• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

ایک آنکھ نہیں بھایا

’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمود میاں نجمی ’’قصّہ ذوالقرنین‘‘ بیان کررہے تھے۔ ’’فادرز ڈے اسپیشل‘‘ میں رائو محمّد شاہد اقبال نے انٹرنیٹ اور اسمارٹ فون کو والد سے دُوری کا سبب قرار دیا۔ شفق رفیع نے عُمدہ موضوع منتخب کیا اور مُلک سے باہر رہنے والے باپوں کی مشکلات بیان کیں۔ منور مرزا حالات و واقعات میں الجھے ہوئے تھے۔ ’’عالمی یومِ والد‘‘ کے حوالے سے ایڈیٹر صاحبہ کی بھی ایک خُوب صُورت تحریر پڑھنے کو ملی۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں پیرزادہ شریف الحسن کے عثمانی نے والد کے رویّے کو بچّوں سے دُور ہونے کا سبب قرار دیا، تو فرحی نعیم نے باپ کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ نظیر فاطمہ کا افسانہ تو رُلا ہی گیا۔ اور اب بات ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی، جس میں ہمارا خط شامل نہیں تھا۔ تو بس بات ہی ختم۔ اگلا ایڈیشن ’’عیدالاضحیٰ ایڈیشن‘‘ تھا۔ 

ڈاکٹر حافظ محمّدثانی نے قربانی کے متعلق بیش قیمت معلومات فراہم کیں۔ رائومحمّد شاہد اقبال نے دکھاوےکی قربانی کرنے والوں کو خوب لتاڑا، تو رئوف ظفر نے بڑی عید کا بڑا پَن دکھایا۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں ڈاکٹر عزیزہ انجم بہت سبق آموز مضمون لائیں۔ حکیم حارث نسیم سوہدروی نے بھی گوشت کے استعمال میں احتیاط کا مشورہ دیا۔ نظیر فاطمہ کے افسانے کا جواب نہ تھا، ہیلتھ اینڈ فٹنس میں ڈاکٹر یاسمین شیخ نے برص پر بہترین مضمون لکھا۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں ایک بار پھر آپ نے ہمارےخطوط کا ملغوبہ شائع کیا۔ جو ہمیں ایک آنکھ نہیں بھایا۔ (سید زاہد علی شاہ، شاہ فیصل کالونی، کراچی)

ج: آ پ کو ہمارا طریقہ ایک آنکھ نہ بھائے یا دو آنکھ ، ہمیں اگر دو خطوط ایک ساتھ وصول پائیں گے تو ہم ایک ساتھ ہی شائع کریں گے۔

نصف شب میں آدھی ملاقات

سلامِ عاجزانہ، حاضر ہے پروانہ، سلامت رہے گھرانہ (بمع اہل وعیال /اسٹاف) دُعائے مخلصانہ۔ یادش بخیر! کوئی بیس برس ہونےکوآئے کہ اس مجلّے یا رسالےسےتعلق برقرار رہے، لیکن آج تواِس رفیق (سنڈے میگزین) نے مایوسی سے نکال کر ہاتھ میں قلم ہی پکڑا دیا۔ اورنصف شب میں آپ سے آدھی ملاقات ہورہی ہے۔ مشورہ مفت کاہو، تو نہ اہمیت ملتی ہے اور نہ ہی قیمت سو بمعاوضہ مشورےحاضر ہیں۔ اولاً: منورمرزا کے لیے۔ جناب والا! آپ 2001ء تا حال(یا جب سے ’’عالمی اُفق‘‘ کے لیے تحاریر مرتب کررہے ہیں) اپنے تمام ترمضامین یک جا کتابی شکل میں شائع کرکے پہلا نسخہ راقم کوارسال فرما کرممنون کریں۔ 

ثانیاً: قبلہ محمود میاں نجمی کے لیے(اللہ پاک صحت و سلامتی کے ساتھ رکھے) اپنے تمام جملہ مضامین ایک ساتھ چھاپ دیں اور پہلی مبارک کتاب، زیرِ دستخطی ارسال فرما کرعنداللہ ماجور ہوں۔ ثالثاً :ڈاکٹر قمر عباس سے دستہ بستہ التماس ہے کہ ’’خانوادے‘‘ کو کتابی صُورت میں شائع کروا لیں اور کتاب فدوی کو ارسال فرما کرممنون فرمائیں۔ اورآخر میں میڈم جی! آپ بھی ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کی کتاب صورت (حصّہ اول) جلد از جلد شائع کر کے دادِ تحسین کے لیے فریادیٔ مکتوب کی خدمت میں پیش فرمائیں۔ (ابنِ غلام نبی داد فریادی، سبّی روڈ، کوئٹہ)

ج: بخدا آپ کےاس اندازِتحریراوراِس بلا کی خُود اعتمادی پر ہماری تو ہنسی چُھوٹ گئی۔ نجمی صاحب کے تو لگ بھگ تمام مضامین کتابی صُورت میں موجود ہیں۔ منور مرزا صاحب اور قمرعباس بھی یقیناً آپ کے اندازِ تجویز سے خُوب محظوظ ہوئے ہوں گے، مگر بندۂ خدا! یہ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ ہمارے حصّے کس کھاتے میں ڈال دیا۔ یہ صفحہ پہلے رعنا فاروقی اور اب ہمایوں ظفر مرتب کررہے ہیں۔ ویسے آپ یہ نصف شب کوئی ڈرائونا یا سہانا خواب دیکھ کر تونہیں اُٹھے تھے، جو ایسی بہکی بہکی باتیں کر رہے ہیں۔

محنت و عرق ریزی کی پائی پائی

نرجس ملک! گرہستی کی ذمّے داریاں نبھاتے، 2020 ء میں کی ہوئی آپ کی ایک سرگوشی نے ’’اب قلم اُٹھاہی لیا ہے، تو رکھیےگا مت‘‘ ایسااپنا آپ یاد دلایا کہ فوراً ہی دوپٹّے کے پلّوسے پسینہ پونچھااورچمچ چھوڑ کرقلم کی تلاش میں نظریں دوڑائیں،لیکن کچن میں چُھریوں،کانٹوں،چمچوں کے سوا کچھ نظرنہ آیا، فوراًہی پلائو دَم پہ رکھ کرسب چھوڑ چھاڑ باہرنکلے، تو پوچھا گیا ’’کھانا بن گیا؟‘‘پرقلم کی دُھن میں سُنی اَن سُنی کرتے آگے بڑھے، تو کہیں دھوبی کے کپڑوں کی چیکنگ نے پاؤں میں بیڑیاں ڈالیں، تو کہیں مہمانوں کی بے وقت آمد نے رنگ میں بھنگ ڈال دیا۔ 

یہ بھی کرلوں، وہ بھی کرلوں میں، دن تواپنےآپ کوڈھونڈنے کی ناکام کوشش میں رات کی بانہوں میں کہیں تھک کے سوگیا، تو رات ہی نےمصروفیتوں میں بندھےہاتھ پائوں کھولے۔ سو، نیند سےسَمےاُدھار لےکرکچھ لمحات آپ کے نام کرنا چاہے۔ آپ کو یاد ہے، 2020 ء سے 2023 ء کےدھانے تک وقت کیسےآپ کی سنگت میں پھولوں کی طرح مہکتا گزرا۔ جہاں ہم نے میگزین کی تحریروں سے قطرہ قطرہ گوہرِ نایاب چُن کرخطوط کے کوزے میں سموکے آپ تک پہنچائے، وہیں آپ نے بھی اُن کی خوشبو کی طرح پذیرائی کر کے، ایک سےایک عنوان دے کر’’آپ کا صفحہ‘‘ پرخُوب رنگ بکھیرے، پھربیش قیمت جوابات کی پھوار سے بھی مہکایا۔ 

خاص طور پر 2020ء کا سال تو زندگی کا وہ یادگار سال ہے کہ جب چار اعزازی چِٹھیوں کی صُورت ہماری محنت وعرق ریزی کی پائی پائی وصول ہوئی۔ ہم نے آپ کے صفحے میں کرکٹ کھیلے بغیر، اُمِ حبیبہ کے قلم سے قلمی چھکّےمارے اور خطوط کی دوڑ میں سلیم راجا کے قلم سے سیمی فائنل کی دوڑمیں جا کھڑے ہوئے۔ہجوم یاراں کی قدر دانی نے بھی ایسا مہکایا کہ زندگی جی اُٹھی، خاص طور پر کینیڈا سے بزرگوار پروفیسر کا سلام و خراجِ تحسین، کراچی کی خالدہ سمیع کا قلمی دوستی کابڑھایا ہوا ہاتھ، زندگی کا حاصل بن گیا۔ یہ لمحات ’’آپ کاصفحہ‘‘کاوہ اعجاز ہیں، جنہیں ہم کبھی فراموش نہیں کرسکتے۔ پتا نہیں، آپ نے میری طرح اور کتنے دھندلے عکس چمکائے ہوں گے۔ کتنوں کی مدھم لَو تیز کی ہوگی۔ بہرحال، میرا تو رُواں رُواں آپ کا احسان مند ہے۔ دُعا ہے کہ ہمارا یہ صفحہ یونہی پوری آب و تاب کی ساتھ ادبی افق پر جگمگاتا رہے۔ (نازلی فیصل، ڈیفینس، لاہور)

ج: نازلی صاحبہ! آپ تو خط لکھتے اِس قدر جذباتی ہوجاتی ہیں کہ خدا معلوم، حقیقی زندگی میں کس قدرحسّاس ہوں گی۔ آپ کا توخط ایڈٹ کرتے بھی ڈرلگتا ہے کہ کہیں زیادہ قطع و برید دیکھ کررو ہی نہ دیں۔ آپ کے لیے جریدے کے دَر ہمہ وقت وا ہیں، جَم جَم آئیں۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم آنے والوں کوتوخوش آمدید ضرور کہتے ہیں، لیکن جانےوالوں کوروکتے نہیں۔ اور ہاں، یہ اُمِّ حبیبہ کے چھکّوں اور سلیم راجا سے سیمی فائنل والی بات ہمارےبالکل پلّےنہیں پڑی۔

نوک پلک سنوار لیا کریں

تازہ سنڈے میگزین کے ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمود میاں نجمی، ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا، ’’رپورٹ‘‘ میں ڈاکٹر محمّد ذوہیب حنیف اور ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں رئوف ظفر چھائے دکھائی دیئے۔ ’’پیارا گھر‘‘ کے ٹھنڈے ٹھار مشروبات کا تو کیا ہی کہنا۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں طارق بلوچ صحرائی کی ’’بڑے گھر کی بہو‘‘ بہت پسند آئی۔ ’’اِک رشتہ، اک کہانی‘‘ کی سب ہی کہانیاں لاجواب تھیں، خصوصاً پروفیسر خالد اقبال جیلانی کی اپنے پیرو مرشد سے متعلق تحریر بہت اچھی لگی۔ 

نئی کتابوں پر اخترسعیدی کی تبصرہ نگاری کا جواب نہیں۔ ’’گوشئہ برقی خطوط‘‘ میں اس مرتبہ دو ای میلز شامل تھیں، جن کے آپ نے تفصیلی اور بہت معقول جوابات عنایت کیے۔ اور ہاں، آپ کی ناقابلِ اشاعت کی فہرست میں تو ’’آپ کا صفحہ‘‘ کے کئی خطوط نگار بھی آگئے۔ گزارش ہے، ذرا ہاتھ ہلکا رکھا کریں، تحریروں کی کچھ نوک پلک سنوار لیا کریں۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

ج: نوک پلک سنوارنے اور نئے سرے سے تخلیق کرنے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ اگر بات صرف سنوار اور بنائو سنگھار کی ہو، تو وہ تو ہر اِک تحریر ہی کا ہوتا ہے۔ ذرا اپنے اصل خط اور شائع شدہ ہی کا موازنہ کر کے دیکھ لیں۔ کسی تحریر میں رتّی بھر بھی جان ہو تو ہم اُسے ضائع نہیں کرتے۔ ہاں، البتہ مُردے میں روح پُھونکنے کی قصداً کوئی کوشش نہیں کی جاتی۔

اضافہ طلب باتیں

’’قصّہ ذوالقرنین‘‘، تحریر محمود میاں نجمی سمیت دیگر مضامین بھی کافی معلوماتی تھے۔ البتہ ’’قصّہ ذوالقرنین‘‘ کے ضمن میں چند باتیں اضافہ طلب ہیں۔ (بابر سلیم خان، لاہور)

ج: جی، بہت شکریہ۔ آپ کی اضافہ طلب باتیں ہم نے پڑھ لیں۔ ایک تو اُن باتوں کے استناد پر ابہام ہے۔ دوم، اُن میں سے بیش تر کا تذکرہ نجمی صاحب کے مضمون میں موجود تھا اور سوم یہ صفحہ جریدے کے مندرجات پر تبصرے کے لیےمختص ہے، نہ کہ کسی مضمون پر تبصرے کی آڑ میں طول طویل معلومات کے اجراء کے لیے۔ ایک دو مرتبہ اگرآپ کو چُھوٹ دے دی گئی،تواِس کا مطلب ہرگزنہیں کہ صفحے کا فارمیٹ ہی تبدیل ہوگیا ہے۔

کام لینے کا فن

نرجس بٹیا! سدا خوش رہو۔ ’’عید ایڈیشن‘‘ میں حسبِ معمول احادیث مبارکہؐ اور پرویز ساحر کے منفرد کلام سے مزیّن تمہاری تحریر پڑھی۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں الفاظ کا ذخیرہ اوراُنہیں موقع محل کی مناسبت سے استعمال کا جو ہُنردیا ہے، وہ بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ عموماً اگر الفاظ کا ذخیرہ ہے بھی، تو استعمال کا فن ندارد۔ پھر اپنی ٹیم سے کام لینے کا فن بھی کوئی تم سے سیکھے۔ جہاں ڈانٹ بھی ہے، تو پیار بھی۔ سختی ہے، تو نرمی بھی۔ ڈاکٹر حافظ ثانی، رائو محمّد شاہد اور رئوف ظفر نے خُوب صورت تحریروں سے عیدِ قرباں کے تقدّس و اہمیت کو خُوب اجاگر کیا۔9 جولائی کے شمارے کا آغاز ’’مسیح الدجّال‘‘ کے مضمون سے ہوا۔ اس مضمون کی سب سے خاص بات تھی کہ صاحبِ مضمون نے دجّال سے متعلق واقعے کو احادیثِ مبارکہؐ کے مستند حوالہ جات سے ثابت کیا۔ 

حوالہ جات کے سلسلے میں تمہارا بھی شکریہ کہ تم نے اسٹاف کو حوالہ جات ایڈٹ نہ کرنے کی ہدایات جاری کیں۔ منور مرزا نے بھی بہترین تجزیہ پیش کیا۔ رئوف ظفر اپنے ہر مضمون کے ساتھ بھرپور انصاف کرتے ہیں۔ ’’سمندر یا خوابوں کا مدفن‘‘ میں جو حقائق بیان کیے گئے، وہ حکومت کے لیے باعثِ عبرت اور اُمّت کے لیے باعثِ فکر ہیں۔ ہر سال 20ہزار پاکستانی نوجوانوں کا موت کے منہ میں اُتر جانا ایک بہت بڑے المیے سے کم نہیں۔ بے روزگاری، منہگائی، دولتِ ہوس، حکومتوں کی نااہلی اور قانون کے راکھوالوں کی ملی بھگت کےسبب پنجاب انسانی اسمگلروں کی جنّت بن چُکا ہے۔ اِس وقت بھی20 ہزار سے زیادہ پاکستانی نوجوان لیبیا میں موجود اور یورپ جانے کے منتظر ہیں۔ ’’پیارا گھر‘‘ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ کے مختصر شہ پارے دل چسپ تھے۔ طارق بلوچ صحرائی بڑے دنوں بعد ایک اچھی تحریر کے ساتھ شریکِ محفل ہوئے۔ اختر سعیدی کا کتابوں پر تبصرہ بڑا متوازن اور غیر جانب دارانہ ہوتا ہے اور ہاں کتابوں کے تعارف کے ساتھ ٹیلی فون نمبرز کی اشاعت بھی تمہارا ایک بہترین فیصلہ ہے۔ (پروفیسر سیّد منصور علی خان، کراچی)

ج: سر! یہ تو آپ نے سو فی صد درست کہا۔ واقعی ہمیں نہ صرف کام لینا بلکہ کس سے کیا کام لینا ہے، بخوبی آتا ہے۔ تب ہی تو اپنی خوبیوں، صفات سے اَن جان، نہ جانے کتنے ہی آج ہماری تحریک اور مہمیز کے سبب بگٹٹ بھاگتے پِھرتے ہیں۔ ہمارے اپنےاسٹاف میں کئی ایسے تھے، جو اپنے اصل جوہر ہی سے ناشناسا تھے، ہم نے ذرا حوصلہ افزائی کیا کی، آج الحمدللہ، بہترین کام کر رہے ہیں۔

                                 فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

عیدین کے بعد ایک بار پھرحاضری ہو رہی ہے۔ سب سے پہلے’’آپ کا صفحہ‘‘ یعنی ہمارا صفحہ پرطائرانہ نگاہ ڈالتے مکتوبین کے نام پڑھے۔ پرنس افضل، شہزادہ بشیر، ضیاء الحق قائم خانی اور شری مُرلی چند اپنی جگہ قائم و دوائم ہیں، جب کہ سلیم راجا اوربلبلِ بلوچستان، اسماء خان دمڑ کی ملسل غیرحاضری نے تشویش میں مبتلا کردیا۔ خیر، خالدہ سمیع، ڈاکٹر تبسّم سلیم اور شائستہ صدیقی کے خُوب صُورت تبصروں نے محفل کی رونقیں ماند نہ پڑنے دیں۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے بامعنی عنوان کے تحت محمود میاں نجمی کی بامقصد تحریریں کچّے پکّے ایمان رکھنے والوں کے دِلوں میں گھرکررہی ہیں۔

اللہ کرے، ہماری نسلوں کے لیے بھی ہدایت کا ذریعہ بن جائیں، ورنہ محض دین کے بنیادی ارکان کی شدبد رکھنے والے ہم مسلمانوں نے اپنے بچّوں کی دینی تربیت کہاں اس نہج پر کی ہے کہ اُنہیں اپنے نبیﷺ کے فرامین کی روشنی میں یہ حقائق سُنائےجاتے، پھر نجمی صاحب کا سادہ رواں اندازِ تحریر بھی قاری کو کشاں کشاں اپنے ساتھ لیےچلتاہے۔ ’’مسیح الدجال‘‘ کے پہلے ہی جملے نےتحریر کےسحرمیں جکڑلیا۔ عالمی ادبی شہ پارے اور سمندریا خوابوں کا مدفن نے سولہ صفحات کے میگزین کے خصوصی صفحات کا خُوب حق ادا کیا۔ سب کچھ کے ہوتےبہت کچھ کی حرص نےآج یہ دن دکھلائے کہ ؎ گھٹ گئےانساں، بڑھ گئےسائے۔ بات دال روٹی سے بہت آگے کی ہے۔ لفظ ’’قناعت‘‘ لغت کی زینت بن کر رہ گیا ہے۔ 

دیارِغیر میں محنت مزدوری کرنے والوں کے لواحقین،وطن میں شہدا کے جانشین بن کر رہ جاتے ہیں۔ نمودو نمائش کا جذبہ دل مانگے اور… کی صدائیں لگاتا ہے،میڈیا نے بھی بہت کچھ برآمد کیا ہے۔ گھر گھر کی کہانی ہر گھر میں ہوا کے دوش پر سوار پہنچ جاتی ہے۔ خوشی، سُکون واطمینان بھی سونے چاندی کے اوراق میں لپٹے دکھائے جاتے ہیں۔ نبی مکرمؐ کی حدیثِ مبارکہ کا مفہوم یاد آگیا۔ ’’ایک وقت ایسا آنے والا ہے کہ لوگ تمہارے کھا جانے کے واسطے ایک دوسرے کواس طرح دعوت دیں گے، جیسا کہ دسترخوان پر بیٹھنے والا دوسرے کی تواضع کرتا ہے۔ 

صحابہؓ نے عرض کیا، یا رسول اللہ! کیا اُس وقت ہماری تعداد بہت کم ہوگی؟ حضورؐ نے فرمایا، نہیں تمہاری تعداد اُس زمانے میں بہت زیادہ ہوگی، لیکن تم لوگ سیلاب کی جھاگ کی طرح ہوگے۔تمہارے دشمنوں کے دل سے تمہارا خوف جاتا رہے گا اور تمہارے اپنے دِلوں میں وھن (دنیا کی محبّت اور موت کا خوف) پیدا ہوجائے گا۔‘‘ صاحبِ مضمون نے حل بھی خُوب بتایا ہے، اپنے مُلک میں چین، سُکون، امن و امان (جیسا کہ حضرت ابراہیمؑ نے سب سے پہلی دُعا امن کی مانگی تھی۔) معیاری تعلیم، ٹیکنیکل ایجوکیشن،ہاتھ کا ہُنر وقت کی اہم ضرورت ہے۔ وہ کیا ہے کہ اپنے وطن کی لُو بھی ہے پیاری، غیروں کی بادِ صبا سے۔ (عشرت جہاں، لاہور)

ج: ہمیشہ کی طرح بہت خُوب۔

گوشہ برقی خطوط

* متواتر کئی ماہ سے دیکھ رہا ہوں کہ آپ کی بزم سے اسما خان دمڑ غائب ہیں۔ اُن کے کھٹّی میٹھی باتوں، شوخیوں، شرارتوں سے مزیّن خط کی شدت سے کمی محسوس ہو رہی ہے۔ ہمیں تو لگتا ہے، شاید اُن کی ’’ویاہ‘‘ کی دیرینہ تمنّا بَرآئی ہے۔ (احسان اللہ خان حسنی، پشتون آباد، کوئٹہ)

ج: اب ہم کیا کہہ سکتے ہیں، سوائے اس کے کہ ’’اسما! آپ جہاں کہیں بھی ہیں، بذریعہ خط جلد ازجلد درشن کروائیں کہ قارئین سمیت ہمیں بھی آپ کی کمی شدّت سے محسوس ہورہی ہے۔‘‘

* ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کا نیا سلسلہ ’’قصص القرآن‘‘ بے مثال، شان دار، بے حد منفرد و معلوماتی ہے۔ ’’مائوں کے عالمی یوم‘‘ پر آپ نے میرا پیغام شایع کرکے تو میرادل ہی جیت لیا۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں میری مٹھائیوں کی تراکیب شایع کرکے بھی آپ نے بہت حوصلہ افزائی کی۔ اور ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ بھی میرا بہت پسندیدہ سلسلہ ہے، جلد اِس کے لیے اپنی کوئی کاوش ارسال کروں گی۔  (ثناء توفیق خان، ماڈل کالونی، کراچی)

ج: ضرور۔

* جریدے میں ناول کی اشاعت کا کیا طریقۂ کار ہے؟ (مہرالنساء)

ج: ناول معیاری اورطبع زاد ہونا چاہیے۔ پہلے ناول کی ابتدائی چند اقساط پوسٹ یا ای میل کی جائیں، اگرہمیں لگا کہ ہمارے معیار کے مطابق ہے، تو بقیہ پورا ناول منگوا لیا جائے گا، مزید یہ کہ جب ناول نگاراپنا تفصیلی تعارف اورفون نمبرز وغیرہ بھیجے گا، تو بقیہ تفصیلات سے اُسے براہِ راست آگاہ کردیا جائے گا۔

* 5ستمبر کو مَیں23برس کا ہوجائوں گا، اگر ہردل عزیز ’’سنڈے میگزین‘‘ کے ذریعے مجھے مبارک باد دے دی جائے، تو بے حد خوشی ہوگی۔ (محمّد عُمر)

ج: محمّد عُمر! اگرچہ اب آپ 23 برس اور کچھ ایّام کے ہوچُکے ہیں، بہرحال، سال گرہ مبارک ہو۔ ویسے ہمیں ڈر ہے، اِس مُبارک باد کے ساتھ ہمارے لیےایک نیا ہی بکھیڑا (سیاپا) نہ شروع ہوجائے۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk

سنڈے میگزین سے مزید