• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نواسۂ رسولؐ، حضرت امام حسینؓ نے 61 ہجری میں اپنے 72جاں نثاروں کے ساتھ کربلا کی تپتی سرزمین پر اسلام کی سربلندی اور حق و صداقت کی بقا کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے ایک ایسی عظیم اور شان دار مثال قائم کی، جو رہتی دنیا تک یاد رکھی جائے گی۔ 10محرّم کو کربلا کے تپتے صحرا میں حق اور باطل کچھ اِس طرح ایک دوسرے کے سامنے آئے کہ فتح و شکست کے معنی ہی بدل گئے۔ ایسا عجب معرکہ ہوا کہ اُس دَور کا جدید ترین اسلحہ اپنی بھرپور قوّت دِکھا کر بھی شکست خوردہ رہا اور بہتا لہو شمشیر پر غالب آگیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جو لوگ حق مِٹانے آئے تھے، وہی صفحۂ ہستی سے مِٹ گئے۔

صدیاں گزرنے کے بعد بھی اُنہی ہستیوں کا نام باقی ہے، جو اپنے کنبے کے ساتھ، تین دن کی پیاس میں شہادت کے درجے سے فیض یاب ہوئے اور ہمیشہ کے لیے غالب قرار پائے۔ دوسری طرف، فسق و فجور کے اصنام اپنی موت آپ مر گئے۔یہ واقعہ تاریخ کے صفحات پر ایسا نقش ہوا کہ قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے راہِ حق تلاش کرنا آسان ہو گیا۔ یہ واقعہ محض واقعہ نہ رہا، بلکہ ایک ابدی حقیقت کے طور پر سامنے آیا۔ اِس واقعے کی یاد منانے کے طور طریقے الگ الگ ہو سکتے ہیں، مگر مقصد سب کا ایک ہے۔ کسی بھی مذہب و مسلک کا ماننے والا یزید کا نام نہیں لینا چاہتا، مگر امام حسینؓ کا نام آج بھی زندۂ جاوید ہے۔

ہر کوئی اپنے اپنے رنگ اور انداز میں امام مظلومؓ کے لیے اپنی عقیدت کا اظہار کرتا ہے۔ کوئی نذرو نیاز یا سبیلوں کا اہتمام کرتا ہے، تو کوئی مجالس اور جلوس کے انتظامات میں مشغول رہتا ہے۔ کسی نے سلام، تو کسی نے منقبت لکھ کر امام حسینؓ سے محبّت کا اظہار کیا۔خاص طور پر اردو زبان کے شعرائے کرام کی اکثریت مودّتِ امامؓ و خانوادۂ امامؓ سے سرشار ہے۔ حق و باطل کے حوالے سے شعرائے اردو نے انتہائی تاثیر اور برکت کے حامل اشعار تخلیق کیے۔تقریباً ہر ہی شاعر نے واقعۂ کربلا کو اپنے انداز میں خراجِ عقیدت پیش کیاہے۔نہ صرف مسلمان بلکہ غیر مسلم شعراء بھی امامِ عالی مقامؓ کی اِس لازوال قربانی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ ہرعدل پسند انسان، خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو، امامِ عالی مقامؓ کی قربانی کو تعظیم و عقیدت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔یوں تو بے شمار شعرا نے امام حسینؓ کی شان میں نوحے، منقبتیں اور سلام پیش کیے، مگر اُردو زبان کے ہندو شاعر، چھنو لال دلگیر کی یہ انفرادیت ہے کہ اُنھوں نے واقعۂ کربلا کی یاد میں چار سو سے زاید مرثیے لکھے۔ خاص طور پر اُنھوں نے جس نوحے میں میدانِ کربلا میں ہونے والی شامِ غریباں کے مناظر کی تصّویرکشی کی، وہ ہر مجلسِ شامِ غریباں کا لازمی جزو بن گیا۔

ویسے تو یہ دو سو سال پرانا نوحہ ہے اور اُسی وقت سے لکھنؤمیں پڑھا جاتا ہے، لیکن پچاس کی دہائی میں ناصر جہاں(مرحوم) نے اِس کلام کو منفرد طرز سے پڑھ کر ایسی جِلا بخشی کہ اِسے ہمیشہ کے لیے مجلسِ شامِ غریباں سے منسوب کر دیا۔ سیّد ناصر جہاں ریڈیو پاکستان، کراچی میں پروگرام پروڈیوسر تھے اور بہت عُمدہ آواز کے مالک تھے۔ اُن کا شمار اُس وقت کے چند مشہور نعت خوانوں میں ہوتا تھا۔ وہ مذہبی پروگرامز کے لیے خاص طور پر نعت، سوز و سلام، مرثیے اور مجالس وغیرہ ریکارڈ کرتے تھے۔سیّد ناصر جہاں 1927ء میں لکھنؤ کے ایک بڑے زمین دار گھرانے میں پیدا ہوئے اور وہیں تعلیم حاصل کی۔

والد انتہائی محنتی شخص تھے، جس کی وجہ سے انگریز سرکار کی طرف سے اُنھیں’’جہاں‘‘ کا خطاب دیا گیا، جو گھرانے کے ہر شخص کے نام کا حصّہ بن گیا۔ والدہ بھی بہت باذوق خاتون تھیں۔ اُنہی سے اُن کی طبیعت نعت، سلام اور منقبت کی طرف مائل ہوئی۔ والدہ سے یہ شوق اِس حد تک سرایت کر گیا کہ بچپن ہی سے نوحہ خوانی شروع کر دی۔ جب یہ خاندان تقسیمِ ہند کے بعد 1950ء میں پاکستان آیا، تو ناصر جہاں کراچی میں سکونت پذیر ہوگے۔لکھنؤ کی اعلیٰ تعليم کے ساتھ قابلیت کے اعتبار سے بھی وہ کسی سے کم نہ تھے۔رسم و رواج سے خُوب واقف تھے، جب کہ اردو اور انگریزی سمیت کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔اِس لیے بہت جلد ریڈیو پاکستان میں ملازمت مل گئی۔ پہلے پروڈیوسر، پھر پروگرام آرگنائزر، بعدازاں پروگرام مینیجر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔

ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر، زیڈ اے بخاری کی سرپرستی میں مزید سیکھنے کا موقع ملا، جس سے اُن کی صلاحیتوں میں مزید نکھار آگیا۔ زیڈ اے بخاری بھی اس نوجوان کی قابلیت سے متاثر ہونے لگے کہ وہ ایک اچھے نعت خواں بھی تھے۔ ان کی پڑھی ہوئی کئی نعتیں بے حد مقبول ہوئیں، جن میں امیر مینائی کی نعت’’ جب مدینے کا مسافر کوئی پاجاتا ہوں‘‘ سرِفہرست ہے۔ ان کا گلوگیر آواز میں گایا گیا ایک کلام’’کسی گھر کا یہ بھی چراغ تھا‘‘ پاکستانی فلم’’ زینت‘‘ میں شامل کیا گیا۔

حکومتِ پاکستان نے اُنہیں صدارتی تمغہ برائے حُسنِ کارکردگی سے بھی نوازا۔ 1953ء میں ریڈیو پاکستان، کراچی سے مجلسِ شامِ غریباں پہلی بار نشر کی گئی، تو سیّد ناصر جہاں نے نوحہ اور سلام پڑھا، جس سے حاضرین پر ایک خاص کیفیت طاری ہوگئی اور گریہ زاری کا منظر نظر آنے لگا۔ اس کے بعد ہر برس ریڈیو پاکستان سے یہ سلام اور نوحہ ناصر جہاں ہی پڑھنے لگے۔پھر جب پاکستان ٹیلی ویژن کا آغاز ہوا، تو 1964ء میں ناصر جہاں نے یہ نوحہ اور سلامِ آخر ٹی وی کے لیے ریکارڈ کروایا۔

وہ اسے کچھ اِس عقیدت سے پڑھتے کہ الفاظ سُننے والوں کے دِلوں میں اُترتے چلے جاتے اور بے اختیار آنکھوں سے آنسو رواں ہوجاتے۔ اگرچہ بچپن ہی سے اُن کی پُرسوز آواز ایامِ محرّم میں سوز خوانی اور نوحہ خوانی کی زینت بنی، تاہم میڈیا پر جب سیّد آلِ رضا کی نظم’’ شامِ غریباں‘‘ اپنے خُوب صُورت لحن میں پیش کی، تو شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس کا آغاز کچھ اِس طرح ہوا کہ ایک بار علّامہ رشید ترابی نے مجلس، وقت سے پانچ منٹ پہلے ختم کر دی اور سازینہ چلا نہ سکتے تھے۔ ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر ،زیڈ اے بخاری نے ناصر جہاں کو وہاں بنے عارضی اسٹوڈیو میں یہ کہتے ہوئے دھکّا دیا کہ’’ کچھ بھی پڑھو۔‘‘ ناصر جہاں نے اپنی بیاض کھولی، تو سامنے یہ کلام تھا، جسے اُنہوں نے کسی راگ راگنی کے بغیر فقط لحن میں پڑھا۔

وہاں موجود ہر شخص اسے سُن کر رونے لگا، شاید یہی وقتِ قبولیت تھا، جو ہمیشہ کے لیے امر ہوگیا۔ سیّد آلِ رضا کی لکھی ہوئی یہ نظم بعد میں سلامِ آخر کے نام سے معروف ہوئی، تو مُلک گیر شہرت اُن کے نصیب میں آئی۔جب اُنہوں نے مجلسِ شامِ غریباں اور سلامِ آخر کے درمیان ایک ہندو شاعر، چھنو لال دلگیر کا کئی سال پہلے لکھا ہوا نوحہ’’گھبرائے گی زینبؓ‘‘، جو بھارت میں پڑھا جاتا تھا، پہلی مرتبہ یہاں پڑھا، تو اس کے بعد سے یہ نوحہ اور یہ سلام نہ صرف ریڈیو پاکستان بلکہ پاکستان ٹیلی وژن کی’’ مجلسِ شامِ غریباں ‘‘کی نشریات کا لازمی جزو بن گیا۔ ان کے سلام پڑھنے کے منفرد انداز سے ویسے تو ہر شخص متاثر تھا، مگر ان کے بیٹے، سیّد اسد جہاں نے اپنے والد کا یہ انداز بچپن ہی سے دل و دماغ کے کسی کونے میں قیدکرليا تھا۔ناصر جہاں کے دوسرے بیٹے، سیّد آصف جہاں، سیّد سلمان جہاں بھی سلام، نوحہ اور منقبت پڑھتے ہیں، مگر اسد جہاں نےتو اپنے والد کو مکمل کاپی کیا۔

اسد جہاں 1964ء میں کراچی میں پیدا ہوئے۔ ابھی بہت چھوٹے تھے کہ والد کی محکمہ جاتی ترقّی ہوئی اور وہ خاندان سمیت راول پنڈی منتقل ہوگے۔یوں اسد جہاں نے راول پنڈی کے گورڈن کالج سے گریجویشن اور پھر پنجاب یونی ورسٹی سے ایم اے کیا۔ اُنہیں بچپن ہی سے اپنے والد کی طرح نعت، نوحے، سلام اور منقبت پڑھنے کا شوق تھا۔ اُن کی عُمر ابھی محض14سال تھی اور والد کے ساتھ لاہور گئے ہوئے تھے کہ اُنھیں والد نے مجلس کے آغاز سے پہلے ’’سلام‘‘ پڑھنے کا کہا۔ ہزاروں کا مجمع تھا، جس میں اسد جہاں نے پہلی بار والد کی طرز پر سلام پڑھا، تو پورا مجمع دم بخود رہ گیا۔جگہ جگہ بچّے کے چرچے ہونے لگے۔

یوں اُنھیں کم عُمری ہی میں شہرت حاصل ہوگئی۔1990ء میں ناصر جہاں کا انتقال ہوا، تو پی ٹی وی اُن کی پُرانی ریکارڈنگ دِکھاتا رہا، پھر 1992ء میں اسلام آباد ٹیلی ویژن کے پروڈیوسر، عارف رانا نے اسد جہاں سے رابطہ کر کے نوحے اور سلامِ آخر کی ریکارڈنگ کا کہا۔ اسد جہاں نے ٹیلی ویژن پر یہ کلام کچھ اِس انداز سے پڑھا کہ پہلی ہی کوشش میں صرف15منٹ میں ریکارڈ ہوگیا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن، دنیا اس نوجوان کو ذاکرِ شامِ غریباں کے نام سے جانتی ہے۔اب اسد جہاں وہ گزشتہ 31سال سے پاکستان ٹیلی ویژن پر سلامِ آخر اور مشہور نوحہ’’ گھبرائے گی زینبؓ‘‘ پڑھ کر اپنے والد کا خلا پُر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 

یکم محرّم سے چہلم تک روزانہ پانچ سے سات مجالس میں سلامِ آخر پڑھتے ہیں۔نہ صرف پاکستان، بلکہ دنیا بَھر میں ان کی پُرسوز آواز پسند کی جاتی ہے۔ہر عزادار کی خواہش ہوتی ہے کہ اُن کی منعقدہ مجلس میں’’ گھبرائے گی زینبؓ‘‘ اور سلامِ آخر ضرور پڑھا جائے۔ اِسی طرح محرّم کے علاوہ سال کے دیگر ایّام میں بھی ایصالِ ثواب کی مجالس میں اُن سے یہی پڑھنے کی فرمائش کی جاتی ہے۔ایک اندازے کے مطابق، وہ سال بَھر میں ایک ہزار سے زاید بار سلامِ آخر اور یہ نوحہ پڑھتے ہیں۔

اسد جہاں کے پڑھے ہوئے کلام نعتیں، نوحے اور سلام کی درجنوں کیسٹس ریلیز ہو چکی ہیں۔اُنہوں نے ہادی عسکری کی بنائی ہوئی ٹی وی ڈاکیومنٹریز، ’’سفرِ کربلا‘‘، ’’سفرِ شام‘‘، ’’سفرِ نجف‘‘ اور ’’سفرِ مشہد‘‘ میں، جو ہر سال محرم میں تقریباً تمام ہی ٹی وی چینلز دِکھاتے ہیں، پسِ پردہ ترنّم کے ساتھ بھی یہ کلام پڑھا ہے۔ اب یہ سلسلہ اس خاندان کی تیسری نسل میں منتقل ہوچکا ہے۔ اسد جہاں کے بیٹے، ناصر اسد جہاں بھی اِسی طرز اور انداز میں سلامِ آخر پڑھ رہے ہیں۔

’’ گھبرائے گی زینبؓ ‘‘

گھبرائے گی زینبؓ، گھبرائے گی زینبؓ

بھیّا !! تمہیں گھر جا کے کہاں پائے گی زینبؓ؟؟

گھبرائے گی زینبؓ

کیسا یہ بَھرا گھر ہوا برباد الٰہی! کیا آئی تباہی

اب اِس کو نہ آباد، کبھی پائے گی زینبؓ

گھبرائے گی زینبؓ

گھر جاکے کسے دیکھے گی، قاسمؓ ہے، نہ عباسؓ

اکبرؓ سے بھی ہے یاس، اپنے علی اصغرؓ کو کہاں پائے گی زینبؓ ؟؟

گھبرائے گی زینبؓ

پُوچھیں گے جو سب لوگ کہ بازو پہ ہوا کیا؟ یہ نیل ہے کیسا؟

کس کس کو نشاں رَسّی کے، دِکھلائے گی زینبؓ؟؟

گھبرائے گی زینبؓ

پَھٹ جائے گا، بس دیکھتے ہی گھر کو کلیجہ، یاد آؤ گئے بھیّا

دِل ڈھونڈے گا تم کو تو، کہاں پائے گی زینبؓ؟؟

گھبرائے گی زینبؓ

بے پردہ ہوئی، قید بھی خواہر نے اٹھائی پرموت نہ آئی

کیا جانیے، کیا کیا ابھی اور دُکھ پائے گی زینبؓ

گھبرائے گی زینبؓ