• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج پاکستان کی معاشی تنزلی اس نہج تک پہنچ گئی ہے جس کی مثال ہماری 76 سالہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ بجلی ، پٹرول ،گیس ، چینی ، دودھ اور دوسری اشیا ء کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے نے نہ صرف محنت کشوں کی کمر توڑ دی ہے بلکہ سماج کو انارکی کی طرف دھکیل دیا ہے ،پاکستان میں بجلی کا موجودہ بل 50 سے 65 روپے فی یونٹ تک پہنچ گیا ہے جبکہ چین میں بائیس روپے، ہندوستان میں تیرہ روپے، ایران میں ساڑھے نو روپے اور افغانستان میں آٹھ روپے فی یونٹ ہے۔اس صورت حال پر قابو پانے کیلئے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ کم از کم تین سو یونٹ خرچ کرنے والے غریب عوام سے ،جنکی اوسط تنخواہ پچیس ہزا رسے چالیس ہزار تک ہے ، حکومتی ٹیکس اور دوسری ڈیوٹیز ختم کر کے قسطوں میں وصولی کی جاتی حالانکہ یہ بھی کوئی دیر پا حل نہیں ہے لیکن اس سے کم از کم عوام میں شدید بے چینی کی صورتحال کوکچھ قابو میں لایا جا سکتا ہے ۔ دوسری طرف پاکستان کی اشرافیہ اور حکمراں طبقہ کو پانچ ہزار ارب روپے سے زائد سالانہ سبسڈی دی جاتی ہے ۔موجودہ معاشی بحران کی اصل وجہ دراصل ریاست کے وہ اقدامات ہیں جس نے آئی ایم ایف سے معاہدوں کا بوجھ ریاستی اداروں پر ڈالنے کی بجائے عوام پر ڈال دیا۔ آج عوام کی ریاست سے بیگانگی اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے اور اگر فوری طور پربیوروکریٹس،ججوں، پارلیمنٹیرینز، عسکری اداروں کو دی جانے والی تمام سہولتیں جن میں بجلی، گیس ، پیٹرول، سرکاری گاڑیوں کی فراہمی شامل ہے ، واپس نہ لی گئیں تو حالات قابو سے باہر بھی ہوسکتے ہیں جس کی تمام تر ذمہ داری حکمراں طبقے پر عائد ہوگی جن کی سیاست کا محورعوام کی خوشحالی نہیں ہے۔آئی پی پیز سے اندھے معاہدے، بجلی کی چوری اوربجلی کے بلوں کی عدم ادائیگی کی قیمت بھی عوام کو بجلی کے بلوں کے ذریعے بھگتنا پڑتی ہے جو کہ دراصل حکومت اور انتظامیہ کی ناکامی ہے۔ہم ارے ہمسایہ ممالک میں عوام سے صرف بجلی کی اصل قیمت وصول کی جاتی ہے جبکہ ہمارے ہاں بجلی کے بل کا ایک تہائی حصہ ٹیکس اور دوسرے حکومتی چارجز پر مشتمل ہوتا ہے۔ہو نا تو یہ چاہئے تھا کہ بجلی کی قیمت قابل برداشت بنائی جاتی اور توانائی کے متبادل ذرائع یعنی ہوا اور سولر کے ذریعے سستی بجلی پیدا کی جاتی لیکن حکمرانوں نے مہنگے درآمدی فرنس آئل اور ایل این جی پر انحصار کیا ، یوں ہمارا تجارتی خسارہ تقریبا اٹھائیس ارب ڈالر تک پہنچ گیا اور زرمبادلہ کم ترین سطح پر آگیا۔آج پاکستان سولر کے ذریعے صرف ایک اعشاریہ چار فیصد اور ہوا کے ذریعے صرف چار اعشاریہ آٹھ فیصد بجلی پیدا کر رہا ہے جبکہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں ہوا کے قدرتی کوریڈورز موجود ہیں جہاں سے سستی بجلی پیدا کی جاسکتی ہے اور ایسی بجلی کی پیداوار ماحولیاتی حوالے سے بھی بہت سود مند ہے ۔یاد رہے کہ پاکستان میں ہر سال چالیس ہزار نئے گریجویٹس پیدا ہو رہے ہیں جن کو نوکری کی ضرورت ہے جس کیلئے بڑے پیمانے پرایسی صنعت کاری کی سخت ضرورت ہے جہاں زیادہ سے زیادہ مزدوروں کی کھپت ہو لیکن کیا کیا جائے کہ ایک فیصدصنعتی ترقی کے حصول کیلئے تقریبا ًایک اعشاریہ آٹھ پانچ فیصد بجلی کے اضافے کی ضرورت ہوتی ہے ۔جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بجلی کی سستی اور وافر پیداوار کے بغیر پاکستان کے معاشی اور سماجی مسائل کا حل ممکن نہیں۔

پاکستان کی اشرافیہ جس میں رئیل اسٹیٹ کے ٹائیکون، جاگیردار ، بیوروکریٹس، سجادہ نشین، قبائلی سرداراور سٹاک ایکسچینج کے سیٹھ شامل ہیں، ان تک یا تو ریاست کی پہنچ نہیں ہے یا ریاست ان سے ملی ہوئی ہے۔سابق چیئر مین ایف بی آر شبر زیدی نے جب رئیل اسٹیٹ اور تاجرطبقے پر ٹیکس لگانے کی کوشش کی تو پتا چلا کہ ڈی ایچ ایز میںکاروبار ٹھپ ہو گیا ہے اورانکی آہ و بکا سن کر عمران خان اور جنرل باجوہ نے شبر زیدی کو ان مراعات یافتہ طبقات پر ٹیکس لگانے سے منع کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان کی ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح نو فیصد کے قریب ہے اور ہندوستان اور بنگلہ دیش میں تقریباً اٹھارہ فیصد ہے ۔تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی قوم پر ایسے برے حالات آئے تو پوری قوم نے مل کر اپنی قربانیوں کے ذریعے ان سے نجات حاصل کی اور سماج کے خوشحال طبقوں اور اداروں نے اپنی مراعات کی قربانی دی۔

اس لیے آج اشد ضرورت ہے کہ تمام غیر پیداواری اخراجات کو ختم کیا جائے، گورنمنٹ ملازمین، ججوں،اور عسکری اداروں کے بجلی، پٹرول، گیس، سرکاری گاڑیوں اور دیگر مراعات کو فوری طور پرختم کیا جائے ۔کئی بلین ڈالرز کی درآمدات جس میں بلیوں اور کتوں کی خوراک، شیمپو، پرفیوم، جوتے اور ایسی غیر ضروری اشیائے تعیش جو صرف اشرافیہ کی ضرورت ہیں، کو ختم کیا جائے۔ہندوستان کی طرح پاکستان میں بھی کنٹونمنٹس کا خاتمہ کیا جائے ۔ جائیدادوں پر دوسرے ممالک کی طرح مارکیٹ ویلیو کی بنیاد پر ٹیکس نافذ کیا جائے۔ایران،افغانستان اور ہندوستان سے تعلقات کو خوشگوار بنا کر عسکری بجٹ میں کمی کی جائے۔فوری طور پر آئین کے مطابق نوے دن کے اندر الیکشن کروائے جائیں ۔ آج پاکستان بھر کی بار ایسوسی ایشنز اور ذی شعور دانشور آئین کی پاسداری کو پاکستان کی بقا سے جوڑتے ہیں۔پاکستان کی معاشی اور سیاسی ابتری کی جڑیں بہت گہری ہیں اور مرہم پٹیوں کے ذریعے ان امراض کا علاج ممکن نہیں۔ اس لیے جب تک پاکستان کو مراعات یافتہ طبقات اور مافیاز کے چنگل سے آزاد کراکےعوامی فلاحی ریاست کا قیام ظہور پذیر نہیں ہوتا، اس وقت تک نناوے فیصد عوام کی معاشی زبوں حالی کے رجحان کو روکنے کا کوئی امکان موجود نہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین