مصنّف: ندیم واحد صدیقی
صفحات: 176 ، قیمت: 800روپے
ناشر: احمد پبلی کیشنز، 2-Aسیّد پلازا، چیٹرجی روڈ، اردو بازار، لاہور۔
فون نمبر: 4110460 - 0322
زیرِ نظر کتاب کے مصنّف گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے، تعلیمی مراحل لاہور میں طے کیے، پنجاب یونی ورسٹی سے صحافت میں ماسٹرز کے بعد شعبہ تعلقاتِ عامّہ میں بطور ڈسٹرکٹ انفارمیشن آفیسر، راول پنڈی میں تقرّری ہوئی، بعد ازاں ریڈیو پاکستان کی سینٹرل نیوز آرگنائزیشن سے بحیثیت ایڈیٹر وابستہ ہوگئے۔ لکھنا لکھانا اُن کا شوق ہے اور اب تک ان کی کہانیوں کے چار مجموعے اور ایک خود نوشت شائع ہوچُکی ہے۔ موصوف کی زندگی بہت اچھی گزر رہی تھی کہ 2022ء کے اوائل میں اُنہیں کینسر جیسے موذی مرض نے اپنی گرفت میں لے لیا۔’’ اسٹیج فور‘‘ کے کینسر سے وہ کس طرح نبرد آزما ہوئے، زیرِ نظر کتاب اُن ہی کٹھن اور صبر آزما دِنوں کی رُوداد پر مشتمل ہے۔
جب کسی شخص کو معلوم ہوجائے کہ وہ کینسر میں مبتلا ہے، تو مایوسیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں چلا جاتا ہے، جہاں موت اس کی منتظر ہوتی ہے، لیکن ندیم واحد صدیقی کی پوری کتاب میں کوئی جملہ ایسا نظر نہیں آیا، جس میں مایوسی اور بے یقینی کی کیفیت پائی جاتی ہو۔ اس سے مصنّف کے حوصلے، ہمّت اور اللہ تعالیٰ کی ذات پر غیر متزلزل یقین کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اُنہوں نے بیماری کے باوجود اپنی خود نوشت نہ صرف لکھی، بلکہ شائع بھی کروائی۔
اُن کی تحریر کا ایک اقتباس پیشِ خدمت ہے’’مَیں مرنے سے نہیں ڈرتا۔موت جب بھی آئے تیار ہوں، لیکن اب جب کہ مجھے بتا دیا گیا ہے کہ میرا مرض لاعلاج ہے، تب بھی ذرا نہیں ڈرا، بڑی ہمّت سے سامنا کیا ہے۔ مجھے زندگی سے پیار ہے اور مَیں نے اس کی تمام تر خُوب صُورتی کو کشید کیا ہے۔ ہر روز نئے دن کو خوش آمدید کہا اور رات پڑنے پر شُکریہ کہہ کر سوگیا۔ مجھے معلوم ہے کہ خدا حافظ کہنے کا وقت بہت نزدیک ہے، لیکن مَیں مرنا نہیں چاہتا۔ مجھے یقین ہے کہ معجزے اب بھی ہوتے ہیں۔‘‘ کاش! کوئی کرامت ہوجائے، اللہ رحم کرنے والا ہے۔