ہفت اقلیم کے نوعُمر بادشاہ: شاہی محل کی بارہ دریوں میں بے فکری کی زندگی گزارنے والے اللہ کے فرماں بردار، وہ کم عُمر نوجوان ابھی جوانی کی دہلیز پر قدم بھی نہ رکھ پائے تھے کہ اُن کے والد محترم اللہ کے نبی اور بادشاہِ وقت حضرت دائود علیہ السلام انتقال فرماگئے۔ انھوں نے عُمر ِمبارک کی صرف تیرہ بہاریں ہی دیکھی تھیں کہ عظیم الشّان سلطنت کا بوجھ ناتواں کاندھوں پر آگیا۔ تختِ شاہی پر براجمان ہوئے تو اپنے ربّ کے حضور، کام یابی کی دُعا کرتے ہوئے عرض گزار ہوئے۔ ’’اے میرے پروردگار! مجھے ایسی بادشاہت عطا فرما کہ جو میرے بعد کسی کو بھی میسّر نہ ہو۔‘‘ (سورئہ ص،آیت 35) رب العالمین نے اپنے محبوب بندے کی دُعا کو شرفِ قبولیت بخشا اور ہفت اقلیم بناکر دنیا کی ہر شے کو اُن کا مطیع و فرماں بردار بنادیا۔
نبوّت و حکمت سے سرفراز فرما کر، ہوا، سمندر، پہاڑ، دریا، چرند، پرند، انسان، حیوان، جنّات و شیاطین، مال و دولت، نباتات و معدنیات، حتیٰ کہ جانوروں اور پرندوں کی بولیوں کا علم تک اپنے نبی ؑ کے قدموں میں ڈھیر کردیا۔ خود اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے کہ ’’ہم نے تندوتیز ہوا کو سلیمانؑ کے تابع کردیا۔‘‘ (سورۃ الانبیاء، 81)۔ ’’اور ہم نے جنّات کو بھی اور دوسرے جنّات (شیاطین) کو بھی جو زنجیروں میں جکڑے رہتے تھے، اُن کے ماتحت کردیا۔‘‘ (سورئہ ص، آیات 37-38) ’’اور ہم نے بہت سے شیاطین کو بھی اُن کے تابع کردیا۔‘‘ (سورہ الانبیاء، 82) ’’اور ہم نے اُن کے لیے تانبے کا چشمہ بہادیا۔‘‘ (سورہ سبا،آیت 12)۔ دنیا میں بڑے بڑے بادشاہ گزرے، لیکن حضرت سلیمان علیہ السلام جیسی بادشاہت کسی کو نصیب نہ ہوئی۔
جانوروں، پرندوں کی بولیوں کا علم: اللہ کے برگزیدہ بندے اور بنی اسرائیل کے نبی حضرت سلیمان علیہ السلام کے والد بھی نبی تھے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔ ’’اور ہم نے یقیناً داؤدؑ اور سلیمانؑ کو علم دے رکھا ہے۔‘‘ (سورہ نمل، 15) اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمانؑ کو جانوروں اور پرندوں کی بولیاں جاننے کا علم دیا تھا۔ ایک مرتبہ حضرت سلیمان جِن وانس اور حیوانات کے عظیم الشان لشکر کے ساتھ کسی جگہ تشریف لے جارہے تھے، لشکرِ عظیم چلتے چلتے ایک ایسی وادی میں پہنچا، جو بے شمار چیونٹیوں کا مسکن تھی۔
چیونٹیوں کی ملکہ نے جب انبوہِ کثیرِ، لشکر کو دیکھا، تو کہا۔ ’’اے چیونٹیو! اپنے اپنے گھروں میں گھس جائو، ایسا نہ ہو کہ بے خبری میں سلیمانؑ اور اُن کا لشکر تمہیں روند ڈالے۔‘‘ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اُس کی بات سنی تو مسکرادیے اور اللہ سے دُعا کی۔ ’’اے میرے پروردگار! تُو مجھے توفیق دے کہ مَیں تیری ان نعمتوں ، احسانات کا شُکر بجا لائوں، جو تُونے مجھ پر اور میرے ماں باپ پرکیے ہیں۔‘‘ (سورئہ نمل، آیات 18-19)۔ حضرت ابنِ عباسؓ سے منقول ہے کہ ’’نبیؐ نے چار جانوروں (حشرات )کو قتل کرنے سے منع فرمایا ہے۔ چیونٹی، شہد کی مکھی، ہُدہُد اور لٹورا۔‘‘ (سنن ابو دائودؑ، 5267)۔
ہُدہُد کو حاضر ہونے کا حکم: ایک مرتبہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے سفر کے دوران ہُدہُد کو حاضر ہونے کا حکم دیا۔ ہُدہُد اُس وقت موجود نہیں تھا۔ اُس کے بغیر اطلاع غیر حاضر ہونے پر آپ کو غصہ آگیا اور فرمایا۔ ’’اگر ہُدہُد نے غیرحاضری کی معقول وجہ نہیں بتائی، تو اسے سخت سزا دوں گا یا ذبح کردوں گا۔‘‘ (سورۃ النمل،21)۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے سوال کیا گیا کہ تمام پرندوں میں سے صرف ہُدہُد کو کیوں بلایا گیا؟ آپ نے جواب دیا، ’’حضرت سلیمان علیہ السلام نے کسی ایسی جگہ قیام فرمایا تھا، جہاں پانی نہیں تھا۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے ہُدہُد کو یہ خاصیت عطا فرمائی ہے کہ وہ زمین کے اندر کی چیزوں اور زمین کے اندر بہنے والے چشموں کو دیکھ لیتا ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کا مقصد یہ تھا کہ ہُدہُد سے معلوم کریں کہ اس میدان میں کتنی گہرائی میں پانی ہے؟ ہُدہُد کی نشان دہی کے بعد وہ جنّات کو حکم دیتے کہ زمین کھود کر پانی نکالو۔ ’’ہُدہُد زمین کے اندر کی چیزوں کو دیکھ لیتا ہے، لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اسے زمین کے اوپر شکاری کا بچھایا ہوا جال نظر نہیں آتا اور عموماً جال میں پھنس جاتا ہے۔‘‘ (قصص الانبیاء، ابنِ کثیر، صفحہ 556)۔
قومِ سبا پر سیلاب کا عذاب: قومِ سبا800سال قبلِ مسیح کے لگ بھگ یمن کے علاقے میں آباد تھی۔ انہوں نے اپنے پہاڑی علاقوں میں بہت سے بند تعمیر کر رکھے تھے، جن میں سب سے بڑے بند کا نام ’’سدِّمآرب‘‘ تھا۔ انہوں نے ان بندوں سے چھوٹی چھوٹی نہریں نکال کر میدانی علاقوں کو سیراب کرنے کے لیے ایک مربوط و موثر نظام بھی بنا رکھا تھا، جس کی وجہ سے باغات کے سلسلے سیکڑوں میل دُور تک پھیلے ہوئے تھے۔ اُس زمانے میں یمن، تہذیب و تمدن کا گہوارہ تھا، جس کی شان و شوکت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی، مگر پھر آہستہ آہستہ وہ قوم مذہبی و اخلاقی زوال کا شکار ہوئی، تو اللہ ذوالجلال نے اُنھیں نبیوں کے ذریعے متنبہ فرمایا۔
بالآخر انہیں اُن کی ناشکری اور سرکشی کی سزا دی گئی اور اُنھیں فراہم کردہ تمام نعمتیں سلب کرلی گئیں۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اُن کا سب سے بڑا بند، سدِمآرب ٹوٹ گیا اور یوں ایک خوف ناک سیلاب قہرِ خداوندی بن کر اُن پر ٹوٹ پڑا اور اس قوم کا نام و نشان ایسا مٹا کہ دنیا میں اُن کی صرف داستانیں ہی باقی رہ گئی ہیں۔ قومِ سبا پر سیلاب کے عذاب کا یہ واقعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے تقریباً سوا سو سال قبل یعنی450عیسوی کے لگ بھگ پیش آیا۔
بند ٹوٹنے کی وجہ سے یہ علاقہ مکمل طور پر تباہ ہوگیا، سیلاب کے عذاب سے زندہ بچ جانے والے لوگ عراق اور عرب کے دوسرے علاقوں میں ہجرت کرگئے۔ یثرب میں آباد ہونے والے قبائل اوس اور خزرج کا تعلق بھی یمن سے تھا۔ قومِ سبا کی تباہی کے بعد مذکورہ تجارتی شاہ راہ پر قریشِ مکّہ کی اجارہ داری قائم ہوگئی۔ (بیان القرآن، ڈاکٹر اسرار، 72/6)۔
ملکہ بلقیس کی ماں جنّات میں سے تھی: ملکۂ سبا کا نام تاریخی کتب میں ’’بلقیس بنتِ شراحیل‘‘۔ بتایا گیا ہے کہ ملکہ بلقیس کے باپ، دادا ملکِ یمن کے بادشاہ تھے۔ روایت کے مطابق، ملکہ بلقیس کی ماں جنّات میں سے تھی۔ اُن کے باپ نے ایک جن عورت سے شادی کی تھی، جس کا نام ’’بلعمہ بنتِ شیعان‘‘ تھا۔ اس کے بطن سے بلقیس پیدا ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ نے ملکہ بلقیس کو وسیع مملکت، شان و شوکت، مال و دولت، ہیرے جوہرات کے علاوہ خوب حسن و جمال بھی عطا فرمایا تھا۔ اُن کی قوم سورج کی پرستش کرتی تھی۔ بعض نے لکھا کہ مجوسی تھے، جو آگ سمیت ہر روشنی کی پرستش کرتے ہیں۔ (قصص الانبیاء، مفتی محمد شفیع، صفحہ 559)۔
حضرت سلیمانؑ کا خط، ملکہ کے محل میں: ہُدہُد نے حضرت سلیمان علیہ السلام کا خط لیا اور اُڑتا ہوا ملکِ یمن پہنچا اور محل کے اندر ملکہ کو تلاش کرتا ہوا اس کے کمرے تک جاپہنچا۔ دیکھا کہ ملکہ اس وقت آفتاب کی پوجا کررہی ہے۔ ہُدہُد خط اُس کے قریب ڈال کر وہاں سے ہٹ گیا۔ ملکہ نے اپنے قریب ایک خط پڑا دیکھا، تو بڑی حیران ہوئی، لیکن جب اُسے کھول کر پڑھا، تو بڑی متفکر ہوگئی۔ چناں چہ فوری طور پر تمام درباری طلب کرلیے۔ ملکہ بلقیس اپنے دربار میں ہیرے جواہرات سے مزیّن خوب صورت تختِ شاہی پر براجمان تھی۔
تمام درباری تجسّس بھری نظروں سے ملکہ کی طرف دیکھ رہے تھے اور بے چینی سے منتظر تھے کہ ملکۂ عالیہ اچانک ہنگامی اجلاس طلب فرمانے پر کچھ اظہارِ خیال کریں۔ ملکہ نے وسیع و عریض اور عالی شان دربار کے چاروں جانب ایک نظر دوڑائی اور پھر یوں گویا ہوئی، ’’اے اہلِ دربار! مجھے ایک بڑا اہم اور باوقعت خط فلسطین اور شام کے عظیم فرماں روا، سلیمان (علیہ السلام) کی جانب سے موصول ہوا ہے، جو مہربان اللہ کے نام سے شروع ہے، جس میں لکھا ہے کہ تم میرے سامنے سرکشی نہ کرو اور مسلمان بن کر میرے پاس آجائو۔ اے میرے سردار! تم اس معاملے میں مجھے مشورہ دو۔ میں کسی امر کا قطعی فیصلہ تمہارے مشورے اور رائے کے بغیر نہیں کرتی۔‘‘ اس پر وہ بولے، ’’ہم بڑے زورآور اور سخت جنگ جو ہیں، آگے آپ کو اختیار ہے۔ آپ خود ہی سوچ لیجیے کہ ہمیں آپ کیا کچھ حکم فرماتی ہیں۔‘‘ (سورئہ نمل، آیات 29-33)۔
ہُدہُد قومِ سبا کی خبر لے کر حاضر ہوا: ابھی کچھ دیر ہی گزری تھی کہ ہُدہُد حاضر ہوگیا اور کہنے لگا۔ترجمہ:’’میں آپ کے لیے ایک ایسی خبر لایا ہوں، جس کا آپ کو علم نہیں۔ مَیں آپ کے پاس ملکِ یمن سے ایک سچّی خبر لایا ہوں، میں نے دیکھا کہ ایک عورت وہاں کے لوگوں پر بادشاہت کررہی ہے اور اُسے وہاں ہر قسم کی چیز میسّر ہے، اُس کا تخت بھی بڑی عظمت والا ہے۔
میں نے اُسے اور اُس کی قوم کو اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر سورج کو سجدہ کرتے ہوئے پایا اور شیطان نے اُن کے اعمال اُنہیں آراستہ کرکے دکھائے ہیں اور اُنھیں صحیح راستے سے روک رکھا ہے، پس وہ ہدایت پر نہیں آتے کہ اُس اللہ کو سجدہ کریں، جو آسمانوں اور زمینوں کی پوشیدہ چیزوں کو باہر نکالتا ہے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو اور ظاہر کرتے ہو، وہ سب کچھ جانتا ہے کہ وہی عظمت والا، عرش کا مالک ہے۔ حضرت سلیمانؑ نے کہا کہ ’’اب ہم دیکھیں گے کہ تونے سچ کہا ہے یا جھوٹ؟ تو ایسا کر کہ میرا خط لے جاکر اُسے دے اور پھر اُن کے پاس سے ہٹ جا اور دیکھ کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں۔‘‘ (سورئہ نمل،آیات 22-28)۔
قومِ سبا پر تیرہ انبیاء کا نزول: علامہ عمادالدین ابنِ کثیر تحریر فرماتے ہیں کہ ’’سبا، یمن کے بادشاہوں اور اُس ملک کے باشندوں کا لقب ہے۔ ملکہ بلقیس بھی اُسی قوم سے تعلق رکھتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے اُس قوم کو بے حساب رزق اور آرام و آسائش کے تمام اسباب مہیّا فرمانے کے علاوہ اپنے تیرہ انبیاء کا نزول بھی فرمایا، تاکہ یہ اللہ کی وحدانیت کا اقرار، احکام کی اطاعت کریں اور نعمتوں، انعام و اکرام اور کا شکر ادا کرتے رہیں، لیکن وہ لوگ اپنی غفلت و نافرمانی سے باز نہ آئے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اُن پر ایک سیلاب کا عذاب نازل فرمایا، جس نے اُن کے شہر اور باغات سمیت ہر چیز کو ویران و برباد کردیا۔‘‘
امام احمد بن حنبل، حضرت عبداللہ بن عباسؐ سے روایت نقل فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ ’’سبا، جس کا قرآن میں ذکر ہے، وہ کسی مرد یا عورت کا نام ہے یا زمین کے کسی حصّے کا؟‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’یہ ایک مرد کا نام ہے، جس کی اولاد میں دس لڑکے ہوئے۔ جن میں سے چھے یمن میں آباد رہے اور چار ملکِ شام چلے گئے۔‘‘ (مسندِ احمد، احادیث، 8725۔ 10441)۔
دنیا کی سب سے مال دار قوم: سبا کا اصل نام عبدشمس (بندئہ آفتاب یا سورج کا پرستار) اور لقب سبا تھا۔ قومِ سبا جنوبی عرب کی مشہور تجارت پیشہ قوم تھی۔ جس کا دارالحکومت مآرب تھا، جو موجودہ یمن کے دارالسلطنت ’’صنعاء‘‘ سے55میل بجانب شمال مشرق میں واقع تھا۔ اس کا زمانۂ عروج 1100 قبل مسیح سے شروع ہوا اورلگ بھگ ایک ہزار برس تک عرب میں اس کی عظمت کے ڈنکے بجتے رہے۔
پھر115قبلِ مسیح میں جنوب عرب کی دوسری مشہور قوم حمیر نے اس کی جگہ لے لی۔ عرب میں یمن، حضرموت اور افریقا میں حبش تک کا علاقہ اُن کے قبضے میں تھا۔ مشرقی افریقا، ہندوستان، مشرقِ بعید اور خود عرب کی جتنی تجارت مصر و شام اور یونان و روم کے ساتھ ہوتی تھی، وہ زیادہ تر اِس ہی قومِ سبا کے ہاتھوں میں تھی۔ اسی وجہ سے یہ قوم قدیم زمانے میں اپنی دولت کے لیے نہایت مشہور تھی، بلکہ یونانی مؤ رخین تو قومِ سبا کو دنیا کی سب سے زیادہ مال دار قوم کہتے ہیں۔ (تفہیم القرآن، جلد3 ،صفحہ568)۔ (جاری ہے)