• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام میں مرتبہء شہادت کی جو فضیلت ہے ، وہ کسی اور عمل کی نہیں ہے۔ قرآن میں شہداء کو’ مردہ‘ کہنے کی بھی ممانعت ہے کہ وہ زندہ ہیں ، مگر ہمیں ان کی زندگی کا شعور نہیں ہے ۔ اسی لئے ہر سچا مسلمان راہ خدا میں شہادت کی موت کی تمنا کرتا ہے۔ بقول اقبال ؒ، جب بندہ ء مومن موت کے پردے میں رخِ دوست دیکھ لیتا ہے تو پھر اس کیلئے موت آسان اور زندگی دشوار ہو جاتی ہے۔ امت مسلمہ کی تاریخ اس طرح کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ حالیہ تاریخ میں اسکی ایک عظیم مثال 1979ء میں سوویت یونین کے افغانستان پر قبضہ کے بعد پاکستان کی بے خوف جنگی حکمت عملی تھی، جس میں سوویت یونین کی فوجی ہیبت سے خوف کا شائبہ تک نہیں تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب سوویت یونین کے حوالے سے ضرب المثل بن چکی تھی کہ سوویت یونین جب ایک بار کسی ملک میں داخل ہو جاتا ہے تو پھر نکلتا نہیں۔ امریکی دفاعی ماہر بروس رائیڈل کے بقول افغانستان میں روسی فوجوں کے داخل ہونے کے بعد جنرل ضیاالحق نے آئی ایس آئی چیف جنرل اختر عبدالرحمن سے اس پر مشورہ طلب کیا۔چند روز بعد جنرل اختر عبدالرحمن نےجو پلان پیش کیا، اسے دیکھ کر ایک بار توجنرل ضیاالحق بھی سوچ میں پڑ گئے کہ بالواسطہ طور پر یہ سوویت یونین کو چیلنج کرنے کے مترادف تھا اور اس کے نتیجہ میں پاکستان کی سلامتی کو خطرات لاحق ہو سکتے تھے۔ تاہم جنرل اختر عبدالرحمن کی راے یہ تھی کہ اگر سوویت یونین کی پیشقد می کو افغانستان کے اندر نہ روکا گیا تو افغانستان پر فوجی قبضہ مستحکم کرنے کے بعد اس کا اگلا ہدف بلوچستان ہوگا، جہاں پاکستان، روس اور بھارت کے گھیرے میں آ جائے گا۔ بہرحال کچھ ردوکد کے بعد جنرل ضیاء الحق نے جنرل اختر عبدالرحمن کے جنگی منصوبہ کی منظوری دیدی، تاہم یہ جنرل ضیاء الحق اور جنرل اختر عبدالرحمن دونوں جانتے تھے کہ اس کے بعد ان کی زندگیاں مستقل طور پر خطرے میں رہیں گی اور وہ راہ ِشہادت کے راہی ہوں گے۔جنرل اختر عبدالرحمن میں تو خوف نام کی کوئی چیز ہی نہ تھی۔ وہ اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے تھے، اس کے باوجود انہوں نے فوج جوائن کی، جس میں زندگی کا چراغ ہر لحظہ آندھیوں کی زد میں رہتا ہے۔ وہ پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کے خلاف تینوں جنگوں( 1948ء ، 1965ء ، 1970ء) میں شریک ہو چکے تھے۔ موت کو انھوں نے کبھی خوف زدہ کرنے و الی شے سمجھا ہی نہیں تھا۔ 1947ء میں وہ ابھی لیفٹیننٹ کرنل تھے، جب پہلی بار انھوں نے موت کو قریب سے دیکھا۔وہ نقل مکانی کرنے والے قافلوں کی نگرانی پر مامور تھے، ایک مقام پر ہندو فوجیوں کے گھیرے میں آ گئے۔ ایک ہندو جوان نے ان پر بندوق تان لی۔ وہ فائرکرنے ہی والا تھا کہ اسی لمحےایک مسلمان ریکروٹ نے اس ہندوجوان کو اپنی گولی کا نشانہ بنا ڈالا۔ اختر عبدالرحمن کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ موت انکو چھو کے گزر گئی تھی۔اس طرح1948ء میں پانڈو ٹیکری کے محاذ پر بھارتی فوج سے لڑتے لڑتے ان کا اپنی یونٹ سے رابطہ منقطع ہو گیا۔ یہاں تک کہ یونٹ میں ان کی شہادت کا باقاعدہ اعلان کر دیا گیا۔ اس پس منظر ہی میں فوج میں ان کو ’زندہ شہید‘ کہا جاتا تھا۔، 1965ء اور 1970ء کی جنگ میں بھی جنرل اختر عبدالرحمن نے میدان جنگ میں اس طرح داد شجاعت دی تھی کہ بھارتی جنرل بھی اس کا اعتراف کرنے پر مجبور ہو گئے۔

1979ء میں کوئی بھی یہ یقین کرنے کو تیار نہیں تھا کہ سوویت فوج کے خلاف جنرل اختر عبدالرحمن کی فوجی حکمت عملی کامیاب ہو گی اور سوویت فوج جس طرح دریاے آمو پار کرکے افغانستان میں داخل ہوئی ہے، چند سال بعد اسی طرح بے نیل مرام دریاے آمو پار کرکے واپس جا رہی ہو گی۔ امریکا کی بے یقینی کا تو یہ عالم تھا کہ اس نے اس سال اپنے بجٹ میں اس مد میں کوئی رقم نہ رکھی، اور ایک سال بعد بھی جب کچھ امداد کی پیشکش کی تو جنرل ضیاء الحق اس کو مونگ پھلی قرار دینے پر مجبور ہو گئے۔ حقیقتاً ، ابتدائی طور پر صرف سعودی عرب ہی عملی طور پر پاکستان کی مدد کر رہا تھا۔ تاہم بعد میں جب سوویت یونین کے خلاف افغان مزاحمت زور پکڑنے لگی اور امریکہ اور یورپ کو جنرل اختر عبدالرحمن کی حکمت عملی قابل عمل نظر آئی، تب جاکے انھوں نے اپنے حصے کا کردار ادا کرنا شروع کیا۔ کچھ عرصہ بعد جنرل اختر عبدالرحمن نے امریکا کو سوویت فوج کے خلاف سٹنگر میزائل کی فراہمی پر بھی راضی کر لیا، جس نے جنگ کا پانسہ واضح طور پر افغان مجاہدین کے حق میں پلٹ دیا۔ 1987ء میں جب جنرل اختر عبدالرحمن کو ترقی دے کر چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف بنا دیا گیا، تو آئی ایس آئی چیف کی حیثیت سے افغانستان میں سوویت فوج کے خلاف ان کا خفیہ مشن کامیابی کی منزل پر پہنچ چکا تھا اور سوویت فوجوں کی واپسی طے پا چکی تھی۔

اس کے ساتھ ہی جنرل اختر عبدالرحمن کیلئے اندرونی اور بیرونی خطرات پہلے سے بڑھ چکے تھے۔ وہ افغانستان میں مستحکم عبوری حکومت کے قیام سے قبل جلدبازی میں معاہدہ جنیوا کرنے کے حق میں نہ تھے۔ یہ چیز صرف سوویت یونین کو نہیں، امریکا کو بھی سخت ناگوار گزر رہی تھی۔ اپریل 1988ء میں اوجڑی کیمپ کی پراسرار تباہی اور پھر اس کی ذمہ داری کا سارا ملبہ جنرل اختر عبدالرحمن پرڈالنے کی سازش سے یہ سمجھنا مشکل نہ تھا کہ سوویت یونین کی افغانستان سے واپسی کے بعد اس خطہ میں جو نیا منظر نامہ طلوع ہو رہا ہے، اس میں جنرل ضیاء الحق کے ساتھ ساتھ جنرل اخترعبدالرحمن کی زندگی بھی سخت خطرے میں ہے۔ دونوں جنرلزکو الرٹ ملنا شروع ہو چکے تھے۔ پھر وہی ہوا، جس کے اشارے مل رہے تھے۔ جنرل اختر عبدالرحمن کا جنرل ضیاالحق کے ساتھ امریکی ٹینکوں کی نمائش دیکھنے کیلئے بہاولپور جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ تاہم سازشیوں نے اس طرح کا تانا بانا تیارکیا کہ آخری وقت پر جنرل اختر عبدالرحمن بھی جنرل ضیاء الحق کے ساتھ طیارے میں سوار ہو گئے اور 17اگست 1988ء کو جنرل ضیاء الحق کے ساتھ ہی جام شہادت نوش کیا اور اس قافلہ شہداءمیں شامل ہو گئے، جن کیلئے رب تعالیٰ نے جنت واجب کر رکھی ہے۔

جنرل ضیاالحق اور جنرل اختر عبدالرحمن کے پاس دنیاوی اعتبار سے وہ سب کچھ تھا، جس کی کوئی انسان خواہش کر سکتا ہے، بلندترین عہدے بھی، اقتدار اور اختیار بھی، شہرت اورمقبولیت بھی، تو پھر وہ کون سی شے تھی، جس کی تڑپ ان کے قلب و روح کو ہر وقت بے چین کیے رکھتی تھی، جس کیلئے وہ عہدے، اقتدار اور شہرت سب کچھ قربان کرنے پر تیار تھے، یہ وہی انمول شے تھی جس کی دعا، بقول اقبالؒ ، عظیم مسلم سپہ سالار طارق بن زیادؒ نے اندلس کے میدان جنگ میں یہ کہتے ہوئے کی تھی ؎

شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن

نہ مال غنیمت ، نہ کشور کشائی

تازہ ترین