السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
قرض کی پیتے تھے مے، لیکن…
ہر اتوار کو جنگ اخبار اور سنڈے میگزین کا بےحد شدّت سے انتظار رہتا ہے۔ 25جون کے میگزین کا سرِورق دیکھتے ہی دل باغ و بہار ہوگیا۔ عیدالاضحٰی اور فریضۂ قربانی سےمتعلق ڈاکٹر حافظ محمّد ثانی کا مضمون بہت پسند آیا۔ ہمیشہ کی طرح رائومحمّد شاہد اقبال کامضمون ’’عیدِ قرباں کی حقیقی رُوح‘‘ گویا میگزین کی رُوح تھا۔ منور مرزا کا مضمون مشکل ترین اقتصادی حالات میں قدرے بہتر بجٹ کافی معلومات افزا تجزیہ تھا، ہمارے وزیرِ خزانہ نے کہا، منہگائی کو کم کیا جائے گا، مگراِس بجٹ میں تو غریبوں کے لیےکچھ بھی نہیں تھا، روزمرّہ اشیاء کی قیمتوں میں کمی تو دُورکی بات، اُلٹا اس قدراضافہ کر دیا گیا ہے کہ اب تو متوسّط طبقے کا بھی جینا دوبھر ہوگیا ہے۔
آگے منور مرزا نے بینکاک شہر کا ذکر کیا، وہ لکھتے ہیں کہ جب بینکاک ترقی کر رہا تھا، تو وہاں ہم جس کمرے سے باہر نکلتےتمام بتیاں خودبخود بُجھ جاتیں۔ اسی طرح بیش تر مُمالک میں بازار رات چھے بجےبند ہوجاتے ہیں، مگر پتا نہیں ہم کہاں کے شہنشاہ ہیں،جوتوانائی کی بچت کے لیے اپنے بازار بھی جلد بند نہیں کرسکتے؟ کیاضروری ہے کہ خریداری صرف رات ہی کوکی جائے۔ ہمیں بھی ہرصُورت سارے بازار رات 8 بجے تک بند کردینے چاہئیں۔ کیا ہم نے قسم اُٹھا رکھی ہے کہ کوئی کام دین کی تعلیمات کے مطابق نہیں کرنا، تب ہی تو آج ہمارا یہ حال ہے کہ ہر آنے والی حکومت کا کشکول، جانے والی حکومت سے کچھ بڑا ہی ہوتا ہے۔ وہ کیا ہے کہ ؎ قرض کی پیتے تھے مے، لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں… رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن۔ خیر، منور راجپوت کی تحریر کا جواب نہ تھا۔
اخترسعیدی کا بھی بےحد شکریہ کہ نت نئی کتابوں سے متعلق معلومات بہم پہنچاتے ہیں۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میرابہت ہی پسندیدہ صفحہ ہے۔اس بار ڈاکٹر یاسمین کا مضمون معلومات سے بھرپورتھا۔ اُن کی تحریرسےیہ بھی سیکھنے کو ملا کہ صحت سے متعلق کوئی معمولی مسئلہ بھی ہو، فوری طور پرکسی ماہر معالج ہی سے رجوع کرنا چاہیے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں نظیر فاطمہ کی تحریر ’’تیسرا حصّہ‘‘ بہت اچھی لگی اور لیاقت علی کی تحریر ’’ماموں نے ماموں بنا دیا‘‘ بھی بہت ہی مزے کی تھی۔ ’’عیدالاضحٰی اسپیشل‘‘ پر رئوف ظفر نے خاصی محنت کی، جو اک اک سطر سے نظرآرہی تھی۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں کائنات علی نے چٹ پٹی تراکیب سے پورےجریدے ہی کوچٹ پٹ کردیا۔ حکیم حارث نسیم سوہدروی کاقربانی کے گوشت سے متعلق مضمون لاجواب تھا اور ایڈیٹرصاحبہ! آپ کی بھی عیدالاضحٰی اسپیشل تحریر کا جواب نہ تھا۔ (اشوک کمار کولہی، گوٹھ جکھراڑی، کوٹ غلام محمّد)
ج: بے حد شکریہ، خصوصاً بازار جلد بند کرنے سے متعلق آپ کاموقف توگویا ہمارے دل کی آواز ہے۔ یقین کریں، کبھی کبھی تو جی چاہتا ہے،خاص طورپرکراچی کے عوام کوصبح سویرے کان سے پکڑ کر کھڑا کر دیں۔ ایک طرف تباہ حال معیشت کی دہائیاں ہیں، کاروبار نہ ہونےکارونا، دوسری طرف دوپہر ایک بجے سے پہلے دکانیں کھولنے کا نام نہیں لیتے۔ ایک بھیک منگی، بال بال قرض میں جکڑی قوم کو بھلا یہ زیب دیتا ہے کہ وہ اِس طرح دن چڑھے تک سوتی رہے۔ سورج کی اِتنی قیمتی روشنی کا زیاں کرے اور پھر رات دیرتک مصنوعی روشنی کا استعمال کرکے بجلی کمپنیوں کے ہاتھوں بلیک میل ہوتی رہے۔ مگر سچ تو یہ بھی ہے کہ اس مُلک میں کوئی حکومت، قانون، ریاست کی کوئی رِٹ ہی نہیں ہے، وگرنہ اس قدرمفلسی و بدحالی کے بعد توپوری قوم کوعلی الصباح ایک پائوں پر کھڑا کردینا چاہیے۔ نمازِ فجر کے بعد کاروبار کا آغاز ہو اور نمازِ مغرب کے بعد کاروبار بند کر کے بجلی کےتمام غیرضروری آلات کا استعمال ترک کردیا جائے۔
مزید اضافہ ممکن تھا!!
’’قصص القرآن‘‘ سلسلے میں ’’قصّہ یاجوج ماجوج‘‘ پڑھا۔ تحریر کافی جامع و مدلّل تھی، لیکن تاریخ کا ایک طالبِ علم ہونے کی حیثیت سے چند گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں کہ اس قصّے کے ضمن میں مزید اضافہ بھی ممکن تھا مثلاً یاجوج ماجوج ایک ایسے قبائل کا مجموعہ ہے، جو جسمانی ومعاشرتی اعتبار سے عجیب وغریب زندگی کےحامل ہیں۔ مثلاً وہ بالشت، ڈیڑھ بالشت یا زیادہ سے زیادہ ایک دراع قد رکھتے ہیں اور بعض غیرمعمولی طویل القامت ہیں۔ اُن کے دونوں کان اتنے بڑے ہیں کہ ایک اوڑھنے اور دوسرا بچھانے کے کام آتا ہے۔ چہرے چوڑے چکلےاور قد کے ساتھ غیرمتناسب ہیں۔ علاّمہ طنطاوی اپنی تفسیر ’’جواہر القرآن‘‘ میں لکھتے ہیں ’’یاجوج ماجوج اپنی اصل کے اعتبار سے حضرت یافث بن نوحؑ کی اولاد میں سے ہیں اور یہ نام لفظ ’’اجیح النار‘‘ سے ماخوذ ہے، جس کی معنی آگ کے شعلے اور شرارے کے ہیں۔
گویا ان کی شدت اور کثرت کی طرف اشارہ ہے اور بعض اہلِ تحقیق نے ان کی اصل پر بحث کرتے ہوئے کہا ہے کہ مغلوں ، منگولوں اور تاتاریوں کا سلسلۂ نسب ایک ’’ترک‘‘ نامی شخص تک پہنچتا ہے اور یہی شخص ہے، جس کو ماجوج کہتےہیں۔ یاد رہے، مختلف تاریخی زمانوں میں متعدد ’’سد‘‘ تعمیر کی گئیں، اُن میں ایک سد وہ بھی ہے، جو دیوارِ چین کے نام سے مشہور ہے۔ دوسری سد وسط ایشیا میں بخارا اور تزر کے قریب واقع ہے۔ تیسری سد روس کے علاقے داغستان میں ہے، جب کہ چوتھی سد، قفقاز یا جبلِ قاف کی سد کہلاتی ہے۔ چوں کہ یہ سب دیواریں شمال ہی میں بنائی گئیں اور ایک ہی مقصد کے لیے بنائی گئیں، اس لیے ذوالقرنین کی تعمیر کردہ سَد کے تعیّن میں سخت اشکال پیدا ہوگیا۔ بہرحال، دیوارِچین کے سوا باقی تین دیواروں ہی میں سے کوئی ایک دیوار ذوالقرنین کی تعمیر کردہ ہے۔ (بابر سلیم خان، لاہور)
ج: یہ آپ نے تحریروں کی اشاعت کا اچھا حل ڈھونڈا ہے۔ یہ دوسری مرتبہ ہے کہ ’’قصص القرآن‘‘پرتبصرے کی آڑمیں کچھ ایسی معلومات لکھ بھیجتے ہیں کہ پھرہم صفحے کے فارمیٹ کے برخلاف بھی شائع کرنے پرمجبور ہوجاتے ہیں۔
اس نام کا کوئی ڈویژن نہیں
’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمود میاں نجمی کا مضمون ’’قصّہ ذوالقرنین‘‘ پڑھا، بہت اچھا لگا۔ دو اقساط میں کس قدر اہم معلومات سے مستفید کردیا گیا۔ ویسے میرے خیال میں مضامین کی زیادہ اقساط ہونی بھی نہیں چاہئیں۔ اس بار آپ جس طرح ’’قصص القرآن‘‘ میں مختلف قصّے ایک ، ایک دو، دو اقساط کی صُورت شائع کر رہے ہیں، یہ بہترین طریقہ ہے۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں ’’بڑی عید کے بڑے مزے‘‘ کا جواب نہیں تھا۔ بہاری بوٹی کی ترکیب بہت عُمدہ تھی۔
سو، آزمائی بھی گئی اور یہ آپ نے اقصیٰ منور ملک کا نام ناقابل اشاعت کی فہرست میں شامل کردیا ، کہاں وہ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں ’’اِس ہفتے کی چِٹھی‘‘ کی حق دار ٹھہرتی ہیں۔ ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ سلسلے میں بہت پیارے پیارے پیغامات پڑھنے کو ملے اور’’آپ کا صفحہ‘‘ میں بشیر احمد بھٹی نے ماضی کے ’’جنگ‘‘ کے دَور کا لکھا، تو وہ دَور ہم نے بھی دیکھ رکھا ہے۔ واقعی، ٹارزن کی کہانی کا جواب نہیں تھا۔ ایک بات اور، ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں شمائلہ نیاز کے نام کےساتھ اُن کا جو پتادرج ہوتاہے، اُس میں ڈویژن ’’دائرہ دین پناہ‘‘ لکھ رکھا ہوتا ہے۔ ہمارا نہیں خیال کہ پورے پاکستان میں اِس نام کا کوئی ڈویژن ہے۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)
ج: جب آپ لوگ عدم معلومات کے باوجود کسی معاملے میں اپنی حتمی رائے کا اظہار کرتے ہیں تو بخدا خون کھول اُٹھتا ہے۔ ہم خود تو کبھی ’’دائرہ دین پناہ‘‘ نہیں گئے، لیکن گوگل کر کے دیکھیں، تو اس قصبے سے متعلق کیا کیا معلومات نہیں ملتیں۔ فیس بُک پرتو پورا ایک پیج ’’دین پناہی لیجنڈز‘‘ کے نام سے موجود ہے۔ اور دائرہ دین پناہ سےمتعلق لکھاہےکہ ’’صدیوں سے آباد دائرہ دین پناہ تاریخی، علمی، مذہبی، ادبی، تجارتی اورسیاسی اعتبارسے تقریباً پچاس ہزار نقوس پر مشتمل آبادی کے ضلعے مظفّر گڑھ کا ایک اہم ترین قصبہ ہے۔‘‘ جب کہ وکی پیڈیا پراس نام کے ریلوے اسٹیشن کا صفحہ بھی موجود ہے۔ رہی اقصیٰ منور کی بات، تو بعض تحریریں جریدے کےموضوعات/فارمیٹ سے مطابقت نہ رکھنے کے سبب بھی ناقابل اشاعت کی فہرست میں شامل ہوجاتی ہیں۔
جگہ جی لگانےکی دنیا نہیں ہے…
اُمید ہے، آپ خیریت سےہوں گی، آپ کا میگزین پڑھا اور ایک اور شکریہ واجب ہوا۔ ویسےبھی شکریہ ادا کرنا چاہیے، کیوں کہ مسلمہ طور پر یہ ایک گولڈن ورڈ ہے۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں ترکیہ اور تھائی لینڈ انتخابات ہمارے لیے ایک گائیڈ لائن تھے۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ پڑھا۔ آئینی اورعدالتی بحران کےحل کے لیے ضروری ہے کہ ہرادارہ اپنی مقررہ آئینی حدود میں رہ کر کام کرے۔ ویسے جب تک انصاف کے دریچے مساوی طور پرنہیں کُھلتے۔
معاشرے میں بگاڑ اورفساد ہی رہے گا کہ کوئی بھی معاشرہ بجز انصاف قائم نہیں رہ سکتا۔ لیکن اِدھر تو یہ حال ہے بقول مصطفیٰ زیدی ؎ مَیں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں…تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے۔ اور پھر صورتِ حال خاص طور پر جب یہ بنی ہوئی ہو کہ ہر جگہ مختلف لبادوں میں، مستعد ہوں اگرسہولت کار، کیسے قانون کی گرفت میں آئیں،ہیں خطاکار، جو سیاست کار۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمود میاں حسب معمول دینی و علمی معلومات کاخزانہ لیےموجود تھے۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں راؤ محمّد شاہد اقبال نے نام نہاد عالمی رہنمائوں کا تیا پانچا کرڈالا کہ توّہم پرستی کم زور ذہنوں کی علامت ہے۔ رئوف ظفر کا نور محمّد جرال سے انٹرویو خاصا پُرمغز رہا۔ مدیرہ صاحبہ کا سفید رنگ پر رائٹ اَپ خوب ٹھہرا۔
ویسے وائٹ سے بہت سی باتیں جڑی ہوئی ہیں ۔ مثلاً White Money, White Memory, White House,White Lie, White And Black World تاہم "White is the most wonderful colour because with in it, you can see all colors of the rainbow" ’’ہمارا وَرثہ‘‘ میں عبدالقادر بلوچستان کے تاریخی شہر سبّی کا احوال بیان فرما رہے تھے۔ واقعی اولڈ از گولڈ۔ ہیلتھ اینڈ فٹنس میں ڈاکٹر صائمہ کا بچّوں کی صحت سےمتعلق مضمون کافی اچھا رہا۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں ’’وصفِ حیا‘‘ اورعالیہ زاہد کا ’’فکر ِآخرت‘‘ فکرانگیز مضامین تھے۔ وہ ہے ناں کہ ؎ جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے… یہ عبرت کی جا ہے، تماشا نہیں ہے۔ (جاوید اقبال، بلدیہ کالونی، چشتیاں، ضلع بھاول نگر)
ج: آج ایک اور شکریہ واجب ہوسکتا تھا، اگر آپ نے خط میں انگریزی کی اِس قدربھرمار نہ کر رکھی ہوتی( کافی کچھ تو ایڈٹ بھی ہوگیا) خیر، تحریر آپ کی بہت اچھی ہے اور اگر آپ ’’اِس ہفتے کی چِٹھی‘‘ کا اعزاز پاتے ہیں، تو درست ہی پاتے ہیں۔
مطالعے کی رسیا
اُمید ہے، خیریت سے ہوں گی۔ پہلی مرتبہ کوشش کررہی ہوں، اپنے خیالات کو تحریری شکل میں پیش کرنے کی۔ اگرچہ قلم بے چین رہتا ہے، سنڈے میگزین کے ہر صفحے پر بے لاگ تبصرہ کرنے کو اور یہ میرا پسندیدہ اخبار اور جریدہ بھی ہے۔ گوکہ میں ابھی چھوٹی ہوں، اسکول میں زیرِ تعلیم ہوں مگر ہر قسم کی نصابی، غیر نصابی کتب کے مطالعے کی گویا رسیا ہوں۔ اگر آپ یہ پہلی تحریر شائع فرما کر حوصلہ افزائی کریں گی، تو آئندہ بھی لکھنے لکھانےکی ہمّت ملے گی۔ (ماہ نور شاہد احمد، میرپورخاص)
ج: ماہ نُور! دورِ حاضر میں تم جیسے مطالعے کے رسیائوں کا کیسا قحط ہے، تمھیں اندازہ ہوتا ہے، تو خُود بھی اپنی قدر کر پاتی۔ بہرکیف، ہم تمھیں تہہ دل سے خوش آمدید کہتے ہیں، اب آتی جاتی رہنا۔
فی امان اللہ
اس ہفتے کی چٹھی
شمارہ موصول ہوا۔ سرِورق پرفادرز ڈے کی مناسبت سے فادر کے ساتھ دوبچّے براجمان تھے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمود میاں نجمی ’’قصّہ ذوالقرنین‘‘ کی پہلی قسط لائے۔ ’’فادر زڈے اسپیشل‘‘ میں رائومحمّد شاہد اقبال نے بابر بادشاہ اور برائن کی اپنے بیٹوں کے لیے قربانی کی لازوال داستان رقم کی۔ ہم نے درسی کتاب میں ایک نظم پڑھی تھی، جس میں بابر کے اسی واقعے کی طرف اشارہ تھا۔ ’’فادرزڈے اسپیشل‘‘ ہی میں شفق رفیع فکرانگیزمضمون لائیں کہ کئی باپ بیرونِ ملک بڑی مشقّت، جاں فشانی سے کما کما کر بچّوں کو رقم بھیجتے ہیں اور وہ یہاں گلچھڑے اڑاتے ہیں،مگرجب وہ کم زور و ناتواں باپ واپس آتا ہے، توخُوش دلی سے استقبال کرنے کے بجائےایسا رویّہ اختیار کرتے ہیں کہ وہ خُود کو بوجھ سمجھنےلگتا ہے۔
کس قدراحسان فراموشی ہے یہ۔ حالاں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا کہ ’’والدین کےساتھ احسان کرواور اُن کے لیے دُعا کرو کہ یااللہ! اُنہوں نے مشقّت اُٹھا کر ہمیں پالا ہے، اب اُن کی ناتوانی پر رحم فرما اوراُنہیں اچھا صلہ عطا فرما‘‘۔ ’’حالات واقعات‘‘ میں منورمرزا حُکم رانوں، سیاست دانوں کی خُود غرضی، مفاد پرستی اور لُوٹ کھسوٹ کےسبب مُلک کی تباہ حال معیشت پر نوحہ کُناں تھے۔ عوام دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں اور اِن کے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کے انکشافات سامنےآرہے ہیں۔
ہمارے اجداد تو ایسے حُکم ران تھے کہ جب عرب میں قحط پڑا تو حضرت عمرؓ نے روٹی پر زیتون کا تیل لگا کر کھانا چھوڑ دیا۔ پوچھا، تو فرمایا ’’کیا سب کو زیتون کا تیل میسّرہے‘‘ اُن کی مثالیں تو دی جاتی ہیں، لیکن عمل بالکل برعکس ہے۔ اور…’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں ایڈیٹرصاحبہ کاقلم بھلا ’’یومِ والد‘‘ پر کیسےجولانیاں نہ دکھاتا۔ سو، حمّاد نیازی کی متاثرکُن نظم سے آغاز کیا گیا رائٹ اَپ، بھنگڑا گروپ کے مظہر راہی اور اُن کے دو پیارے پیارے بچّوں کا فوٹو شوٹ سب کچھ ہرلحاظ سے بہترین تھا۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں پیرزادہ شریف الحسن نے اچھی نشان دہی کی کہ اولاد کی خواہشات کی تکمیل ہی کافی نہیں،اُنہیں وقت دینا، اُن کے مسائل جاننا بھی اشد ضروری ہے۔
علاّمہ اقبال کے والد کی نصیحت دریا کو کُوزے میں سمیٹنےکی مترادف تھی۔ نظیر فاطمہ کے افسانے کا جواب نہ تھا۔ ’’جیون کے میلے میں بابا‘‘ نیّرکاشف کی پُراثر نظم تھی۔ ’’اِک رشتہ، اک کہانی‘‘ میں شگفتہ بانو، فوزیہ ناہید اور ریحان احمد اپنےاپنے والد کی محبّت، محنت و مشقّت اورشفقتِ پدری کو خراجِ تحسین پیش کر رہےتھے۔ ’’ایک پیغام، پیاروں کےنام‘‘ میں شان دارپیغامات پڑھنے کو ملے اور اب آپہنچے ہیں، اپنے باغ و بہارصفحے پر، جس میں ہماری چٹھی کو’’اس ہفتےکی چٹھی‘‘ کے اعزاز سے نوازا گیا، بےحد شکریہ۔ باقی لکھاری بھی اچھی کاوشیں لائے۔ (شہزادہ بشیرمحمّد نقش بندی، میرپورخاص)
ج: لیجیے، آج ایک بار پھر یہ اعزاز آپ کا ہوا۔
گوشہ برقی خطوط
* مَیں یہ جو کہانی آپ کو بھیج رہی ہوں، صرف آپ ہی کے جریدے کے لیے بھیجی ہے۔ کیا یہ ’’یومِ آزادی‘‘ کے موقعے پر شایع ہوجائے گی۔ (مسز کرافٹر)
ج: آپ کی ای میل کے ساتھ نہ تو کوئی اٹیچ منٹ ہے اور نہ ہی آپ نے ای میل پر اپنا نام تحریر کیا ہے۔ چوں کہ آئ ڈی ’’مسز کرافٹر‘‘ کے نام سے ہے، تو ہم آپ کو مطلع کرنے کے لیے یہی نام استعمال کررہے ہیں۔
* میری آپ سے ایک گزارش ہے کہ ایک صفحہ صرف نئے لکھنے والوں کے لیے مختص کیا جائے۔ تاکہ اُن کی حوصلہ افزائی ہو۔ مَیں نے سنڈے میگزین کے لیے کئی تحریریں بھیجی ہیں، مگر کوئی ایک بھی شایع نہیں ہوسکی۔ ( سیّدہ فاطمہ جبیں)
ج: ’’سنڈے میگزین‘‘ کا کوئی ایک نہیں، متعدّد صفحات نوآموزوں ہی کے لیے وقف ہیں، لیکن نوآموز لکھاری کا مطلب یہ بھی ہرگز نہیں کہ جوایک سطرڈھنگ سے لکھنا نہ جانتا ہو، ہم محض اِس بنیاد پر کہ نئے لکھاریوں کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے، اُس کی تحریر شایع کردیں۔ ہمارے سلسلوں متفرق، پیارا پاکستان، پیارا گھر، کچھ توجّہ اِدھر بھی، ڈائجسٹ، ناقابلِ فراموش، اور اپ کا صفحہ سب ہی پر نوآموز لکھاریوں کی بھرمار ہے، لیکن بنیادی شرط یہی ہے کہ تحریرمیں اِتنی تو جان ہو کہ اُس پر محنت کر کے اُسے قابلِ اشاعت بنایا جاسکے۔
* آپ نے عید پیغامات میں میرا پیغام شایع کیوں نہیں کیا؟؟ کیا میرا پیغام قابلِ اشاعت نہیں تھا؟ (مستقیم نبی، نواب شاہ)
ج : اس بار پیغامات3 اقساط میں شایع کیے گئے، اور ہمیں سوفی صد یقین ہے کہ کسی نہ کسی اشاعت میں آپ کا پیغام بھی شایع ہوا ہے، کیوں کہ جوکچھ نام ذہن میں محفوظ رہ جاتے ہیں، اُن میں آپ کا نام بھی شامل ہے۔
* ’’عید ایڈیشن‘‘ میں اپنی شایع شدہ تحریر دیکھ کر بےحد خوشی ہوئی۔ بخدا آپ لوگوں کی حوصلہ افزائی بہت خوشی دیتی ہے۔ اللہ رب العزت ادارے کو دن دونی رات چوگنی ترقی دے۔ (محمّد عُمر اسرار، بھکّر)
ج: اللہ پاک آپ جیسے قارئین سدا سلامت رکھے۔
قارئینِ کرام !
ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk