• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کے سیاسی حالات مجموعی طور پر ہمیشہ ابنارمل رہے ہیں، ساری تاریخ ہی اتار چڑھائو کے نہایت پراسرار، جارح اور بد صورت نشیب و فراز سے بھری ہوئی ہے، معاملہ تو آغاز ہی میں خراب ہو گیا تھا مگر قوم اپنی جمہوری جدوجہد کے تسلسل سے پیچھے نہیں ہٹی، ہزار قسموں کے جال بچھائے گئے، بڑے بڑے مقدس نظاموں کا چہرہ دکھلایا گیا، بڑے ہی نیک انسانوں کی مثالیں دے دے کر قومی حکومتوں کے خواب بُنے گئے، پاکستانیوں نے ووٹ کی بنیاد پر پارلیمانی جمہوری نظام سے نہ اپنی جدوجہد میں کوئی کمزوری دکھلائی نہ ہی اپنے اس موقف کے مستقل ہونے کے بارے میں کبھی کسی ذہنی اضمحلال کا ثبوت دیا۔
حضرت جوش نے کہا تھا، ’’اچھے وہ لوگ ہیں جنہیں اپنے عہدے کی نبض دیکھنا اور اپنے عصر کے قلب کی ضربیں شمار کرنا آتا ہے اور بُرے وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں زمانے کو گالیاں دینے کے علاوہ ان دونوں میں سے ایک بھی بات نہیں آتی، اور عجب حیران کن خوبصورت ترین منظر ہے جس میں پاکستانی قوم اور اس کے قومی سیاسی رہنمائوں نے دور جدید میں اپنے عہد کے نظام حکومت کی نبض پر بہت پہلے ہاتھ رکھا اپنے قلب کی ضربوں کا بھی شمار کر لیا تھا یعنی پاکستان کی بقاء، پاکستان کی یکجہتی پاکستانیوں کے ووٹ سے منتخب جمہوری حکومتوں کے رواں دواں رہنے میں ہے، اس راستے سے ہٹنا ملک کو ڈبو دے گا، خدانخواستہ اور جب اس راہ سے ہٹے ملک ڈوبا تو نہیں دو لخت ہو گیا۔
مگر تاریخ میں موجود منفی عنصر آخر دم تک ہتھیار نہیں پھینکتا چنانچہ وہ پاکستانیوں کی جمہوری تسلسل کی آرزوئوں کا خون کرنے میں لگے رہے، 1988تا 1999کا دورانیہ تو وہ ہے جب چار منتخب جمہوری حکومتوں کو غیر آئینی طور پر حق حکمرانی سے محروم کر دیا گیا، آصف علی زرداری وہ غالباً ذوالفقار علی بھٹو کے بعد پہلا سول منتخب حکمران تھا جس کی منتخب جمہوری حکومت نے اپنی آئینی مدت پوری کی، اب یہی عنصر نواز شریف کے جمہوری اقتدار کی ’’ٹارگٹ کلنگ‘‘ کر رہا ہے، جب اس سرگرمی سے ذرا وقت ملتا ہے اس گیپ میں آصف علی زرداری کو نشانے پر رکھ لیا جاتا ہے، چنانچہ ان دنوں ڈاکٹر عاصم، عزیر بلوچ، نثار مورانی کے حوالوں سے ویڈیو کہانیوں کا کاروبار پورے عروج پر ہے، وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خاں تک کو زچ ہو کے کہنا پڑا۔ ’’ملزمان کی ویڈیوز جاری کرنا غیر قانونی ہے۔ مقدمات کا فیصلہ عدالتوں میں ہوتا ہے میڈیا ٹرائلز سے نہیں ، سندھ حکومت ذمہ داروں کا پتہ چلائے، پیمرا کو خط لکھوں گا۔ زیر تفتیش اور گرفتار شدگان کی ویڈیوز کی تشہیر سے کیس کمزور ہوتا ہے، اداروں کو اس قسم کی ریکارڈنگ منظر عام پر لانے سے گریز کرنا چاہئے، ایسی ویڈیوز سے میڈیا ٹرائل کیا جاتا ہے جس کا کوئی حاصل وصول نہیں ہوتا۔‘‘ اخباری ریکارڈ کے مطابق ’’پی پی رہنما ڈاکٹر عاصم کی دو اور ایم کیو ایم کے کارکن منہاج قاضی کی ایک ویڈیو میڈیا پر نشر کی جا چکی ہے، ڈائریکٹرفشریز، نثار مورانی نے بھی عدالت میں کہا ’’میرے حوالے سے آنے والی ویڈیو جھوٹ پر مبنی ہو گی۔‘‘!
وفاقی وزیر داخلہ کی گفتگو کا تجزیہ غیر معمولی عقل کی محتاج نہیں، لفظ لفظ اپنا مفہوم از خود بیان کر رہا ہے، ’’اداروں‘‘ کا اشارہ کس طرف ہے؟ وہ ان ’’اداروں‘‘ کی نشاندہی کے لئے سندھ حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں، گویا سندھ حکومت پتہ چلائے یہ ریاست کے اندر کونسی ’’ریاست‘‘ اپنے احکامات چلا رہی ہے۔ امکاناً بھی حقائق کی تلاش کے نتائج بیان نہیں کئے جا سکتے، پر جلنے لگتے ہیں! چنانچہ آگے بڑھتے ہیں، عرض کیا تھا جب ’’ان‘‘ کو فرصت ملتی ہے وہ آصف علی زرداری کو نشانے پر رکھ لیتے ہیں؟ ایان علی سے لے کر نثار مورانی تک قصوں کی ایک مالا جپی جاتی ہے۔ سابق صدر، پاکستانی تاریخ اور ان کے مابین واقعی ایک یوٹوبیائی کردار کہے جا سکتے ہیں، ’’وہ‘‘ سابق صدر کو پاکستان کی سیاست اور ریاست سے بے دخل کرنے کو بے چینی کے ہاتھوں مارے جا رہے ہیں، سابق صدر اسی سیاست اور ریاست کی علامت و شناخت کا روپ دھار چکے، یہ نشاط افزا کہانی ہے اس آصف علی زرداری کی۔ لیکن ان کے مخالفین نے انہیں تاریخ کا ایک پرانا قصہ بنانے کی ہرممکن کوشش کی لیکن یہ سب پیش گوئیاں خواب و سراب بن کر رہ گئیں۔
سابق صدر کو گارڈ آف آنر کے ساتھ اقتدار سے رخصت ہوئے اب تین برس ہونے جا رہے ہیں، یاد کریں ان صحافتی عناد برداروں کی ایسی پیش گوئیوں یا تجزیوں کا کوئی ایک لفظ بھی وقت کے ترازو میں پورا اترا، لفظ تو بہت بڑی بات ہے اس کا کوئی ایک شوشہ بھی درست نکلا، بس یہ ایک قوم دشمن کھیل ہے، ان جانے یا جانے ’’ملک پاکستان اور عوام پاکستان‘‘اس کا اصل شکار ہیں، دونوں ہی نخچیر ہوتے اور ہو رہے ہیں، ایسے ہی لوگ اس کبیرہ گناہ کے پھر ایک دفعہ جانے یا ان جانے، مرتکب ہیں، وہ پاکستانیوں کے ووٹ سے منتخب جمہوری حکومتوں کو مسلسل آئینی مدتوں کی تکمیل کے نتیجے میں پاکستان کے مسائل حل کرنے کی بار آور فصلوں سے محروم دیکھنا چاہتے ہیں، محض اپنی اپنی ذات کے اندھیروں کی برقراریوں کے لئے !
آصف علی زرداری کا کیا قصور تھا؟ وہ اس تاریخ کا ناگزیر حصہ تھے اور ہیں جس کے بارے کہا جا چکا ہے۔ ’’پیپلز پارٹی کی قیادت کا المیہ یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو اور آصف علی زرداری کے خلاف نفرت پھیلانے کی ایک مشترکہ مہم چلی تھی جو سیاست میں 12؍ اکتوبر 1999ء تک جاری رہی اور پھر جنرل (ر) پرویز مشرف اور ان کے سیاسی ساتھیوں کو ورثے میں منتقل ہو گئی، 27؍ دسمبر 2007ء کو محترم بے نظیر شہید نہ ہو جاتیں اور انہیں اقتدار میں آنے کا موقع مل جاتا تو ممکن تھا وہ آج بھی اسی طرح سیاسی مخالفین کا ہدف بنی ہوتیں جس طرح اس وقت زرداری ہیں، ایس ایم ایس کرنے کے سستے اور خصوصی پیکیج آ گئے ہیں، کوئی لطیفہ یا چند فحش جملے لکھ کر چند منٹوں میں ایک ایس ایم ایس ہزاروں موبائل فونوں میں پہنچایا جا سکتا ہے، جب سے بدنام کرنے یا گالی دینے کا یہ سستا اور فوری طریقہ ایجاد ہوا کسی کو مقبول یا غیر مقبول، بدنام یا نیک نام کرنے کے لئے اور جعلی سروے بنانے کے لئے محض ’’کی پیڈ‘‘ پر انگلیاں گھمانے کا تکلف کرنا پڑتا ہے اور جس کسی کے بارے میں جس قسم کا سروے مقصود ہو اس کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے۔‘‘
لیکن پاکستانی عوام کا ووٹ کے ذریعے جمہوری جدوجہد اور ملکی مسائل حل کرنے پر ایمان بدستور، پوری آن بان کے ساتھ سرو قد ہے، جن قوتوں سے الطاف حسین نہیں سنبھالا جا سکا، وہ پاکستان پیپلز پارٹی جیسی قومی سیاسی جماعت اور آصف علی زرداری جیسے وژنری قومی رہنما اور مفکر سیاستدان کے تو قریب بھی نہیں پھٹک سکتے، ناکامی ان قوتوں پر ہمیشہ اپنے دستخط کرتی چلی آ رہی ہے، تاریخی کیمسٹری کے احکامات کی روشنی میں جمہوریت کا تسلسل کاٹنے والوں کے مقدر میں ایسے دستخط شاید ہمیشہ کے لئے لکھ دیئے گئے ہیں!
تازہ ترین