عالیہ زاہد بھٹّی
’’گھر‘‘ بہ ظاہر مختصر سا تین حرفی لفظ ہے، لیکن یہ اپنے اندر ایک پوری کائنات سموئے ہوئے ہے۔ ہمارا آرام و سکون، عافیت و آسودگی، دُکھ سُکھ، خوشیاں، راحتیں سب اسی سے مشروط ہیں۔ ہر تھکے ماندے وجود کو ایک ’’پیارا گھر‘‘ آغوشِ مادر کی مانند تسکین فراہم کرتا ہے۔ اپنے گھر کی تو روٹی کی بھینی بھینی خُوش بو بھی نرالی ہوتی ہے۔( جو اب ’’فوڈ پانڈا کلچر‘‘ کی نذر ہو رہی ہے) تب ہی تو ایک خانہ بدوش کے لیے اُس کی کُٹیا بھی ’’پیارا گھر‘‘ ہوتی ہے، جو اُسے ساری دُنیا سے کاٹ کر صرف اپنی طرف ہی ملتفت رکھتی ہے۔
ہم شکم سَیر ہو جاتے ہیں، تو کھانے پینے کی احتیاج ختم ہو جاتی ہے، لیکن اس کے برعکس گھر کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے کہ خُمارِ گندم کے سُرخ ڈورے جو آنکھوں میں نیند بن کر اُتر رہے ہوتے ہیں اور جی چاہتا ہے کہ بس کمر ٹکانے، پائوں پسارنے کی جگہ مل جائے اور لمبی تان کر سو رہیں۔
گھر، گھروندا یا آشیانہ محض پتّھر، مٹّی، سیمنٹ، بجری سے تعمیر شدہ چاردیواری کا نام نہیں بلکہ یہ تو ازل سے انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ وہ گھر ہی ہوتا ہے، جو اپنے مکینوں میں احساسِ یگانگت پیدا کرتا ہے اور جس کے نتیجے میں وہ ’’مَیں‘‘ کی بہ جائے ’’ہم‘‘ میں تبدیل ہوتے ہیں۔ مثلاً، ’’ہم میاں بیوی‘‘، ’’ہمارے بچّے‘‘، ’’ہمارے والدین‘‘ اور ’’ہم بہن بھائی‘‘ وغیرہ اور پھر یوں بھی گھر کا سکون اُس کی آسایشوں کی بہ جائے مکینوں کی اِک دُوجے سے وابستگی میں مضمر ہے۔
یہی وجہ ہے کہ عموماً اہلِ خانہ شدید اختلافات کے باوجود محض اپنے گھر کی خاطر بہت کچھ نظر انداز کر دیتے ہیں اور جب کبھی خدانخواستہ تکالیف کی موجیں یا مصائب کی آندھیاں بڑھتی ہیں، تو سب اپنا آرام و سکون تج کر اس ایک ’’دیے‘‘ کو روشن رکھنے میں جُت جاتے ہیں۔
عموماًجب گھر کے درودیوار اُکھڑتے ہیں، تو ان کی مرمّت کی جاتی ہے ۔ چھت رِسنے لگے، تو بھرائی کر کے اس کا تدارک کیا جاتا ہے۔ درزوں، دراڑوں کے آگے بند باندھے جاتے ہیں۔ یعنی اپنا گھر بچانے کے لیے ہم کسی بھی حد سے گزر جاتے ہیں، مگر اب ایسا لگتا ہے کہ مادّہ پرستی کے زیرِ اثر جدید طرزِ زندگی نے ہمارے گھروں کی بنیادیں تک ہِلا کر رکھ دی ہیں اور گھر کے معنی و مفہوم تبدیل کرتے ہوئے ہم سے ہمارا سکون ہی چھین لیا ہے۔
اگر ہم واقعی اپنے گھروندے کو اُن تمام صفات سے آراستہ کرنا چاہتے ہیں، جو کسی بھی گھر کا خاصّہ ہوتی ہیں، تو پھر دورِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق گھر کے ہر فرد کو اپنی بے جا خواہشات کی قربانی دینا ہوگی۔