ترکیہ میں سویلین سماعتیں فوجی عدالتوں میں ہو چکی ہیں۔ ان میں سے اکثر کو ’حق بجانب‘ اور قانونی تقاضوں کے مطابق قرار دیا گیا ہے۔ سویلین کے مقدمات کی فوجی عدالتوں میں سماعتیں بنگلہ دیش میں بھی ہوئیں جہاں ان مقدمات کی اکثریت کو ’درست طریقہ کار‘ کے تحت مانا گیا۔ نائجیریا میں فوجی عدالتوں نے سویلین کے مقدمات کی سماعت کی۔ یہاں کچھ مقدمات پر تنقید بھی ہوئی لیکن اکثریت کو ’درست ‘ تسلیم کیا گیا۔ کولمبیا میں سویلینز کے مقدمات کی سماعت فوجی عدالتوں میں ہوئی ان میں سے بہت سے مقدمات بین الاقوامی پڑتال کے عمل سے گزرے اور ’درست ‘ قرار پائے۔
فلپائن میں سویلین مقدمات کی سماعت فوجی عدالتوں میں ہوئی۔ کچھ مقدمات کو ’نا انصافی‘ پر مبنی کہا گیا لیکن اکثریت کو قانونی تقاضوں کے مطابق مانا گیا۔ ہندوستان میں بھی سویلین مقدمات کی سماعت فوجی عدالتوں میں ہو چکی ہے جہاں ان مقدمات کی اکثریت کو ’درست‘ اور ’قانون کے مطابق‘ تسلیم کیا گیا۔ پیرو میں فوجی عدالتوں نے سویلین مقدمات کی سماعت کی، کچھ پر تنقید ہوئی لیکن اکثریت کو ’درست‘ مانا گیا۔ سری لنکا میں فوجی عدالتوں کو سویلین مقدمات کی سماعت کیلئے استعمال کیا گیا جہاں ان مقدمات کی بڑی اکثریت کو ’قانونی تقاضوں کے مطابق ‘ تسلیم کیا گیا۔
یوکرین نے فوجی عدالتوں کو سویلین مقدمات کی سماعت کیلئے استعمال کیا۔ ان میں سے اکثر مقدمات کو ’ضروری ضابطہ کار‘ کے مطابق مانا گیا۔ وینزویلا نے سویلین مقدمات کی سماعت فوجی عدالتوں میں کی جہاں ان مقدمات کی شفافیت سیاسی پس منظر اور مقدمے کی نوعیت کے مطابق مختلف درجات میں رہی۔ انڈونیشیا میں سویلین مقدمات کی سماعت فوجی عدالتوں میں ہو چکی ہے ۔ ان مقدمات کی اکثریت کو بھی ’درست‘ اور ’مبنی بر انصاف ‘ تسلیم کیا گیا۔ تھائی لینڈ میں فوجی عدالتوں کو سویلین مقدمات کی سماعت کے لئے استعمال کیا گیا، بالخصوص جب سیاسی حالات بد امنی کا شکار تھے، وہاں بھی ان مقدمات کی اکثریت کو ’درست‘ مانا گیا۔
برطانیہ میں سنہ2011ء کے برطانوی فسادات کے جواب میں سمری کورٹس بنائی گئیں۔ امریکہ کی ’سمری کورٹس‘ فیڈرل رائٹس ایکٹ کے تحت قائم کی گئی تھیں۔ اٹلی نے ’فاسٹ ٹریک‘ عدالتیں قائم کیں، جاپان نے ’سمری کورٹس ‘ تشکیل دیں، کینیڈا میں ’ہنگامی اقدامات کا قانون‘ یا ’ایمرجنسی میجرز ایکٹ‘ لاگو کیا گیا تا کہ خصوصی عدالتیں قائم کی جا سکیں۔ فرانس نے ایمرجنسی ایکٹ کی حالات میں اور اسپین نے آرگینک لا آن پبلک سیکورٹی کے تحت خصوصی عدالتیں تشکیل دیں۔ ذیل میں ایسے ممالک کی ایک جزوی فہرست دی جا رہی ہے جہاں سویلین مقدمات کی سماعت فوجی عدالتوں میں ہو چکی ہے: ریاست ہائے متحدہ امریکہ، مصر، چین، ترکیہ، الجیریا، بنگلہ دیش، میانمار، ہندوستان، تھائی لینڈ، سائوتھ کوریا، فلپائن، ایران، شام، روس، کولمبیا، پیرو، گوئٹے مالا، ایل سلواڈور، ہنڈراس، ارجنٹینا، چلی، وینزویلا، پیراگوئے، یوراگوئے، برازیل، میکسیکو، کیوبا، لبنان، عراق، لیبیا، تیونس، مراکو اور سعودی عرب۔
عام شہری فوجی عدالتوں میں کیوں لائے جاتے ہیں؟ اس کے پیچھے بہت سی وجوہات کارفرما ہوتی ہیں۔ ایک تناظر یہ ہو سکتا ہے کہ جب کسی عام شہری پر یہ الزام ہو کہ اُس نے فوج کیخلاف یا فوج پر براہ راست اثر انداز ہونے والا جرم کیا ہے۔ اس زمرے میں وہ مقدمات آتے ہیں جن میں فوجی تنصیبات یا اہلکاروں پر حملہ کیا گیا ہو، جاسوسی کی گئی ہو یا غداری کا ارتکاب ہوا ہو۔ دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ قومی سلامتی کا مسئلہ ہو یا ہنگامی حالات ہوں جن میں حکومت اس بات پر یقین رکھتی ہو کہ مقدمات کی فوری اور بہتر سماعت کیلئے فوجی عدالتیں زیادہ موزوں رہیں گی۔
ریاست پاکستان کا قانونی نظام ایک جامع نظام ہے جو فوجی عدالتوں کے نظام انصاف کو بھی نظم و ضبط میں لاتا ہے جس میں قانونی اصولوں کی پاسداری اور انسانی حقوق کا احترام یقینی بنایا جاتا ہے ۔ اس نظام میں ایسے عام شہریوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے ایک بہترین طریق کار اور دفاعی نظام موجود ہے جن کو فوجی عدالتوں میں لایا جائے۔ اس نظام کار میں جب تک جرم ثابت نہیں ہو جاتا تب تک ملزم کو بے گناہ سمجھے جانے کے قانونی اصول پر بھی بلا کسی سمجھوتے کے عملدرآمد کرایا جاتا ہے۔ عام شہریوں کو قانونی مشیر یا وکیل کے حق کی فراہمی بھی یقینی بنائی جاتی ہے تاکہ اُن کی طرف سے قانونی نمائندگی اور دفاع و تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔ علاوہ ازیں فوجی عدالتوں میں مقدمہ کے خلاف اپیل کرنے کا ایک بہترین نظام موجود ہے جس کی موجودگی میں کسی بھی مقدمہ کی کارروائی اور شفافیت کاباریک بینی سے جائزہ لینے کا موقع موجود رہتا ہے ۔اس سب سے دو اہم نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ خصوصی عدالتوں کی تشکیل کوئی انوکھا یا غیر معمولی واقعہ نہیں ہے بلکہ یہ ترقی پذیر ممالک کے ساتھ ساتھ ترقی یافتہ ممالک میں بھی رائج ہے۔ دوسرا یہ کہ فوجی عدالتوں نے متعدد مقدمات کی سماعت کر کے اپنی اس صلاحیت کو منوایا ہے کہ وہ ’ مطلوبہ طریقہ کار‘ اور ’انسانی حقوق’ کے عالمی پیمانوں کے مطابق کام کر سکتی ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)