کرۂ ارض پر لڑائی جھگڑا، دنگا فساد روز کا معمول تھا۔ غرور و تکبّر میں ڈوبے مختلف قبائل ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے ہمہ وقت آپس میں دست و گریباں رہتے۔ اُس روز کی خُوں ریزی سے زمین لہولہان ہوچکی تھی۔ خوف ناک آوازوں سے پہاڑ و صحرا لرز اٹھے تھے۔ خود اہلِ آسمان بھی مضطرب و متفکر تھے۔ ایسے میں باری تعالیٰ نے جبرئیلِ امین علیہ السلام کو حکم دیا کہ فرشتوں کی ایک جماعت اس فساد کے قلع قمع کے لیے زمین پر بھیجی جائے۔ چناں چہ فرشتوں کی ایک جماعت زمین پر اُتری، اس نے شرپسند عناصر کا خاتمہ کرکے باقی مخلوق کو دُور دراز جزیروں کی جانب دھکیل دیا۔ فرشتوں کا کام ختم ہوچکا تھا۔
انہوں نے آسمانوں پر واپس جانے کے لیے ابھی اُڑان بَھری ہی تھی کہ اُن میں سے چند کی نظر نیچے زمین پر لاشوں کے ڈھیر کے درمیان ایک معصوم، نَو عُمر لڑکے پر پڑی، جو زارو قطار رو رہا تھا۔ اس کے والدین سمیت پورا خاندان اس جنگ میں کام آچکا تھا۔ فرشتوں کو اس بچّے کی کم عُمری اور معصومیت پر ترس آیا۔ انہوں نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے اجازت لی اور اس بچّے کو آسمانوں پر لے آئے، جہاں یہ فرشتوں کی زیرِ نگرانی تعلیم و تربیت کے مراحل طے کرنے لگا۔ اس بچّے کا نام عزازیل تھا۔
فرشتوں اور جنّات کی تخلیق: زمین و آسمان کے وجود میں آنے کے بعد ربّ العالمین نے دو مخلوقات پیدا فرمائیں، ایک نوری اور دوسری ناری۔ نوری مخلوق کو نور سے پیدا فرما کر آسمانوں پر تعینات فرمایا، جو فرشتے کہلاتے ہیں اور نہایت نیک سیرت، معصوم اور فرماں بردار ہیں۔ وہ ہر وقت و ہر لمحہ ربّ ذوالجلال کی عبادت میں مصروف رہتے ہیں، نہ کھاتے پیتے ہیں اور نہ ہی سوتے ہیں۔
اُن میں کوئی مذکر و مؤ نّث نہیں اور نہ ہی اُن کی افزائشِ نسل ہوتی ہے، جب کہ دوسری مخلوق، جو ناری کہلاتی ہے، اُسے بھڑکتی ہوئی آگ کے شعلوں سے پیدا فرمایا۔ اس مخلوق کو زمین پر مقرر کیا گیا، وہ جنّات کہلاتے ہیں۔ اُن کی اکثریت میں شر کا مادّہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اُن میں مؤنّث و مذکر بھی ہوتےہیں، لڑائی جھگڑا، دنگا فساد اُن کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ وہ شادیاں کرتے ہیں اور اُن کی نسل بھی خوب بڑھتی ہے۔
ابلیس آسمانوں میں:عزازیل اپنا تمام تر وقت تسبیح و تحمید اور عبادتِ الٰہی میں گزارتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی اُسے ہر علم کے سیکھنے اور جاننے کا شوق بھی تھا۔ چناں چہ بہت جلد اس نے فرشتوں میں اپنا ایک مقام بنالیا اور آسمانوں پر فرشتوں کا سردار مقرر فرمادیا گیا۔ اہلِ آسمان اسے ’’معلم الملکوت‘‘ کے نام سے یاد کرنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے اُسے چار پَروں سے نوازا تھا اور گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اس کے درجات میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔
فرشتوں میں یہ احساس پیدا ہوچلا تھا کہ شاید اللہ تعالیٰ اُس سے کوئی بڑا یا منفرد کام لینے والا ہے۔ اس بات کا کچھ کچھ اندازہ عزازیل کو بھی ہوچکا تھا۔ شاید یہی وہ احساسات تھے کہ جب اُس کے دل کے کسی گوشے میں احساسِ برتری کے بیج میں سے تکبّر کی ایک ننّھی سی کونپل پھوٹی، جو وقت کے ساتھ ساتھ پروان چڑھتی رہی اور وہ فرشتوں، ملائکہ میں مغرور مشہور ہوگیا، لیکن اُسے اس بات کی قطعی پروا نہیں تھی کہ اہلِ آسمان اُس کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں، وہ تو اپنے ربّ کی زیادہ سے زیادہ قُربت حاصل کرنے کی جستجو میں مصروف رہتا۔
تخلیقِ آدم علیہ السلام: ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی بھی کام اور حکم، حکمت سے خالی نہیں۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب عزازیل اللہ کے مقرب فرشتوں میں اپنا مقام بناچکا تھا۔ اور پھر وہ مبارک دن بھی آگیا، جب ربّ ذوالجلال نے فرشتوں کو مخاطب کرکے فرمایا، ترجمہ’’مَیں زمین پر اپنا نائب بنانے والا ہوں۔‘‘ (سورۃ البقرہ)۔ ملائکہ نے اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ سُنا تو انھیں کچھ حیرانی ہوئی۔ اس لیے کہ زمین کی مخلوق کا دنگا فساد اُن کی آنکھوں کے سامنے تھا۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے دو ہزار سال پہلے زمین پر جنّات کو پیدا فرمایا تھا، جنھوں نے پہلے دن سے زمین پر قتل و غارت گری مچا رکھی تھی۔ چناں چہ فرشتوں نے عرض کیا، ’’اے پروردگار! یہ زمین پر فساد برپا کریں گے، آپس میں خوں ریزی کریں گے، جب کہ ہم تو دن رات تیری تسبیح و تحمید میں مصروف رہتے ہیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ’’بے شک، لیکن جو کچھ میں جانتا ہوں، وہ تم نہیں جانتے۔‘‘ چناں چہ فرشتوں نے مشیّتِ الٰہی کے آگے سر تسلیم خم کردیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’مَیں مٹّی کا ایک انسان بنانے لگا ہوں، پھر جب بنا چکوں اور اس میں اپنی رُوح پھونک دوں، تو تم اس کے آگے سجدے میں گرپڑنا۔‘‘ (سورۂ ص، آیت72, 71)۔
آدمؑ کا پُتلا اور ابلیس کی گھبراہٹ: حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓسے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’بے شک اللہ نے آدمؑ کو ایک مٹھی مٹّی سے پیدا فرمایا، جو تمام روئے زمین سے لی گئی تھی، لہٰذا آدمؑ کی اولاد میں بھی زمین کی طرح گورے، سیاہ، سرخ، درمیانی، نرم و سخت طبیعت والے، اچھے اور بُرے ہیں۔‘‘ (سنن ترمذی، 2955)۔ علّامہ ابنِ کثیرؒ لکھتے ہیں کہ ’’اللہ عِزّوجل نے آدمؑ کو اپنے دستِ قدرت سے پیدا فرمایا اور یہ بغیر رُوح کے چالیس سال تک اسی طرح رہا۔
فرشتے جب اُس کے پاس سے گزرتے، تو اُسے دیکھ کر گھبرا جاتے تھے اور سب سے زیادہ گھبرانے والا عزازیل یعنی ابلیس تھا۔ یہ اُس کے پاس سے گزرتا تو اُسے مارتا، جس کی وجہ سے اُس کے جسم سے ایسی آواز نکلتی، جیسے کھنکھناتی مٹّی کی ٹھیکری سے نکلتی ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا کہ ’’اس نے انسان کو ٹھیکرے کی طرح کھنکھناتی مٹّی سے بنایا۔‘‘ (سورۂ رحمٰن۔ آیت، 14) پھر ابلیس نے فرشتوں سے کہا کہ ’’تم اس سے کیوں ڈرتے ہو، یہ تو اندر سے خالی ہے، اگر میں اس پر مسلّط ہوگیا، تو میں ہی اسے ہلاک کرڈالوں گا۔‘‘ (قصص الانبیاء، ابنِ کثیر، صفحہ،55)۔
ابلیس کے غرور نے اسے مردود بنادیا: اور جب اللہ نے فرشتوں کو سجدے کا حکم دیا، تو وہ سب سجدے میں گرگئے، مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور و تکبّر میں آکر کافر بن گیا۔ (سورۃ البقرہ، آیت 34)۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’اے ابلیس! تجھے سجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا؟‘‘ اس نے کہا ’’مَیں اس سے افضل ہوں، مجھے تُونے آگ سے پیدا کیا ہے اور اِسے مٹّی سے بنایا ہے۔‘‘ اللہ نے فرمایا ’’تُو بہشت سے نکل جا، تجھے شایان نہیں کہ یہاں غرور کرے، پس نکل جا، تُو مردود ہوگیا۔‘‘ اس نے کہا ’’مجھے روزِ محشر تک کی مہلت دے دے۔‘‘
اللہ نے فرمایا ’’جا، تجھے مہلت دی جاتی ہے۔‘‘ پھر شیطان نے کہا کہ ’’مجھے تو تُونے ملعون کیا ہی ہے، مگر میں بھی تیرے سیدھے راستے پر چلنے والوں کو بہکاؤں گا، اُن کے آگے سے اور پیچھے سے، دائیں اور بائیں سے، غرض ہر طرف سے آؤں گا اور تُو اُن میں سے اکثر کو شُکرگزار نہیں پائے گا۔‘‘ اللہ نے فرمایا ’’یہاں سے ذلیل و خوار ہو کر نکل جا، اُن میں سے جو شخص تیرا کہنا مانے گا، مَیں تجھ سمیت اُن سب سے جہنّم کو بھردوں گا۔‘‘ (سورۂ اعراف، آیات 12-18) بارگاہِ خداوندی سے دھتکارے جانے کے بعد شیطان، عزازیل سے ابلیس بن گیا۔ اس کے غرور و تکبّر اور رعونت کی بِنا پر اُس کی ہزاروں سالوں کی تسبیح و تقدیس اور عبادت و اطاعت اس کے منہ پر مار کر اُسے عرش سے فرش پر پٹخ دیا گیا۔
اہلِ سیر لکھتے ہیں کہ ’’ابلیس‘‘ عبرانی زبان کا لفظ ہے، مگر اہلِ عرب اسے ’’بلس‘‘ سے ماخوذ کرتے ہیں، جس کے معنی نااُمید ہونے کے ہیں۔ چناں چہ کتب میں ’’ابلیس‘‘ کے معنی رحمتِ الٰہی سے مایوس ہونے والا قرار دیا گیا۔ اللہ ذوالجلال نے اسے لعنتی ٹھہرایا۔ چناں چہ یہ ’’لعنۃ اللہ علی شیاطینہم‘‘ کہلایا گیا۔ جب کہ اس کے حامی، اس کی باتوں پر عمل کرنے والے، اس کے بہکاوے میں آنے والے، اس کے نقشِ قدم پر چلنے والے سب کے سب جہنّمی ہیں، جو دوزخ کی آگ کا ایندھن بنیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں متعدد بار اہلِ ایمان کو متنبہ فرمایا کہ ’’مومنو! شیطان کے پیچھے نہ چلو، وہ تمہارا کُھلا دشمن ہے۔‘‘ (البقرہ، 208)۔
شیطان کی پہلی کام یابی: شیطان، حضرت آدم علیہ السلام کی وجہ سے راندۂ درگاہ ہوا تھا، چناں چہ اس کے دل میں حضرت آدمؑ کے لیے کینہ، نفرت اور دشمنی کُوٹ کُوٹ کر بَھری ہوئی تھی۔ اُدھر باری تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کی تنہائی دُور کرنے کے لیے حضرت بی بی حوّا ؑ کو پیدا فرمایا اور حضرت آدمؑ سے کہا کہ ’’تم اور تمہاری بیوی دونوں جنّت میں رہو اور جو چاہو کھاؤ پیو، مگر اُس درخت کا رُخ نہ کرنا، ورنہ ظالموں میں شمار ہوگے۔‘‘ (سورۃ البقرۃ، آیت، 35) ۔اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کو یہ بھی بتا دیا تھا کہ ’’اے آدم! بے شک یہ (ابلیس) تیرا اور تیری بیوی کا دشمن ہے، سو تمہیں جنّت سے نہ نکلوا دے کہ پھر تُو تکلیف میں پڑجائے۔‘‘ (سورۂ طٰہ، آیت 117)
شیطان کو اس بات کا عِلم ہوچکا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک مخصوص درخت کا پھل کھانے سے منع فرمایا ہے۔ سو، اُسے اُمید کی ایک کرن نظر آئی اور وہ دن رات اس کوشش میں لگ گیا کہ کسی نہ کسی طرح یہ دونوں اُس درخت کا پھل کھالیں، تاکہ اللہ کی نافرمانی کے مرتکب ہوجائیں۔ بالآخر ایک دن وہ اپنی کوششوں میں کام یاب ہوگیا۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ ’’پہلے اُس نے امّاں حوّا کو بہکایا اور امّاں حوّا کے کہنے پر دونوں نے اس درخت کے پھل کو ابھی چکھا ہی تھا کہ اُن پر اُن کی شرم گاہیں ظاہر ہوگئیں اور وہ اپنے بدن پر بہشت کے پتّے چپکانے لگے۔‘‘ (سورۂ طٰہ، آیت 121) ابلیس اپنی اس پہلی کام یابی پر بہت زیادہ خوش تھا، لیکن اب وہ ابلیس سے شیطان بن چکا تھا، جس کے معنی سرکش، باغی، فتنہ انگیز اور بہکانے والے کے ہیں۔
حضرت آدم علیہ السلام اور شیطان کی سرکشی کا یہ واقعہ قرآنِ کریم کی سات سورتوں میں بیان کیا گیا ہے۔ سورۃ البقرہ، سورۂ اعراف، سورۂ حجر، سورۂ بنی اسرائیل، سورۂ کہف، سورۂ طٰہ اور سورۂ رحمٰن جب کہ قرآنِ مجید میں 88بار شیطان اور 11بار ابلیس کے نام سے ذکر ہے۔
شیطان، انسان کا کُھلا دشمن:اللہ تعالیٰ نے حضرت حوّا اور حضرت آدم علیہ السلام کو معاف فرما کر دنیا کی جانب روانہ کردیا۔ شیطان کو پہلے ہی جنّت سے نکالا جاچکا تھا، چناں چہ اب زمین پر خیر و شر، ہدایت و ضلالت، نیک و بد کے درمیان ایک نہ ختم ہونے والی جنگ کا آغاز ہونے جارہا تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے شیطان کو پہلے ہی آگاہ فرما دیا تھاکہ ’’جو میرے مخلص بندے ہیں، اُن پر تیرا کچھ زور نہیں چلے گا۔‘‘ (سورۂ بنی اسرائیل، آیت 65) کیوں کہ شیطان انسان کا کُھلا اور ازلی دشمن ہے، لہٰذا وہ اپنے پیروکاروں کے ساتھ دن رات انسان کی دنیا اور آخرت تباہ و برباد کرنے کے درپے رہتا ہے۔
دنیا میں ہر چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا گناہ شیطان کی پشت پناہی اور مدد ہی کی بِنا پر سرانجام پاتا ہے۔ دلوں میں وسوسے پیدا کرنا شیطان کا سب سے بڑا ہتھیارہے۔ چناں چہ جہدِ مسلسل کے ذریعے وہ اکثر اپنی کوششوں میں کام یاب ہوجاتا ہے، لیکن احکاماتِ الٰہی کے مطابق، ’’نیک لوگوں پر شیطان کا بس نہیں چلتا۔‘‘ (سورۂ ص، آیت 83)۔ شیطان ضدی، خودسر ہے، لہٰذا مختلف حربے استعمال کرتا رہتا ہے۔ چناں چہ اُس کے مکر و فریب اور وسوسوں سے بچنے کے لیے زیادہ سے زیادہ استغفار، تعوذ یعنی،اَعُوذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیطَانِ الرَّجِیم، لاحول ولا قوۃ اِلّا باللہ العلی العظیم کا ورد کیا جائے۔ ہر نماز کے بعد اور سوتے وقت سورۂ فاتحہ، معوذتین یعنی سورۂ فلق، سورۃ الناس اور آیۃ الکرسی پڑھنے کو معمول بنایا جائے۔ کیوں کہ مومن کے لیے سب سے افضل عمل ذکرِ الٰہی ہی ہے۔
شیطان کے بارے میں فرمانِ نبوی ﷺ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ’’شیطان خون کی طرح انسان کے بدن میں دوڑتا رہتا ہے۔‘‘ (صحیح بخاری، 2038,2035) اذان اور تکبیر کی آواز سُن کر شیطان تیزی سےباہر کی جانب بھاگتا ہے، پھر دورانِ نماز واپس آجاتا ہے کہ اس نے کتنی رکعتیں ادا کی ہیں؟‘‘ (صحیح بخاری، 608, 1231) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ’’نماز کے دوران اگر کسی قسم کا شبہ محسوس ہو، تو بیٹھے بیٹھے سہو کے دو سجدے کرلیا کرو۔‘‘ (سنن ترمذی، 397)
حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ’’جب کوئی شخص سو کر اُٹھے اور وضو کرے، تو تین مرتبہ ناک جھاڑے، کیوں کہ شیطان رات بھر اُس کی ناک کے نتھنے میں بیٹھا رہتا ہے۔ جس سے آدمی پر سُستی غالب آجاتی ہے۔ پس، ناک جھاڑنے سے وہ سُستی دُور ہوجاتی ہے۔‘‘ (صحیح بخاری، 3295)۔ جب شام ہوجائے، تو اپنے بچّوں کو اپنے پاس روک لیا کرو، کیوں کہ شیاطین اُس وقت زمین پر پھیل جاتے ہیں۔ البتہ ایک گھڑی رات گزر جائے، تو انہیں چھوڑ دو اور اللہ کا نام لے کر دروازے بند کرلو۔ کیوں کہ شیطان کسی بند دروازے کو نہیں کھول سکتا۔‘‘ (صحیح بخاری، 3304)۔
حضور اکرم ﷺ نے فرمایا ’’جب غصّہ آئے، تو ’’اَعُوذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیطَانِ الرَّجِیم‘‘ پڑھ لیا کرو۔‘‘ (سنن ترمذی، 3452) آپ ﷺ نے فرمایا ’’جس گھر میں سورۃ البقرہ پڑھی جاتی ہے، وہاں شیطان داخل نہیں ہوتا۔‘‘ (سنن ترمذی، 2877) آنحضرت ﷺ نے فرمایا ’’جس شخص نے مجھے خواب میں دیکھا، بلاشبہ، اُس نے مجھے ہی دیکھا، کیوں کہ شیطان میری صُورت میں نہیں آسکتا۔‘‘ (صحیح بخاری، 110) آپ ﷺ نے فرمایا ’’بُرا خواب شیطان کی طرف سے ہے، اگر کوئی بُرا خواب دیکھے، تو بائیں جانب تھو تھو کرکے شیطان کے شر سے اللہ کی پناہ مانگے۔ اس عمل سے شیطان اُسے کوئی نقصان نہ پہنچا سکے گا۔‘‘ (صحیح بخاری، 3292)
آپ ﷺ نے فرمایا ’’سوچ سمجھ کر کام کرو، جلد بازی نہ کرو، کام میں جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے۔‘‘ (ترمذی، 2012) آپ ﷺ نے فرمایا ’’شیطان ہر انسان کی پیدائش کے وقت اپنی انگلی سے اُس کے پہلو میں کچوکے لگاتا ہے، جس سے بچّہ زور سے روتا ہے، سوائے عیسیٰ ابنِ مریم ؑکے۔‘‘ (بخاری، 3431,3286) ’’شیطان، حضرت عُمرؓ سے ڈرتا ہے، اگر کہیں راستے میں عُمرؓ کو دیکھ لے، تو جھٹ راستہ بدلتا ہے۔‘‘ (بخاری، 3294) ’’دائیں ہاتھ سے کھاؤ پیو، کیوں کہ شیطان بائیں ہاتھ سے کھاتا پیتا ہے۔‘‘ (ترمذی، 1800) ’’کوئی نوالہ نیچے گرجائے، تو اُسے جھاڑ کر کھالو، اُسے شیطان کے لیے نہ چھوڑو۔‘‘ (ترمذی، 1803) ’’انسان کی جماہی شیطان کی طرف سے ہے، پس جب کسی کو جماہی آئے، تو اُسے روکنے کی کوشش کرے، کیوں کہ جب کوئی جماہی لیتے ہوئے ’’ہاہا‘‘ کرتا ہے، تو شیطان اُس پر ہنستا ہے۔‘‘ (بخاری۔ 3289) ’’جب مرغ کی بانگ سُنو، تو اللہ سے اُس کے فضل کا سوال کیا کرو، کیوں کہ اُس نے فرشتے کو دیکھا ہے۔ اور جب گدھے کی آواز سُنو، تو شیطان سے اللہ کی پناہ مانگو، کیوں کہ اُس نے شیطان کو دیکھا ہے۔‘‘ (صحیح بخاری،33)۔