بات چیت: گلزار محمّد خان
گورنر خیبر پختون خوا، حاجی غلام علی کا شمار صوبے کے سینئیر اور منجھے ہوئے سیاست دانوں میں ہوتا ہے۔ 18مئی 1955ء کو پشاور میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم گورنمنٹ مِڈل اسکول، خداداد سے حاصل کی، میٹرک اور ایف اے سینٹ جان، جب کہ گریجویشن پشاور یونی ورسٹی سے کی۔1977ء کی تحریک سے عملی سیاست کا آغاز کیا اور اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا۔
پھر 1983ء کے بلدیاتی انتخابات میں حصّہ لیا اور حلقہ7، قصّہ خوانی بازار سے میونسپل کارپوریشن کے کاؤنسلر منتخب ہو کر کم عُمر ترین کاؤنسلر بننے کا اعزاز حاصل کیا۔1987ء میں ایک مرتبہ پھر حلقہ8 ، وزیر باغ سے کاؤنسلر کی نشست پر کام یابی حاصل کی۔1988ء میں جمعیت علمائے اسلام (ف) میں شمولیت اختیار کی اور پشاور سٹی کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔نیز، صوبائی ڈپٹی جنرل سیکرٹری کے عُہدے پر بھی فرائض سرانجام دیئے۔
1988ء اور1991 ء کے عام انتخابات میں بالترتیب صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی کے وَن اور پی کے تھری، پشاور سے انتخاب لڑا، لیکن کام یاب نہ ہوسکے۔1996ء میں قومی اسمبلی کے حلقے، این اے 2پر سابق وزیرِ اعلیٰ ارباب محمّد جہانگیر خان کے مقابلے میں میدان میں اُترے اور بہت کم ووٹوں سے پیچھے رہے۔اکتوبر 2005ء کے بلدیاتی الیکشن میں پشاور کی ضلعی نظامت کا انتخاب لڑا اور کام یابی حاصل کرکے ضلع ناظم، پشاور منتخب ہوئے۔
بعدازاں 2009ء کے سینیٹ انتخابات میں جے یو آئی نے جنرل نشست کے لیے اپنا امیدوار نام زد کیا، تو پارٹی حکم پر11فروری2009ء کو پشاور کی ضلعی نظامت سے استعفا دے دیا اور 12فروری2009ء کو ایوانِ بالا کے بلا مقابلہ رُکن منتخب ہوگئے۔
اس کے بعد 2013ء اور 2018ء کے عام انتخابات میں بھی حصّہ لیا، لیکن کام یاب نہ ہوسکے۔فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر، ٹرائبل ایریاز، چیمبر آف کامرس کے بانی صدر اور بزنس مین پینل صوبہ خیبر پختون خوا کے بھی صدر رہ چُکے ہیں۔پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے پر پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ( پی ڈی ایم) کی حکومت قائم ہوئی، تو 23نومبر 2022ء کو انھیں خیبر پختون خوا کا گورنر مقرّر کیا گیا۔
گورنر خیبر پختون خوا، حاجی غلام علی کو طویل سیاسی تجربات نے ایک سیاسی کارکن سے ایسے سیاسی رہنما میں تبدیل کردیا ہے، جو وقت کی سیاسی رفتار کو اپنی مُٹھی میں بند کرنے کا فن خُوب جانتے ہیں۔ حاجی غلام علی نے گزشتہ دنوں پشاور میں روزنامہ ’’جنگ‘‘ کے دفاتر کا دورہ کیا، تو اِس دوران اُن کے ساتھ کچھ خصوصی بات چیت ہوئی، جس کی تفصیل قارئین کی نذر ہے۔
س: صدرِ مملکت، عارف علوی کے آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ ترمیمی بلز پر دست خط سے متعلق ٹویٹ نے نیا آئینی بحران پیدا کر دیا ہے، آپ اِس معاملے کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
ج: دیکھیں جی! صدرِ مملکت عارف علوی مُلک کے آئینی سربراہ ہیں، مگر اُن کا بیان مُلک میں معاشی اور سیاسی افراتفری کا باعث بنا ہے، اگر صدرِ مملکت کی جگہ مَیں ہوتا، تو ٹویٹ کی بجائے استعفا دے کر گھر چلا جاتا۔ صدر کے بیان سے مُلک عالمی سطح پر مذاق کا نشانہ بنا، اِس لیے اگر ٹویٹ کی بجائے تحقیقات کروائی جاتیں، تو بہتر ہوتا۔ پاکستان ایک ایٹمی مُلک ہے، اِس لیے اس کے آئینی سربراہ کو بہت سوچ سمجھ کر بیان دینا چاہیے تھا۔
بحیثیت گورنر خیبر پختون خوا، میرے پاس بھی مختلف بلز آتے رہے ہیں، مَیں نے بھی مُلک اور صوبے کے مفاد میں کئی بلز نوٹس کے ساتھ واپس کیے ہیں، تو بہت سے منظور بھی کیے، اِسی طرح اگر صدرِ مملکت کو کسی بِل سے اتفاق نہیں تھا، تو اپنے نوٹ کے ساتھ اُسے واپس بھجوا دینا چاہیے تھا، جو آئینی و قانونی طریقہ بھی ہے۔ دراصل ہمیں ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے کس عمل سے مُلک کو کیا فائدہ اور کیا نقصان ہوگا۔
س: آپ فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر رہے ہیں، یوں مُلکی معیشت کے حوالے سے بھی وسیع تجربہ رکھتے ہیں، تو یہ بتائیے کہ موجودہ حالات میں مُلک کی معاشی ترقّی کیسے ممکن ہے؟
ج: بلاشبہ منہگائی اور غربت نے مُلک و قوم کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے، بزنس کمیونٹی الگ پریشان ہے، آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے پہلی مرتبہ مُلک میں معاشی ترقّی کے لیے بزنس کمیونٹی کو اعتماد میں لیا ہے، بلکہ آرمی چیف کی ملاقات سے بزنس کمیونٹی میں ایک طرح سے نئی جان آگئی ہے۔
بیرونی سرمایہ کاری کے لیے بھی وفاق کی سطح پر اتھارٹی قائم کردی گئی ہے، جس سے سرمایہ کاروں کے لیے آسانی پیدا ہوگی، مطلب مُلک ایک ٹریک پر چل پڑا ہے۔ بزنس کمیونٹی اور غیر مُلکی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے آمادگی ظاہر کر رہے ہیں، تو میرے خیال میں اب ہمیں سیاسی استحکام کی ضرورت ہے، کیوں کہ کوئی بھی سرمایہ کار سیاسی افراتفری میں سرمایہ کاری نہیں کرتا۔
س: مُلک کے دو صوبوں میں تقریباً 8 ماہ سے نگران حکومتیں ہیں، اب حلقہ بندیوں کی باتوں کے بعد اگلے تین ماہ میں بھی عام انتخابات کے آثار نظر نہیں آرہے، ایسے میں سیاسی استحکام کیسے قائم ہوگا؟
ج: مُلک میں مردم شماری کا مرحلہ مکمل ہوچُکا ہے، اِس لیے بعض جماعتوں کا مطالبہ تھا کہ نئی مردم شماری کے تحت انتخابات کروائے جائیں، جس کے لیے ضروری تھا کہ پہلے نئے سِرے سے حلقہ بندیاں ہوں۔ مُلک میں تین ماہ کے اندر انتخابات ہونے ہیں، تاہم مردم شماری کے بعد اب حلقہ بندیوں کا تیکنیکی مسئلہ پیدا ہوگیا ہے، اِس لیے الیکشن کمیشن کی ذمّے داری ہے کہ جلد از جلد حلقہ بندیوں کا مرحلہ مکمل کرے۔ اگر حلقہ بندیوں کے بغیر انتخابات کروائے جاتے، تو پھر آیندہ پانچ سال سیاسی جھگڑوں ہی میں گزر جاتے، اِس لیے اگلے پانچ سال تک سیاسی جھگڑوں میں الجھنے سے اچھا ہے کہ انتخابات ایک، دو ماہ تاخیر سے کروا لیے جائیں۔
س: نگران حکومت کی وجہ سے خیبر پختون خوا میں ترقّی کا پہیّہ جام ہے، صوبے کو مالی مشکلات کا سامنا ہے، تو کیا انتخابات میں تاخیر سے صوبہ مزید تباہی سے دوچار نہیں ہوگا؟
ج: بالکل، آپ کی بات درست ہے۔ جب صوبے میں منتخب حکومت ہوتی ہے، تو نہ صرف وزیرِ اعلیٰ کا عوام کے ساتھ رابطہ رہتا ہے، بلکہ وہ اپنی پارٹی کو بھی جواب دہ ہوتے ہیں۔ نیز، دوسری جماعتوں کو بھی کارکردگی دِکھانی پڑتی ہے۔ جب کہ نگران حکومت میں تو صرف روزمرّہ کے امور ہی کی نگرانی کی جاتی ہے۔
ہمارے صوبے کے نگران وزیرِ اعلیٰ، اعظم خان سینئیر بیورو کریٹ رہے ہیں، وہ آئین اور قانون کا زیادہ خیال رکھتے ہیں۔6،7 ماہ سے یہاں نگران حکومت ہے اور مزید پانچ چھے ماہ تک یہی حکومت رہے گی، اِس لیے نگران حکومت کو عوام کے حقوق سے متعلق سوچنا اور مشکلات کا احساس کرنا ہوگا، کیوں کہ عوام سخت پریشان ہیں، ایک سال سے صوبے میں ترقیاتی کام بند ہیں، جب ٹیکس پر ٹیکس لگیں گے اور عوام کو سہولتیں میسّر نہیں ہوں گی، تو عوام ٹیکس صرف تن خواہوں کے لیے تو نہیں دیتے۔
س: کیا آپ صوبے میں انتخابات کے التوا کے ذمّے دار نہیں، صوبائی اسمبلی کی تحلیل کے بعد آپ نے بروقت انتخابات کی تاریخ نہ دے کر آئین سے انحراف نہیں کیا؟
ج: جی نہیں۔ یقیناً الیکشن کی تاریخ دینا میری آئینی ذمّے داری تھی اور اِسی لیے مَیں نے الیکشن کمیشن کو خط لکھ کر کہا کہ انتخابات کی تاریخ دینا میری ذمّے داری ہے، لیکن صوبے میں امن و امان کی صُورتِ حال کے تناظر میں صوبائی حکومت اور متعلقہ اداروں سے بھی رائے لی جائے تاکہ ہم متفّقہ طور پر الیکشن کی طرف جا سکیں۔ اُس وقت صرف ایک پارٹی انتخابات مانگ رہی تھی، جب کہ باقی تمام جماعتیں مُلک بَھر میں ایک ساتھ انتخابات کی خواہاں تھیں، اگر اُس وقت صوبائی انتخابات ہو جاتے، تو پھر منتخب صوبائی حکومت کی نگرانی میں قومی الیکشن کے نتائج کون تسلیم کرتا؟ اور یوں قوم کے اربوں روپے ضائع ہوجاتے۔
مُلک کے مفاد میں یہی بہتر ہے کہ ایک ساتھ انتخابات کا انعقاد ہو، اگر حقیقت پسندانہ سوچ اپنائی جائے، تو اُس وقت تمام جماعتوں نے بار بار کہا کہ اسمبلیاں تحلیل نہ کی جائیں، لیکن فردِ واحد کی رائے کو تقویت دینے کے لیے خیبر پختون خوا اور پنجاب اسمبلیوں کی تحلیل کا غیر آئینی کام کیا گیا، حالاں کہ خیبر پختون خوا اسمبلی میں50 اپوزیشن ارکان بھی موجود تھے، ایسی کوئی صُورتِ حال بھی نہیں تھی کہ حکومت کو چار سالہ مدّت میں کبھی قانون سازی میں دشواری ہو، لہٰذا جن لوگوں نے اکثریت کے باوجود اسمبلی توڑ کر غیر یقینی صُورتِ حال پیدا کی، اُنھیں سزا ملنی چاہیے تھی۔
س: آپ 9مئی واقعات کے تناظر میں تحریکِ انصاف اور اس کے سربراہ کا مستقبل کیا دیکھ رہے ہیں؟
ج: 9اور10مئی کو بغاوت اور پُرتشدّد واقعات کے ذریعے آئین و قانون کی دھجیاں بکھیری گئیں، سیاسی کارکنان کو ایسا کرنا ہرگز زیب نہیں دیتا۔ عدم تشدّد پر گام زن جماعتوں کی ایک سو سالہ تاریخ ہے، مگر جس پارٹی نے تشدّد کا راستہ اپنایا، وہ خود بخود مِٹ گئی۔
کارکنوں کو اپنے ہی اداروں کے خلاف بغاوت پر اُکسانا اور کور کمانڈر ہاؤس پر حملہ معاشرتی اقدار، قومی عزّت و احترام کے منافی ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کی بڑی غلطی یہی تھی کہ اُنہوں نے کہا تھا کہ وہ کسی سے مذاکرات نہیں کریں گے اور آج اُن سے کوئی ہاتھ ملانے والا نہیں۔ اُنھوں نے اسی ضد اور تکبّر کی وجہ سے اپنی 25سالہ سیاسی جدوجہد پونے چار سال میں ختم کردی۔
س: اس تاثر میں کتنی حقیقت ہے کہ صوبے میں عملاً گورنر راج ہے، نگران وزیرِ اعلیٰ کے اختیارات بھی آپ نے سنبھال رکھے ہیں اور پورا صوبہ آپ ہی چلا رہے ہیں؟
ج: ایسا بالکل نہیں ہے، مَیں نے کبھی نگران وزیرِ اعلیٰ کے اختیارات استعمال کیے اور نہ ہی کبھی اُن کے معاملات میں کوئی مداخلت کی ہے، البتہ میں ایک سیاسی کارکن ہوں، اِس لیے عوام کے لیے گورنر ہاؤس کے دروازے کھول دئیے ہیں، بلکہ دل تو چاہتا ہے کہ عوام کے لیے گورنر ہاؤس کے دروازے ہی اکھاڑ دوں، ایک عام ریڑھی بان، چھابڑی والا اور رکشے والا بھی آدھی را ت کو کال کرے، تو میں اُس سے ملتا ہوں۔
چالیس سال سے سیاست میں متحرّک ہوں، آئین اور قانون مجھے عوام سے ملنے سے نہیں روکتا، اِسی لیے تو لوگ مجھے’’ عوامی گورنر‘‘ کہتے ہیں۔مَیں تو صوبائی حکومت کے اقدامات عوام کے سامنے لاتا ہوں تاکہ عوام حکومتی کارکردگی سے آگاہ ہوسکیں اور عوامی مسائل بھی حکومتی ایوانوں میں اُٹھاتا ہوں تاکہ حکومت مسائل حل کرے۔
س: قبائلی اضلاع انضمام کے باوجود پس ماندگی کا شکار ہیں،100 ارب سالانہ اور قابلِ تقسیم محاصل کا 3فی صد قبائلی اضلاع پر خرچ کرنے کا وعدہ پورا نہیں ہوسکا؟
ج: مَیں نے ایک پاکستانی اور صوبے کے وکیل کی حیثیت سے قبائلی اضلاع کے ہزاروں وفود سے ملاقاتیں کیں، زمین پر بیٹھ کر اُن کی باتیں سُنیں اور اُنہیں عزّت و احترام دیا، جس سے اُن کا اعتماد بحال ہوا۔ قبائلی اضلاع کے انضمام کے بعد وہاں نہ صرف صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہوئے، بلکہ پہلی مرتبہ بلدیاتی نمائندوں کا بھی انتخاب کیا گیا، ان منتخب عوامی نمائندوں کو یقین دِلایا گیا کہ قبائلی اضلاع کی تعمیر و ترقّی اور پس ماندگی کے خاتمے کے لیے سالانہ 100ارب روپے دئیے جائیں گے اور اُنہیں ترقّی کے ساتھ تمام حقوق بھی ملیں گے، لیکن 100ارب کا وعدہ ایفا ہوا، نہ این ایف سی کا3 فی صد حصّہ اُنھیں ملا، بلکہ قبائلی اضلاع کے بلدیاتی نمائندوں کو دو سال میں ایک پیسا نہیں مل سکا۔
سابق وزیرِ اعلیٰ، محمود خان کے دور میں پہلی مرتبہ صوبے میں تمام تحصیل میئر اور ڈپٹی میئرز براہِ راست عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوئے، تاہم جب بلدیاتی انتخابات کے پہلے فیز میں تحریکِ انصاف کو شکست ہوئی، تو دوسرے فیز سے قبل صوبائی حکومت نے لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں ترمیم کرتے ہوئے نہ صرف بلدیاتی نمائندوں کے تمام اختیارات ختم کردئیے، بلکہ 8صوبائی حلقوں پر محیط سٹی میئر کو ڈپٹی کمشنر اور دو صوبائی حلقوں پر محیط تحصیل چیئرمین کو اسسٹنٹ کمشنر کا ماتحت کردیا، حالاں کہ آئین کی رُو سے بلدیاتی اداروں کے پاس مکمل اختیارات ہونے چاہئیں۔ چناں چہ اب صوبائی حکومت نے فیصلہ کیا کہ آرڈینینس کے ذریعے بلدیاتی نمائندوں کے اختیارات بحال کرکے اُنہیں فنڈز جاری کیے جائیں گے، کیوں کہ صوبے کے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں مقامی حکومتوں کے لیے32ارب روپے مختص ہیں، جو جلد جاری ہوں گے ۔
س: اتحادی جماعتوں، خاص طور پر اے این پی نے پہلے آپ کو نام زد کیا، مگر اب ایمل ولی نہ صرف آپ پر سنگین الزامات لگا رہے ہیں، بلکہ آپ سے استعفے کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں؟
ج: ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ ایمل ولی خان ہمارے بھائی ہیں، اُنہوں نے صوبے کی گورنر شپ کے لیے ہماری حمایت ضرور کی تھی،مگر ہمیں نام زَد نہیں کیا تھا۔ اے این پی کے بعض لوگوں نے ایسا تاثر دیا کہ گورنر سیاسی سرگرمیوں میں حصّہ لے کر اے این پی کے لوگوں کو جمعیت علمائے اسلام میں شامل کر رہے ہیں، حالاں کہ اِس بات میں کوئی صداقت نہیں۔
س: صوبے کی یونی ورسٹیز مالی بدحالی کا شکار ہیں، اِس ضمن میں کیا اقدامات ہو رہے ہیں؟
ج: اِس وقت یونی ورسٹیز کو دو قسم کے مالی بحرانوں کا سامنا ہے، ایک تو وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے تن خواہوں میں35فی صد اضافہ کردیا ہے اور ہر یونی ورسٹی میں سیکڑوں ملازمین ہیں، لہٰذا یونی ورسٹیز یہ بوجھ برداشت نہیں کرسکتیں، لہٰذا اُنھیں فیسز میں 35فی صد اضافہ کرنا پڑے گا یا پھر حکومت کو فنڈز فراہم کرنے پڑیں گے۔ آئین کہتا ہے کہ تعلیم اور صحت کی سہولتیں مفت ہوں گی۔ اگرچہ وزیرِ اعلیٰ نے فنڈز فراہمی کا وعدہ کیا ہے، تاہم اگر فنڈز نہ دئیے گئے، تو آئندہ دو ماہ میں یونی ورسٹیز کا احتجاج سڑکوں پر ہوگا۔
دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ خیبر پختون خوا میں کسی سرکاری یونی ورسٹی کے وائس چانسلر کی تقرّری کا طریقۂ کار باقی تینوں صوبوں سے مختلف ہے، صوبائی حکومت کے انکار کے باوجود وفاقی حکومت کی ایما پر ایک ایکٹ پاس کیا گیا ہے، جس کے تحت صوبے کی کسی یونی ورسٹی میں وی سی کے انتخاب کے لیے چاروں صوبوں سے لوگ منتخب ہوں گے اور اِس مقصد کے لیے ڈاکٹر عطا الرحمان کی سربراہی میں کمیٹی قائم کی گئی ہے۔
خیبر پختون خوا میں پچھلی جتنی تقرّریاں ہوئیں، وہ لوگ دوسرے صوبوں سے آئے۔ اِس ضمن میں وزیرِ اعلیٰ کی سربراہی میں ایک اجلاس ہوا، جس میں فیصلہ کیا گیا کہ باقی صوبوں کی طرح وائس چانسلرز کا تقرّر کریں گے، مگر ایکٹ میں ترمیم کے لیے اب اسمبلی موجود نہیں۔
2005ء میں، مَیں صوبائی دارالحکومت، پشاور کا ضلع ناظم منتخب ہوا اور مَیں آج بھی اُس وقت کے تمام ڈسٹرکٹ کاؤنسل ارکان کا شُکریہ ادا کرتا ہوں، جنہوں نے میرے وژن کا بھر پور ساتھ دیا۔ ہم نے پشاور شہر کی مرکزی شاہ راہ کی کشادگی کے لیے سب سے پہلے گورنر ہاؤس کی دیوار گرائی۔اُس وقت علی محمّد جان صوبے کے گورنر تھے۔ جب مَیں دیوار کے معائنے کے لیے گورنرہاؤس گیا، تو گورنر صاحب نے مجھے اندر بلایا، چائے پلائی، پھر خُود میرے ساتھ آئے اور ہم نے سڑک کی کشادگی میں حائل دیوار کا معائنہ کیا، اُنہوں نے مجھے دیوار گرانے کی اجازت دیتے ہوئے بس اِتنا کہا کہ’’ نئی دیوار آپ خود تعمیر کریں گے۔‘‘
اس کے بعد سینٹرل جیل پشاور، صوبائی اسمبلی، محکمۂ داخلہ کے دفتر کی دیواریں60فٹ تک مسمار کرکے سڑک کشادہ کی۔ اِسی طرح قلعہ بالاحصار، دھوبی گھاٹ اور پیٹرول پمپ گرایا۔ پشاور سرکلر روڈ کی کشادگی کا منصوبہ شروع کیا،تو اس کی لپیٹ میں100گھر، 500قبریں اور متعدّد مساجد بھی آرہی تھیں۔ مَیں ایک ایک گھر کے مالک کے پاس گیا اور اُنہیں عوام کی مشکلات سے آگاہ کیا، جس پر تمام لوگ خود ہی اپنے گھر مسمار کرنے پر رضا مند ہوئے اور کسی جگہ احتجاج نہیں ہوا۔
اِسی طرح نہرو نہر منصوبے کے تحت پشاور تبلیغی مرکز کو پیچھے کیا، شہر میں200ٹیوب ویل لگائے، مَیں نے بحیثیت ضلع ناظم جو کام کیے، اُس ریکارڈ کو کوئی پچاس سال میں بھی نہیں توڑ سکتا۔ پشاور صوبے کا دارالحکومت ہے، لیکن معمولی بارش سے شہر تالاب بن جاتا ہے، جب شہر کی آبادی ایک لاکھ تھی، اُس وقت انگریزوں نے شہر کے گرد نکاسیٔ آب کے لیے شاہی کٹھہ بنایا تھا، جو آج بھی شہر کے نکاسیٔ آب کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔صوبائی حکومت کو شہر کے لیے ماسٹر پلان تیار کرنے کی ضرورت ہے، کیوں کہ گھروں کی بغیر پلاننگ تعمیرات کی وجہ سے شہر، دیہات بن رہے ہیں، تاہم ہمارا عوام سے وعدہ ہے کہ شہر کے تمام مسائل حل کریں گے۔
1983ء میں میئر پشاور کے لیے انتخابات ہو رہے تھے، مَیں ایک غریب امیدوار کی مہم چلا رہا تھا، میرے والد نے دوسرے امیدوار کی حمایت کا کہا، جس پر مَیں نے والد کو کہا کہ مجھے مجبور نہ کریں، ایک دن مَیں صوبے کا گورنر بنوں گا۔ جب مجھے گورنر مقرّر کیا گیا، تو مَیں خاص طور پر اپنے والد کی قبر پر گیا اور روتے ہوئے کہا ’’ بابا! تمہارا بیٹا صوبے کا گورنر بن گیا ہے۔‘‘