السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
اسیرانِ جنگ اخبار
جنگ، سنڈے میگزین ایک زبردست میگزین ہے، جیسے ہماری خالص تہذیب و ثقافت، ہماری پرانی فلمیں، پرانی موسیقی(کہ آج بھی جدید میوزک، پرانےراگ رنگ کے سامنے ماند ہے) اور ماضی کی کئی روایات و اقدار سدا بہار ہیں۔ اِسی طرح ’’جنگ اخبار‘‘ بھی ایک قیمتی اثاثہ ہے۔ ہم نے جب ہوش سنبھالا، تو ہرہرجگہ ’’جنگ اخبار‘‘ ہی دیکھا۔ کراچی کا یہ اخبار بذریعہ ٹرین 555میل کا سفرکرکےجب ہمیں ملتا، توباسی ہوچکا ہوتا۔ یعنی جواخبارکراچی والےمنگل کو پڑھتے، ہمیں بدھ کوملتا۔ لیکن بہاول پوراور گرد و نواح کے لوگ اِسی کے رسیا تھے، جس کی بڑی وجہ جنگ کے عُمدہ ایڈیشنزاور ٹارزن کی پُرتجسس و پُر تحیّرکہانی تھی۔ اخبار بھی اتنا بڑاہوتا کہ سُسراُسےپھیلا کے پڑھنے بیٹھتے، تو پیچھے بیٹا اور بہو چُھپ جاتے۔
ہمارے محلے کی مین گلی کی نکڑ پرغلام سروررند بلوچ کا چائے پانی، دودھ دہی کا ہوٹل تھا، وہاں جنگ اخبار ہی آتا۔ جوں ہی ہاکر اخبار دیتا، رند صاحب سب کام چھوڑ کے صافی سے گیلے ہاتھ پونچھتے اور فوراً اخباربغل میں دبا لیتے کہ مباداکوئی گاہک نہ اٹھالے۔ اُس کےبعداندرونی صفحہ، جس پرٹارزن کی کہانی اور پیچھے اطہر نفیس کاکالم وغیرہ ہوتا، نکال کےباقی اخبار کسی گاہک کو دے کے کہتے۔ ’’لو جی، مَن مائو جی۔ خُود کمائو، خُود ہی کھائو جی۔ ہم نے تولسّی کے مٹکے سے مکھن نکال لیا ہے۔‘‘ مطلب، آپ سارا اخبار یعنی لسّی پیئں اور ہم ٹارزن کی کہانی (مکھن) کھاتے ہیں۔
بلاشبہ ٹارزن کی کہانی تجسّس و دل چسپی سے بھرپور ہوتی اور’’جنگ‘‘ نے ٹارزن کو متعارف کرواکے چھوٹے موٹے کئی پبلشرز کا کام ٹھپ کردیا تھا۔ آہ، وہ دَور بھی کیا دَور تھا،اب تو سب کچھ ماضی بن کے خاکسترہوا،لیکن شائقین آج بھی جنگ اخبار کےدل دادہ ہیں۔ بےشمارروایات معدم ہوئیں، مگر ’’سنڈے میگزین‘‘ آج بھی بہت حد تک جنگ کی دیرینہ میراث کو سنبھالے ہوئے ہے۔ اس جریدے سے متعلق بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ اِس نے اپنی اشاعتِ اوّل سے آج تک معیار پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا۔ (بشیر احمد بھٹی، فوجی بستی عربی، بہاول پور)
ج: آپ نے تو ہمارے ہوش سے بھی پہلے کی باتیں چھیڑ دیں۔ وہ کیا ہے کہ ؎ یادِ ماضی عذاب ہے یارب۔ اب تو پرنٹ میڈیا کے چل چلائو کا دَور ہے کہ سوشل میڈیا کے گند میں ہاتھ دھونے والوں کو صاف و شفّاف صحافت کی ضرورت ہے اور نہ ہی قدر۔ بس، کچھ آپ جیسے چند ایک ہی رہ گئے ہیں، جو شان دار ماضی کےگواہ اور حال کے قدر شناس ہے۔ وگرنہ تو ہنگام فطرت، عاشقانِ چیخ دھاڑ ہی کا دور دورہ ہے۔
ایک رُوح پرور مضمون
اُمید ہے، آپ اورآپ کی ٹیم خیریت سے ہوگی۔ تبصرے کا آغاز ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ سے کرتی ہوں، جس میں مختلف سلسلوں کے ذریعے مفید معلومات فراہم کی جارہی ہیں۔ مکّہ مکرمہ اور مدینہ منوّرہ سے متعلق پڑھ کرتو ہم خُود کواُسی مقدس سرزمین پر محسوس کرتے ہیں۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں ’’بے رُوح روزے‘‘ ایک رُوح پرور مضمون تھا، جس نے آخرت کی تیاری میں اچھی رہنمائی کی۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں جھوٹ سے متعلق پڑھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ ہم تو جھوٹ کو معمولی سا گناہ سمجھ کرکوئی اہمیت ہی نہیں دیتے لیکن رائو شاہد نے مثالوں سے بہترین تعلیم و تربیت فراہم کی۔ ڈاکٹر احمد حسن رانجھا کا ’’دہلی نامہ‘‘ بھی معلومات میں خُوب اضافے کا سبب ہے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں ’’افطار پارٹی‘‘ ہمارے معاشرے کی کہانی تھی۔ ’’دردوشریف کی فضلیت‘‘ بھی بہت پیارا مضمون لگا اور آخر میں ایک بات، سرورق کے بارے میں کہ سرورق پر ہمیشہ لڑکیوں کی تصویریں ہی کیوں شائع کی جاتی ہیں، کیا کبھی کسی خُوب صُورت منظر، کسی تاریخی عمارت وغیرہ کی تصویر نہیں چھاپی جاسکتی۔
ج: مسز منصور! آپ کی شکایت بجا ہے مگر ہم اس ضمن میں بارہا وضاحت کر چُکے ہیں کہ جریدے کے فارمیٹ سے متعلق کچھ فیصلے انتظامیہ کی طرف سے طے شدہ ہیں، جن میں کسی تبدیلی یا ترمیم کےہم قطعاً مجازنہیں اورسرورق، سینٹراسپریڈ کی ماڈلنگ بھی ایک ایسا ہی فیصلہ ہے۔
پاکستان کے سچّے عاشق
آپ اور آپ کی ٹیم کی خدمت میں آداب، ویسے تو بے شمار رسائل و اخبارات مُلکی حالات و واقعات سے عوام کو آگاہی دیتے ہیں مگر جنگ، میگزین کا اپنا منفرد ہی انداز ہے، خصوصاً مکّہ مکرمہ اورمدینہ منورہ کے حوالے سے آگاہی فراہم کرکے جس طرح ایمان تازہ کیا جارہا ہے، اُس کا توکوئی مول ہی نہیں۔ منورمرزاپاکستان کے سچّے عاشق ہیں۔ وہ جس قدرمُلکی حالات کے لیے پریشان رہتے ہیں اور جتنی عُمدہ تجاویز وغیرہ دیتے ہیں، اُن کا بھی کوئی ثانی نہیں۔ بلاشبہ وہ ایک محبِ وطن پاکستانی ہیں۔ رائو محمّد شاہد، کلام الٰہی کے مسلمانوں پرحقوق کی بات کررہے تھے اور بہت ہی اعلیٰ انداز میں اور ہاں، شاعروں کے ساتھ آپ جو فیاضی برتتی ہیں بخدا، وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ ایک سے ایک کلام چھان کر لاتی ہیں۔ منور راجپوت، مفتاح اسماعیل سے محوِ گفتگو تھے، بے حد شکریہ اور ’’دہلی نامہ‘‘ میں ڈاکٹر رانجھا نے نئی نسل کی اپنےآباؤ اجداد سے ملاقات کروادی، یہ بھی کمال ہی ہے۔ (شمائلہ نیاز، ڈویژن دین پناہ، تحصیل و ضلع کوٹ ادّو)
ج: بے شک، منور مرزا کی حب الوطنی اور پاکستان سے سچّا عشق کسی بھی شک و شبےسےبالاترہے۔ وہ ایک طویل عرصے سے بلا معاوضہ اور بےحد دل جمعی وعرق ریزی سے عالمی و مُلکی حالات و واقعات کے ضمن میں بہت ہی ٹھوس دلائل کے ساتھ انتہائی شان دار تجزیات پیش کررہے ہیں۔ اللہ اُن کو اس محنتِ شاقّہ کا اجرِ عظیم عطا فرمائے۔
میری باری کیوں نہیں آتی؟
اُمید ہے، مزاج بخیر ہوں گے۔ 5فروری کے بعد سے اب تک3مہینے گزر گئے۔ آپ نے میری کوئی تحریر شائع نہیں کی، نہ کوئی غزل، نہ دُعا اور نہ رمضان فضائل وغیرہ۔ 7اپریل کو ایک کہانی اور شب قدر کے فضائل پر ایک خوب صورت تحریر بھی بھیجی تھی۔ پھرآپ کہتی ہیں، آپ بھیجو تو سہی، ہم باری آنے پر شائع کردیں گے۔ دوسروں کی باری آجاتی ہے، تومیری کیوں نہیں۔ سچ ہے، پاکستان میں کسی کی حکمت و قابلیت کی کوئی قدر نہیں۔ بہت رنجیدگی اور مایوسی کی کیفیت میں آپ کو یہ لیٹر بھیج رہا ہوں۔ اگر بے اعتنائی کا یہی سلسلہ رہا، تو اِس کے بعد کچھ نہیں بھیجوں گا۔ (ایم اے ہاشمی آف گلگت، سولجر بازار، کراچی)
ج: محترم! یہ باری آنے پرتحریر کی اشاعت کا وعدہ، صرف قابلِ اشاعت تحریروں کے لیے ہے، نہ کہ ہر تحریر کے لیے۔ آپ کی اب تک جو چند ایک تحریریں شایع بھی کی گئی ہیں، وہ بھی تقریباً ری رائٹ ہی ہوئیں، اورشاعری تو سِرے سےآپ کا میدان ہے ہی نہیں۔ حکمت و قابلیت کی پاکستان سمیت ہرجگہ بہت قدر ہے، بشرطیکہ کوئی رکھتا تو ہو۔
صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا
’’سنڈے میگزین‘‘ اپنی بہترین، منفرد نگارشات کے سبب ہر ہفتے ہی ہم سب کا دل جیت لیتا ہے۔ یقین کریں، کوئی سلسلہ ایسا نہیں، جس سے صرف نظر کیا جا سکے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ سےلے کر خطوط کی محفل تک سب ہی صفحات سے خُوب خُوب مستفید ہوتے ہیں۔ (شری مرلی چند جی گوپی چند گھوکلیہ، شکارپور)
ہزاروں نےحوصلہ افزائی کی
کچھ عرصہ قبل’’سنڈے میگزین‘‘ میں بندے کی ایک تحریر’’عجائباتِ عالم‘‘ کے نام سے شائع ہوئی، جسے مَیں نےاپنی فیس بُک آئی ڈی پرشیئرکیا، تو ہزاروں دوستوں نےبندے کی خُوب حوصلہ افزائی فرمائی اور بے حد پسندیدگی کا اظہار کیا۔ پھر9 اپریل2023ء کو شائع ہونے والے جریدے کے ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں رونق افروز برقی کا خط شائع ہوا، توانہوں نے بھی بندے کی تحریر کو خُوب سراہا۔ اب ’’کچھ مزید عجائباتِ عالم‘‘ کے عنوان سے ایک تحریر ارسال کررہا ہوں۔ اُمید ہے کہ یہ بھی شائع کرکے بندے کی حوصلہ افزائی فرمائیں گی۔ (بابر سلیم خان، لاہور)
ج:سوال تو یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ آخر ’’بندے‘‘ کی تحریر آپ نے اپنی فیس بُک آئی ڈی پر کیوں شیئرکی؟؟ ہا ہا ہا…مذاق برطرف، آپ کی جو بھی تحریر قابلِ اشاعت ہوگی، آپ کے بناء کہے بھی شایع کردی جائےگی،وگرنہ ’’ناقابلِ اشاعت کی فہرست‘‘ میں تو نام مستقل جگہ بنا ہی رہا ہے۔
سیاست دان بغور مطالعہ کریں
’’حالات و واقعات‘‘ کے صفحات میں منور مرزا مستقلاً ہی چھائے ہوئے ہیں۔ مُلک کے حُکم رانوں اوردیگرسیاست دانوں کے خُوب ہی لتّے لیتے ہیں اور اِس بار تو کیا بہترین انداز سے جھاڑا کہ ’’اب بھی نہ سُدھرے تو یوں ہی کشکول اٹھائے پھروگے۔‘‘ اے کاش! ہمارے یہ حُکم ران اور سیاست دان سنڈے میگزین ہی کا بغور مطالعہ کرلیا کریں، تو مُلک کانقشہ ہی بدل جائے۔’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں مدینہ منوّرہ کا ماضی و حال بیان کیا جا رہا ہے، ہراگلی قسط کا شدت سےانتظار رہتا ہے۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘میں پروفیسرڈاکٹر سہیل اختراورڈاکٹرمدیحہ بلال صدیقی نے ٹی بی کو سو فی صد قابلِ علاج مرض قرار دیا۔ ’’جہانِ دیگر‘‘میں ڈاکٹراحمدحسن رانجھا نے پورے دہلی کی سیر کروا کر ہی دَم لیا۔ ’’متفرق‘‘ میں اسرار ایوبی طامس باٹا سے متعلق بہترین مضمون لائے۔
اگلے جریدے کے ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں حافظ محمّد ثانی نے رمضان سے متعلق شان دار ہدایات تحریر فرمائیں۔ شبانہ ایاز’’ترکیہ کی شہریت اب آسان نہیں‘‘ کے موضوع پر رقم طراز تھیں۔ راؤ محمّد شاہد اقبال نے زکوٰۃ کے معنی و مفہوم سے تفصیلی طور پرآگاہ کیا۔ جب کہ حالات و واقعات میں منور مرزا نے ایک بار پھر پاکستان کے سیاسی و معاشی حالات اورعالمی تبدیلیوں کی طرف توجّہ مبذول کروائی۔ ’’انٹرویو‘‘ میں عمارّہ ارشد نے چائلڈ پروٹیکشن بیورو پنجاب کی چیئر پرسن، سارہ احمد سے اچھی معلومات حاصل کیں۔ ’’متفرق‘‘ میں ابن الساعاتی کی متعلق بہترین معلومات فراہم کی گئیں، تو نیناں اکبر’’نماز کیسے پڑھنی چاہیے؟‘‘ قرآنِ مجید اوراحادیث مبارکہﷺ کی روشنی میں تفصیل سےبتارہی تھیں۔’’پیارا گھر‘‘کے لیے اقصیٰ منور نے امانت کی اقسام اور حفاظت کا موضوع منتخب کیا، تو ڈاکٹرعزیزہ انجم رمضان اور تزکیۂ نفس کا ذکر لائیں، جب کہ شہدائے گیاری کے نام م۔ ح۔ سحاب نے بھی بہت ہی اچھی نظم تحریر کی۔ (سیّد زاہد علی، شاہ فیصل کالونی، کراچی)
ہاتھ، چہرہ مسخ کیوں؟
طویل عرصے سے جنگ، سنڈے میگزین کا قاری ہوں۔ آج خط لکھنے کی ضرورت یوں محسوس ہوئی کہ میرے ہاتھوں میں جو جریدہ ہے، اُس میں ایک مضمون، بعنوان ’’رمضان:چار ہفتوں کا بہترین تربیتی کیمپ‘‘ شائع ہوا۔ مضمون کے ساتھ ایک باپردہ عورت کی ، تلاوتِ قرآنِ پاک کرتے تصویر لگائی گئی ہے، لیکن عورت کا چہرہ اور ہاتھ دونوں مسخ شدہ ہیں، تو کیا آپ مجھے اِس کی وجہ بتاسکتی ہیں کہ ایک باپردہ کی ایسی حالت کیوں کی گئی، اُس کامکمل چہرہ اور ہاتھ دِکھانے میں کیا حرج تھا، جواب کا منتظر۔ (ملک محمد نواز تھہیم، سرگودھا)
ج: سیریسلی…آپ نے اِسی سوال کے لیے یہ خط لکھنے کی زحمت اُٹھائی ہے۔ بخدا، جب ہم ایسی تحریریں پڑھتے ہیں، تو 75؍ برسوں میں اِس قوم کی ترقیٔ معکوس پر ہونے والی ساری حیرت اور افسوس جاتا رہتا ہے۔ ارے بھئی، دینی و اسلامی تحریروں کے ساتھ اس طرح کے Blur (دھندلے) اسکیچز، فیس لیس پورٹریٹس (Illustrations)ارادتاً لگائے جاتے ہیں تاکہ تحریر کا تقدّس و احترام مجروح نہ ہو۔
فی امان اللہ
اس ہفتے کی چٹھی
سرِورق پر ماڈل کے سراپا قبائے عید کو دیکھتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں۔’’مدینہ منورہ:عہدِ قدیم سے دورِ جدید‘‘ کے احوال سے رُوح کو شاد کیا۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں ارسلان اللہ خان سادہ اورآسان نکاح کی ضرورت و اہمیت بتا رہے تھے۔ بے شک، اسلام نے تو سادہ، آسان نکاح ہی کا درس دیا ہے، یہ نام و نمود، دکھاوا تو ہمارے اپنے ذہنوں کی اختراع ہے اور دولت مندوں کے اس قبیح مشغلے سےغریبوں کی بیٹیاں دہلیز پر بیٹھی بوڑھی ہو رہی ہیں۔ آپ لوگوں نے ایک گممبھیر معاشرتی مسئلے کی نشان دہی کی۔ ’’ہمارے ادارے‘‘ سلسلےمیں فرّخ شہزاد کوئٹہ کے قدیم ہائر سیکنڈری اسکول کےپرنسپل سے گفتگو کررہے تھے۔ حسبِ توقع انہوں نے بھی حُکم رانوں کی بے حِسی کا رونا رویا۔
دراصل تعلیم اور صحت ہمارے حُکم رانوں کی کبھی ترجیح رہے ہی نہیں۔ دوسرے ممالک اپنی جی ڈی پی کا بڑا حصّہ اِن شعبوں پرخرچ کرتےہیں، لیکن ہمیں تو تعلیم یافتہ لوگ چاہیے ہی نہیں کہ خواندگی بڑھ گئی تو پھر ذہنی غلام کہاں سے ملیں گے، جب کہ ہمارے یہاں کے تو تعلیم یافتہ بھی نِرے جاہل ہیں۔ ایک پڑھے لکھے لاڈلے کی ضد ہے کہ بس اقتدار مجھے دو، ورنہ سب تہس نہس کردوں گا۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر امیرحسن دانتوں کو صحت مند رکھنے کی تدابیر بتا رہے تھے۔ ’’انٹرویو‘‘ میں بلوچستان کے سیکریٹری اطلاعات، حمزہ شفقات سے عُمدہ بات چیت کی گئی۔ یہ پڑھ کے بے حد اطمینان ہوا کہ بلوچستان کا جوچہرہ دکھایا جاتا ہے، حالات اُس کے برعکس اطمینان بخش ہیں۔ اب یہ توحکومت کا کام ہے کہ منفی تاثر پھیلانے والوں کی سختی سے روک تھام کرے۔
ویسے بھارت یہ کام اپنے مٹّھی بھر ایجنٹوں سے لےر ہا ہے ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا ’’سعودی، ایران معاہدے‘‘ کے خطّے پر اثرات کا جائزہ لے رہے تھے۔ بے حد خُوشی کی بات ہے کہ ہمارے دو برادر ممالک دشمنی چھوڑ کر دوستی کے بندھن میں بندھ گئے۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں عید کی مناسبت سے دل آویز پیراہنوں کا انتخاب کیا گیا۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ میں ڈاکٹر احمد حسن ر انجھا بڑی شگفتہ بیانی، شیریں سخنی کےساتھ دہلی کی سیرکرواتے دکھائی دیئے۔ نئی کتابوں پرمنور راجپوت نے ماہرانہ تبصرہ کیا۔ ایسا ماہرانہ کہ قارئین کتاب خریدنے پر مجبور ہوجائیں۔ یہ خُوبی کم مبصّرین میں ہوتی ہے، مگر آپ کے مبصّرین میں بدرجۂ اتم پائی جاتی ہے اور اب آ پہنچے ہیں، اپنے باغ و بہار صفحے پر۔ ضیاء الحق قائم خانی کی چٹھی کو اعزاز سےنوازاگیا تو بھئی، جھڈو تو ہمارے ضلعےکاشہرہے، اس لیے دلی خُوشی ہوئی۔ (شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی، میرپورخاص)
ج: اب آج خُوشی کاکیاعالم ہے کہ آج ضلعے کا نہیں، اپنا ہی شہر جگمگا رہا ہے۔
گوشہ برقی خطوط
* ہمارے زمانے میں بورڈ کی کاپیز کے ساتھ تین، چار صفحات کے سپلیمینٹری پیپرز ہوا کرتے تھے، اِن دنوں آپ کے جریدے کا بھی وہی حال ہوگیا ہے۔ حالاں کہ ہمارے خیال میں تو یہ ایک شان دار میگزین ہے، جس کی اچھی خاصی ریڈر شپ ہے، تو پھر اس کا ایسا حال کیوں کر دیا ہے۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ ہی کو دیکھ لیں، کتنا زیادہ پڑھا جاتا ہے۔ (صاعقہ سبحان)
ج: صاعقہ! پرنٹ میڈیا پر جو افتاد آئی ہوئی ہے، غالباً آپ لوگوں کو اُس کا اندازہ ہی نہیں ہے۔ نیوز پرنٹ حددرجہ مہنگا ہوگیا ہے اور کوئی بھی اخبار اپنی لاگت کے اخراجات بھی پورے نہیں کر پا رہا۔ نتیجتاً انڈسٹری بند ہو رہی ہے۔ یوں سمجھیں، مجموعی طور پر جو مُلکی معیشت اور سیاست کا حال ہے، وہی مختلف اداروں کا بھی حال ہے۔ ہم تو جیسے تیسے ابھی تک سروائیو کرہی رہے ہیں۔ باقی اخبارات نے تو اپنے سنڈے میگزین کب سے آن لائن شفٹ کردیئے ہیں اور ہمارے لیے بھی کب یہ حکم نامہ جاری ہوجائے، کہہ نہیں سکتے۔
* مجھے سنڈے میگزین بہت ہی پسند ہے۔ ایک طویل عرصے سے خواہش ہے کہ جریدے میں آپ کا انٹرویو بھی پڑھوں۔ میری یہ خواہش کب پوری ہوگی۔ (افشاں حسن، مصطفیٰ ٹاؤن، لاہور)
ج: شاید کبھی نہیں کہ ہم ایسا کوئی شوق اور ارادہ قطعاً نہیں رکھتے۔
* آپ کے ’’عیدالفطر ایڈیشن‘‘ کا جواب نہ تھا۔ تمام تر مضامین، نظمیں، پکوان اور پیاروں کے نام پیغامات دل میں اُتر گئے۔ خاص طور پر ’’ایک پیغام‘‘ صفحے پر اگر ہمارا پیغام بھی شامل ہو، تو صفحے کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ پرعید شُوٹ اورساتھ آپ کی من موہنی تحریر نے تو دل ہی جیت لیا۔ (فوزیہ ناہید سیال، لاہور)
ج: چار چاند کچھ تھوڑے نہیں ہیں…؟؟ آپ نے شاید غور سے نہیں دیکھا، ایک آدھ سورج بھی لگا ہوگا۔
قارئینِ کرام !
ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk