• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے اخبار میں ایک خبر نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔ پچھلے ہفتے ہمارے رپورٹر خالد مصطفیٰ نے اسلام آباد سے خبر دی کہ ہمارے دوست چین نے پاکستان کو پیش کش کی ہے کہ ان کا ملک پاکستان میں 20 سے 25 ارب ڈالر لگانے کو تیار ہے اور سارے بڑے بڑے منصوبے اپنے پیسے سے بنانے کو راضی ہے اگر حکومت پاکستان چینی کمپنیوں کو براہ راست سارے منصوبے حوالے کردے اور دوسری کمپنیوں کے ساتھ نیلام گھر کی بولی لگانے اور کم سے کم قیمت پر مقابلے کے بعد یہ منصوبے حاصل کرنے کی شرط ختم کردے۔ ان بڑے منصوبوں میں بھاشا ڈیم، ڈاسو ڈیم، گڈانی کے چھ ہزار میگاواٹ کے کوئلے سے بجلی بنانے کے پلانٹ، تھر کوئلہ کا پلانٹ، مین ایٹمی بجلی گھر، بجلی کی لائنیں، گوادر سے شمالی سرحد تک کی موٹر وے اور اسی طرح کے کئی دوسرے چھوٹے اور بڑے پروجیکٹ یعنی جو کچھ اب پاکستان میں آئندہ 15سے 20 سال میں ترقی ہونی ہے وہ سارے منصوبے چین کو دے دیئے جائیں۔ یہ سارے ڈالر پاکستان کو قرضے کی شکل میں ملیں گے مگر چینی خود ان ساری اسکیموں پر کام کریں گے اور شاید ان کو خود ہی چلائیں جب تک کہ ان کا قرضہ اُتر نہیں جاتا یعنی Build,operate,pay (Bop) کے اصول پر پاکستان کی معاشی اور اقتصادی شہ رگ پر اُس وقت تک اپنا ہاتھ رکھیں جب تک ہم قرضے نہ اُتار دیں۔ اس کا ایک مطلب یہ ہوا کہ پاکستان کا مستقبل کئی دہائیوں تک چین کے ہاتھ میں دے دیا جائے۔ ظاہر ہے اتنے بڑے بڑے منصوبوں پر کام کے لئے ہزاروں چینی پاکستان آئیں گے اور ہر اسٹرٹیجک اور دفاعی جگہ اور پروجیکٹ پر ان کا کنٹرول ہوگا۔ اس طرح وہ بغیر اعلان کئے پاکستان کی داخلی، علاقائی اور عالمی پالیسیوں پر گہرے اثر و رسوخ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
خالد مصطفیٰ کی خبر میں یہ بھی لکھا تھا کہ نواز شریف حکومت بڑی خوش ہے کہ آج کل کے حالات میں چین نے اتنی فراخدلی اور دوستی کا ثبوت دیا ہے اور اپنے پیسوں سے ہمارے سارے بڑے منصوبے بنانے کا وعدہ کرلیا ہے۔ اب ہمیں امریکہ، IMF، ورلڈ بینک اور کسی اور کی ضرورت ہی نہیں رہے گی اور پاکستان واقعی مغرب کے دبائو اور بلیک میلنگ سے نکل جائے گا۔ اسی خوشی میں حکومت نے ایک 18 لوگوں کا وفد چین بھی بھیج دیا اور خواجہ آصف صاحب جو وزیر دفاع اور وزیر بجلی اور پانی بھی ہیں اور حکومت کے اہم ترین لوگوں میں شامل ہیں وہ بھی خود بیجنگ گئے اور بڑے خوش اور مطمئن ہو کر واپس آئے اور حکومت نے آنے کے ساتھ ہی قوانین اور دوسرے آئینی اور قانونی تقاضوں کا جائزہ لینا شروع کردیا تاکہ اس چین کی پیش کش کو کس طرح جلد سے جلد عملی شکل دی جائے۔
ابھی میں اس گھبراہٹ سے نکلنے کی تدابیر پر سوچ ہی رہا تھا کہ ایک دوست نے ایک انٹرنیٹ کا لنک بھیجا جو ویب سائٹ The Global Mail کا تھا۔ جوں ہی وہ اخبار کھولا میرے تو طوطے اُڑ گئے۔ آج تک کسی اخبار نے اس طرح کی جامع اور تفصیلی خبر چین کے بارے میں نہیں چھاپی تھی۔ شاید وکی لیکس کے بعد یہ سب سے بڑا میڈیا کا معرکہ ہے اس کا نام چائنا لیکس ChinaLeaks رکھا گیا ہے اور یہ جس ہزاروں صفحات اور مہینوں کی محنت کے بعد اس مقام پر آئی ہے کہ دُنیا بھر میں دھوم مچ گئی ہے۔ دھوم۔3 اور دھوم۔ 4 اس کے مقابلے میں کیا چیز ہیں۔ اس پوری رپورٹ میں جو قسطوں میں منظر عام پر آرہی ہے انکشاف کیا گیا ہے کہ چین کی قیادت کے ہر شعبے کے لوگوں نے اندازاً ایک کھرب سے لے کر چار کھرب ڈالر ملک سے باہر offshore بینک اکائونٹس میں چھپائے ہوئے ہیں جو رشوتوں، چوری اور دوسرے ملکوں میں پروجیکٹس میں کِک بیکس اور لوٹ مار کا مال ہے۔ ان چائنا لیکس میں 24 جنوری کو 37,000 چین کے لوگوں کے نام جن کے ملک سے باہر غیر قانونی اکائونٹ ہیں عام کئے گئے ان 37 ہزار چوروں نے 10 ملکوں میں جو Tax Havens کے نام سے مشہور ہیں اپنے ڈالر چھپائے ہوئے ہیں۔ پاکستانی بھی اس طرح کے offshore بینکوں سے خوب واقف ہیں اور جناب زرداری اور ان کے حواری اپنی دولت وہیں رکھتے تھے اور ہیں۔ 25 لاکھ چینی فائلیں ان تفتیش کرنے والے اخبار نویسوں کو مل چکی ہیں اور ایک ادارہ جس کا نام International Consortium of Investigative Journalist ہےوہ یہ سارے مواد اکٹھا کرکے قسطوں میں جاری کررہا ہے۔ یہ ادارہ جنونی اخبار نویسوں پر مشتمل ہے اور چھ مہینے سے خفیہ طور پر مواد جمع کررہا تھا۔ کوئی 110 اخبار نویسوں نے یہ مواد دیکھا اور اس کا تجزیہ کیا اور 50 دُنیا کے ادارے اس میں شامل ہوگئے۔ ان میں گارڈین لندن، لےمانڈ پیرس، اَل پائیس اسپین، کینیڈا کا نشریاتی کارپوریشن اور جرمنی کا سودیش زیتونگ شامل ہیں۔ ان دو چار دنوں میں 60 لاکھ لوگ اس ویب سائٹ کو دیکھ چکے ہیں اور مزید ابھی انکشافات ہونے ہیں۔
اس سارے قصے میں پاکستان کہاں کھڑا ہے۔ چین ہمارا دوست ملک ہے اور چینی امداد اور چینی کمپنیاں ہمیشہ پاکستان میں کام کرتی رہی ہیں مگر اب وہ 30 سال پہلے اور ذوالفقار علی بھٹو والا چین نہیں رہا۔ اب چین ایک دُنیا کا بڑا بزنس پارٹنر ہے اور چینی کمپنیاں سارے وہی کام کرتی ہیں جو دُنیا کی ہر کمپنی اپنی ترقی اور فائدے کے لئے کرتی ہے۔ اسلام آباد میں چینی بزنس مین بریف کیس اور سوٹ کیس لے کر جن میں ڈالر بھرے ہوئے ہوتے ہیں ہر اہم افسر اور عہدیدار کے گھر کے باہر موجود ہوتے ہیں۔ ریلوے کے انجن چین نے دیئے لیکن انجام کیا ہوا۔ ہماری سیاسی اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ والے ابھی تک چین کو ایک مقدس گائے سمجھتے ہیں اور عام بزنس کمپنیوں سے الگ رکھتے ہیں۔ جہاں کسی چینی کمپنی سے کوئی کاروباری تنازع ہوتا ہے وہاں پاک چین دوستی آڑے آجاتی ہے۔ مگر اب جب کہ چین کا پول کھل گیا ہے اور اربوں کھربوں کے لوٹے ہوئے ڈالر زرداری کے اکائونٹوں کی طرح نکل آئے ہیں پاکستان کو چین سے معاملات میں احتیاط کرنی ہوگی۔ چین نے پہلے ہی پاکستان سے اپنے ویٹو کی بھاری قیمت وصول کرلی ہے اور سیندک ایک مثال ہے، گوادر دوسری اب وہ اقوام متحدہ میں کبھی ویٹو پاکستان کے لئے استعمال بھی نہیں ہوگا۔ اِس تناظر میں چین کی پیش کش کہ سارے بڑے منصوبے اور ڈیم موٹر وے کا پورا ٹھیکہ بغیر کسی مداخلت کے اور پوری حکومتی گارنٹی کے ساتھ آنکھیں بند کرکے دے دیا جائے، انتہائی مشکوک لگتا ہے۔ ابھی تو صرف بات بھاشا ڈیم اور ڈاسو ڈیم اور موٹر وے اور گڈانی تک ہی محدود ہے لیکن جیسے ہی یہ فیصلہ ہوتا ہے کہ چین کو اِس طرح اور اتنی اہمیت کے ساتھ پاکستان کے تمام بڑے دفاعی اور اسٹرٹیجک منصوبوں میں شامل کرلیا جائے گا مجھے خدشہ ہے بلکہ یقین ہے کہ اگلا مطالبہ یہ ہوگا کہ ریکوڈک کی سونے اور تانبے کی کانیں بھی چین کے حوالے کردی جائیں۔ یہ ایک بے انتہا گھاٹے کا سودا ہوگا اور ملک کو بیچنے کے برابر ہوگا۔ میرے خیال میں یہ 25 ارب ڈالر کی ہڈی ڈال کر نواز حکومت کو پھنسایا جارہا ہے اصلی نظر 500 ارب سے لیکر 3000 ارب کے ریکوڈک کے ذخائر پر ہے۔ وہ اگر چین کو دے دیئے گئے تو ساری کسر نکل جائے گی۔ چین کی پالیسی اب بدلنی ہوگی، دوستی اپنی جگہ، تجارت اپنی جگہ، مال لو تو پوری قیمت دو۔
تازہ ترین