السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
صوابدیدی اختیارات؟
ہمارے ہر ایک خط کے ساتھ ایک آرٹیکل ضرور منسلک ہوتا ہے۔ آپ خط تو اپنے صوابدیدی اختیارات کے تحت شائع کردیتی ہیں، مگرمضامین ’’ناقابلِ اشاعت‘‘ کے لیے دے دیتی ہیں اور وہ ردّی کی ٹوکری کی نذر ہوجاتے ہیں۔ ہمارا سوئی گیس سے متعلق بھیجا گیا مسئلہ اب کورٹ میں ہے، تو کیا آپ ہمارا مضمون شائع کر کے، اور بال نگراں حکومت کی کورٹ میں ڈال کے صحافت کی آن بان شان قائم رکھیں گی۔ (شری مُرلی چند، گوپی چند گھوکھلیہ، ریلوے اسٹیشن روڈ، مہر محلہ، شکارپور)
ج: آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ہم اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کر کے آپ کا خط شائع ہی نہیں کرتے، اِسے قابل اشاعت بھی بناتے ہیں اور بقیہ تحریریں ’’ناقابلِ اشاعت‘‘ کی فدہرست میں ہم نہیں، متعلقہ صفحہ انچارجز شامل کرتے ہیں۔ کبھی کبھار کوئی تحریر ری رائٹ کر کے شائع بھی کردی جاتی ہے، لیکن عمومی طور پر ایسی محنتِ شاقّہ کا وقت نہیں ہوتا، کسی کے پاس۔ یہ تو کچھ ہمیں ہی بیماری ہے کہ ہر اِک قاری، لکھاری کے خط کی نوک پلک سنوارنےبیٹھ جاتے ہیں، اصل خطوط بعینیہ شائع کردیئے جائیں، تو شاید لوگ صفحے کی جانب نگاہ اُٹھا کے بھی نہ دیکھیں۔
تھوڑی سی وضاحت
’’جس ہانڈی میں کھانا،اُسی میں چھید کرنا ہے‘‘ کےعنوان سے ایک واقعہ ’’سنڈے میگزین‘‘ میں شائع ہوا، جس کےلکھاری ڈاکٹر شمیم نوید تھے۔ یہاں میں تھوڑی سی وضاحت کردوں کہ ڈاکٹر صاحب نے رحیم آباد، شکارپور، سندھ کا ذکر کیا اور اُس سے پیرالٰہی بخش مرحوم کا تعلق ظاہر کیا، تو پیرالٰہی بخش کا اُس علاقے سے ہرگز کوئی تعلق نہیں تھا۔ اُن کا بنیادی تعلق ضلع دادو سے تھا اور مرحوم پیرالٰہی بخش، پیر مظہر الحق کے دادا تھے۔
پیر الٰہی بخش سن1890ء میں دادو کے علاقے بھان، سید آباد میں پیدا ہوئے اور 1948 ء سے 1949ء تک سندھ کے وزیراعلیٰ بھی رہے۔ اُن کے نام سے کراچی میں پیرالٰہی بخش کالونی (پی آئی بی کالونی) بھی کافی مشہور ہے۔ رحیم آباد، ضلع شکارپور سے اُن کا کوئی تعلق نہیں تھا، وہاں سے صرف الٰہی بخش سومرو (سابق اسپیکر، قومی اسمبلی) اور رحیم بخش سومروکا(جو صوبائی وزیر رہ چُکے ہیں) تعلق رہا ہے۔ (فیاض سومرو، گلشنِ حدید، فیز ٹو، ملیر، کراچی)
ج: اس تفصیلی وضاحت کا بے حد شکریہ۔ آئندہ بھی کہیں ایسی کوئی غلطی، کوتاہی دیکھیں تو ضرور اصلاح و رہنمائی فرمائیں۔ ہم ایسی تمام تحریروں کا انتہائی خوش دلی سے خیر مقدم کرتے ہیں۔
فیملی کی طرح ہیں!!
منفرد لکھاری، ایک جگ کو اپنے قلم سے متاثر کرنے والے قلم کار اوربقول ایڈیٹر ’’سنڈے میگزین‘‘، اُن کے رائٹ ہینڈ، ’’منور راجپوت‘‘ کے والدِ محترم اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے اوراُن کی نمازِ جنازہ مرکزی عیدگاہ، جھڈو میں ادا کی گئی۔ جنازے میں ہر مکتبۂ فکر سے تعلق رکھنے والوں نے بہت بڑی تعداد میں شرکت کی۔ اللہ اُن کوکروٹ کروٹ جنّت نصیب فرمائے۔ مرحوم گوناگوں خوبیوں کے حامل تھے۔
انتہائی منکسر المزاج، بےحد خوش لباس، لوگوں کو جوڑنے، برادری کے معالات، حُسنِ سلوک سے طےکرنےوالے، بات کےکھرے، دل کے کھرے اورحساب کے بےحد کھرے۔ سنڈے میگزین کے تمام قارئین اور لکھاریوں سے گزارش ہے کہ اُنہیں اپنی دُعاؤں میں بسائے رکھیں۔ مَیں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے مندرجات پر تبصرہ تو وقتاً فوقتاً کرتا ہی رہتا ہوں۔ آج آپ کی ٹیم کے ہر دل عزیز رکن سے تعزیت ضروری سمجھی کہ آپ لوگ ہیں، تو یہ سنڈے میگزین ہے اور ہم سب ایک فیملی کی طرح ہیں۔ (ضیاء الحق قائم خانی، جھڈو، میرپورخاص)
ج: جی، بے شک آپ نے سو فی صد درست کہا۔ ہم سب ایک فیملی ہی کی طرح ہیں اور ہمیں ایک دوسرے کے دُکھ سُکھ میں ضرور شریک ہوناچاہیے۔ منور راجپوت کے والد گرامی سے متعلق بھی آپ نےصد فی صد درست فرمایا۔ دِلی دُعا ہے کہ اُن کے شان دار مثالی سفرِ حیات کے باوصف سفرِ آخرت کی اِک اِک منزل بےحد آسان اور ربِ کریم کے لُطف و کرم سے بھرپور ہو۔
قیمت 50، 100 روپے کردیں، مگر…
’’ سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں طالوت وجالوت کے واقعات بڑی تفصیل اور فہم وفراست سے بیان کیے گئے۔ ارسلان اللہ خان نے آج کے نوجوان کے جشنِ آزادی منانے کے طور طریقوں کا ذکر کیا۔ فرحی نعیم کا یومِ آزادی سے متعلق مضمون بہت خُوب صُورت تھا۔ مجموعی طور پر’’عیدِ آزادی‘‘ سے متعلق بیش تر تحریروں کا پیغام، درحقیقت وہی تھا، جس کی نسلِ نو کو اشد ضرورت ہےکہ محض غُل غپاڑے،شور شرابے یا ملّی نغمے گا لینے سے وطن کی مٹّی کا حق ادا نہیں ہوجاتا، یہ مادرِ وطن ہم سے کچھ اور ہی تقاضا کرتی ہے، جس کا ہمیں75 برسوں میں بھی ادراک نہیں ہوسکا۔
اس بارتومنور مرزا کی بھی تحریر عمومی تجزیاتی تحریروں سے خاصی مختلف اور پور پور وطن کی محبّت میں ڈوبی ہوئی تھی۔ ایڈیٹرصاحبہ کےرائٹ اَپ ’’پاک پرچم فضائوں میں سجتے رہیں…‘‘ کے بھی کیا ہی کہنے۔ ایسا اندازِتحریرمحترمہ ہی کا خاصّہ ہے۔ نواب بہادر یارجنگ سے متعلق معلومات خُوب رہیں اورموقع محل کےمطابق بھی۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں ڈاکٹر عزیزہ انجم نے ہماری شناخت، پہچان اورفخروغرور کا ذکرکیا۔ ڈاکٹرجمیل جالبی ریسرچ لائبریری کے حوالے سےنسیم فاطمہ کا مضمون معلوماتی تھا۔ میٹھے سبز وسفید پکوانوں کی تراکیب پڑھ کر تو جی ہی للچا گیا۔
نظیر فاطمہ کے’’دیا‘‘کابھی جواب نہ تھا۔ ’’نئی کتابیں‘‘ حسبِ روایت تھا اور’’آپ کا صفحہ‘‘ جریدے کی جان، اس مرتبہ بھی جریدے میں رُوح پھونکتا ہی محسوس ہوا۔ میری آپ سے ایک التماس ہے کہ ہرشمارے میں کم ازکم اپنی ایک تحریر تو ضرورشامل رکھا کریں۔ 20اگست کے ایڈیشن کا رائٹ اَپ شائستہ اظہر صدیقی نے لکھا۔ بس، ایک شکایت ہےکہ اس میں ملبوسات کے حوالے سے تو کچھ تھا ہی نہیں، صرف شعروشاعری ہی تھی۔ اور ہاں، ایک گزارش ہے، اتوار کا اخبار بے شک50 ، 100 روپے کا کردیں، مگر سنڈے میگزین‘‘ کبھی بند نہ کیجیے گا۔ (محمّد اقبال وعبدالعزیز، چک نمبر41، دانیوال ٹائون، تحصیل وضلع خاص، وہاڑی)
ج : شائستہ اظہرصدیقی کا رائٹ اَپ، ایک جنرل رائٹ اَپ ہی تھا، جو انہوں نے انتہائی سمجھ داری اورعُمدگی سےلکھا۔ اورآپ کی اطلاع کے لیےعرض ہے کہ وہ ہماری دعوت ہی پرلکھا گیا۔ چوں کہ اُن کے سامنے شُوٹ موجود نہیں تھا، توملبوسات کے متعلق وہ کچھ لکھ بھی نہیں سکتی تھیں۔ ویسے ہمارے خیال میں وقتاً فوقتاً ایسے مختلف تجربات کرنے میں ہرگز کوئی قباحت بھی نہیں۔ فی الحال تو ’’سنڈے میگزین‘‘ بند نہیں کیا جارہا، لیکن آپ کی تجویز پرممکن ہے، کئی اپنا دل پکڑ کے بیٹھ گئے ہوں، کیوں کہ ہم5000 کا کھانا کھا سکتے ہیں،5000 کا جوتا بھی لےسکتے ہیں، لیکن خدانخواستہ 100 روپے کا اخبار خریدتے ہمیں ہارٹ اٹیک بھی ہوسکتا ہے۔ آپ غالباً پاکستانی قوم کی نفسیات سے پوری طرح واقف نہیں۔
مقبول صفحات ہی ڈراپ کیوں؟
اِس میں کوئی شک نہیں کہ سنڈے میگزین ہر طرح کے موضوعات سے مرصّع ہوتاہے، لیکن بدقسمتی سے دن بدن سکڑتا جارہا ہے۔ ایک دفعہ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کاصفحہ نہیں، تو دوسری دفعہ ’’ ڈائجسٹ‘‘ کا نہیں اور حیرت تویہ ہے کہ ڈراپ بھی اِن ہی دو صفحات کو کیا جاتا ہے، جو کہ سب سے مقبول سلسلے ہیں۔ پچھلے کچھ عرصے میں میری کچھ تحریریں شائع ہوئیں، لیکن شاید…اب کوئی ناراضی ہوگئی ہے۔ ویسے مجھے آپ کے معیار کی بھی سمجھ نہیں آتی، آخر آپ کس طرح کی تحریریں شائع کرتے ہیں، اس حوالے سے کچھ لکھ ہی دیا کریں اور براہِ مہربانی ناقابلِ فراموش اور ڈائجسٹ کے صفحات ہر ہفتے شامل رکھا کریں۔ (محمّد جاوید اقبال، کشمیر اسٹریٹ، وحدت کالونی، لاہور)
ج: ایسا نہیں ہے کہ صرف یہی دوصفحات زیادہ روکے جاتے ہیں۔ ہمارے متعدد صفحات مسلسل ڈراپ ہورہے ہیں اور وجہ سب کے سامنے ہے کہ صفحات کی تعداد ہی انتہائی محدود کردی گئی ہے۔ ہاں، ناقابلِ فراموش اور ڈائجسٹ کے صفحات کی ڈاک عموماً اتنی زیادہ نہیں ہوتی، تو کوشش یہ رہتی ہے کہ جن سلسلوں کے لیے زیادہ تحریریں موصول ہوتی ہیں، اُنہیں زیادہ شیڈول کیا جائے اور رہی تحریروں کے معیار کی بات، تو وہ میگزین کی اِک اِک سطر سے جھلکتا ہے، ہم اس سے متعلق مزید کیا لکھیں۔ اوربھئی، آپ سےبھلا ہماری کیا ناراضی ہوگی، زندگی میں اور تھوڑے بکھیڑے ہیں کہ ناحق ناراضیاں، دشمنیاں بھی پالتے پِھریں۔
نوجوان جوڑوں کی تعلیم وتربیت
اُمید ہے، خیریت سےہوں گی، قرآن کے واقعات میں اسرائیلی بگھار لگا کر، اُنہیں چٹا پٹا بناکے پیش کرنے والے اسلام کے نام نہاد ٹھیکے دار، میگزین کے سلسلے ’’قصص القرآن‘‘ میں قرآن و حدیث کی روشنی میں مستند حوالہ جات کے ساتھ پیش کردہ مضامین پڑھ کر سخت پریشان ہیں۔ بائبل سمیت مقدّس کتابوں کے ماننے والوں نے اِن کُتب میں جھوٹے واقعات کی اس قدر بھرمار کردی ہے کہ اصل فرامین یک سر تبدیل کر کے رکھ دئیے ہیں۔ اور پھر یہی جھوٹے، مَن گھڑت واقعات ہمارے اکثر مورخین نے بھی اپنی کتب میں تحریر کردئیے ہیں۔ سورۂ کہف میں اللہ اپنے نبیﷺ سے فرماتا ہے، کہ جو کچھ تمہیں بتایا ہے، اُس سے آگے جاننے کی جستجو نہ کرو۔
طب کے تعلق سے دونوں مضامین نوجوان جوڑوں کی خاموش تعلیم وتربیت میں معاون ثابت ہوں گے، اِسی طرح آپریشن سے زچگی تواب ضرورت سے زیادہ معالجین کے لالچ اور دورِحاضر کی مائوں کی کم ہمّتی وتَن آسانی کے سبب ایک کام یاب انڈسٹری بن گئی ہے۔ رپورٹ ’’سو بچّوں کی ماں‘‘ بہت سی پڑھی لکھی صاحبِ حیثیت خواتین کے لیے ایک نصیحت اور سنگِ میل ثابت ہونی چاہیے۔ ’’اپر، لوئر اور مڈل کلاس ہمارے اپنے ذہنوں کی اختراعات ہیں‘‘۔ واہ واہ، ایک جملے میں کیسی خُوب صُورت حقیقت بیان کرکے رکھ دی۔ (شاہدہ تبسم، ڈی ایچ، اے، کراچی)
ج : اِس بار آپ کا خط خاصا ایڈٹ کرنا پڑگیا۔ دراصل بات یہ ہے کہ ایک طویل عرصہ ہوگیا، خطوط پڑھتے اور جواب دیتے، تواب ایک نظر دیکھ کر ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ خط واقعتاً مندرجات پر تبصرے کی نیّت سے لکھا گیا ہے یا کسی خاص ایجنڈے کے تحت۔ وہ کیا ہے کہ ؎ آدمی پہچانا جاتا ہے، قیافہ دیکھ کر …خط کا مضمون بھانپ لیتے ہیں، لفافہ دیکھ کر۔ تو براہِ مہربانی آپ لوگ مندرجات پر تبصرے ہی پہ فوکس رکھا کریں، دیگرخطوط نگاروں کو جواب دینے کے لیے ہم خُود موجود ہیں۔
ہر ایک کے بس کی بات نہیں
آج مَیں صرف دو سلسلوں ہی پر تبصرہ کروں گی۔ ایک ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ اوردوسرا ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘۔ میگزین کےحوالے سےتم میرے خیالات سے واقف ہو کہ ’’سنڈے میگزین‘‘ پاکستان کے باقی تمام جرائد سے کہیں آگے ہے اور ان شاء اللہ رہے گا۔ ’’بریسٹ فیڈنگ‘‘ سے متعلق ڈاکٹر فلزہ اور ڈاکٹر نوید بٹ کا مضمون ہر لحاظ سے بہترین، معلومات کا خزانہ تھا، جس نے یقیناً ہماری کئی نوجوان مائوں کے نظریات بدل دئیے ہوں گے کہ عموماً ناتجربہ کاری یا معلومات کی کمی کی بناء پر وہ جو فوراً بچّے کوڈبّے کا دودھ لگا دیتی ہیں، تواس طرح بچّے کی صحت متاثر ہونے کا کتنا خطرہ ہوتا ہے۔
اسی طرح غیر ضروری سرجریز سے متعلق جو مضمون شائع کیا گیا، وہ بھی کمال ہی تھا کہ اتنی ہمّت کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ ’’قصص القرآن‘‘ سلسلہ تعلیماتِ قرآنی کا وہ بابرکت سلسلہ ہے، جو قوم اور معاشرے کی تربیت میں اہم کردار ادا کررہا ہے، خاص طور پر نوجوان نسل کی۔ ایمان افروز واقعات کا دل نشیں اندازِ بیاں، ساتھ مستند حوالہ جات، یقیناً دین کی بہترین خدمت کے مترادف ہے۔ (ریحانہ ممتاز)
ج: جی بالکل۔ اور ہمارے خیال میں دین کی خدمت کا جذبہ رکھنے والوں کو دنیا سے صلے کی خواہش بھی نہیں رکھنی چاہیے، مگر فی زمانہ ایسا ہوتا نہیں ہے۔
فی امان اللہ
جی، تو پڑھ لیا پورا سنڈے میگزین، واہ کیا بات ہے، آپ کے حُسنِ ترتیب، تزئین و آرائش کی۔ واہ، واہ!! اس بار تو ماڈل کا انداز بھی اچھا لگا۔ دل کررہا ہے، مَیں بھی ایسا ہی پوز بنائوں اور اپنی تصویر بنا کر یہی لکھوں ؎ مَیں ایک شام چُرالوں، اگر بُرا نہ لگے۔ (ہی ہی ہی) نجمی انکل کو سیلوٹ ہے، اتنے بہترین انداز میں اسلامی معلومات پہنچا رہے ہیں، اللہ جزائے خیر دے۔ (آمین) ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا جی نے بہت ہی اہم موضوع پر قلم اُٹھایا۔ اُن کو بھی سیلوٹ، قوم کی اتنی شان دار رہنمائی کرنے پر۔ اور ہاں، میری دل چسپی تو انٹرنیٹ سے متعلقہ مضامین میں حد سے زیادہ ہوتی ہے، اِس لیے ’’تھریڈز اور ٹوئٹر ایکس‘‘ کے مقابلے والا رائو محمّد شاہد اقبال کا مضمون فوراً سے پیش تر پورا چَٹ کرلیا۔
صفحہ پلٹا تو بس دل ہی تھام لیا۔ ’’تعلیمی ادارے منشیات اور ویڈیو اسکینڈلز کے نرغے میں‘‘ بہت بہت افسوس ہوتا ہے، ایسے واقعات سے متعلق پڑھ کر۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ کے لیے ایک رائٹ اَپ مجھے بھی لکھنا ہے، جلد بھیجوں گی، ان شاء اللہ۔ ’’ملائیشیا میں چند روز‘‘ نہیں پڑھا، مگر ڈاکٹر انجم نوید کا بچّوں کی سماعت کے ٹیسٹ والا مضمون بغور پڑھا۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں قرآنی آیات کے ورد کا کرشمہ کے عنوان سے شائع ہونے والا واقعہ دل چُھو گیا۔ ’’آرٹی فیشل انٹیلی جینس کا فروغ‘‘ بھی شان دار موضوع تھا۔ اور اچھا لکھا، افراح عمران نے اور بس، اب آگیا آخری صفحہ، اس ہفتے کی کی چٹھی پڑھی، خطوط پڑھے، پتا بھی نہیں چلا اور میگزین دی اینڈ ہوگیا۔ (ہی ہی ہی) نرجس جی! آپ لوگوں کو اشتہارات نہیں ملیں گے تو اخبار کیسے چلے گا۔ ورکرز کو سیلری کیسے ملے گی۔
ہر کوئی یہی کہہ رہا ہے کہ یہ کتاب پڑھنے والوں کی آخری صدی ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ کرے، لوگ دوبارہ لائبریریز کی طرف آئیں۔ موبائل کی اہمیت سے انکار نہیں، مگر کتاب کی جو اہمیت ہے، وہ مسلّم ہے۔ (ناز جعفری، بفر زون، کراچی)
ج: اخبار تو بس اب ایسے ہی چل رہا ہے اور دیکھیں، یہ بھی کب تک چلتا ہے؟ ہم تو بہرکیف اپنا کام پوری دیانت داری سے کر رہے ہیں، صفحات جتنے بھی کم کردیئے جائیں، پوری کوشش کرتے ہیں کہ ہر طبقۂ فکر کے قارئین کی تفریحِ طبع کا کچھ نہ کچھ سامان ضرور مہیا کیا جائے۔
* آپ پچھلے کئی برس سے اپنی ذمّے داریاں بحسن وخُوبی نبھا رہی ہیں۔ اِس ضمن میں، مَیں آپ کا معترف ہوں۔ اگرچہ کبھی کبھار آپ کے جوابات کسی نازک دل پر گولہ باری کرتے محسوس ہوتے ہیں، لیکن یہ بھی سوفی صد حقیقت ہے کہ ایک طویل عرصے سے جریدے نے بہترین معیار قائم کررکھا ہے، جس میں بلاشبہ آپ کی مدیرانہ صلاحیتوں کا بڑا عمل دخل ہے۔ ایک گزارش ہے کہ اگر ممکن ہوتو قاسم علی شاہ، ڈاکٹر یوسف خشک، رئوف کلاسرا اور منزّہ سہام مرزا کے بھی انٹرویو کروائیں۔ نیز، اگر اردوادب کی ترویج کے لیے کوشاں اداروں کے حوالے سے بھی ایک جامع رپورٹ مرتّب کرواسکیں، تو بڑی عنایت ہوگی۔ (ذوالفقار علی بخاری، روال پنڈی)
ج: قاسم علی شاہ کا بہت تفصیلی انٹرویو ہم شایع کرچُکے ہیں۔ روف کلاسرا اور منزّہ سہام مرزا معاصر اداروں سے منسلک ہیں، تواُن کے انٹرویوز ممکن نہیں۔ البتہ ڈاکٹر یوسف خشک کا انٹرویو ضرور کروایا جاسکتا ہے۔
* ویسے تو میگزین بہت اچھا ہے۔ پوری فیملی شوق سے پڑھتی ہے، لیکن اگر کوئی نیا ناول شروع ہوجائے، تو مزہ ہی آجائے۔ (نیہا خان)
ج:دُعا کرو، صفحات کی تعداد میں اضافہ ہو جائے، پھر تمہاری یہ ننّھی سی خواہش پوری کرنے کی ضرور کوشش کریں گے۔
* کچھ عرصہ قبل ایک تحریر بھیجی تھی، جس کا اب تک کچھ اتا پتا نہیں۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ اگر میری تحریر شایع ہوچُکی ہے، تو اُس کا لنک بھیج دیاجائے۔ تحریر کا عنوان تھا ’’ملنگ کی نصیحت‘‘ یا ’’بزرگ کی نصیحت‘‘۔ (احسن بیگ)
ج: مطلب، آپ نے تحریر بھیجنے کے بعد کبھی جریدہ دیکھنے کی بھی زحمت نہیں کی۔ آپ کی تحریر تو’’سنڈے میگزین‘‘ میں شایع ہونی ہی نہیں چاہیے کہ جو جریدہ پڑھتا نہیں، وہ اِس میں تحریر کی اشاعت کا کیوں خواہش مند ہے۔ ویسے بھی انفرادی طور پر کسی تحریر سے متعلق ہرگز بتایا نہیں جاسکتا اور بہت ممکن ہے، آپ کا نام ناقابلِ اشاعت کی فہرست میں شامل ہو بھی چُکا ہو۔
قارئینِ کرام !
ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk