال کا مطالعہ جاری ہے۔ ثقلین علی نقوی نے بہترین رپورٹ تیار کی، مزدور طبقے کی کہانیاں پڑھ کے دل غم سے بھرگیا۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں اگر منور مرزا نہ ہوں، تو بخدا ہمیں تو دنیا کی سیاست کی الف بے نہ پتا چلے۔ سرِورق اور’’اسٹائل‘‘ میں، مہمان سعدیہ احمد آپ کی خُوب صُورت تحریر کے ساتھ موجود تھیں۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ میں ڈاکٹر احمد حسن رانجھا نے ’’دہلی نامہ‘‘ کے ذریعے عرفان جاوید کے’’آدمی‘‘ کی کمی بہت اچھے انداز سے پوری کی۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں نظیر فاطمہ کی ’’افطارپارٹی‘‘ شان دار تھی۔
ڈاکٹر قمر عباس کی ’’فضل ربّانی‘‘ کا بھی جواب نہ تھا۔ گوشئہ برقی خطوط میں فہیم مقصود کا خط بہت پسند آیا۔ ہماری گزارش ہےکہ وہ آتی جاتی رہا کریں۔ اگلے جریدے کے ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں رائومحمّد شاہد اقبال، علاّمہ ذوالفقارنقش بندی اوراریبہ گل کے مضامین قابل تعریف ٹھہرے۔سرورق اورسینٹر اسپریڈ پرحسن ضیاء خان فیملی کی افطار پارٹی کا جواب نہ تھا، پھرآپ کی خُوب صُورت تحریر نے تو چار چاند لگا دیئے۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا نے بالکل ٹھیک لکھا کہ ہم ایک جذباتی قوم ہیں۔ چین، بھارت اور بنگلا دیش سب ترقی کررہے ہیں،بس ہم ہی پیچھے رہ گئے ہیں۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں مشروبات دیکھ کردل خوش ہوگیا۔ نائلہ ظفر، عظمیٰ رحیم،کرن انس،شہنازاورسدرہ آصف کابےحد شکریہ کہ روزہ داروں کے لیے اتنےعمدہ مشروبات عنایت کیے۔خالدہ سمیع، توعشرت جہاں کو ’’اِس ہفتے کی چٹھی‘‘ کا اعزاز ملنے ہی پربہت خوش تھیں، تو اب اپنی ’’اِس ہفتے کی چٹھی‘‘ پرکس قدر خوش ہوں گی، اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)
ج: چلیں، دیکھتے ہیں، یہ خوشی آپ کے حصّے کب آتی ہے۔
ہر تحریر مثالی ہوتی ہے
اپنی بیٹھک میں بیٹھا ہوں۔ مشرقی کھڑکی کُھلی ہےاور سورج کی سنہری کرنیں کمرے میں اپنے رنگ بکھیر رہی ہیں۔ مدینے جائوں، پھرآئوں، پھرآکے جائوں …عُمر اِسی میں تمام ہو جائے ۔ ’’مدینہ منورہ: قدیم سےجدید تک‘‘ کی اٹھارہویں قسط کا مطالعہ کیا، رُوح تک سرور پایا۔ بنتِ فردوسی نے نبی کریمﷺ کی لختِ جگر، حضرت فاطمۃ الزہرہؓ سے متعلق قلم آرائی کی۔ حرف حرف عقیدت ومحبّت سے معمورمحسوس ہوا۔ ’’بے رُوح روزے مطلوب نہیں‘‘ دردانہ رحمٰن کی پُراثر تحریر تھی ۔ ’’فعلِ قبیح، موذی مرض، جھوٹ‘‘ کو بھی موضوعِ سخن بنایا گیا ۔ منفرد انداز کے لکھاری، رائو محمّد شاہد اقبال کی ہر تحریر ہی مثالی ہوتی ہے۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں مُلک وملّت کی شیدائی، منور مرزا تُرکیہ میں صدارتی پارلیمانی انتخابات زیرِبحث لائے۔ ’’شرم و حیامیں حُسن ہے‘‘ آپ کی قلمی کاوش، پوری تحریر پڑھے بغیر صفحات نہیں پلٹنے دیتی۔
فاروق سرور سے وحید زہیر کی بات چیت زبردست رہی۔ ’’دہلی نامہ‘‘ میں ڈاکٹر احمد حسن رانجھا مولانا آزاد کے مقبرے پر آلتی پالتی مارے بیٹھے بہت بھلے لگے۔ جگر کے سرطان اور آئی بی ایس سے متعلق ڈاکٹر ایم عارف سکندری اور پروفیسر ڈاکٹر پرویز اشرف کے مضامین معلوماتی تھے۔’’پیاراگھر‘‘ کے تینوں شہ پارے دل کے قلم سے لکھے گئے۔ اور سیدھےدل میں اترے۔ نظیرفاطمہ ’’افطار پارٹی) ضبطِ تحریر میں خُوب لائیں، تو ڈاکٹر قمر عباس نے ’’فضلِ ربّانی‘‘ میں اُجلے موتے پروئے۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے تینوں و اقعات سبق آموز لگے۔ اختر سعیدی کا تبصرہ توجیسے باغ میں مہکتے پھول کِھلاتا چلا جاتا ہے اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں گلستانِ جوہر کی خالدہ سمیع نے کچھ ایسے جوہر دکھائے کہ اس بار صفحہ اُن ہی کے نام ہوا۔ بہت بہت مبارک ہو، میری طرف سے۔ نیز، آپ اورآپ کی ٹیم کی زبردست کاوشوں کو سلام۔ (ضیاء الحق قائم خانی، جھڈو، میرپورخاص)
ج: آپ اگر ’’سب اچھا اچھا‘‘ کے راگ کے ساتھ کچھ اصلاحی راگنیوں کا بھی اضافہ فرمالیں، تو خالدہ سمیع کو مبارکباد دینے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔
پتا کیسے چلے گا؟
بصدسلام عرض ہے کہ پہلی بار آپ کے پروگرام میں شرکت کررہا ہوں، مجھے مایوس نہ کرنا۔ بہت مہربانی ہوگی، اگر آپ میرے چند اشعار میگزین میں شائع کردیں۔ لیکن مجھے پتا کیسے چلے گا کہ میرے چند اشعار آپ نے شامل کرلیے ہیں یا تو آپ اپنے آفس کا نمبر دے دیں یا پھر میرے نمبر پر کال کرکے بتادیں۔ (عبدالحکیم)
ج: بڑی مہربانی، آپ نے ہمارے ’’پروگرام‘‘ کو شرکت کا اعزاز بخشا۔ جی تو چاہ رہا ہے کہ آپ کا نمبر بھی شائع کردیں تاکہ ہم تو کیا آپ کواشاعت کی اطلاع دیں گے، دیگر کئی جگہوں سےاطلاعات آنے لگیں گی۔اور’’چند اشعار‘‘تو اس قدرخُوب صُورت ہیں کہ آپ کو عُمر بھر پتا نہیں چلے گا کہ وہ درحقیقت گئے کہاں۔
نام، آخر میں کیوں…؟
طویل عُمر اور صحت و تن درستی کے لیے دُعاگو بزورِ قلم آپ کی خدمت میں حاضر ہے۔ قوی اُمید ہے کہ آپ بالکل خیریت سے ہوں گی ۔ 30؍ اپریل کا سنڈے میگزین پڑھا اور پہلی دفعہ آپ کو خط لکھنے پر مجبور ہوگیا۔ دراصل ڈاکٹراحمد حسن رانجھا کا ’’دہلی نامہ‘‘ پڑھ کر بہت ہی مزہ آیا، بالکل ایسا محسوس ہورہا تھا، جیسے ہم گھربیٹھےدہلی کا سفر کررہے ہیں۔ ’’مدینہ منوّرہ: عہدِ قدیم سے دورِ جدید تک‘‘ بھرپور معلوماتی سلسلہ ہے۔ ڈاکٹر امیرحسن کا مضمون لاجواب تھا۔ وحید زہیر کا انٹرویو بھی بہت پسند آیا۔
اُمید تھی کہ اپریل کے آخری شمارے میں مزدوروں کے عالمی دن کے حوالےسے کوئی تحریر شائع ہوگی، مگر ایسانہیں ہوا۔ البتہ، ارسلان خان کا مضمون ’’سادہ نکاح، وقت کی ضرورت‘‘ بہترین کاوش تھی۔ اسپیشل ایجوکیشن سے متعلق مضمون بھی جریدے کی جان تھا۔ آخر میں ایک شکایت کہ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ اور ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ سلسلے تو بہت اچھے ہیں، مگر اُن کےلکھاریوں کے نام آخر میں کیوں دیئےجاتے ہیں، باقی مضامین کی طرح آغازمیں کیوں نہیں۔ (اشوک کمار کولھی، گوٹھ جگراڑی، کوٹ غلام محمّد)
ج: اس لیے کہ اِن تحریروں پر، لکھاریوں سے کہیں زیادہ محنت ’’مرتّبین‘‘ کی ہوتی ہے۔ ان سلسلوں کے لیے موصول ہونے والی بیش تر تحریریں ری رائٹ کی جاتی ہیں، جیسا کہ آپ کا صفحہ کے خطوط بھی۔
بھیڑیئے سے نجات
ہمیشہ کی طرح اِس بار بھی دو ہی شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ شُکر ہے کہ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے صفحات مسلسل شائع ہو رہے ہیں۔ تُرکیہ میں صدارتی پارلیمانی انتخابات میں سخت ترین مقابلہ کیوں متوقع تھا۔ رجب طیب اردوان کے لیے تو لوگ ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے تھے، اُن کی فتح یقینی تھی۔ ’’بےرُوح روزے مطلوب نہیں‘‘بہترین تحریر تھی۔ ’’جھوٹ، فعلِ قبیح، موذی مرض‘‘ بھی ایک منفرد تحریرمعلوم ہوئی، لیکن اِس سے مکمل نجات ناممکن ہے۔ ہمارے یہاں تو ہر دُکان دار چیزیں فروخت کرتے جھوٹ بولتا ہے۔ موبائل پر بات کرتے اپنی لوکیشن غلط بتا کر جھوٹ بولا جاتا ہے۔ حضرات، اپنی بیگمات کوغلط تن خواہ بتا کر جھوٹ بولتے ہیں۔ خواتین اپنی عُمرغلط بتا کرجھوٹ بولتی ہیں۔غرض ہر طرف جھوٹ ہی جھوٹ ہے۔
اللہ پاک ہمیں ہدایت عطا فرمائے۔ یہ پڑھ کرجھٹکا سا لگا کہ ہم دنیا بھر میں جگر کے سرطان سے مر نے والوں میں چوتھے نمبرپر ہیں۔ ’’اپنی غربت کی کہانی ہم سنائیں کس طرح‘‘ پڑھ کر آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وکیل فاروق سرور اور سابق وزیرِ خزانہ ڈاکٹر مفتاح اسماعیل سے گفتگو شان دار رہی۔ ’’آئی ایم ایف کا سخت رویہ اور ہماری کم زور یاں‘‘ بے مثال تجزیہ تھا۔
ویسے اگر تمام سیاست دان اپنا دوسرے ممالک میں رکھا سارا سرمایہ واپس پاکستان لےآئیں، تو ہمیں اس آئی ایم ایف نامی بھیریئے سے نجات مل سکتی ہے۔ قرآنِ مجید کےمسلمانوں پر حقوق شان دار تحریر تھی۔ یہی حقوق پورے ہوجائیں، تو سارا معاشرہ مثالی معاشرہ بن جائے۔’’یادداشتیں‘‘ کے ذریعے ڈاکٹر جمیل جالبی سے متعلق جاننے کا موقع ملا اور میرا خط شائع فرمانے کا بہت بہت شکریہ۔ (پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار، بہاول نگر)
ج: ویسے ’’بھیڑیئے‘‘ سے نجات کی ایک اور بھی صُورت ہے، اگر ’’بھیڑیں‘‘ سرجُھکا کر ایک دوسرے کے پیچھے چلنے کے بجائے سراُٹھا کرچلنا سیکھ لیں۔
ایک بار پھر قسمت آزمائی
اپنی کئی ناقابلِ اشاعت کہانیوں سے مایوس ہوکرایک بارپھر قسمت آزمائی کررہا ہوں۔ اُمید ہے، اس دفعہ کے واقعات آپ کو پسند آئیں گےاورمعیار پر بھی پورے اُتریں گے۔ (سائیں تاج دین بٹ، عدیل ٹائون، بھائی والا، فیصل آباد)
ج:’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں اشاعت کا پیمانہ یک سرجدا ہے۔ واقعات کاسوفی صد درست، منفرد، پُراسرار، اوردل چسپ ہونا لازم ہے، جب کہ آپ عمومی طور پر روزمرّہ معمولات پر مبنی تحریریں بھی بھیج ڈالتے ہیں، جن میں ناقابلِ فراموش والی کوئی بات نہیں ہوتی، تو ایسی تحریروں کو ’’ناقابلِ اشاعت‘‘ کی فہرست میں نہ ڈالیں، تو کیا کریں۔
دو مضامین فہرست میں شامل نہیں
یہ بات دہرانے کی ضرورت ہے کہ ہم جنگ، سنڈے میگزین کا بہت شوق و ذوق سے مطالعہ کرتے ہیں اور اِس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم جو مضامین اور خطوط آپ کو لکھتے ہیں، تو یہ دیکھنا بھی ضروری ہوتا ہے کہ ہماری نگارشات کہیں ’’ناقابلِ اشاعت کی فہرست‘‘ میں تو نہیں آگئیں۔ بہرحال، ہمیں خُوشی ہے کہ ہمارے دو مضامین اب تک ناقابلِ اشاعت کی لسٹ میں شامل نہیں ہوئے۔ جب کہ پچھلے پانچ ماہ کی طویل مسافت میں کئی مضامین اس صف میں شامل ہوچُکے ہیں۔
آپ کی ہدایت کےمطابق ہم اپنی مضمون نگاری میں ’’تنوّع‘‘ لانے کی کوشش ضرور کررہے ہیں، لیکن بہرحال ایک استاد کی حیثیت سے ہمارا اصل موضوع ’’تعلیم‘‘ ہی ہے۔ کچھ مزید مضامین بھی تحریر کر رکھے ہیں، مگرجب تک پچھلے نہ چھپ جائیں، مزید بھیجنے سےاحتراز ہی کریں گے۔ میری طرف سے آپ کواور آپ کی پوری ٹیم کو دل کی گہرائی سے مبارک باد کہ آپ اس قدر محنت سے سنڈے میگزین کو دن بہ دن نکھاررہے ہیں، خصوصاً آپ کے خطوط کے جوابات کا کیا ہی کہنا۔ اُمید ہے کہ اِس خط کےجواب میں بھی کوئی نہ کوئی کرارا جواب ضرور آئے گا۔ (پروفیسر ڈاکٹر ظفر فاروقی، ایسوسی ایٹ پروفیسر، گورنمنٹ ڈگری بوائز کالج، نشتر روڈ، کراچی)
ج:آپ استاد کےرتبے پر فائز ہیں، خواہشات بھی اپنے رتبے کی مناسبت ہی سے ہونی چاہئیں۔ آپ بے شک کرارے جواب کی تمنّا رکھیں، لیکن ہمیں بہرحال آپ کا احترام مقدّم ہے۔ البتہ اتنا ضرور بتانا چاہتے ہیں کہ آپ جن دو تحریروں کی اشاعت کی اُمید لگائے بیٹھے ہیں، وہ دراصل ہمارے پاس موجود ہی نہیں۔ مُمکن ہے، سہواً نام ناقابلِ اشاعت کی فہرست میں شامل ہونے سے رہ گیا ہو۔
فی امان اللہ
اس ہفتے کی چٹھی
ربِ کریم کی ذات سے اُمید ہے، آپ اپنی تمام ٹیم کےساتھ بخیریت ہوں گی۔ بڑے دِنوں بعد آپ سے مخاطب ہوں، وجہ وہی گوں ناگوں مصروفیات، جنہوں نے کچھ اس طرح جکڑا کہ چاہنے کے باوجود آپ کی بزم میں حاضر نہ ہوسکی، لیکن اپنے پسندیدہ جریدے کا مطالعہ باقاعدگی سے کرتی رہی۔ بس، فرق اتنا تھا کہ پہلے خط لکھنے کے بعد، جو ہر ہفتے انتظار کاٹنا پڑتا تھا، اُس سے یک سر آزاد ہو کر ہر شمارہ وصول کیا۔ اِس صورتِ حال پر ایک رکشے کے پیچھے لکھا، ایک جملہ یاد آرہا ہے۔ ہے تو ذرا عامیانہ سا، مگر جب مَیں نے پہلی بار پڑھا تھا، تو بہت دیر تک سوچ کرہنستی رہی تھی اور اب بھی اکثر یاد آجاتا ہے کہ ’’نہ یار، نہ انتظار‘‘ ہا ہا ہا… اِس بار کسی ایک جریدے پراظہارِخیال نہیں کر سکتی، کیوں کہ جنوری سے لے کر اتنی ساری اچھی تحریریں پڑھنے کو ملی ہیں کہ اگر کسی ایک پر تبصرہ کیا، تو بہت کچھ رہ جائے گا اور یہ زیادتی ہوگی۔
سب سے پہلے تو سلام ہے، آپ اور آپ کی ٹیم کو کہ اتنی محنت اور عرق ریزی سے پورے سال کے حالات و واقعات کا خلاصہ لیے ایک بہترین ’’سال نامہ‘‘ تیار کرتے ہیں۔ پڑھ کے لگتا ہے،جیسے پورے سال کی فلم آنکھوں کےسامنے چل گئی ہےاوران سب تحریروں کے ماتھے کا جھومر ہوتا ہے، آپ کا تحریر کردہ ’’حرفِ آغاز‘‘۔ اس قدر عُمدہ تحریر کا بےحد شکریہ اور شکریہ تو آپ کا ایک اور بھی بنتا ہے، اتنی محبّت و اپنائیت اور اتنے اچھے الفاظ سے سال کی بہترین چٹھی میں ہماراذکر کرنے کا۔ چلیں، اب سب سے پہلے بات ہوجائے، مدینہ منورہ کے سفر کی، جو عہدِ قدیم سے دورِجدید تک اپنے ساتھ کروا رہے ہیں، بزرگوار محمود میاں نجمی۔
جس عرق ریزی سے وہ یہ تحریر باقاعدہ حوالہ جات کےساتھ رقم کررہے ہیں، اِس سے نہ صرف معلومات میں اضافہ ہورہاہے بلکہ دلی قلب و اطمینان بھی حاصل ہوتا ہے اور خراجِ تحسین تو میں رائو شاہد اقبال کوبھی پیش کرنا چاہوں گی کہ اب تک تو ہم اُنہیں ’’ڈیجیٹل دنیا‘‘ہی کاایکسپرٹ سمجھتے تھے، مگر گزشتہ چندمہینوں سے جس طرح انہوں نے متنوّع موضوعات پر بشمول دینی موضوعات، لکھنا شروع کیا ہے، ہمیں اپنا فین کرلیا ہے۔ خصوصاً رمضان المبارک میں شائع ہونے والے اُن کے مضامین بہت جامع اورعام فہم تھے اور یوں انہوں نےخُود کو ’’آل رائونڈر‘‘ منوالیا۔
شفق رفیع کا سنڈے اسپیشل ’’ایک مُلک، دو قطاریں‘‘ آپ اور مجھ جیسے ہر محب وطن پاکستانی کے دل کی آواز تھا۔ حب الوطنی کے جذبے سے سرشار اُن تمام پاکستانیوں کی آواز کہ جو لاکھ آلام و مصائب کے باوجود اپنے وطن کی محبّت دل سے نہیں نکال سکتے۔ سچ ہے کہ غریب اور مڈل کلاس کے ہر شخص کواِس وقت فکر ہے تو صرف عزت و آبرو کے ساتھ اپنے کنبے کو دو وقت کی روٹی کھلانے کی، جب کہ حُکم رانوں کوصرف اورصرف اپنی فکر ہے بلکہ میں تو کہوں گی،یہ اقتدارکا کھیل ایک شیطانی چکّر ہے، جس کا عوام سے کوئی لینا دینا نہیں۔ اب اللہ تعالی ہی اِس مُلک کی ڈوبتی کشتی کو کسی کنارے لگائے، ہم تو بس دُعا ہی کرسکتے ہیں۔ ہاں، ایک کام ہم ’’عوام‘‘ کرسکتے ہیں کہ خلوصِ نیّت اور دیانت داری سے ہر شخص اپنا کام کرے۔ ہاں، ایک بات اور یہ ’’آپ کے صفحہ‘‘ہم سب کا پسندیدہ صفحہ ہے، اِسے کبھی بند کرنے سے متعلق سوچیے گا بھی نہیں۔ (ڈاکٹر تبسّم سلیم، خیرپورمیرس)
ج:ہم تو نہیں سوچ رہے، لیکن اخباری صنعت کا جو حال ہے (آپ کے شاید علم میں نہیں کہ کئی اخبارات نے اپنے سنڈے میگزینز بند کر دیئے ہیں) تو آپ کسی بھی وقت، کسی بھی خبر کے لیے تیار رہیے۔
گوشہ برقی خطوط
* آپ زیادہ تر وہ تحریریں شاملِ اشاعت کرتی ہیں، جو کمپیوٹرائزڈ ایڈٹ ہو کر آپ کے پاس آتی ہیں یا ہاتھ سے لکھی ہوئی ہوتی ہیں۔ مَیں نے پہلے ایک تحریرکاغذ پر قلم سے لکھ کربھیجی تھی، مگر شائع نہیں ہوئی، تو آج اپنی دو نظمیں کمپیوٹر سے ایڈٹ کرکے بھیج رہا ہوں۔ اُمید ہے، یہ شائع کردی جائیں گی۔ (انجینئر محمد فاروق جان، اسلام آباد)
ج: کہنا کیا چاہتے ہو بھائی! 10بار ای میل پڑھی ہے، ہر بار سر سے گزر گئی۔ کمپیوٹرائزڈ ایڈٹڈ یا ہاتھ سے لکھی ہرگز ہمارا کرائی ٹیریا نہیں ہے۔ تحریر کا قابلِ اشاعت ہونا شرط ہے اور شاعری سے متعلق کتنی بار گوش گزار کریں کہ ہر ایک کے بس کا روگ نہیں۔ ہم تو خُود ایک شعر کہنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ یہ جس کا کام ہے، اُسے ہی جچتا ہے۔ بات یہ ہے کہ ہمیں تو شعر و شاعری کے نام پر جو کچھ بھی وصول پاتا ہے، ہم بنڈل بنا کر اختر سعیدی صاحب کے سپرد کردیتے ہیں۔ اب جسے وہ شعر و شاعری مانیں، وہ شعر و شاعری ہے۔ نہیں، تو نام ناقابلِ اشاعت کی فہرست میں ڈال دیا جاتا ہے۔
* 4 جون سے قبل میری تحریروں سے متعلق بتایا گیا کہ وہ باری آنے پر شائع کردی جائیں گی۔ بعدازاں، اطلاع دی گئی کہ تحریریں قابلِ اشاعت نہیں ہیں۔ آپ کو شاید اندازہ نہیں کہ کسی لکھنے والے کے لیے یہ الفاظ ’’ناقابلِ اشاعت‘‘ کس قدر تکلیف دہ ہیں۔ مَیں نے اپنی تینوں تحریریں بہت ہی محنت سے لکھی تھیں۔ (ڈاکٹرشاہ جہاں کھتری، لکھنئو سوسائٹی، کورنگی، کراچی)
ج:ڈاکٹر صاحب! ہم اس سے قبل آپ کی کچھ تحریریں شامل بھی کرچُکے ہیں۔ پہلے باری آنے کا اِس لیے کہا گیا کہ تب تک تحریریں جانچی نہیں گئی تھیں۔ بعدازاں، ناقابلِ اشاعت کا اِس لیے بتایا کہ پڑھنے کے بعد اندازہ ہوا کہ اشاعت ممکن نہیں اور غالباً آپ کو بھی قطعاً اندازہ نہیں کہ ایک ناقابلِ اشاعت تحریر کولائقِ اشاعت بنانا کس قدرجان جوکھم کا کام ہے، اگراندازہ ہوتا تو آپ اب تک پچھلی تحریروں کی اشاعت ہی کا شکریہ ادا کررہے ہوتے۔
قارئینِ کرام !
ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk