شاعر: قدیر صدیقی
صفحات: 324، قیمت: 1100روپے
ناشر: جہانِ حمد پبلی کیشنز، نوشین سینٹر، 2/19 اردو بازار، کراچی۔
فون نمبر: 2278878 - 0343
سرزمینِ بدایوں ہر دور میں گہوارۂ علم و ادب رہی ہے۔ اس مردم خیز خطّے نے نابغۂ روزگار علمی و ادبی شخصیات کو جنم دیا۔ زیرِ نظر مجموعۂ کلام قدیر صدیقی کے سعادت مند بیٹے، احسن قدیر کی عقیدت کا مظہر ہے۔ قدیر صدیقی کو شاعری وَرثے میں ملی کہ اُن کے دادا عبدالجامع جامی بدایونی قادر الکلام شاعر تھے اور اُن کا شمار اساتذہ میں ہوتا تھا۔پھر والد، عبدالنافع کیفی بدایونی بھی شاعر تھے۔ زیرِ نظر مجموعے میں دو حمدیں، 28نعتیں، چھے سلام بحضور امامِ عالی مقامؓ، 76غزلیں، 7نظمیں اور گیارہ قطعاتِ تاریخ شامل ہیں۔ کتاب کا ابتدائیہ احسن قدیر نے بہت تفصیل سے تحریر کیا ہے، جس میں اُنہوں نے بہت معلومات فراہم کی ہیں۔
قدیر صدیقی کے خاندانی پس منظر سے آگاہی کے لیے یہ مضمون ایک دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری، پروفیسر سحر انصاری اور طاہر سلطانی کے مضامین سے بھی کتاب کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ قدیر صدیقی بنیادی طور پر غزل کے شاعر تھے اور اُن کی غزل روایتی ہے، لیکن لہجے میں نیا طرزِ احساس نمایاں ہے،جب کہ نعتیہ شاعری حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیدت و محبّت کی مظہر ہے۔
پھر جوش ملیح آبادی، فراق گورکھپوری، احمد ندیم قاسمی، احسان دانش، حسّام الدین راشدی، جام نوائی بدایونی، مولانا ضیاء علی خان اشرفی بدایونی اور نیاز بدایونی پر اُن کے قطعاتِ تاریخ بھی اُنھیں دوسروں سے ممتاز کرتے ہیں اور پروفیسر سحر انصاری کی یہ سطور تو سند کا درجہ رکھتی ہیں کہ’’ قدیر صدیقی ایک وسیع المطالعہ انسان تھے، اُنہیں فارسی شعراء کے مطالعے سے خاص دل چسپی تھی، اسی لیے فارسی کے اسلوب کا اثر اُن کی اپنی شاعری میں بھی نمایاں ہے۔‘‘