• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان پیپلزپارٹی کے میڈیا پرسن ضیا کھوکھر نے فون پر کہا ’’کیا تم نے جغرافیہ پڑھا ہے؟‘‘ میرا جواب تھا: ’’نویںدسویںتک پڑھا ہوگا ، اصل میں نویں جماعت کے بعد میرا اپنا جغرافیہ اپنے محورسے اِدھر اُدھر ہونا شروع ہو گیاتھا۔ ابھی تک اِدھر اُدھر کی اس عادت کا اختتام نہیں ہوسکا۔ (عمر عزیز کا سن 68واں، یہ بھی یادرکھاجائے) تم جغرافیے میں میری اہلیت کا سوال چھوڑو، یہ بتائو کہنا کیا چاہتے ہو؟‘‘ پاکستان پیپلزپارٹی کی اپنے قیام کے 48ویں برس میںبھی جاری سیاسی مسافت کے مستقل مسافر ضیا کھوکھر نے کہا ’’چک شہزاد کی عالی شان اقامت گاہ سے اسلام آبادکا’’پولی کلینک‘‘ ہسپتال صرف دس منٹ کے فاصلے پر ہے۔مجموعی طور پر یہ اسلام آباد کی سرکاری اور غیرسرکاری اشرافیہ کی تمام بیماریوں کا بوجھ آسانی سے اٹھاتا رہتا ہے۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (PIMS) چک شہزاد سے زیادہ سے زیادہ 15منٹ کی دوری پر ہے۔ اِدھرسڑک پر اگر کرفیو بھی لگا ہو تب بھی چک شہزاد سے راولپنڈی کے آرمڈ فورسز انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی تک 45 منٹ سے پہلے پہنچنا یا کسی کو پہنچانا ناممکنات میں سے ہے۔انہونی کی بات دوسری ہے۔ پرویز مشرف کی حالت غیرہونے کی شکل میں نہیں ابتدائی طبی امداد کے لئے قریب ترین میڈیکل سپاٹ پر لے جانا چاہئے تھا۔ ایسی حالت میں سب سے زیادہ فاصلے پر واقع راولپنڈی آرمڈ فورسز انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی لے جانے کی کوئی منطق کم از کم میری عقل میں تونہیںآرہی۔ تین ہی ممکنہ صورتوں تک نظر جاتی ہے:
(۱) وہ بیمار نہیںہیں۔(۲) ان کے علاج میں کوتاہی کا اندیشہ تھا۔(۳) یا Bloody سویلین کے کسی ادارے میں افواج پاکستان کے سابق چیف کو لے جانا کسرشان جانا گیا۔ تمہارا کیاخیال ہے؟‘‘
آپ کو معلوم ہے ضیا کھو کھرسمیت بھٹو خاندان کے حوالے سے کروڑوں پاکستانیوںکا Dilemma کیا ہے؟ وہ ذوالفقار علی بھٹو ، شاہنواز بھٹو، مرتضیٰ بھٹو، بی بی شہید، آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زداری، آصفہ، بختاور، ذوالفقار جونیئر، فاطمہ بھٹو..... ان سب کو یاد کرتے اور دیکھتے ہیں، اس خاندان کے بڑوں کی سیاست، اپروچ اور قربانیوں کا ایک بہی کھاتہ مرتب کرتے ہیں۔ یہ بہی کھاتہ انہیں آزمائش کے کٹہرے میں کھڑا کردیتاہے۔ وہ اپنے آپ سے پوچھتے ہیں ’’یہ سب سے منفرد ہیں، ان کی سیاست، ان کا علم ہمارے دلوں پر دستک دیتا ہے۔ خون کے پیاسے ان کی جان کیوں نہیں چھوڑ دیتے؟‘‘ دنیا بھر کے عوام کے لئے بھٹو خاندان کے کردار سے بنایا جانے والا یہ آزمائشی کٹہرا ہی عوام کی عدالت میں پاکستان پیپلزپارٹی کا وجودفنا نہیں ہونے دیتا۔ آج ذوالفقا ر علی بھٹو کے داماد آصف علی زرداری اور ان کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری پاکستان پیپلزپارٹی کی عوامی سربلندی کا علم تھامے اس کی لرزشوں کو مستقیم اور مقیم رکھنے کی تگ و تاز میں ہر لمحہ اپنا دل و جاں نذر کئے ہوئے ہیں!ایک (ر) جنرل اور آصف علی زرداری کا عدالتوں کا سامنا کرنے میںکوہ ِ ہمالیہ سے بھی زیادہ مقدار کا نفسیاتی فرق کوئی Dilemma نہیں ہے۔ جنرل اس سیاسی تاریخی ورثے سے کلی طور پر محروم ہے۔ جبکہ آصف علی زرداری، اس کے پالنے میں سیاسی طور پر بالغ اور جوان ہوئے...... یہ سیاسی رشتہ آئین کی صلیب پر جان تک وار دینے کا سندر درخت ہے جس کی روشنی کبھی ختم نہیں ہوتی۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے پھانسی سے تختہ ٔ دار پرجانے سے صرف آٹھ دس دن پہلے سپریم کورٹ آف پاکستان میں اپنے آخری بیان میں کہا تھا:
’’مائی لارڈز! اس مقدمے کو آپ کے سامنے پیش کرنے کےمقصد کےبارے میںواپس آتے ہوئے میں کہوںگا کہ یورلارڈشپس جانتے ہیںکہ انصاف ناقابل تقسیم ہے۔ انصاف مطلق ہوتاہے۔ سیاست میں سودابازی ہوسکتی ہے۔ کاروبار میں سودے بازی ہوسکتی ہے لیکن انصاف میں کسی طرح کی سودے بازی نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ یہاں کوئی شخص بے خطا ہوتا ہے یا خطا کار۔ سیاست میں کوئی درمیانی راستہ اور مفاہمتی حل تلاش کیا جاسکتا ہے لیکن قانونی اصلاحات کے مطابق یہاں کوئی مفاہمتی سمجھوتہ یا حل نہیں ہوسکتا۔ نہ ہی کوئی درمیانی حل ہوسکتاہے۔ داخلی احساسات یا خارجی واقعات اس میںکوئی کردار ادانہیں کرسکتے۔‘‘
’’یور لارڈ شپس کو مشہور زمانہ کیس، اینڈرسن کیس یاد ہوگا اس وقت جبکہ جنگ لڑی جارہی تھی اور ڈائیکنز نے کہا تھا ’’اس وقت بھی جب جنگ کے طبل بج رہے ہیں ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کیا اس شخص کو رہا کیا جائے گا یا نہیں۔ یہ ایک ناموافق فیصلہ تھا لیکن ایک طاقتور ناموافق فیصلہ جسے بعد میں ایک فیصلہ بننا تھا۔‘‘ ’’یا تو میں بے خطا ہوں اور اس مقدمے کو معقول شبہات سے ماورا ہوا کر سچاثابت نہیں کیا جاسکا یا پھر میں بے خطا نہیں ہوں۔ دوسرے مسائل غور و فکر اور حقائق اس میں کوئی کردار ادانہیں کررہے۔ مجھے یور لارڈشپس پر مکمل اعتمادہے اور مجھے یقین ہے کہ قانون کی عظمت اور شان و شوکت کواونچا رکھیںگے اور محض مارشل لا کی آیابن کر نہیں رہ جائیں گے!‘‘ ذوالفقار علی بھٹو کا مقدمہ قتل جس کا کبھی کسی مقدمے میں حوالہ نہیں دیا جاتا، جسے PLD میں بطور نظیر پیش نہ کرکے اس کی قانونی پیدائش کو ناجائز تسلیم کرلیا گیا ہے، وہ ذوالفقار علی بھٹو دنیا بھر کے باشعور انسانوںکی طرح اس مقدمہ ٔ قتل کے انجام سے شعوراً اور لاشعوراً پورم پور آگاہ تھا، بایں ہمہ وہ تختہ دار پر سامنے دیکھتے ہوئے سپریم کورٹ آف پاکستان کے منصب کا یہ کہہ کر اعتراف کرتاہے: ’’مجھے یور لارڈ شپس پر مکمل اعتماد ہے اور مجھے یقین ہے کہ قانون کی عظمت اور شان و شوکت کو اونچا رکھیں گے اور محض مارشل لا کی آیا بن کر نہیں رہ جائیں گے‘‘
پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرپرسن اور سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری برسوں قید و بند میں رہے۔ یہ قید و بند کن لوگوں کی کن نیتوں کا نتیجہ تھی؟ سارے جہاں کو معلوم ہے۔ سابق صدر اور بی بی شہید کو شب و روز عدالتوں کے طوفانی جھکڑوں کا ہدف بنایا جاتا رہا۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے موجودہ زمانہ ٔاقتدار میںاس کے وزیراعظم کو کھڑے کھڑے وزارت ِ عظمیٰ سے محروم اور سزا کا مستحق قرار دیا گیا۔ حالیہ دور ِ اقتدار میں عدالت ِ عظمیٰ نے پاکستان پیپلزپارٹی کی منتخب حکومت کی ریاستی فرائض کی ادائیگیوں اور اس کے وزرا کو اپنے دروازوں کے ’’مستقل سائل‘‘ ڈیکلیئر کئے رکھا۔ مخالفین پہلے دن سے لے کر آج تک پیپلزپارٹی پر ’’عدلیہ کی توہین‘‘ کے دروغ کا کاروبار کرتے رہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی اور اس کی قیادت کسی بھی عالم نزع میںآئین و قانون سے مفرور نہیںہوئی۔ ضمیر کے پورے طمطراق کے ساتھ ہمیشہ عدالتوں میں پیش ہوکر اپنے سیاسی بانی کے نظریاتی اعلامیئے کی امانت کا حق ادا کیا یعنی ’’مجھے یور لارڈشپس پر مکمل اعتماد ہے‘‘ آصف علی زرداری نے بھی اسی امانت کو سنبھالا ہے۔ جنرل (ر) تو اس رستے کا راہی ہی نہیں، اس کی تربیت کا علم بندوق کی نالی سے جنم لیتا ہے، آصف علی زرداری کی تربیت کا علم ذوالفقار علی بھٹو کے فلسفہ ٔسیاست کا شاہکار ہے۔ دونوں کیسے برابر ہوسکتے تھے؟
تازہ ترین