• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امامُ الانبیاء، سید المرسلین، خاتم النبیّین، حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی ولادتِ باسعادت

’’ربیع الاوّل‘‘وہ ماہِ مبارک ہے، جب امام الانبیاء، سیّدالمرسلین، خاتم النبیّین، سرورِ کونین، حضرت محمّد مصطفیٰ ﷺ کی ولادت با سعادت ہوئی، آفتابِ رسالت طلوع ہوا، دنیا توحید کے نور سے منوّراور تاریخ کے مثالی دَور کا آغاز ہوا۔’’ربیع الاوّل‘‘ سرکارِ دو جہاںﷺ کی ولادت اور آپﷺ کی تشریف آوری کے حوالے سے ماہ و سال کی پوری تاریخ میں ایک منفرد حوالہ رکھتا ہے۔

اسلامی تاریخ میں ماہِ ربیع الاوّل کو جو عظمت وتقدّس، بزرگی و برتری حاصل ہے، وہ صرف اور صرف فخرِ دو عالم، سرورِ کائنات، فخرِ موجودات، صاحبِ لوح و قلم، سیّدِ عرب و عجم، صبحِ درخشاں، نیّر تاباں، مہرِ درخشاں، ساقیٔ کوثر، شافعِ محشر، مرسلِ داور، شاہِ اُمم، محبوبِ ربّ العالمین، سیّدالمرسلین، خاتم النبیّین،رحمۃ للعالمین، سرورِ کونین، بشیر و نذیر، سراج منیر، امام الانبیاء، آفتابِ دو عالم، حضرت محمّد مصطفیٰ ،احمدِ مجتبیٰ ﷺ کی بدولت ہے۔ یہ وہ بابرکت اور بہار آفرین مہینہ ہے، جس کی آمد سے چمنستانِ دہر کی مرجھائی کلیاں کِھل اُٹھیں، خزاں رسیدہ گلستان سرسبز و شاداب ہوگئے، کسی عرب شاعر نے کیا خُوب کہا ہے:

لھٰذا الشّھر فی الاسلام فضل

و منقبۃ تفوّق علیٰ الشّھور

ربیع فی ربیع فی ربیعٍ

ونور فوق نورٍ فوق نورٍ

یعنی اسلام میں اِس ماہِ مبارک کو ایک خاص فضیلت حاصل ہے، جو بعض اعتبار سے دیگر مہینوں سے بڑھی ہوئی ہے اور وہ خاص فضیلت (ظہورِ قدسی) یعنی حضوراکرم ﷺ کی ولادت اور آپﷺ کی تشریف آوری ہے، آپﷺ کی آمد دنیا کی بہار کا سبب ہے، پھر جس مہینے میں آپﷺ تشریف لائے، وہ ربیع دربیع، یعنی بہار ہی بہار اور نور ہی نور ہے۔

آپﷺ کی ولادت باسعادت سے متعلق مختلف مورخین اور سیرت نگاروں نے جو روایات بیان کی ہیں، اُن میں تین روایات 8،9 اور 12 ربیع الاوّل بیان کی جاتی ہیں، البتہ12 ربیع الاوّل، 1عام الفیل کو زیادہ شہرت حاصل ہے۔’’ربیع الاوّل‘‘ (1 عام الفیل، 52 قبلِ ہجرت، اپریل 571ء) میں محسنِ انسانیت، حضرت محمّد مصطفیٰ ﷺ کی صرف ولادت ہی نہیں ہوئی، بلکہ عالمِ نو طلوع ہوا، تاریخِ عالم نے ایک نئے سفر کا آغاز کیا۔ اِس ماہِ مبارک میں حضرت آمنہ نے سعادت مند بیٹے ہی نہیں، بلکہ مادرِ گیتی نے ایک تاریخ ساز اور بے مثال انقلاب کو جنم دیا۔ 

حقیقت یہ ہے کہ آپﷺ کی تشریف آوری سے دنیا کو شرفِ انسانی کا حقیقی اندازہ ہوا، انسانی زندگی کا ہر گوشہ اس سراجِ منیرﷺ کی تشریف آوری سے جگمگانے لگا۔ خزاں رسیدہ زندگی میں پُرکیف بہار آئی، انسانیت کفر و شرک اور ظلم و جہالت کی تاریکیوں سے نکل کر علم کی روشنی اور توحید کے نور سے منوّر ہوئی۔یہ ربیع الاوّل کا مہینہ، دو شنبہ کا دن اور صبحِ صادق کی ضیاء بار گھڑی تھی۔ رات کی تاریکی چَھٹ رہی تھی اور دن کا اُجالا پھیلنے لگا تھا، جب آفتابِ عالم تاب، سرکارِ دو جہاں، سرورِ کائنات، حضرت محمّد مصطفیٰ ﷺ کی ولادت باسعادت سے کائنات میں ازلی سعادت اور ابدی مسرّتوں کا نور چمکا۔رُشد و ہدایت اور ایمان کی ایسی بہار آئی کہ جس کے بعد خزاں نہیں۔

’’ربیع الاوّل‘‘ پہلی اور ابدی بہار بن کر انسانیت کو حیاتِ جاودانی عطا کر گئی۔ جسٹس (ر) میاں محبوب احمد، ممتاز مصنّف، محمّد متین خالد کی کتاب ’’جب حضورﷺ آئے‘‘ کے دیباچے میں ’’حیاتِ نور‘‘ کے عنوان کے تحت کیا خُوب لکھتے ہیں:’’اِس کائناتِ رنگ و بُو میں بہت سی بہاریں مہکیں اور خزاں کا شکار ہوگئیں،بہت سے سورج اُبھرے اور فنا کے گھاٹ اُتر گئے۔بہت سے چاند چمکے اور پھر گہنا گئے، بہت سے پھول کِھلے، پھر مُرجھا گئے، ہاں ایک بہار ایسی کہ جسے جانِ بہاراں کہیے، خزاں اس کے قریب نہ آسکی، ایک سراجِ منیرﷺ ایسا کہ غروب کی سیاہیاں اُس سے آنکھیں نہ ملاسکیں۔ 

ہاں، ہاں، طلعت و زیبائی کا ایسا پیکر کہ کوئی دھندلکا سایہ اُس کے جلووں کو گہنا نہ سکا، ایسا رشکِ گلستاں کہ جس کے تلووں کو چُوم لینے کا شرف رکھنے والی پتیاں بھی مُرجھانے سے محفوظ رہیں، وہ جانِ بہاراں، سراجِ منیر، بدرِ فلکِ رسالت، فخرِ گل زارِ نبوّت، ہمارے آقا، ہمارے مولیٰ، ہمارے ہادی، ہمارے رہبر، حضرت محمّد ﷺ ہیں، جو ہر مومن کی نظر کا نور، رُوح کا قرار اور دل کا سرور ہیں۔‘‘

محبوبِ ربّ العالمین، سیّد المرسلین، خاتم النّبیین، فخرِموجودات، سرورِ کائنات، حاملِ قرآں، نورِ مبین، رحمۃ لّلعالمین، اِمام الاوّلین و الآخرین، صاحبِ قاب قوسین، مولائے کُل، ختم الرُّسل، محسنِ انسانیت، رہبرِ آدمیت، یتیمِ عبداللہ، جگر گوشۂ آمنہ، سیّدِ عرب و عجم، ہادیٔ عالم، حضرت محمّد ﷺ کا ظہورِ قدسی، آپﷺ کی ولادت باسعادت اور دنیا میں تشریف آوری ایک ایسا تاریخ ساز لمحہ اور عظیم انقلاب ہے، جس نے کائنات کو ایک نئی جہت، نیا موڑ اور فلاح و کام رانی کا ایک نیا دستور عطا کیا۔ انسانیت کو جینے کا حوصلہ اور زندہ رہنے کا سلیقہ عطا کیا۔

اِس نورِ مبینﷺ کی آمد سے عالمِ شش جہات کا ذرّہ ذرّہ اور حیاتِ انسانی کا گوشہ گوشہ جگمگانے لگا۔ ظلم، جہالت، ناانصافی، کفروشرک اور بُت پرستی میں مبتلا انسانیت مثالی ضابطۂ حیات، احترامِ انسانیت کے شعور سے باخبر، عدل کی بالادستی کے تصوّر سے آگاہ اور ایمان کے نور سے منوّر ہوئی۔ عالمِ انسانیت کی خزاں رسیدہ زندگی میں پُرکیف بہار آئی۔ ایمان کی دولت نصیب ہونے سے بندگانِ خدا کو وہ منزل ملی، جس سے توحید کا نور عام ہوا اور کفر و شرک کی تاریکی چَھٹ گئی۔دعائے خلیلؑ، تمنّائے کلیمؑ اور نویدِ مسیحاؑ ،حضرت محمّدﷺ کے ظہورِ قدسی سے انسانیت کی صبحِ سعادت کا آغاز ہوا، ایسا تاریخ ساز انقلاب رُونما ہوا، جس نے توحید و رسالت کے نور کو عام کر کے انسانی عزّت و وقار اور اعلیٰ انسانی اقدار بحال کی۔صدا بلند ہوئی کہ

مبارک ہو شہِ ہر دوسرا تشریف لے آئے

مبارک ہو محمّد مصطفیٰؐ تشریف لے آئے

مبارک ہو، غم گُسارِ بے کساں تشریف لے آئے

مبارک ہو، شفیع عاصیاں تشریف لے آئے

مبارک ہو، رسولِ محتشمؐ تشریف لے آئے

مبارک ہو، نبیٔ محترمؐ تشریف لے آئے

وہ آئے، جن کے آنے کی زمانے کو ضرورت تھی

وہ آئے، جن کی آمد کے لیے بے چین فطرت تھی

وہ آئے، جن کو ابراہیمؑ کا نورِ نظر کہیے

وہ آئے، جن کو اسمٰعیلؑ کا لختِ جگر کہیے

وہ آئے، جن کے ہر نقشِ قدم کو رہنما کہیے

وہ آئے، جن کے فرمانے کو فرمانِ خدا کہیے

(ماہرالقادری)

معروف سیرت نگار علّامہ شبلی نعمانی کے الفاظ میں’’اس رات ایوانِ کسریٰ کے چودہ کنگرے گر گئے، آتش کدۂ فارس بُجھ گیا۔ دریائے ساوہ خشک ہو گیا، لیکن سچ یہ ہے کہ ایوانِ کسریٰ ہی نہیں، بلکہ شانِ عجم، شوکتِ روم، اوجِ چین کے قصر ہائے فلک بوس گر پڑے، آتش کدۂ فارس ہی نہیں، بلکہ آتش کدۂ کفر،آذر کدۂ گم راہی سرد ہو کر رہ گئے۔ صنم خانوں میں خاک اُڑنے لگی۔ بُت کدے خاک میں مل گئے، شیرازۂ مجوسیت بِکھر گیا، نصرانیت کے اوراقِ خزاں دیدہ ایک ایک کر کے جَھڑ گئے۔

توحید کا غلغلہ اٹھا، چمنستانِ سعادت میں بہار آ گئی، آفتابِ ہدایت کی شعائیں ہرطرف پھیل گئیں۔ اخلاقِ انسانی کا پرتو قدس سے چمک اٹھا۔یعنی یتیمِ عبداللہ، جگر گوشۂ آمنہ، شاہِ حرم، حکم رانِ عرب، فرماں روائے عالم، شہنشاہِ کونینﷺ عالمِ قُدس سے عالمِ امکان میں تشریف فرما ہوئے۔‘‘(شبلی نعمانی؍سیرت النبیؐ)حفیظ جالندھری اِس حقیقت کی ترجمانی کرتے ہوئے کیا خُوب کہتے ہیں:

وہ دن آیا کہ پورے ہو گئے تورات کے وعدے

خدا نے آج ایفا کر دیے ہر بات کے وعدے

ربیعُ الاوّل اُمیدوں کی دنیا ساتھ لے آیا

دُعاؤں کی قبولیت کو ہاتھوں ہاتھ لے آیا

جہاں میں جشنِ صبحِ عید کا سامان ہوتا تھا

اُدھر شیطان اپنی ناکامی پہ روتا تھا

سرِ فاراں پہ لہرانے لگا جب نور کا جھنڈا

ہُوا اِک آہ بَھر کر فارس کا آتش کدہ ٹھنڈا

ندا آئی، دریچے کھول دو ایوانِ قدرت کے

نظارے خود کرے گی آج قدرت شانِ قدرت کے

صدا ہاتف نے دی اے ساکنانِ خطۂ ہستی

ہوئی جاتی ہے پھر آباد یہ اُجڑی ہوئی بستی

ضعیفوں، بے کسوں، آفت نصیبوں کو مبارک ہو

یتیموں کو، غلاموں کو، غریبوں کو مبارک ہو

مبارک ہو کہ ختم المرسلیںؐ تشریف لے آئے

جناب رحمۃ للّعالمیںؐ تشریف لے آئے

بصد اندازِ یکتائی بغایت شانِ زیبائی

امیں بن کر امانت آمنہ کی گود میں آئی

سلام اے آمنہ کے لالؐ، اے محبوبِ سبحانی

سلام اے فخرِ موجوداتؐ، فخرِ نوعِ انسانی

سلام اے ظلِّ رحمانی، سلام اے نورِ یزدانی

ترا نقشِ قدم ہے زندگی کی لوحِ پیشانی

سلام اے سر وحدتؐ، اے سراجِ بزم ایمانی

زہے یہ عزّت افزائی، زہے تشریف ارزانی!

فخرِ موجودات، باعثِ تخلیق کائنات، شافعِ محشر، ساقیٔ کوثر، صاحبِ لوح و قلم، محمّدِ مصطفیٰ، احمدِ مجتبیٰ ﷺ کا ظہور قدسی اور آپﷺ کی اِس دنیا میں تشریف آوری پوری کائنات پر پروردگار عالم کا سب سے عظیم احسان ہے۔ آپ ﷺکی ذاتِ گرامی کو اللہ تعالیٰ نے جو بلند مقام، جو عظمت و رفعت اور محبوبیت عطا فرمائی، اس میں کوئی آپﷺ کا شریک وسہیم نہیں۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسالتِ مآب ﷺ نے ارشاد فرمایا’’اولادِ آدمؑ کا خلاصہ (منتخب اور مقدّس ہستیاں) پانچ ہیں۔ حضرت نوحؑ، حضرت ابراہیمؑ، حضرت موسیٰؑ، حضرت عیسیٰؑ اور مَیں، یعنی حضرت محمّد ﷺ ۔اور محمدﷺ اُن میں سب سے افضل مقام پر فائز ہیں۔‘‘(ابنِ عساکر)

ڈاکٹر میخائیل ایچ ہارٹ، مشہور امریکی ماہرِ فلکیات اور عیسائی مؤرّخ ہیں۔ اُنہوں اور اُن کی اعلیٰ تعلیم یافتہ بیوی نے دنیا کی نام وَر اور مشہور شخصیات کی سیرت و سوانح کا مطالعہ کیا اور پھر اُنہوں نے اس مطالعے کا حاصل 572 صفحات کی ایک انگریزی کتاب"The 100" A ranking of the Most Influential Persons in history کی صُورت دنیا کے سامنے پیش کیا۔ اس کتاب کا دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ ہوا اور متعدّد ایڈیشن شائع ہوئے۔

اِس کتاب میں سرکارِ دوجہاں، حضرت محمّد مصطفیٰ ﷺ کو سرِفہرست رکھا گیا ہے، کیوں کہ مصنّف کے مطالعے کے مطابق آپﷺ دنیا کے سب سے عظیم، منفرد اور انسانی تاریخ کے نمایاں ترین انسان ہیں۔ ہارٹ میخائیل لکھتا ہے’’قارئین میں سے ممکن ہے کہ کچھ لوگوں کو تعجّب ہو کہ مَیں نے دنیا جہاں کی مؤثر ترین شخصیات میں ’’محمّدؐ‘‘ کو سرِفہرست کیوں رکھا ہے؟ وہ مجھ سے اس کی وجہ طلب کریں گے، حالاں کہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ صرف وہی (حضرت محمّدﷺ)ایک عظیم انسان تھے، جو دینی اور دنیوی اعتبار سے غیرمعمولی طور پر کام یاب و کام ران اور سرفراز ٹھہرے‘‘۔

63 سال یہ نورِ ازلی و ابدی دنیا کو غیر فانی تنویرات سے منوّر اور مستنیر کرنے کے بعد اِسی مہینے میں2 شنبہ،12 ربیع الاوّل، 11ہجری کو ’’الصّلوٰۃ وما ملکت ایمانکُم‘‘ نماز اورغلام۔ (یعنی ان دونوں کا خاص اہتمام اور خیال رکھنا) اور ’’بل الرّفیق الاعلیٰ‘‘ بلکہ’’وصال رفیق اعلیٰ (اللہ ربّ العزت کا دیدار اور اس سے شرفِ ملاقات) مطلوب ہے، فرماتے ہوئے وصال فرما گئے اور روحِ پاک عالمِ قدس میں پہنچ گئی۔

مولایَ صلِّ وسلّم دائماً ابداً

علیٰ حبیبیک خیرالخلقِ کُلّھم

محمدٌ سیّدالکونین والثقلین

والفریقین من عُربٍ ومن عجم