السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
شکریہ کا موقع!!
محرّم الحرام کی مناسبت سے ’’سنِ ہجری کی ابتدا‘‘ اور ’’امام حسینؓ، فاتحِ اعظم‘‘ کے عنوانات سے تحریریں حاضرِ خدمت ہیں۔ نوک پلک کی درستی فرماتے ہوئے جلد شائع کرکے شُکریہ کا موقع دیں۔ (بابر سلیم خان، لاہور)
ج: ’’شکریہ‘‘ کہنے کو دل بہت بے تاب ہے، تو یہ حسرت و خواہش اِس خط کی اشاعت ہی پہ پوری کرلیں، کیوں کہ آپ کی تحریریں تو ناقابلِ اشاعت ہیں۔
22 کروڑ عوام کا اخبار
آپ ہمیشہ اپنی مرضی، رائے پر مبنی اور اپنی پسند کے خطوں ہی کے جواب دیتی ہیں اور صرف وہی مضامین شائع کرتی ہیں، جو آپ کی پسند کے عین مطابق ہوں، مَیں ناظم آباد، ٹیچر سوسائٹی سےکوئی 30 سال سے متواتر جنگ پڑھ رہی ہوں، لیکن ہمیشہ سے’’جنگ‘‘ سے ایک بنیادی اختلافِ رائے ہے اور رہے گا کہ یہ22 کروڑ عوام کا اخبار ہے، نہ کہ حکومت کا اخبار؟ میرے خط اور مضامین آپ شائع کریں یا نہیں، لیکن میں حق، سچ کہتی رہوں گی۔ (شہناز سلطانہ، ٹیچر سوسائٹی، گلزارِ ہجری، کراچی)
ج: آپ نےاِس خط کی حد تک تو جو حق، سچ لکھا، وہ ہم نے شایع کر دیا ہے، اب پتا نہیں آپ اور کس حق، سچ کی بات کر رہی ہیں کہ آپ کے عمومی مضامین میں تو ہمیں تحریر ہی کا کوئی سَر پیر ہی نہیں ملتا، حق، سچ کہاں سے ڈھوندتے پِھریں۔
ناول مکمل کریں
سنڈے میگزین میں ناول عبداللہ کیوں ادھورا ختم کیا گیا، جیسے بھی ہو، اُس ناول کو پایۂ تکمیل تک پہنچائیں۔ اگر ادھورا ہی چھوڑنا تھا، تواُسے شروع ہی کیوں کیا تھا۔ اگراُن ناول نگار کے پاس وقت نہیں، تو کسی اور ناول نگار کی خدمات لے کر اسے مکمل کریں۔ اِس طرح ادھورے کام کرنا کوئی اچھی بات نہیں۔ ہم آپ کو ہمیشہ یہ ناول یاد دلاتے رہیں گے اور ہاں ذرا پتا تو لگائیں کہ حیدر عباس رضوی، فرزانہ راجا اور صدیق الفاروق کہاں ہیں۔ (نواب زادہ بے کار ملک، سعید آباد، کراچی)
ج: آپ بے کار، بے روزگار ہیں، الحمدُللہ، ہمارے پاس بےشمار مصروفیات ہیں۔ ناول کیوں ادھورا چھوڑا گیا، تب ہی قارئین کو تفصیلاً بتا دیا گیا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ اب تو وجہ ہمیں خُود بھی یاد نہیں۔ آپ یوں کریں، وہ ناول خُود مکمل کرلیں اورپھرسکون سے بیٹھ کے پڑھتے رہیں۔ اور جن کی تلاش کا ٹاسک ہمیں دے رہے ہیں، اُنھیں بھی خُود ہی ڈھونڈے نکل کھڑے ہوں، کم از کم اِس بہانے کسی کام تو لگیں گے۔
عاشورۂ محرّم کے دو ایڈیشنز؟
’’محرّم الحرام ایڈیشنز‘‘ بہت ہی خُوبی و عُمدگی سے مرتّب کیے گئے۔ غالباً پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ عاشورۂ محرّم کے دوایڈیشنز تیار کیے گئے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘حد درجہ معلوماتی اور رُوح پرور سلسلہ ہے۔ ’’قصص القرآن‘‘ کا اِس انداز سے بیان پہلے نظرسے نہیں گزرا۔ دیگر سلسلے بھی اپنی مثال آپ ہیں اور’’آپ کا صفحہ‘‘ خاص طور پر مَن پسند سلسلہ ہے۔ (شمائلہ نیاز، دائرہ دین پناہ، مظفّر گڑھ)
ج: جی ہاں ’’عاشورۂ محرم‘‘ کی مناسبت سے پہلی بار ہی دو ایڈیشنز مرتّب کیے گئے اور وجہ ہمارا پرنٹنگ شیڈول ہے۔ ہمیں ایک ایڈیشن چاند نظر آنے سے سے قبل تیار کر کے پریس بھیجنا تھا، جب کہ بعدازاں چاند نظر آنے کے بعد فیصلہ ہوا کہ بروز اتوار اخبارات شائع نہیں ہوں گے اور ’’سنڈے میگزین‘‘ سنیچر کے روز عین عاشورۂ محرّم کے دن شائع کیا جائے گا، تو ہنگامی طور پر دوسرا ایڈیشن بھی عاشورہ ہی کی مناسبت سے تیار کیا گیا۔
مزید نقصان سے دوچار؟
’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ’’مسیح الدجال، قربِ قیامت کا فتنہ‘‘ کی آخری قسط پڑھی۔ اللہ اس فتنے سے ہر مسلمان کو محفوظ رکھے۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں محمّد عبدالمتعالی نعمان کا نوجوانانِ جنّت کےسردار، حضرت امام حسینؓ کے اسوہ سے متعلق بہترین مضمون موجود تھا۔ بے شک، واقعۂ کربلا سے قیامت تک کے لیے حق و باطل کا فرق واضح ہوگیا۔ مفتی غلام مصطفی رفیق محرّم الحرام کی فضلیت اور مسنون اعمال بیان کررہے تھے۔’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر امان اللہ عباسی ہیپاٹائٹس سے متعلق بےحد معلوماتی مضمون لائے۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں رائو محمّد شاہد اقبال نے مصنوعی ذہانت کے خطرات سے آگاہ کیا۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں ڈاکٹرحافظ محمّد ثانی نے بھی شہیدِ کربلا حضرت امام حسینؓ سے متعلق بہترین نگارش رقم کی۔ ’’حالات واقعات‘‘ میں منور مرزا روسی صدر پیوٹن کے لیے پیدا ہونے والے نئے مسائل کا تذکرہ کررہے تھے۔
لگ یہی رہا ہے کہ پیوٹن روس کو پھر سُپرپاور بنانے کے جنون میں مزید نقصان سے دوچار کردے گا۔ ’’متفرق‘‘ میں سید ثقلین علی نقوی نے سید ناصر جہاں سے متعلق عُمدہ مضمون تحریر کیا۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں کفایت شعاری کی اہمیت سے آگاہ کیا گیا، واقعی قناعت بڑی دولت ہے۔ چٹ پٹی حلیم، کھچڑے، چنا پلائو اور دودھ کے شربت کی تراکیب کا بھی کیا کہنا۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں ایک ہم درد، شریف النّفس کا مجبور لڑکی کے آنسوئوں سے متاثر ہوکر اُسے اپنے گھر کی بہو بنالینا انتہائی سبق آموز اوراثرانگیز واقعہ تھا۔ جب کہ ہمارے اپنے باغ و بہارصفحے پر ہماری چٹھی اعزازی مسند پر براجمان تھی، تو دیکھ کر دل خوشی سے باغ باغ ہوگیا۔ (شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی، میرپورخاص)
ج: ہماری مستقل سرزنش کے بعد بالآخرآپ نے تبصرے کی طوالت کچھ کم کی ہے، لیکن ابھی اِسے مزید مختصر کرنے کی ضرورت ہے۔ کوشش کر کے ’’تھوڑا ہی بہت ہے‘‘ کا کُلیہ اپنالیں، خُود بھی سُکون میں رہیں گے، ہمارے لیے بھی بہت آسانی ہوجائے گی۔
صفحہ روشن روشن لگتا ہے
سرِورق پر نظر ڈالی، شہیدِ کربلا، نواسۂ رسول کے روضۂ اقدس پر نظر جم سی گئی، جنہوں نے ہمیں سبق دیا کہ حق اور سچ کی خاطر سر کٹ تو سکتا ہے، جُھک نہیں سکتا۔ سبحان اللہ۔ آگے بڑھ کے ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کی روشنی لیے ’’قصص القرآن‘‘ میں مسیح الدجال کی تیسری اورآخری قسط پڑھی۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں پروفیسر ڈاکٹر امان اللہ عباسی نے ہیپاٹائٹس سی اور ڈی پر تفصیلاً روشنی ڈالی۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں رائو محمّد شاہد اقبال مصنوعی ذہانت اور اُس کے حقیقی خطرات کی نشان دہی کررہے تھے۔ ڈاکٹر حافظ محمّد ثانی کے اندازِ تحریر کا تو کوئی مول ہی نہیں۔ ’’حالات و واقعات‘‘ پر منور مرزا کی گرفت انتہائی مضبوط دکھائی دیتی ہے۔ اقتدار کے ایوانوں میں اُن کی تحریر باآوازِ بلند سُنانی چاہیے۔ سیّد ثقلین نقوی بھی یوم عاشور کے موقعے پرسید ناصر جہاں پر بہترین مضمون لائے۔
بلاشبہ اُن کا نوحہ ’’گھبرائے گی زینب‘‘ اور ’’سلامِ آخر‘‘بہت مشہور ہوئے۔ صاحب زادے،اسد جہاں کا نوحہ بھی رُلا دیتا ہے۔ ’’پیارا گھر‘‘میں محمّد ظفراسمٰعیل غیر ضروری سامان کی ممانعت کر رہے تھے، تو ’’ڈائجسٹ‘‘ میں ثاقب صغیر نے ’’ولی‘‘ کے عنوان سے کیا شان دار افسانہ تحریر کیا۔ ساغر مہدی کا ’’سلام‘‘ لاجواب تھا۔ قمرعباس نےبھی عُمدہ کلام پیش کیا۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں محمّد جاوید اقبال سے بیٹی کے آنسو دیکھےنہ گئے۔ بےشک، بہت ہی اثر انگیز واقعہ تھا۔ اس بار بھی ہمارے دو خط ایک ساتھ شائع ہوئے، چلیں، جب جمع شدہ سب خطوط شائع ہوجائیں گے، تو پھر ایک ایک کرکے خط شائع ہوتے رہیں گے۔ خادم ملک کا خط نہ بھی ہو، تذکرہ ہی بزم کو چار چاند لگا دیتا ہے اور صفحہ روشن روشن سا لگتا ہے۔ (سیّد زاہد علی، شاہ فیصل کالونی، کراچی)
ج: یہ خادم ملک سے آپ لوگوں کا بلاوجہ کا Obsession کم از کم ہماری سمجھ سے تو بالاتر ہے۔ ہم نے تو خال ہی اُنہیں کوئی عقل مت کی بات کرتے دیکھا ہے۔ (اور اگر اس تذکرے سے بھی بزم کوچارچاند لگ رہے ہیں، تو پھر ٹھیک ہے)۔
ایک ساتھ بہت سی تحریریں؟
مَیں ایک بار پھر بہت سی تحریروں کے ساتھ حاضر ہوں۔ ’’سنڈے میگزین‘‘ ازعاشورۂ محرّم سامنے ہے، جس میں حسبِ معمول ’’قصص القرآن‘‘ سلسلہ موجود ہے، لیکن اِس سے پہلے مولانا سیدنا حسین ظفر نقوی کے مضامین نظر نواز ہوئے۔ خلافِ توقع عافیہ صدیقی سے متعلق تفصیلی تحریر دیکھ کر بے انتہا خوشی ہوئی کہ چلو، کسی نے تو زنجیرِ عدل کو بروقت جنبشِ خاص دی۔ بےشک، یہ تحریر سنڈے میگزین کی جان تھی۔ ’’مدرستہ البنات، خواتین‘‘ سے متعلق پڑھ کر بھی دل بہت خُوش ہوا کہ ایسے کمال کے دینی دارے ہمارے ہاں بھی موجود ہیں۔
منور مرزا نےبھی بروقت ایک اہم ترین موضوع پرقلم اٹھایا۔ حیدرآباددکن پروحید احمد کی تحریر پسند آئی، مگر اِس موضوع پر ابھی بہت کچھ مزیدلکھا جاسکتاتھا،کیوں کہ حیدرآباد دکن کبھی ہماری مسلم تاریخ کا ایک سنہرا باب تھا۔ نواب حیدرآباد دکن نے نہ صرف اسلام بلکہ پاکستان کے لیے بھی زبردست خدمات انجام دیں۔ باقی رہا ’’آپ کا صفحہ‘‘ تو وہ آپ کی سلطنت ہے، جسے چاہیں وفاقی وزیر بنائیں اور جسے چاہیں صوبائی وزیر یا سینیٹر، کون ہے، جو آپ کو چیلنج کرے۔ مَیں نےایک ساتھ بہت سی تحریریں ارسال کردی ہیں۔ متعلقہ ذمّے داروں کو پہنچا دیں گی، تو اللہ کا شُکر ادا کروں گا۔ (ملک محمد اسحاق راہی، صادق آباد، رحیم یار خان)
ج: یہ ایک ساتھ بیسیوں تحریروں کے ساتھ حملہ آور ہونے کے بجائے یکے بعد دیگرے بھیج دیا کریں اور آپ کی ہدایت کے بغیر بھی متعلقہ صفحہ انچارجز تک تحریریں پہنچا دی جاتی ہیں کہ یہ ہماری ذمّے داری ہے۔ آپ نے اپنی تحریروں کی عدم اشاعت پر جس برہمی کا اظہار فرمایا اور ہمیں خوفِ خدا دلایا(جسے ایڈٹ کیا گیا) تو اُن کے ضمن میں عرض ہے کہ ضروری نہیں کہ آپ 50 ناقابلِ فراموش واقعات لکھ بھیجیں اورسب کےسب قابلِ اشاعت ہوں، جو تحریرلائقِ اشاعت ہوتی ہے،شائع کردی جاتی ہے، اگر آپ سے کوئی ذاتی مخاصمت ہو، تو پھر تو ایک بھی تحریر شائع نہ کی جائے۔
ترقی میں اپنا اپنا حصّہ
ہمیشہ کی طرح اِس بار بھی دو ہی شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ دونوں میں متبرّک صفحاتِ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ شامل تھے۔ مضمون ’’بھارت کی امریکا، مغرب سے بڑھتی قربتیں‘‘ پڑھا۔ پاکستان کو چاہیے کہ اسلامی ممالک کے ساتھ اپنی قربتیں بڑھائے، تب ہی ہم بھارت کو منہ توڑ جواب دے سکتے ہیں۔ ’’ایک سو بچّوں کی ماں‘‘ کے شب و روز کا احوال بھی پڑھا۔ اے کاش! کہ یہ جذبہ پاکستان کے ہر مخیّر شخص کے دل میں اجاگر ہوجائے۔ ’’یادداشتیں‘‘ میں اس بارسیّد حیات النبی رضوی امروہوی موجود تھے۔ اُن سے متعلق جان کراچھا لگا۔ میرے خط کو اپنے جریدےکی زینت بنانے کابےحد شکریہ۔
دوسراشمارہ تو’’آزادی نمبر‘‘ تھا۔ آپ کے ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ کےساتھ آزادی کے حوالے سے مضامین ’’جشنِ آزادی اور نسلِ نو‘‘، ’’عیدِ آزادی‘‘، ’’مادر پدرآزاد جشنِ آزادی‘‘، ’’پاکستان ہماری شناخت‘‘ اور’’دِیا‘‘ کے عنوان سے افسانہ، ہر ایک تحریر وطن سے محبّت کا درست دیتی معلوم ہوئی۔ بلاشبہ وطن ہے، تو ہم ہیں۔ اِس کے حصول کے لیے ہمارے بزرگوں نے بے شمار قربانیاں دی ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم میں سے ہر ایک اس کی ترقی میں اپنا اپنا حصّہ ڈالے۔
فنِ خطابت کے بے تاج بادشاہ، نواب بہادر یار جنگ سے متعلق بھی بہت شان دارمضمون شامل تھا۔ کافی عرصے بعد خادم ملک کا خط بھی پڑھنے کو ملا۔ لگتا ہے انہوں نے قسم اٹھائی ہوئی ہے کہ ہمیشہ سنڈے میگزین پر اعتراض ہی کرنا ہے۔ ویسے اللہ نے آپ کو اُن کے خطوط پڑھنے اور شائع کرنے کا بھی خُوب حوصلہ دیا ہوا ہے۔ آپ سے گزارش ہے کہ ندیم، شاہد، جاوید شیخ اور شان کے انٹرویوز بھی اپنے میگزین میں شائع فرمائیں۔ (پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار، بہاول نگر)
ج: آپ لوگوں کو بھی اللہ نے کچھ کم حوصلہ نہیں دیا ہوا کہ نہ صرف اُن کے خطوط کا تذکرہ کرتے ہیں بلکہ اُن کی باقاعدہ کمی بھی محسوس کرتے ہیں۔
فی امان اللہ
اس ہفتے کی چٹھی
سُکھ کے ہوں یا دُکھ کے، دِن بہرحال گزر ہی جاتے ہیں، مطلب خُشک سالی اور ہریالی کے موسم آتے جاتے رہتے ہیں اور تیزی سے گزریں یا آہستہ رَوی سے، سال بالآخر بیت ہی جاتے ہیں۔ ہمیں پتا بھی نہیں چلتا اور ہم زندگی کے اِک دَور سے دوسرے میں داخل ہوجاتے ہیں۔ ہاں، پیچھے مُڑ کے دیکھیں، تو دل و دماغ ضرور سُود وزیاں کے حساب میں الجھتے ہیں۔ پچھلے سال کی طرح اِس بار بھی ماہِ اگست ہمیں آپ سے ہونے والی نصف ملاقات یاد کروا گیا، تو اس دفعہ پکّا ارادہ کیا کہ دوبارہ آپ کی محفل میں ضرورشریک ہوں گے کہ دو سال پہلے کا لکھاخط اب تک رائٹنگ ٹیبل میں محفوظ پڑاتھا۔ فیصلہ کیا کہ دو سال بعد ہی سہی، وہ خط آپ کے ہاتھوں میں پہنچاتے اور اِک نئےخط کے ذریعے پھرسےاپنے ہونےکا احساس دلاتے ہیں، تو چلیں بات ہوجائے، تازہ شمارے کی۔ ’’سنڈے میگزین‘‘ پہلے سے کافی سِلم ہوگیا ہے۔
خدارا! اب اس کو ڈائٹ سے ہٹا لیں، نہیں تو اس نے بالکل ہی لاغرہوجانا ہے۔ جریدے کی جان اور میرا پسندیدہ سلسلہ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ غائب تھا۔ پلیز، اِسے بند مت کردیجیے گا۔ اپنے صفحے پر نظر دوڑائی تو بہت سے نئے نام نظر آئے۔ پرانے لوگوں میں صرف پرنس افضل شاہین ہی کا نام جانا پہچانا لگا۔ ہاں مگر آپ کا اندازِ گفتگو یعنی برجستہ جوابات پڑھ کر پہلے ہی کی طرح خُوب لُطف اندوزہوئے۔معذرت کےساتھ ’’اسٹائل‘‘ کی ماڈل اور ملبوسات دونوں ہی توجّہ کھینچنے میں ناکام رہے۔
نئی کتابوں کا صفحہ بھی غائب تھا، جس کےذریعےہم جیسےکم علموں کےعلم میں نئی کتابوں کے نام آجانے سے کم ازکم خریداری کا ایک مائنڈ توبن جاتا ہے۔ شفق رفیع ہمیشہ کی طرح ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں ایک بے حد سنجیدہ موضوع پہ حقِ قلم ادا کرتی نظر آئیں۔ اللہ کرے، ایسے مسیحائوں کو کبھی مادیّت سے ہٹ کر اپنی عاقبت سنوارنے کا خیال بھی آئے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ’’قصّہ حکیم لقمان‘‘ پڑھا۔ مضمون کا آغاز ہی اُن سے منسوب مشہور قول سے کیا گیا۔ پھر صوفیہ وڑائچ اور اُن کے شوہر کا خدمتِ خلق کا جذبہ بہت متاثرکُن تھا۔ اردو ادب کی ممتاز شخصیت سید حیات النبی سے متعلق بھی آپ کے رسالے ہی کے توسّط سے جانا۔ اُن کے منتخب کردہ اشعار بھی عُمدہ تھے۔ اجازت، ان شاء اللہ دوبارہ جلد ملاقات ہوگی کہ اب قلم سے باقاعدہ رشتہ جوڑ لیا ہے۔ (عروج عباس، کراچی)
ج: آپ کو کافی پہلے ہی یہ فیصلہ کرلینا چاہیے تھا، دو سال کا طویل وقفہ دینے کی بھی کیا ضرورت تھی اور آپ کا دو سال قبل کا تحریر کردہ تبصرہ بھی ہم نے پڑھ لیا۔ تب پوسٹ کیا ہوتا، تو یقیناً ’’اس ہفتے کی چٹھی‘‘ کی مسند سنبھالتا۔ مطلب ہر دفعہ دیر آید، درست آید نہیں ہوتا، کبھی کبھی یہ غلط آید بھی ہوجاتا ہے۔
گوشہ برقی خطوط
* مَیں امریکا کا رہائشی ہوں اور سنڈے میگزین ایک طویل عرصے سے باقاعدگی سے پڑھ رہا ہوں۔ مَیں آپ سے ایک درخواست کرناچاہتا ہوں کہ آپ کو بعض اوقات ’’ناقابلِ فراموش‘‘ صفحے کے لیے کچھ ایسی تحریریں بھی موصول ہوتی ہیں، جو کہ ناقابلِ اشاعت ٹھہرتی ہیں، تو کیا ممکن ہےکہ آپ وہ تحریریں مجھے عنایت فرما دیں۔ اور اگر وہ تحریریں، جو آپ شایع کرچُکی ہیں، وہ بھی مجھے مل جائیں، تو مَیں اِن سب کو ری رائٹ کر کے ایک کتاب کی شکل میں چھاپناچاہوں گا۔ اِس ضمن میں اگر کچھ معاوضہ درکار ہے، تو مَیں وہ بھی دینے کو تیار ہوں۔ (محمّد یوسف، یو ایس اے)
ج: بات یہ ہے کہ تمام شایع شدہ اور ناقابلِ اشاعت تحریریں بھی درحقیقت ادارے کا اثاثہ ہوتی ہیں۔ یوں بھی اخبارات کے دفاتر میں ناقابلِ اشاعت (اورشایع ہو جانے والی تحریریں بھی) سنبھال رکھنے کا کوئی انتظام نہیں ہوتا۔ زیادہ سے زیادہ چھے ماہ بعد تمام مطبوعہ اورغیر مطبوعہ نگارشات (اگرناقابلِ اشاعت ہوں) ضایع کر دی جاتی ہیں۔ رہی بات معاوضے کی، تو مالی معاملات کے لیے ادارے کا مارکیٹنگ ڈیپارٹمنٹ موجود ہے، اِس قسم کی کسی بھی ڈیلنگ کے لیے اُن سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
* جنگ اخبار پوری دنیا میں پڑھا جاتا ہے، لیکن کچھ عرصے سے اِس کے کاغذ اور طباعت کا معیار بہت گر گیا ہے۔ کیا آپ لوگوں کو خُود اس بات کا احساس نہیں ہے۔ (عابد مصطفیٰ)
ج: جی بالکل احساس ہے، ہم سے زیادہ یہ احساس کسی کو ہو ہی نہیں سکتا۔ لیکن آپ خُود بتائیے، اِس ملک میں کون سی چیز ایسی ہے، جس کا پچھلے چند برسوں میں معیار نہیں گرا۔ اِن دنوں جو عمومی مُلکی حالات اور صورتِ حال ہے، لگ بھگ ہر ادارے کا بھی وہی حال ہے۔ جب کہ جو چند ایک شعبے بہت تیزی سے تنزّلی و بدحالی کی جانب گام زن ہیں، اُن میں پرنٹ میڈیا سرِفہرست ہے، تو ایسے میں آپ مزید ابتری کی توقع تو کرسکتے ہیں، بہتری کی نہیں۔
قارئینِ کرام !
ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk