بیرونِ دَر ہے شور، مگر اندروں ہے خوف
اِک خوف، جانے کیا ہو ابھی، جانے کیا نہ ہو
نادان دوستوں کی قطاریں ہیں صف بہ صف
اے کاش! کوئی دشمنِ دانا ہو راہ رو
لیکن نہیں ہے، کوئی نہیں، صرف بھیڑ ہے
یا اپنے آس پاس فقط اِک ہجوم ہے
واحسرتا! ہجوم بھی، جو بے لگام ہے
ہم راہ، روز و شب ہے، یہی صبح و شام ہے
کیا ہو تو بس حیات کا ایسا ہی طور ہو؟
فرصت کہاں کہ لفظ و معنی پہ غور ہو
ساعت کہاں کہ حرف و قلم سے ہو واسطہ
اب ہے تو بس یہی ہے فقط اپنا راستہ
کیا ہو تو اب یہی ہو کہ مال و منال ہو؟
منصب میں، زَر میں، زور میں، سارا کمال ہو؟
اور ہو بھی، اِک زقند میں، بس یہ خیال ہو؟
بیرونِ دَر ہے شور، مگر اندروں ہے خوف
اِک خوف، جانے کیا ہو ابھی، جانے کیا نہ ہو
کیا ہوچکا؟ ملال یہ ہے، کچھ اثر نہیں
اب ہوگا کیا؟ گمان یہ ہے، کچھ خبر نہیں
گرچہ قمرؔ ہے دُور، بہت دُور، اِک کرن
دنیا مگر اُمید کی، زیر و زبر نہیں