• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

21 اکتوبر کو نواز شریف نے وطن واپسی پر اپنی تقریر کا آغاز اس شعر سے کیا کہ ’’کہاں سے چھیڑوں فسانہ، کہاں تمام کروں...و ہ میری طرف دیکھیں تو میں سلام کروں‘‘ اس کے بعد انھوں نے نہ صرف یہ کہ اپنے ملک و قوم کے مسائل و مصائب اور عوامی محرومیوں کا دکھڑا سنایا بلکہ اپنی ہڈ بیتی بیان کرتے ہوئے فیملی سمیت اپنے دکھوں کی داستان بھی سنائی بالخصوص اپنی شریک حیات اور اپنی والد ہ کی جدائی و محرومی کی تلخ یادیں دہرائیں اور کہا کہ جیل میں کس طرح انہیں اذیتیں پہنچائی گئیں۔ اعتراض کیا جارہا ہے کہ اپنے اس عوامی جلسے میں نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف زبان نہیں کھولی کیونکہ وہ ڈیل کرکے آئے ہیں جبکہ سمجھنے والوں کیلئے انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کا کچا چٹھا کھو ل کر رکھ دیا کہ وہ کون لوگ ہیں جو نواز شریف کو ہر چند برسوں بعد قوم سے جدا کردیتے ہیں تو مدعا واضح تھا بلکہ اس سے بڑھ کر یہ کہ آپ کو معلوم ہے میرے خلاف دھرنے کون لوگ کروا رہے تھے؟ اس موقع پر انہوں نے غالب کا شعر پڑھتے ہوئے بھری بزم میں اس شعر کی تشریح بھی کردی ’’غالب ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جوشِ اشک سے...بیٹھے ہیں ہم تہیہ طوفاں کیے ہوئے‘‘یہ ساری کتھا سناتے ہوئے نواز شریف کا مدعا واضح تھا البتہ حالات کے جبر میں وہ نپی تلی گفتگو کرتے رہے اور یہی ایک سیاستدان کا تدبر ہوتا ہے کہ وہ صورتحال کی نزاکت کو دیکھ کر قدم بڑھاتا ہے اور اپنی نظر اپنے اصل ٹارگٹ پر رکھتا ہے۔ نواز شریف نے کہا کہ میرے دل میں کسی سے انتقام لینے کی رتی بھر تمنا نہیں،میری تمنا میری قوم کی خوشحالی ہے، عوامی دکھوں اور محرومیوں کا مداوا ہے ہم مل کر اس ملک کی دوبارہ تعمیر کریں، بجلی کے نرخ اور ڈالر کی قدر کم کریں ، بے روزگاری کا خاتمہ کریں، موٹرویز بنائیں، برآمدات بڑھائیں ، پاکستان کو آئی ٹی پاور بنائیں اسے ;G;20 میں لے جانے کے قابل بنائیں۔ یہی ن لیگ کا ایجنڈا اور یہی نواز شریف کا بیانیہ ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے نیا 9نکاتی ایجنڈا بھی پیش کیا ۔نواز شریف نے اپنی تقریر میں سب سے خوبصورت بات یہ کہی کہ یہ بات پلے باندھ لیں کہ ہمسائیوں کے ساتھ لڑائی کرکے ہم ترقی نہیں کرسکتے اس سلسلے میں انہوں نے بنگلہ دیش کی ترقی کا حوالہ دیا اور کہا کہ اگر مشرقی پاکستان علیحدہ نہ ہوتا تو ان دونوں حصوں میں کاریڈور یا راہداری بن چکی ہوتی اور بھارت بھی اس پر معترض نہ ہوتا۔ درویش کی نظر میں نواز شریف یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ بھارت کو اعتماد میں لے کر ہم زمینی طور پر ایسا کاریڈور بنا سکتے ہیں جو بنگلہ دیش سے شروع ہوکر بھارت اور پاکستان سے گزرتے ہوئے اسے سنٹرل ایشیاو یورپ تک لے جائے اور یہ سب اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک ہم انڈیا کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر نہیں بناتے۔ امید ہے کہ اب جب و ہ برسرِ اقتدار آئیں گے تو بھارت کو اعتماد میں لینے سے پہلے خود اپنی اسٹیبلشمنٹ کو استدلال کے ساتھ یہ حقیقت منوائیں گے کہ عداوت مسائل کا حل نہیں باعث ہے، فی زمانہ ممالک نہیں خطے ترقی کرتے ہیں لہٰذا انڈیا دشمنی سےپاکستان آگے بڑھنے کی بجائے مزید پستی میں گرتا چلا جائے گا ۔نواز شریف نے اپنے سیاسی حریف کے بارے میں کہہ رہے تھے کہ انہوں نے میرے خلاف جو کچھ بھی کیا یا کہا میں اس کا جواب بھی نہیں دینا چاہتا میں وہ فرق برقرار رکھنا چاہتا ہوں جو میری اور ان کی تربیت میں ہے۔ نواز شریف ایک طرف تو یہ کہہ رہے تھے کہ تسبیح میرے پاس بھی ہے لیکن میں اسے اس وقت پڑھتا ہوں جب مجھے کوئی دیکھ نہ رہا ہو، بغل میں چھری منہ میں رام رام یہ مجھے نہیں آتا۔ ایک حوالے سے وہ تیس مار خان کے مذہبی ٹچ کو ریاکاری کے معنوں میں بیان کرتے ہوئے اس پر تنقید کر رہے تھے جبکہ خود بھی، حرکت وہی کررہے تھے ۔ پی پی اور پی ٹی آئی یا دیگر جہاں بھی کھڑے ہیں خود ن لیگ کیلئے بھی حالات اتنے سازگار نہیں ہیں جتنے اور جیسے آپ لوگ خیال کررہے ہیں سمجھ بوجھ کے ساتھ قدم آگے بڑھانے ہوں گے، عوامی دکھوں کا احساس و ادراک کرنا ہوگا، لوگ غربت اور مہنگائی کے ہاتھوں رو رہے ہیں آپ نے اگر یہ نعرہ دیا ہے کہ ’’اس ملک کو بچالونواز شریف‘‘ تو اس کیلئے سخت محنت، لگن اور تدبر کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔

تازہ ترین