• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے بعد بھی عدالت کی طرف سے حکومتی امور میں مداخلت کی پالیسی ہنوز جاری ہے۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے جج صاحبان کے بیانات اور فیصلے بدستور میڈیا کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ کے جج نہایت مستعدی کے ساتھ حکومت کی طرف سے کئے گئے افسروں کے تبادلوں، تقرریوں اور ان کے خلاف اپنے اختیارات سے تجاوز کرنے یا احکامات کو نظر انداز کرنے یا پارلیمانی قوانین یا صدارتی آرڈیننس کا خیال نہ رکھنے کے حوالے سے شروع کی گئی تحقیقات ، حتیٰ کہ معمول کی پوچھ گچھ کے عمل میں بھی رکاوٹیں ڈال رہے ہیں۔ بعض اوقات وہ دفاعی اداروں کے انتہائی حساس معاملات میں بھی مداخلت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس کی ایک مثال ’’گمشدہ افراد کیس‘‘کے حوالے سے فوج پر بڑھایا گیا دبائو ہے۔ اسی طرح خارجہ پالیسی بھی ان کی ’’پہنچ‘‘ سے باہر نہیں ، جیسا کہ پشاور ہائی کورٹ نے حکومت کو حکم دیا کہ وہ ڈرون روکے اور اگر ضرورت ہو تو انہیں مار گرائے۔ ایسی مداخلت ہمیشہ مفاد ِ عامہ میں ہی نہیں ہوتی ہے،خاص طور پر جب دیگر تمام معاملات میں امتیاز، تعصب اور مفادات کے ٹکرائو کا پہلو غالب دکھائی دے اور صرف جج حضرات سے ہی اغماض برتا جائے۔ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ہر کوئی تو عدالت کے سامنے جواب دہ ہے مگر جج حضرات پارلیمنٹ سمیت کسی بھی ادارے کے سامنے جوابدہ نہیں۔ ایک حالیہ ٹی وی شو میں ایک ہائی کورٹ کی طرف سے اپنے اختیار کا ناجائز فائدہ اٹھانے کے معاملے کو منظر ِ عام پر لایا گیا۔ اس پر عدالت کے رجسٹرار نے برہمی کا اظہار کیا۔ دو سابقہ صدر عدالت کے کٹہرے میں ہیں: جنرل (ر) پرویز مشرف غداری کے مقدمے میں ایک خصوصی عدالت جبکہ آصف زرداری بدعنوانی کے مقدمے میں نیب کے سامنے پیش ہورہے ہیں اوران مقدمات کی میڈیا کوریج جاری ہے۔ اس وقت پرویز مشرف میڈیا کی شہ سرخیوں اور بریکنگ نیوز میں ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ وہ بیماری کے بہانے خصوصی عدالت، جس کی ساکھ پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی سابق صدر اور انسانی حقوق کی کارکن عاصمہ جہانگیر نے سوال اٹھایا ہے، کے سامنے پیش ہونے سے گریزاں ہیں۔ یہ افواہیں گردش میں ہیں کہ وہ پاکستان سے فرار کا بہانہ تلاش کررہے ہیں اور اگرچہ ان کے وکلاء نے ایک پاکستانی ڈاکٹر کی طرف سے جاری کردہ سرٹیفکیٹ بھی حاصل کر لیا ہے کہ اُن کے موکل کو بیرونِ ملک علاج کی ضرورت ہے لیکن ان کے حامی، خاص طور پر گجرات کے چوہدری ، یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ سابقہ کمانڈو پاکستان میں ہی رہ کر حالات کا مقابلہ کریں گے تاہم اس ضمن میں حکومتی پوزیشن سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ فی الحال جنرل مشرف کے لئے فوری طور پر ملک چھوڑنا ممکن نہیں ہوگا اور اُنہیں عدالتی کارروائی کا سامنا کرنا ہی پڑے گا۔ کم از کم اگلے چند ماہ تک یہی صورت حال رہے گی۔ خصوصی عدالت کی آبزرویشن سے پتہ چلتا ہے کہ غداری کے مقدمے کے بعد ’’معمول کے مطابق‘‘ کریمنل کوڈ کے تحت کارروائی کی جائے گی۔
صدارتی استثنیٰ ختم ہونے کے بعد آصف زرداری کے مقدمے کو بھی شلیف سے نکال لیا گیا ہے۔ نیب کی عدالت میں آصف زرداری کے خلاف جتنے بھی مقدمات ہیں، ان میں ان کے شریک ِ جرم افراد یا تو فوت ہوچکے ہیں یا اُنہیں عدالت نے بری کردیا ہے یا وہ بیرون ِ ملک فرار ہوچکے ہیں۔1997ء کے ایس جی ایس کیس، جس کے مطابق بیرونی ممالک سے خریدے گئے مال پر مبینہ طور پر کک بیکس وصول کی گئی تھیں اور ان کی رقم کسی غیر ملکی بنک اکائونٹ میں جمع کرائی گئی، میں احتساب عدالت نے مسٹر زرداری اور بے نظیر بھٹو (جو اب اس دنیا میں نہیں ہیں) کے سوا تمام ملزمان کو بری کردیا۔ اسی طرح کوٹیکنا کیس میں آصف زرداری اور محترمہ بھٹو کے علاوہ دوسرے ملزم اے آر صدیقی کو عدالت نے ستمبر 2011 میں بری کردیا۔ اے آر وائی کیس جس کے مطابق اے آر وائی ٹریڈرز نے سونے اور چاندی کی درآمد کا لائسنس لے کر مبینہ طور پر سرکاری خزانے کو نقصان پہنچایا، میں نیب عدالت نے بریگیڈیئر (ر) اسلم حیات قریشی، سلمان فاروقی، عبدالرئوف، جان محمد اور حاجی عبدالرزاق یعقوب کو بری کردیاجبکہ بے نظیر بھٹو کی ہلاکت کے بعد ان کے خلاف کیس خارج کردیا گیا اور عدالت نے جاوید طلعت اور Jens Schlegelimilch کو اشتہاری ملزم قرار دے دیا۔ پولو گرائونڈ کیس میں مسٹر زرداری پر الزام تھا کہ اُنھوں نے قواعد وضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وزیراعظم ہائوس اسلام آباد میں غیر قانونی طور پر پولو گرائونڈ اور کچھ دیگر تعمیرات کرائیں۔ اس کیس میں عدالت نے سعید مہدی، جو اعلیٰ سطح کے سرکاری افسر ہیں اور آج کل شریف برادران کے قریب ہیں، کو بری کردیاجبکہ سی ڈے اے کے سابق چیئرمین، شفیع سہوانی کی وفات کے بعد ان کے خلاف کیس خارج کردیا گیا۔’’عوامی ٹریکٹر اسکیم‘‘ کے لئے روس اور پولینڈ سے خریدے جانے والے 5,900یورسز(Ursus) ٹریکٹروں کے لئے کی جانے والی سودے بازی میں آصف زرداری پر الزام تھا کہ اُنہوں نے فی ٹریکٹر 150,000 روپے بطور کک بیک وصول کئے تاہم احتساب عدالت نے ان کے شریک ِ جرم نواب یوسف تالپور اور اے ایچ کانگو کو بری کردیا۔Ursus ٹریکٹروں کی خریداری میں اے ڈی بی پی کو 268.3 ملین روپوں اور اسٹیٹ بنک کو 1.67 بلین روپوں کا نقصان ہوا۔ اہم بات یہ ہے کہ نیب کے افسران کا کہنا ہے کہ یہ کیس اُنہوں نے نہیں کھولا بلکہ اُنہیں ایسا کرنے کا حکم عدالت نے دیا ہے۔ آصف زرداری عدالت میں پیش ہوتے رہے ہیں اور پھر مسکراتے ہوئے عدالت سے رخصت ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ سابق وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کو بدعنوانی کے الزامات کی پاداش میں عدالتوں کا سامنا رہا ہے۔ مختصر یہ کہ سابق صدر، وزرائے اعظم، سرکاری افسران، سیاست دان، حتیٰ کہ کرکٹ کے کھلاڑیوں کی قسمت کا فیصلہ عدالت کے ہاتھ میں ہوتا ہے، لیکن بدقسمتی سے عدالتوں کی طرف سے کی جانے والی تمام کارروائی شفاف نہیں ہوتی ۔ سابق چیف جسٹس کے بیٹے کے ایک کیس کے حوالے سے گزشتہ سال عدالت کی طرف سے انتہائی جانبداری کا مظاہرہ کیا گیا۔ اسی طرح پی سی بی کیس میں عدالتی فیصلے نے اس مقبول کھیل کے حوالے سے قومی مفاد کو بہت حد تک نقصان پہنچایا کیونکہ اس کے نتیجے میں کرکٹ بورڈ کی فعالیت تقریباً مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔ ہم سنتے تھے کہ انصاف اندھا ہوتا ہے لیکن اس کی ’’بینائی‘‘ تو اظہر من الشمس ہے۔
نوٹ:۔ یہ کالم نجم سیٹھی صاحب کی ذاتی رائے پر مبنی ہے، جنگ ادارتی بورڈ ان کی رائے سے متفق نہیں ہے کیونکہ دنیا بھرمیں جہاں انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے وہاں عدالتیں مداخلت کرتی ہیں۔ جناب نجم سیٹھی جیو میں ایک پروگرام کے میزبان ہیں اور وہ سابق صدر فاروق لغاری کے وفاقی مشیر اور پچھلے الیکشن میں پنجاب کے نگراں وزیر اعلیٰ رہے۔چند دن پہلے تک وہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے قائم مقام چیئرمین بھی تھے۔ ادارتی بورڈ کے خیال میں قیام پاکستان کے بعد سے حکومتی اداروں کے سربراہ من مانے اقدامات کرتے رہے ہیں تا کہ اپنے اہداف حا صل کر سکیں ایسے ہی اقدامات کی وجہ سے پاکستان کا برا حشر ہوگیا ہے۔ ادارتی بورڈ کی رائے ہے کہ عدلیہ کو مزید متحرک ہونا چاہئے تاکہ اصلاح احوال کا عمل جاری رہے۔ ادارہ اپنی اس رائے کے حق میں تحریریں اور کالم پہلے سے ہی شائع کرتا رہا ہے ۔ ( جنگ ادارتی بورڈ)
تازہ ترین