السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
پارک میں خار کیوں…؟
اس ہفتے کے جریدے میں ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ پڑھ کر دل خوف سے کانپ اٹھا۔ یااللہ! یاجوج ماجوج بحیرۂ طبریہ کا سب پانی پی جائیں گے۔ ویسے مُلکِ عزیز کے حُکم رانوں نے بھی عوام کو پانی کی بوند بوند کے لیے ترسا رکھا ہے بلکہ یہ نام نہاد اشرافیہ تو سارا مُلک ہی کھا گئی ہے۔ خیر، آگے بڑھی تو منور مرزا اردوان کی فتح کو سلطنتِ عثمانیہ کی بحالی کی بازگشت کے تناظرمیں بیان کرتے دکھائی دیے۔ انہوں نے سوفی صد درست کہا کہ پاکستان میں معاشی نظریے کی حامل لیڈر شپ کا ہونا بے حد ضروری ہے۔ ڈاکٹر عزیزہ انجم تحریر میں بہت کھری باتیں کررہی تھیں۔
شفق رفیع نے فخرِ پاکستان، وطنِ عزیز کی پہلی خاتون، آرکیٹیکٹ، یاسمین لاری سے بہترین ملاقات کروائی۔ اُن کی معصومانہ باتیں دل چُھو گئیں۔ ’’گوری کرت سنگھار…‘‘ لائبہ مغل کا شُوٹ پیارا لگا، مگر ’’پھٹّا‘‘ سی آنکھوں میں تھوڑی لاج، حیا بھی نظر آنی چاہیے، ہاہاہا… ماہ روز بیوٹی پارلر! تھوڑی سی اور محنت کرو اور کسی مشّاطہ سے کہو، گوری کو تھوڑ شرمانا ورمانا بھی سکھائے۔ مَیں خود کسی دَور میں ماہر بیوٹیشن رہی ہوں، اِس لیے نصیحت کرنا تو بنتا ہے ناں۔ ویسے نرجس ملک! تمہاری تحریر کا جواب نہیں۔ ڈاکٹر کامران خان سمالانی نے کھانسی پر عُمدہ مضمون لکھا۔ اختر سعیدی کے تبصرے کا جواب نہ تھا اور ناشرین کے نمبرز کی اشاعت پر جس قدر شکریہ ادا کیا جائے، کم ہے۔
اب آتی ہوں ’’ہائیڈ پارک‘‘ میں۔ ’’ارے بی بی شاہدہ تبسّم! یہ پارک میں اس قدر’’خار‘‘ کیوں؟ تم نے اپنے خط میں سب ادب آداب بالائے طاق رکھ کر ایڈیٹر کے ساتھ جو گفتگو کی، طبیعت پر سخت گراں گزری۔ ایک حدیث کا کم و بیش مفہوم ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، جن کو ہم نے عزّت سے نوازا، تم کو چاہیے کہ اُن کی عزت کرو۔ میرا نہیں خیال کہ محض خط کے کاغذ کو ’’لیر‘‘ یا ’’چیتھڑا‘‘ لکھنا، کوئی اس حد تک معیوب یا قابلِ اعتراض بات ہے کہ اِس پر اس طرح بدکلامی کی جائے۔ بیش تر لوگوں کے ’’چیتھڑا خطوط‘‘ کو ’’ریشم‘‘ بناکر پیش کرنا اِسی نرجس بیٹی ہی کا کمال ہے اور مَیں تواِس کی اِس خوبی کی دل سے قدر دان ہوں۔ میری دُعا ہے کہ اللہ رب العزت اس جریدے سے وابستہ ہر فرد کو دن دونی، رات چوگنی ترقی عطا فرمائے۔‘‘ (شبینہ گل انصاری، نارتھ کراچی، کراچی)
ج: شبینہ جی! تحمّل رکھیں۔ کبھی کچھ نرم گرم ہماری طرف سے ہوتا ہے، تو کبھی کبھی قارئین کی طرف سے بھی ہوسکتا ہے، یہ تو ایک دوسرے پر مان سمان کی بات ہے۔ ایک طویل عرصے سے ہم اعتماد اور دوستی کے جس بندھن میں بندھے ہیں، اس کے توسّط سے ایک دوسرے پر اتنا حق تو بنتا ہی ہے ناں۔
خُوب لتّے لیے…
’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمود میاں نجمی ’’قصّہ یاجوج ماجوج‘‘ کے عنوان سے بہت اہم معلوماتی تحریر لائے۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں اسرارایوبی نے25 لاکھ سے زائد صنعتی اوردیگراداروں کے ملازمین کا تذکرہ کیا کہ آج بھی رجسٹریشن سے محروم ہیں، لیکن وہ بھول گئےکہ دیگر اداروں کے ڈیلی ویجز ملازمین تو کسی بھی فائدے سے محروم ہیں۔ یہ طبقہ کسی سرکاری ادارے میں ہویاپرائیویٹ میں، ہر طرح کی مراعات سے محروم ہی رہتاہے۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا نے9 مئی کے حوالے سے پاکستانی سیاست دانوں اور بیرونِ مُلک آباد پاکستانیوں کو خُوب لتاڑا۔
پی ٹی آئی کو خُوب خُوب صلواتیں سُنائیں اور میرے خیال میں تو بالکل ٹھیک ہی درگت بنائی۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں رائو محمّد شاہد اقبال نے ایک حیرت انگیز انسان کا عُمدہ تعارف کروایا۔ ’’رپورٹ‘‘ میں منور راجپوت ’’پلاسٹک، بلاسٹک‘‘ کے عنوان سے شان دار رپورٹ لائے۔ ’’انٹرویو‘‘ میں محمّد ارسلان فیاض نے بلوچستان کے قابلِ فخر سپوت، ڈاکٹر محمّد اعظم بنگلزئی کا تعارف کروایا۔ سلمیٰ اعوان کا افسانہ مجھے بالکل سمجھ نہیں آیا۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے دونوں واقعات اچھے تھے، مگر آپ کا صفحہ میں میرا خط شامل نہیں تھا۔
اگلے شمارے کے ’’عالمی افق‘‘ میں منور مرزا نے تُرکیہ میں اردوان کی فتح کے تناظر میں پاکستانی حکومت اور سیاست دانوں کے ایک بار پھر خوب لتّے لیے۔ ’’گفتگو‘‘ میں شفق رفیع نے یاسمین لاری سے خصوصی بات چیت کی۔ یاسمین لاری کا کہنا ہے کہ دنیا میں چالیس فی صد ماحولیاتی آلودگی کنکریٹ اور اسٹیل کے سبب ہے، اس کے بجائے بانس اور لکڑی سے تعمیراتی کام کیا جائے، لیکن ہمارے خیال میں یہ باتیں قابلِ عمل نہیں۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر کامران خان سمالانی نے بہت معلوماتی تحریر پیش کی۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں ’’پُرکھوں کی امانت‘‘کیا زبردست افسانہ تھا اور سیّدمحسن علی نے بھی ’’نقل نہیں آساں‘‘ کے عنوان سے ایک اچھی تحریر ہماری نذر کی۔ دوسرے ایڈیشن میں ہمارا خط موجود تھا، سو آپ کا بہت بہت شکریہ۔ (سیّد زاہد علی، شاہ فیصل کالونی، کراچی)
ج: آج ایک بار پھر آپ کے دو خطوط یک جا کرکے شائع کیے جارہے ہیں۔ تو اگلی بارآپ کودوبار’’شکریہ، شکریہ‘‘کہنا چاہیے۔
تحریروں کا اسٹیٹس؟
مئودبانہ درخواست ہے کہ مَیں بھی روزنامہ جنگ کا تقریباً چالیس سال پرانا قاری ہوں۔ جولائی کے ایڈیشن میں بشیر احمد بھٹّی نے اپنے مکتوب میں لکھا کہ ’’ٹارزن کی کہانی نے بڑے بڑے پبلشرز کا کام ٹھپ کردیا تھا۔‘‘ تو یقیناً ایسا ہی تھا۔ ہم بھی بچپن میں ٹارزن کی کہانی بڑے شوق سے پڑھا کرتے تھے۔ خیر، عرض یہ کرنا تھا کہ مَیں نے ایک افسانہ ’’آبِ وطن‘‘ کے عنوان سے ’’ڈائجسٹ‘‘ کے لیے بھیجا تھا۔
افسانہ شائع ہوا، اور نہ ہی ناقابلِ اشاعت کی فہرست میں میرانام آیا۔ طویل انتظار کے بعد ایک اور افسانہ ’’اِک ہلکی سی مُسکان‘‘ بھیجا۔ وہ بھی شائع ہوا، نہ ہی ناقابلِ اشاعت کی فہرست میں شامل ہوا، پھر کافی انتظار کے بعد تیسرا افسانہ ’’ رنگین لفافے‘‘ بھیجا۔ اُس کے ساتھ ہی صفحہ ’’متفرق‘‘ کے لیے ایک مضمون ’’آسانیاں تقسیم کریں‘‘ بھی بھیجا۔ دونوں شائع ہوئے، نہ نام ناقابلِ اشاعت کی فہرست میں شامل ہوا۔ آپ سے گزارش ہے کہ میری تحریروں کے اسٹیٹس سے آگاہ فرمائیں۔ (محمّدعلی سحر، محمود آباد، کراچی)
ج:ہمارے پاس آپ کی آخرالذکر تینوں تحریریں موجود ہیں اورتینوں ناقابل اشاعت ہیں۔
گداگری کی مذمّت…؟؟
براہِ مہربانی گداگری کی مذمّت نہ کیا کریں۔ ہمیں تو گداگری کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے کہ یہی ایک پیشہ بچا ہے، جس سے آدمی روٹی روزی کما سکتا ہے، وگرنہ تو کسی بھی شعبے میں روزگار بچا ہی نہیں ہے۔ ہرفیلڈ میں مندی،کساد بازاری ہے۔ عوام پریشان اور مفلوک الحال ہیں، تو براہِ کرم لوگوں کو ترغیب دیں کہ وہ گداگروں کو زیادہ سے زیادہ خیرات دیا کریں تاکہ غرباء میں خوش حالی آئے۔ آپ لوگ گداگری کی تو حوصلہ شکنی کرتے ہیں، کبھی حُکم رانوں کے بارے میں ایک لفظ نہیں لکھا، جو آئے روز کشکول لیے سعودی عرب، چین اور آئی ایم ایف کے در پر پہنچے ہوتے ہیں۔ (نواب زادہ بے کار ملک، سعید آباد، کراچی)
ج:عقل، مَت کی کسی بات کی توقع توآپ سے پہلے بھی کبھی نہیں تھی۔ مگرآج توآپ نےحد ہی کردی ہے۔ جب دینِ اسلام نے گداگری کی شدید مذمّت کی ہے، توہم کیسے اِس کی حوصلہ افزائی کرسکتے ہیں۔ آپ ﷺ نے ہمیشہ ہاتھ سے روزی کمانے کو ترجیح دی اور کسبِ حلال کوعین فرض قرار دیا۔ ارشادِ نبویؐ ہے کہ ’’خُود کمانا تمہارے لیے بہتر ہے، بہ نسبت اس کے کہ تم قیامت کے روزایسی حالت میں حاضرہو کہ مانگنے کا داغ تمہارے چہرے پرہو۔‘‘ اور ہم نے حُکم رانوں کے اِس طرزِ عمل کی بھی ہمیشہ حوصلہ شکنی ہی کی ہے، نہ کہ اُن کو پھولوں کے ہار پہنائے جاتے ہیں۔
ہمیں بھی ایسا لیڈر مل جائے
اللہ تعالیٰ آپ کو اور آپ کی ٹیم کو خُوش رکھے۔ مَیں آج پہلی دفعہ سنڈے میگزین پر تبصرہ بھیج رہی ہوں۔ دراصل مَیں ایک ٹیچر ہوں اور آج کل اسکول سے چُھٹیاں ہیں، اس لیے کچھ فرصت میسّر ہے۔ تو لیجیے، 11سے17جون کے شمارے پر تبصرہ حاضر ہے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمود میاں نجمی نے قصّہ یاجوج ماجوج کے متعلق تفصیلاً لکھا، مضمون بہت پسند آیا، کیوں کہ بہرحال یاجوج ماجوج کا خروج قیامت کی بڑی نشانیوں میں سے ہے اور ہمارا اس پرکامل ایمان ہے۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں ڈاکٹرعزیزہ انجم نے سچ ہی کہاکہ بچّوں کی اچھی تعلیم و تربیت کے لیے مائوں کو اپنی جان مارنی پڑتی ہے۔ ’’عالمی افق‘‘ میں منور مرزا اردوان کی فتح کے حوالے سے بہت عُمدہ تحریر لائے۔ بلاشبہ رجب طیّب اردوان نے اپنے معاشی پروگرامز اور کام یاب منصوبوں ہی سے اپنی قوم کو اِس مقام پر لاکھڑا کیا ہے۔
اللہ کرے، ہمیں بھی کوئی ایسا لیڈر مل جائے۔ (آمین) شفق رفیع نے فخرِ پاکستان، وطنِ عزیز کی پہلی خاتون آرکیٹیکٹ، یاسمین لاری سے بہت اچھا انٹرویو کیا۔ نرجس ملک کا ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں کہنا تھا کہ ’’اگرحُسنِ سیرت اورحُسن صورت دونوں مل جائیں، توانسان دنیا کا خوش نصیب ترین انسان بن جائے۔‘‘ بےشک، ایسا ہی ہے۔ اور ’’ڈائجسٹ‘‘ کے دونوں افسانے بھی لاجواب تھے۔ (شکیلہ ملک، نیلور، اسلام آباد)
ج:موسمِ گرما کی تعطیلات تو تمام ہوئیں، مطلب اب آپ کی اگلی چِٹھی یا تو سرما کی چُھٹیوں میں ملے گی یا اگلے برس جون جولائی میں۔
’’عیدالاضحٰی اسپیشل ایڈیشن‘‘ لگا
اس بارمیگزین میں زیادہ ترمضامین بقر عیدسےمتعلق تھے، اور میگزین ’’عیدالاضحٰی اسپیشل ایڈیشن‘‘ لگ رہا تھا۔ ویسے سب ہی مضمون نگاروں نے اچھا لکھا، ہر تحریر پڑھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ سرِورق تو بہت ہی خُوب صُورت تھا۔ ’’پیارا گھر‘‘ کا بھی جواب نہ تھا کہ کھانے پینے کا خاصا سامان جوموجود تھا۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ کی دونوں تحریریں اپنی اپنی جگہ کمال لگیں۔ اور ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ میں بھی بہت ہی پیارے پیارے پیغامات پڑھنے کو ملے۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)
ج: ارے بھئی، یہ جو آپ کو لگتا ہے، وہ صرف لگتا نہیں ہے، حقیقتاً ویسا ہی ہوتا ہے۔ اب عیدالاضحٰی کے موقعے پر ہم ’’بقر عید ایڈیشن‘‘ تیار نہیں کریں گے، تو کیا گھاس کھودیں گے۔ آپ اِسی طرح کی کچھ بات پہلے ہمارے’’ فادرز ڈے ایڈیشن‘‘ سے متعلق بھی کر چُکے ہیں۔
شاعرانہ اظہارِ خیال
روزنامہ جنگ بہت شوق سے پڑھتی ہوں، بہت اچھا لگتا ہے۔ ’’پیارا گھر‘‘ کے عنوان پر کچھ نظمیہ اشعارلکھے ہیں۔ گھر کے اندر رشتوں کی قدر و پیار، رہنے والوں کا طرزِ زندگی سب شاعرانہ انداز میں بیان کیا ہے۔ نو ک پلک درست کر کے پلیز ضرور شائع کیجیے گا۔ (قاری کوثر بنتِ اقبال، کراچی)
ج: سوری۔ آپ کی نظم تو شاعر کو چیک کروانے کی بھی زحمت نہیں کرنی پڑی۔ پلیز، آپ نثر میں اظہارِ خیال کی کوشش کریں۔
فی امان اللہ
اس ہفتے کی چٹھی
نرجس بٹیا! سدا خوش رہو۔ والد کی شفقت بَھری محبّتوں کی چاشنی میں ڈوبا شمارہ ہاتھوں میں ہے۔ شمارے کا ہر صفحہ باپ کی لازوال قربانیوں، محنتوں، محبّتوں کی اَن مول باتوں، یادوں سے مزیّن ہے۔ سرِورق پرمظہر راہی اپنے شہزادوں کے ساتھ براجمان دکھائی دیئے۔ ’’سنیٹر اسپریڈ‘‘ پرحمّاد نیازی کے باپ کی یادوں میں ڈوبےاشعار نے والد کی یادیں تازہ کردیں۔ اِن میں اولاد کے لیے ایک بہترین پیغام بھی ہے کہ جن کے والد حیات ہیں، وہ اُن کی جس حد تک خدمت کرسکتے ہیں، کرلیں۔
بے شک، بدنصیب ہے وہ اولاد، جو زندہ والدین کی قدر نہیں کرتی اور جسے اُن کی باتیں، نصیحتیں بُری لگتی ہیں۔ تم نےسوفی صد درست لکھا کہ ’’ہمارا تو ہر دن ہی مدرز ڈے اور فادز ڈے ہونا چاہیے‘‘ لیکن تیزی سے بدلتے حالات، مغربی معاشرے کے زہریلے اثرات کےسبب دیارِغیر میں مقیم اولاد کو بھی یہ باور کروانا ضروری ہے کہ وطنِ عزیز میں کوئی ہستی ابھی زندہ ہے کہ جس کی دُعائیں تم پرسایہ فگن رہتی ہیں اورجس کی نگاہیں ہرآہٹ پرتمہارے آنےکا گمان کرتی ہیں۔ رائومحمّد شاہدکہتے ہیں کہ ’’باپ اچھا یا بُرا، امیریا غریب نہیں ہوتا، وہ صرف باپ ہوتا ہے‘‘۔
شفق رفیع نے کیا خُوب صورت بات لکھی ’’باپ باپ ہے، اےٹی ایم مشین نہیں‘‘یقیناً یہ جملہ بہت سے خاندانوں کے چہرے پر ایک زنّاٹےدارطمانچا ہے۔ فرحی نعیم فرماتی ہیں کہ ’’شفقتِ پدری بے مول اوربے غرض احساس کا نام ہے۔‘‘ نظیر فاطمہ بھی موقعے کی مناسبت سے ایک شان دار افسانے کےساتھ شریکِ محفل تھیں۔ واہ کینٹ کی شگفتہ بانو، لاہورسے فوزیہ ناہید سیال اور کراچی کے ریحان احمد شیخ نے جس بہترین انداز میں اپنے والدِ محترم کا تذکرہ کیا، قابل تحسین و قابل تقلید ہے۔ میری رائے میں تو باپ کوخراج تحسین پیش کرنے کے لیے چند صفحات کےاس مختصر سے میگزین میں سب کچھ سمو دیا گیا۔
بلاشبہ، اس بپھرتےدریا کوکوزےمیں بند کرنےکاکمال نرجس ملک کی خداداد صلاحیتوں، کاوشوں اور اَن تھک محنتوں کی مرہونِ منت ہے۔ منور مرزا کا کہا بھی بجا کہ عوام پر صرف سیاست کا بھوت سوار ہے۔ سرچشمۂ ہدایت کا نیا سلسلہ ’’قصص القرآن‘‘ پوری آب وتاب کے ساتھ آسمانِ صحافت پرجلوہ گرہے۔ بےشک، قرآنِ کریم کے واقعات اور احادیثِ مبارکہؐ کو جمع کر کے ایک دستاویز کے طور پرپیش کرنا نہایت اہم فریضہ ہے۔ کتب کے انتخاب، وقتِ کثیرکی دست یابی، مستقل مزاجی، گہرے مطالعے اور قلم کی طاقت کےسبب ایسےتحقیقی مضامین کی تخلیق محمود میاں نجمی ہی کاخاصّہ ہے۔ اللہ جس سے جو چاہے، کام لے لے۔
مضامین کی انفرادیت ہرقصّے کےآخر میں دیئے گئے حوالہ جات ہیں، جنہوں نے واقعات کے استناد پر گویا مُہر لگا دی ہے۔ بس، اِک ذرا سی کمی یہ محسوس ہوتی ہے کہ حوالہ جات میں کہیں کہیں کتاب کا نام اور صفحہ نمبر تو موجود ہوتا ہے، لیکن جلد نمبر نہیں۔ تفہیم القرآن کی چھے اور بیان القرآن اور معارف القرآن کی آٹھ آٹھ جلدیں ہیں۔ تو صفحہ نمبر کو آٹھ جِلدوں میں تلاش کرنا خاصا محنت طلب ہے۔اورہاں بیٹا! ہمارا اب مونٹریال جانے کامعاملہ گومگو کا شکار ہے کہ ہماری اہلیہ گوروں، کافروں کے دیس میں مرنے کو بالکل تیار نہیں۔ واللہ اعلم بالغیب۔ تمہاری پوری ٹیم کو میرا سلام۔ (پروفیسر سید منصور علی خان، کراچی)
ج: وعلیکم السلام سر!! آپ کی اہلیہ کا فیصلہ بالکل درست ہے۔ اللہ رب العزت آپ کولمبی عُمر، صحت وتن درستی دے اور آپ ایسے ہی ہماری بزم کوچارسوچاند لگاتے رہیں۔
گوشہ برقی خطوط
* میرے پاس ایک ناول ہے اور مَیں اُسے ’’سنڈے میگزین‘‘ میں شایع کروانا چاہتا ہوں۔ (فہیم شیخ)
ج:’’میرے پاس ایک ناول ہے‘‘ کا کیا مطلب؟ اِس طرح تو ہمارے پاس سیکڑوں ناول ہیں۔ کیا یہ ناول آپ کا تحریر کردہ ہے؟ ویسے اس یک سطری ای میل سے لگ تو نہیں رہا کہ آپ نے خُود کوئی ناول لکھ مارا ہوگا۔ لیکن اگرواقعی ایسا کوئی کارنامہ سرزد ہو ہی گیا ہے، تواُس کی ایک دواقساط ہمیں ای میل کردیں۔ ہم پڑھ کر آپ کواپنی رائے سے آگاہ کردیں گے۔
* مَیں ایک طویل عرصے سے آپ کو بتانا چاہتی ہوں کہ آپ اورآپ کی ٹیم جریدے پر بہت محنت کرتی ہے اور اس کا اندازہ ہمیں ایک ایک صفحہ پڑھ کرہوتا ہے۔ ایک درخواست ہے، پلیز، پلیز ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کا صفحہ ہرگز ڈراپ نہ کیا کریں۔ (مہک، واہ کینٹ)
ج: مہک! سدا یوں ہی مہکتی چہکتی رہو، لیکن آخر تمھیں اپنے جذبات اتنے چُھپا کر رکھنے کی کیا ضرورت تھی؟ کسی کی حوصلہ افزائی کرنےمیں بھلاکیسی جھجک، اور رہی بات، ’’ناقابلِ فراموش‘‘ سلسلے کی، تو ہم وعدہ تو نہیں کرتے، لیکن کوشش کریں گے کہ ہفتہ وار نہ سہی، تو ہر پندرہ روز بعد یہ صفحہ لازماً شامل رکھیں۔
* مَیں2020 ء سے مُلک اور بیرونِ مُلک کے مختلف رسائل و جرائد میں لکھ رہا ہوں۔ پچھلے سال مَیں نے ’’فتحِ قسطنطنیہ‘‘ پر ایک ناول لکھا تھا، جو3ماہ قبل کتابی صُورت میں شایع ہوا ہے۔ اب میری خواہش ہے کہ یہ ناول ’’جنگ، سنڈے میگزین‘‘ میں قسط وار شایع کیا جائے۔ (عرفان حیدر)
ج: کسی شایع شدہ ناول کی دوبارہ اشاعت ہماری پالیسی کے خلاف ہے۔ ہاں، اگر آپ نے کوئی نیا ناول لکھ رکھا ہے، جو ابھی کہیں اشاعت کے لیے نہ بھیجا گیا، تو آپ وہ ہمیں ارسال کرسکتے ہیں، مگر اشاعت یا عدم اشاعت کا فیصلہ ناول کے مطالعے کے بعد ہی کیا جائے گا۔
* اللہ تعالیٰ جریدے کو ہر نظرِبد سے محفوظ رکھے، اِس کا سفر ہمارے سنگ سنگ جاری وساری رہے۔ آج تو صرف حاضری لگوانے کے لیے ای میل کررہا ہوں، تفصیلی تبصرہ آئندہ کسی ای میل میں کروں گا۔ (محمد اویس حیدر، سیٹلائٹ ٹاون، جھنگ)
ج: بےحد شکریہ، اس قدر تردّد فرمانے کا۔
قارئینِ کرام !
ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk