• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رابعہ فاطمہ

جس طرح انسان کے مزاج پر اُس کے گردو پیش کا ماحول ، موسمیاتی تغیّر و تبدّل اثر انداز ہوتا ہے، اُسی طرح اُس کی روزمرّہ خوراک بھی اثرانداز ہوتی ہے۔ یوں بھی خوراک انسان کی بنیادی ضرورت ہے اور ہر فرد کی تن دُرستی، صحت و توانائی اسی خوراک پر منحصر ہے۔ ابنِ خلدون نے اپنے مقدّمے میں واضح کیا ہے کہ انسان کے مزاج اور جسامت و رنگت کا انحصار صرف اردگرد کے ماحول ہی پر نہیں، اس کی روزمرّہ خوراک پر بھی ہے۔ 

انسان جب متوازن ، معیاری غذا کواستعمال کرتا ہے، تو اس کی قوّتِ مدافعت بڑھ جاتی ہے، جس سے وہ مختلف بیماریوں سے لڑنے کے قابل ہوجاتا ہے۔ فوڈ اینڈ ایگری کلچر آرگنائزیشن کے مطابق جہاں پھل، سبزیاں انسانی صحت کے لیے ضروری ہیں، وہیں دُودھ، انڈوں اور گوشت کی اہمیت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم، دَورِ حاضر میں خوراک کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے متوازن اور معیاری غذا کا حصول مشکل ترین ہوتا جا رہا ہے۔

اقوامِ متّحدہ کی تنظیم برائے خوراک و زراعت کے مطابق خوراک کی پیداوار کا 14فی صد حصّہ صارفین تک پہنچنے سے پہلے ہی ضایع ہوجاتا ہے ، حالاں کہ اگر اُس میں سے ایک فی صد بھی بچا لیا جائے، تو 7کروڑ افراد تک بہ آسانی کھانا پہنچ سکتا ہے اور اگراس زیاں پر قابو نہ پایا گیا، تو 2030ء تک ضایع شدہ خوراک کی مقداردو ارب ٹن تک پہنچ جائے گی، جو ایک تشویش ناک اَمر ہے، جب کہ ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق پاکستان میں 43فی صد افراد غذائی عدم تحفّظ کا شکار ہیں۔ 

نیز، اقوامِ متّحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں چھے ماہ سے دو سال کی عُمر تک کے بچّے جان لیوا حد تک غذائی قلّت کا شکار ہیں، حالاں کہ اگر جانوروں سے حاصل ہونے والی خوراک کو مناسب طور پر غذا کا حصّہ بنایا جائے، تو اس سے بچّوں کی غذائی کمی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

آج ایک مستحکم پالیسی ہی پاکستان کو خوراک کی قلّت سے بچا سکتی ہے اور اس پالیسی کے لیے درج ذیل نکات کی طرف توجّہ دینے کی اشد ضرورت ہے:

٭ خوراک کے متبادل ذرایع تلاش کیے جائیں۔ مثلاً صرف گندم ہی نہیں، ثانوی اجناس کاشت کرنے اور بنجر زمینوں کو قابلِ کاشت بنانے کی طرف توجّہ دی جائے۔٭ گھریلو ،مقامی، علاقائی اور قومی سطح پر جدید ٹیکنالوجی کو فروغ دے کر زرعی پیداوار کی محفوظ اور دیرپا ذخیرہ کاری کی سہولت و استعداد میں اضافہ کر کے نقصانات کو کم کیا جائے۔٭ نئی ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے آب پاشی کے نظام کو بہتر بنا کر اسے زراعت کے لیے موثر بنایا جائے۔٭ ایسے فعال ادارے قائم کیے جائیں، جو ہر شہری تک متوازن خوراک باآسانی پہنچانے کی پالیسیز تشکیل دیں۔٭کسانوں کو جدید ٹیکنالوجیز سے روشناس کروایا جائے، تاکہ وہ اپنا کام بہترین انداز سے انجام دے سکیں۔ 

نیز، ہمیں کسانوں کو معیاری بیج فراہم کیے جائیں، تاکہ پَھلوں کو ضایع ہونے بچایا جاسکے۔ ٭ زکوٰۃ و صدقات کا نظام بہتر بنایا جائے، تاکہ مستحقین کی غذائی ضروریات پوری ہو سکیں۔ ٭کاشت کاروں کی مارکیٹس تک رسائی کے لیے ذرایع آمد و رفت میں اضافہ کیا جائے، جب کہ رسد کے نظام کو بھی بہتر اور مؤثر بنانے کی ضرورت ہے۔٭پھر بہ حیثیت ذمّے دار شہری ہمیں بھی نہ صرف خوراک کے زیاں کو روکنے، بلکہ اسے مستحق و ضرورت مند افراد تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ 

عموماًخوراک کا سب سے زیادہ زیاں تقریبات میں دیکھنے کو ملتا ہے،تو ہر ایک کو چاہیے کہ اپنی پلیٹ میں حسبِ ضرورت کھانا ڈالے۔ روز مرّہ پکنے والا کھانا بھی اگر بچ جائے، تو اسے فریز کر دیں تاکہ اگلے روز استعمال کیا جاسکے۔ہمیشہ خریداری سے قبل فہرست بنائیں تاکہ غیر ضروری اشیا کی خریداری سے محفوظ رہیں۔ اگر گھر میں پہلے سے سبزیاں موجود ہیں، تو پہلے اُن کا استعمال یقینی بنائیں۔ 

مزید سبزیوں کی خریداری خوراک کے زیاں کا سبب بنے گی۔ نیز، یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ کس سبزی کو فریج میں رکھنا فائدہ مند ہے اور کس کو رکھنے کا نقصان ہے۔ اپنے پڑوسیوں کو اپنے کھانے میں ضرور شریک کریں۔ کھانا زیادہ بن جائے، تو اُن کے ساتھ شیئر کرلیں اور اسی طرح دیگر اشیائے خورو نوش کے تبادلے کو بھی یقینی بنائیں۔