• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گھروں میں کام کرنے والے کم سِن ’’مزدور‘‘

معروف صحافی، ناصر نقوی کی کچھ عرصہ قبل سامنے آنے والی ایک مشاہداتی رپورٹ میں ایک واقعے کی منظر کشی کچھ اِس طرح کی گئی کہ’’میرا ایک نام وَر ڈیزائنر کے انٹرویو کے سلسلے میں لاہور کی جدید آبادی، ڈی ایچ اے میں واقع ایک بڑی کوٹھی میں جانا ہوا۔ مَیں وقت لے کر گیا تھا۔ مجھے ڈرائنگ روم میں بٹھا دیا گیا اور بتایا گیا کہ’’ میڈم ذرا مصروف ہیں کچھ ’’مال‘‘ آیا ہوا ہے، ابھی آپ کو بُلاتی ہیں۔‘‘ مَیں نے کہا کہ’’مَیں ٹائم لے کر آیا ہوں، اُن سے کہیے، مجھے ذرا جلدی ہے۔‘‘ملازم نے کہا ’’مَیں ذرا مال ٹھکانے لگا لوں، آپ اِتنی دیر میں چائے شائے پیئں۔‘‘ لیکن اِسی دَوران میڈم کا پیغام آیا’’مجھے ذرا وقت لگ جائے گا، چلو اُنہیں میرے پاس بھیج دو۔‘‘ مَیں راہ داری سے گزر کر عقبی لان میں آیا، تو مجھے سمجھ نہ آیا کہ مَیں کہاں آگیا ہوں۔

مَیں لاہور میں ہوں یا کسی گائوں کی بستی میں۔ مَیں نے دیکھا کہ لان میں گھاس پر مختلف عُمر اور رنگت کے 20،25 بچّے اور بچیاں اکڑوں بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ سب غریب گھرانوں کے لگ رہے تھے۔ میلے کچیلے کپڑے، بال بکھرے ہوئے، آنکھوں میں حیرت اور اُداسی۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اردگرد دیکھ رہے تھے۔ اُن سے تھوڑی دُور ایک چارپائی پر ایک متوسّط عُمر کا دیہاتی شخص اور ایک بھاری بَھر کم عورت بیٹھی تھی۔ مَیں نے تجسّس سے میڈم سے پوچھا’’یہ کیا ہے۔‘‘اُنھوں نے کہا’’آپ خود دیکھ لیں، کیا ہے۔‘‘میڈم نے کاپی پینسل پکڑی ہوئی تھی اور کہہ رہی تھیں’’یہ جو دو بچّے ہیں، اِن کو آپا زبیدہ کی طرف بھیج دو، یہ جو تین ہیں، وہ اقبال صاحب کے ہیں، انہیں بڑے عرصے سے ضرورت تھی۔ یہ جو چھوٹو ہے، وہ خالہ فریدہ کی طرف جائے گا۔‘‘ 

وہ گنتی کر رہی تھیں اور ساتھ ساتھ کاپی پر نام بھی لکھ رہی تھیں۔ جب یہ کام ختم کر چُکیں، تو دُور بیٹھے مرد و عورت سے کہنے لگیں’’ فی الحال تو ضرورت پوری ہوگئی ہے، لیکن اب بھی دو بچّے کم پڑ گئے ہیں، مَیں ذرا فارغ ہو کر تمہارا حساب کتاب کرتی ہوں۔‘‘وہ میرا سوالیہ چہرہ دیکھ کر کہنے لگیں’’اصل میں مختلف لوگوں نے ہمیں گھریلو ملازمین کے لیے کہا ہوتا ہے، یہاں شہر میں تو کام کرنے والے ملتے نہیں، اِس لیے ہم نے دیہات میں رہنے والے بعض بااثر لوگوں سے رابطہ رکھا ہوا ہے، اُن کو معلوم ہوتا ہے کہ کون ضرورت مند ہے، کون ایسا ہے جس کا گزارہ نہیں ہوتا۔ 

یہ لوگ، جنہیں ہم ٹھیکے دار کہتے ہیں، غریب بچّے اور بچیاں والدین کی رضا مندی سے اکٹھے کرکے یہاں لے آتے ہیں۔ یہاں کی درجنوں فیملیز مجھ سے رجوع کرتی ہیں اور ہم ان بچّوں کو لانے والوں کو باقاعدہ کمیشن ادا کرتے ہیں۔ ہمارا بھی کام ہو جاتا ہے اور یہ کم سِن بچّے، بچیاں بھی رقم گھر بھیج کر غریب والدین کا سہارا بن جاتے ہیں۔‘‘

بظاہر یہ مشاہداتی رپورٹ پندرہ، بیس سطور پر مشتمل ہے، لیکن یہ ہمارے معاشرے کی ایک انتہائی خوف ناک، الم ناک تصویر ہے، جو گھریلو ملازمین کی خرید و فروخت، اُن سے ہونے والے ناروا سلوک اور استحصال کی پوری داستاں عیاں کرکے رکھ دیتی ہے۔گرچہ اکثر داستانوں پر زمانے کی خود غرضی، افراتفری، ہوس پرستی اور عدیم الفرصتی کی گرد پڑی رہتی ہے، لیکن کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی چہرے پر لکھی کوئی الم ناک کہانی اتفاقاً خبروں کا موضوع بن کر معاشرتی ظلم وستم کا گھنائونا چہرہ بے نقاب کر دیتی ہے۔ 

جیسے گزشتہ برس ایک جج صاحب کی اہلیہ کم سِن ملازمہ کو گرم سلاخوں سے داغتی رہی اور اب چند روز قبل ایک اور جج کی بیگم نے کم سِن ملازمہ کے جسم کی ہڈیاں توڑ ڈالیں، بلکہ بدترین تشدّد کی مثال قائم کردی۔ صوبہ پنجاب کے وزیرِ صحت، ڈاکٹر جاوید اکرم کے مطابق’’ کم سِن ملازمہ، رضوانہ کی کمر کو چِمٹوں سے جلایا گیا۔ اس کے جسم پر90 سے زاید تشدّد کے نشانات تھے۔‘‘16 اگست کو سندھ کے علاقے رانی پور میں بھی ایک بااثر پیر کی حویلی میں کام کرنے والی دس سالہ بچّی مبینہ تشدّد سے جان کی بازی ہار گئی۔لیکن اس ضمن میں ایک افسوس ناک امر یہ بھی ہے کہ ظلم کی ایسی داستانیں دوسرے ہی روز ماضی کا قصّہ بن جاتی ہیں۔

غربت و افلاس، بنیادی وجہ…؟؟

دیکھنا یہ ہے کہ گھریلو ملازمین کی یہ ’’ورک فورس‘‘ آخر وجود میں کیوں اور کیسے آتی ہے اور اس کے پسِ پردہ کیا عوامل ہیں۔آسان الفاظ میں بات کی جائے، تو وہ چار حروف پر مشتمل لفظ’’غربت‘‘ ہے، جس کی تاریخ اُتنی ہی پرانی ہے، جتنی کہ خود تہذیبِ انسانی۔ تاریخ کا شاید ہی کوئی دَور امارت و غربت کی تفریق سے پاک رہا ہو۔ انسانی غلامی صدیوں پر محیط ہے اور’’ لیگ آف نیشنز‘‘ کے غلامی کے خاتمے کے چارٹر (1926ء)کے باوجود مختلف صُورتوں میں آج بھی موجود ہے۔ 

دولت مند افراد کو ہمیشہ خدمت گاروں کی ضرورت رہی ہے اور اسی ضرورت کے تحت نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بَھر میں غریب اور وسائل سے محروم ایک ایسی ورک فورس وجود میں آئی، جو اپنی خدمات فراہم کرتی ہے۔انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن( آئی ایل او) کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً8 کروڑ افراد گھریلو ملازمین کے طور پر کام کر رہے ہیں، جب کہ پاکستان میں ان کی تعداد 70 لاکھ سے زاید ہے۔ 

واضح رہے، ان میں ورکشاپس، ہوٹلز، اینٹوں کے بھٹّوں، قالین سازی کے کارخانوں وغیرہ میں کام کرنے والے6 سے13 سال کی عُمر کے بچّے شامل نہیں ہیں، جن کی تعداد33 لاکھ سے زائد بتائی جاتی ہے۔اگر دیکھا جائے، تو گھریلو ملازمین کی طرح چائلڈ لیبر بھی غربت ہی کی پیداوار ہے۔

پاکستان میں غربت نے اپنے قدم کیسے جمائے، یہ ایک لمبی داستان ہے۔ ماہرینِ سماجیات کے مطابق جاگیرداری نظام اور امیر و غریب کے درمیان فرق ہمیں وَرثے میں ملا، جس کے بعد الاٹمنٹ کے غلط نظام، سیاسی عدم استحکام، اقتدار کی ہوس، کرپشن، حُکم رانوں کی نااہلی، عوامی فلاح وبہود کے منصوبوں سے مجرمانہ غفلت اور انصاف کے فقدان جیسے عوامل نے مُلک میں غربت و امارت کے درمیان خلیج وسیع کی اور اسی کے نتیجے میں آج اشرافیہ اور ایلیٹ کلاس مُلک کے80 فی صد وسائل پر قابض ہے، جب کہ مُلک میں6 کروڑ سے زاید افراد خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ 

ہیومن ڈیویلپمنٹ انڈیکس2022 ء کے مطابق، پاکستان میں غرباء کی تعداد تقریباً ساڑھے 5کروڑ ہے، جب کہ معاشی ماہرین کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ ایک سال میں ہونے والی شدید منہگائی کے باعث مزید ایک کروڑ سے زاید افراد غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں۔یاد رہے، غربت کی عالمی درجہ بندی میں192 ممالک میں پاکستان کا نمبر161 واں ہے۔نیز، سابق گورنر اسٹیٹ بینک، ڈاکٹر عشرت حسین نے اپنی ایک کتاب میں اس غربت کا ذمّے دار اشارفیہ کو ٹھہرایا ہے۔

شہروں کی طرف ہجرت بھی ایک بڑا مسئلہ ہے

جب دیہی علاقوں میں غربت کے بادل منڈلانے لگے، تو فاقہ کش افراد نے روزگار کی تلاش میں بڑے شہروں کا رُخ کرنا شروع کر دیا، چناں چہ 1998ء سے 2020ء تک لگ بھگ ڈیڑھ کروڑ افراد نے اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ بڑے شہروں کی طرف ہجرت کی، جن میں سے ایک بڑی تعداد دوسروں کے گھروں میں کام پر مجبور ہوئی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے عورتوں، کم سِن لڑکوں، لڑکیوں پر مشتمل ایک ایسی ورک فورس وجود میں آگئی، جو گھروں کی صفائی، باغ بانی، برتنوں، کپڑوں کی دُھلائی، کھانا پکانے، بچّوں کی دیکھ بھال، کپڑوں پر استری اور طرح طرح کے دیگر گھریلو امور پر مامور ہوئی، جب کہ عموماً مرد ڈرائیونگ، چوکیداری، سودا سلف لانے اور بچّوں کو اسکول چھوڑنے کا کام بھی کرتے ہیں۔ 

ایک سروے کے مطابق، بڑے شہروں میں ہر پانچواں گھرانہ گھریلو ملازمین کی خدمات سے استفادہ کرتا ہے۔پھر رفتہ رفتہ ان گھریلو ملازمین میں ایسے سفید پوش افراد بھی شامل ہوگئے، جو کاروبار میں گھاٹے، ملازمت سے محرومی یا دیگر عوامل کے سبب بھیک مانگنے کے بجائے گھروں میں کام کے ذریعے روزی روٹی کمانا چاہتے تھے۔

لیکن…اِس معاملے کا سب سے افسوس ناک پہلو اِن ملازمین سے ہونے والا ناروا اور ذلّت آمیز سلوک ہے۔ جس طرح قومی معیشت میں اِن گھریلو ملازمین کے کاروباری لین دین کا کوئی کھاتا یا ریکارڈ نہیں ہوتا، اِسی طرح ان سے ہونے والے ظالمانہ سلوک کا بھی کوئی ریکارڈ دست یاب نہیں۔البتہ بعض این جی اوز کی سروے رپورٹس کبھی کبھار منظرِ عام پر آجاتی ہیں۔ 

جیسے 2013ء میں ایک این جی او نے گھریلو ملازمین پر تشدّد کے100 واقعات ریکارڈ کیے، جن کے نتیجے میں 8بچّے مر بھی گئے تھے۔ واضح رہے، پنجاب کے وزیرِ صحت، ڈاکٹر جاوید اکرم نے تشدّد کا نشانہ بننے والی بچّی، ناظمہ کی عیادت کے موقعے پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ’’ گھریلو ملازمین پر تشدّد کے90فی صد واقعات منظرِ عام پر نہیں آتے۔‘‘اور یہ ایک دل خراش حقیقت ہے کہ بیش تر گھریلو ملازمین کی پوری زندگی ہی ناروا سلوک برداشت کرتے گزر جاتی ہے۔

خوف ناک سزائیں

یہ بھی حقیقت ہے کہ اکثر گھرانے اِن ملازمین سے اچھا سلوک کرتے ہیں۔ نوجوان خادمائوں کی شادیوں کے لیے جہیز کی تیاری، تن خواہ کی بروقت ادائی اور مختلف مواقع پر مدد اِن گھرانوں کی روایت ہے، لیکن یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بعض گھرانے اِن ملازمین سے جانوروں سے بھی بدتر سلوک کرتے ہیں۔ ایسے خاندانوں میں بیش تر نو دولتیے ہیں، جو نئے نئے امیر ہونے کے بعد غرور و تکبّر میں مبتلا ہو کر آپے ہی سے باہر ہو جاتے ہیں۔ اکثر کم سِن بچّے اور نو عُمر لڑکیاں ان کا یہ سلوک صبر سے برداشت کرتے ہیں، لیکن پھر بھی کبھی کبھار ایسے واقعات منظرِ عام پر آ ہی جاتے ہیں۔

ایک این جی او کے سروے سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ اِن ملازمین کو کس قسم کی سزائیں دی جاتی ہیں۔ان سزاؤں میں لڑکیوں کے سَر کے بال مونڈ دینا، استری یا گرم سلاخوں سے جسم کے مختلف حصّے داغنا، زدو کوب کرنا، کئی کئی روز تک کمرے میں بند کر کے کھانا نہ دینا اور ڈنڈوں سے مارنا وغیرہ شامل ہیں۔ دیہات میں اِن ملازمین پر کتّے چھوڑنا، گھنٹوں کان پکڑوانا، دھوپ میں کھڑا رکھنا، سردیوں کی راتوں میں ٹھنڈے فرش پر سونے کے لیے مجبور کرنا، بات بات پر تن خواہ کاٹ لینا، چُھٹیاں نہ دینا اور باسی کھانا دینا عام باتیں ہیں۔ مگر یہ ملازمین آواز اِس لیے نہیں اُٹھا سکتے کہ اِن کی آوز سُنتا ہی کون ہے…!!

نشستند، گفتند، برخاستند

گزشتہ برسوں میں گھروں میں کام کرنے والی لیبر فورس سے متعلق کئی قوانین منظور ہوئے۔ ان کے حقوق کے لیے سوشل سیکٹر میں مختلف تنظیموں نے آوازیں بلند کیں، لیکن عملاً نتیجہ صفر ہی رہا۔مثلاً 1961ء اور 1965ء میں جاری ہونے والے آرڈیننسز میں کہا گیا کہ اِن گھریلو ورکرز پر بھی کم از کم اُجرت کا اطلاق ہوگا، لیکن ایسا نہ ہوا۔2015ء میں پہلی مرتبہ مُلک میں ڈومیسٹک ورکرز یونین کا قیام عمل میں آیا، لیکن یہ سرگرمی بھی صرف کاغذات تک محدود رہی۔ 

2013ء میں سینیٹ میں گھریلو ملازمین کے لیے ایک بِل پیش کیا گیا، جس کی رُو سے اُنہیں لیبر لاز کے تحت سہولتیں فراہم کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔ اسے 2015ء میں دوبارہ بھی پیش کیا گیا، پھر 2019ء میں حکومتِ پنجاب نے پنجاب ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ پاس کیا، جس کا مقصد گھریلو ملازمین کو لیبر لاز کے دائرۂ کار میں لانا تھا۔ اِس سے قبل 2016ء میں سندھ میں بھی سندھ ایمپلائز سوشل سکیوریٹی ایکٹ کے تحت گھریلو ورکرز کو بنیادی سہولتیں دینے کا پابند کیا گیا۔

وفاقی حکومت نے 2022ء میں اسلام آباد ڈومیسٹک ورکرز بِل پیش کیا، جس کے تحت بروقت تن خواہ کی ادائی، کم سے کم اُجرت پر عمل درآمد، اوقاتِ کار اور چُھٹیوں کی تعداد کے تعیّن کی سفارش کی گئی۔تاہم، اس پر بھی عمل درآمد نہ ہوا اور ان تمام قانونی اقدامات کے باوجود گھریلو ملازمین کے حالات میں ذرّہ بَھر فرق نہ آیا۔ 

قبل ازیں، حکومتِ پنجاب نے پنجاب ایمپلائزسوشل سکیوریٹی، سوشل سکیوریٹی انسٹی ٹیوشن کے تحت گھریلو ورکرز کی رجسٹریشن کا عمل شروع کیا تھا، جو سُست روی کا شکار ہو گیا اور 2021ء تک صرف 15ہزار ورکرز کی رجسٹریشن ہو سکی، جب کہ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن نے پاکستان میں گھریلو ملازمین کی تعداد کا اندازہ 60/70لاکھ سے زیادہ لگایا ہے۔

اس حوالے سے ایک این جی او کے مہتمم کا کہنا ہے کہ’’ آپ لاکھ بلز اور آرڈیننسز منظور کروا لیں، جب تک مالکان اور ورکرز میں آگاہی پیدا نہیں ہوگی اور مالکان ان پر عمل درآمد کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں ہوں گے، یہ سب کوششیں بے کار ہیں۔ 90فی صد گھریلو ورکرز کو تو اِن قوانین اور اپنے بنیادی حقوق کا علم ہی نہیں اور کون سا مالک ایسا ہوگا، جو کم از کم اُجرتوں پر عمل کرے گا اور ملازمت سے پہلے اِن بچّوں، عورتوں اور اَن پڑھ مَردوں سے کنٹریکٹ سائن کروائے گا۔ 

اِس وقت گھریلو ملازمین کو ملازمت پر رکھنے، نکالنے اور سہولتیں فراہم کرنے کا جو نظام کام کر رہا ہے، وہ کسی قسم کے قانون کا پابند نہیں، لہٰذا صُورتِ حال کی تبدیلی کے لیے قومی سطح پر بھرپور آگہی مہم چلانی ہوگی۔ ان ملازمین کی بہتری کے لیے ایک طویل اور پُرخطر سفر طے کرنا ہے۔‘‘واضح رہے کہ 2011ء میں بین الاقوامی سطح پر عالمی معاہدہ ’’ڈومیسٹک ورکرز کنونشن‘‘ بھی منظور ہو چُکا ہے، جس میں پہلی مرتبہ گھریلو ملازمین کے تحفّظ کے عالمی معیارات مقرّر کیے گئے، لیکن بہت کم ممالک میں اِن پر عمل ہو رہا ہے۔

تصویر کا دوسرا رُخ

اگرچہ عوام کی اکثریت کی ہم دردیاں اِن خاموش آوازوں کے ساتھ ہیں، لیکن بعض فیملیز کو ان پر تحفّظات بھی ہیں۔ ایک شہری، سراج احمد سحر کہتے ہیں کہ’’گھریلو ملازمین کی اکثریت غربت زدہ علاقوں سے شہروں میں آتی ہے اور یہ اُن کے لیے یک سر ایک نئی دنیا ہوتی ہے۔ یہ لوگ تضادات کی ایک عجب دنیا میں کام کرتے ہیں۔ وہ خود رُوکھی سُوکھی کھاتے ہیں، جب کہ مالکان کے لیے انواع و اقسام کے کھانوں سے مزیّن دستر خوان سجاتے ہیں۔ یہاں انہیں پوش علاقوں میں اپنی محرومیوں اور غربت کا احساس دوچند ہو جاتا ہے، تو وہ گھروں سے نقد رقوم، زیورات، لیپ ٹاپ، موبائل فونز یا کپڑے جوتے وغیرہ چُرا لیتے ہیں۔ 

چُھپ چُھپا کر پھل، خشک میوہ جات، دودھ اور دوسری اشیاء پر بھی ہاتھ صاف کرتے ہیں۔ اکثر گھرانے ان کی آئے روز کی چُھٹیوں، ایڈوانس تن خواہ کے تقاضے، رقم حاصل کرنے کے لیے مختلف حیلے بہانوں اور کام چوری سے تنگ آجاتے ہیں۔ کئی ملازمین، خاص طور پر ڈرائیورز اور چوکیداروں وغیرہ کا تعلق باقاعدہ جرائم پیشہ عناصر سے ہوتا ہے اور وہ مہینے، دو مہینے بعد گھر کا صفایا کر کے چلے جاتے ہیں۔ نوجوان خادمائیں گھر والوں کی آسائشیں دیکھ کر اور راتوں رات امیر بننے کی خواہش میں گھر کے کسی فرد کو اپنے چُنگل میں پھنسانے کی کوشش کرتی ہیں، چاہے وہ بڑی عُمر کا کوئی بابا ہی کیوں نہ ہو۔ 

بعد میں وہ اُنہیں بلیک میل بھی کرتی ہیں۔خاص طور پر پوش علاقوں کے گھروں میں کام کرنے والی نوجوان لڑکیوں کا طرزِ زندگی تو دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ مالکن کے دئیے یا چُرائے ہوئے برانڈڈ ملبوسات، منہگے میک اپ، جوتوں اور بیش قیمت موبائل فونز کے ساتھ ان پر کسی گھریلو ملازمہ کا گمان نہیں ہوتا۔

بہرکیف، گھریلو ورکرز مُلکی معیشت میں اربوں کے لین دین کے باوجود معاشی سرگرمیوں کے کسی کھاتے یا حجم میں نہیں آتے۔ کم تن خواہ کے باوجود خاموشی سے سختیاں اور مظالم جھیلتے اپنی زندگیاں گزار دیتے ہیں۔ ان پر ہمیشہ غیر رسمی معیشت، یعنی (Informal Economy)کا لیبل لگا رہتا ہے۔شاید اشرافیہ اور حکومت بھی نہیں چاہتی کہ وہ غربت کی ریڈ لائن کراس کر کے خوش حال زندگی بسر کریں، کیوں کہ اُنہیں ایسی سَستی اور تابع دار لیبر فورس سے محروم ہونے کا ڈر ہوتا ہے، جو اُن کی ہمہ وقت خدمت کرتی ہے۔اِس لیے غالب امکان یہی ہے کہ وہ دُکھوں، غموں اور پریشانیوں کو خاموشی اور جبر سے برداشت کرتے رہیں گے۔ تاآنکہ اُن پر تشدّد یا ہلاکت کا کوئی الم ناک واقعہ’’ بریکنگ نیوز‘‘ بن کر اُن کی زخم خوردہ زندگی پر لگے گھائو طشت از بام نہ کر دے اور پھر چاہے کسی کو سزا ملے یا نہ ملے، اُن کے زخموں کا مداوا ہو نہ ہو، مسلسل رواں یہ کارواں کہیں نہیں رُکتا۔

گھریلو ملازمین کی دنیا

انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن اور WIEGO نامی تنظیم کے سروے کے مطابق دنیا بھر میں گھریلو ورکرز کی تعداد76 ملین یعنی 7کروڑ 60لاکھ ہے۔ ان میں76.2 فی صد خواتین ہیں، جب کہ بچّوں اور بچیوں کی اوسط عُمر 15برس کے قریب ہے۔ مجموعی ملازمتوں میں اِن گھریلو ملازمین کا حصّہ ایک سے دو فی صد تک ہے۔ تاہم، ہر مُلک میں اس کی شرح مختلف ہے۔82 فی صد گھریلو ملازمین ترقّی پذیر ممالک میں ہیں، جب کہ ایک کروڑ 30لاکھ ترقّی یافتہ ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ کے ترقّی یافتہ ممالک میں گھریلو ملازمین کا نصف خواتین، جب کہ 15فی صد مَردوں پر مشتمل ہے۔ 

دنیا بھر میں گھریلو ملازمین کی تن خواہیں دوسرے باقاعدہ ملازمین کے مقابلے میں نصف ہیں۔ ترقّی یافتہ ممالک میں ورکرز، بالخصوص خواتین کا زیادہ تر کام مریضوں اور بزرگوں کی دیکھ بھال ہے۔ برازیل اُن ممالک میں سرِ فہرست ہے، جہاں گھریلو ملازمین سے بہتر سلوک کیا جاتا ہے۔ ان کا باقاعدہ یونی فارم ہے اور ان پر لیبر لاز لاگو ہوتے ہیں۔ سنگاپور، ہانگ کانگ اور تائیوان میں ایسے افراد کو ملازمت سے قبل باقاعدہ ٹریننگ دی جاتی ہے۔یاد رہے، ہر سال دنیا بھر میں 16جون کو’’ ڈومیسٹک ورکرز ڈے‘‘ منایا جاتا ہے اور لیبر لیڈر’’گھریلو ملازمین، متحد ہو جائو‘‘ کا نعرہ بلند کرتے ہیں، جو ظاہر ہے کہ ہوا میں تحلیل ہو جاتا ہے۔

مِڈل ایسٹ کی عرب ریاستوں میں 66لاکھ گھریلو ملازمین کام کر رہے ہیں، جو پوری دنیا میں کام کرنے والے ایسے ملازمین کی تعداد کا تقریباً 9فی صد ہے۔ یہاں بھی ان ورکرز کے ساتھ بدسلوکی کی داستانیں عام ہیں۔ اِس سلسلے میں نائجیریا کی حکومت نے سب سے پہلے قدم اُٹھایا، جہاں اب غیر ممالک جانے والے گھریلو ملازمین کو مختلف کورسز کے ذریعے اُن کے حقوق سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ نائجیرین حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق دو سال میں مڈل ایسٹ میں کام کرنے والے23 نائجیرین گھریلو ملازمین ہلاک ہوئے، جب کہ سعودی حکومت نے اپنے مُلک میں ہونے والی اِن اموات کو طبعی موت قرار دیا۔

’’ چند روز کی میڈیا کوریج اس اہم مسئلے کا حل نہیں‘

رُکن گورننگ باڈی، سوشل سکیوریٹی پنجاب اور صدر ورکنگ ویمن آرگنائزیشن، آئمہ محمود کا گھریلو ملازمین سے متعلقہ مسائل پر کہنا ہے کہ’’ پنجاب میں 2019ء کے ایکٹ کے تحت گھریلو ملازمین کو ہر قسم کا تحفّظ حاصل ہے، لیکن حکومتِ پنجاب نے اس پر عمل درآمد کروانے میں بہت سُست روی کا مظاہرہ کیا۔ ایکٹ کے تحت 15سال سے کم عُمر کے بچّے ملازمت پر نہیں رکھے جاسکتے اور زاید عُمر کے بچّوں سے بھی سخت کام لینے کی ممانعت ہے، لیکن ہمارے ہاں اس کے بالکل اُلٹ ہو رہا ہے۔ اصل وجہ یہ ہے کہ 90فی صد گھریلو ورکرز اَن پڑھ ہیں، انہیں حکومتی رولز اینڈ ریگولیشنز کا علم ہی نہیں۔ 

ہمارے ہاں ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اکثر کم سِن ملازمین پڑھے لکھے افراد، ایلیٹ کلاس، وکلاء ، ججز، بیورو کریٹس اور بڑے تاجروں کے ہاں کام کر رہے ہیں، جو سب کچھ جانتے ہوئے بھی ان ورکرز کا استحصال کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اُنہیں علم ہے کہ موجودہ نظامِ انصاف کے تحت انہیں کسی قسم کی کوئی سزا نہیں ملے گی اور اگر کوئی بچّہ مر بھی جائے، تب بھی وہ بچ نکلیں گے۔‘‘آئمہ محمود نے مزید کہا کہ’’میرے نزدیک وہ والدین بھی برابر کے مجرم ہیں، جو صرف غربت کو جواز بنا کر اپنے کم سِن بچّوں کو بیگار کے لیے جہنّم میں دھکیل دیتے ہیں۔ انہیں صرف روپے پیسے کا لالچ ہوتا ہے۔

ایسے والدین کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے۔ نیز، حکومت بھی برابر کی ذمّے دار ہے، جو 16سال تک کی عُمر کے ہر بچّے کو مفت تعلیم دینے اور چائلڈ لیبر کے خاتمے کی پابند ہے۔ گھریلو ملازمین پر تشدّد کی چند دنوں کی میڈیا کوریج اس اہم مسئلے کا حل نہیں۔ اس سلسلے میں حکومت کو ایک واضح پالیسی بنا کر معاشرے میں ہر قدم پر ہونے والی ان نا انصافیوں اور ظلم و ستم کا سدّ ِباب کرنا چاہیے۔‘‘