• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

کوئی ثانی نہیں

’’سنڈے میگزین‘‘ سے یادِاللہ بہت پرانی ہے۔ آپ کی بڑی مہربانی ہے کہ آپ ہر بار ہمیں یاد رکھتی ہیں، میری طرف ہی سےخط لکھنے میں کبھی کبھی وقفہ طویل ہوجاتا ہے، وگرنہ میگزین نے تواپنے دروازے ہمیشہ ہی وا رکھے ہیں۔ جریدے کے تمام ہی سلسلے پسندیدہ ہیں۔ بےشک صفحات کی تعداد کم ہوگئی ہے، مگر اب بھی ’’سنڈے میگزین‘‘ کا کوئی ثانی نہیں۔ (شری مرلی چند جی گوپی چند گھوکلیہ، شکارپور)

ج: ہماری اپنی بھی مستقل یہی کوششں ہے کہ خواہ جریدہ کتنے ہی کم صفحات پر کیوں نہ چلا جائے، لیکن اِس کی نیک نامی بہرحال برقرار رہے۔

ہَرا بَھرا، بہترین، لاجواب

سنڈے میگزین ’’جشنِ آزادی اسپیشل‘‘ کے طور پر پڑھنے کو ملا۔ پورا میگزین ہی خوب ہرا بَھرا، بہترین، لاجواب تھا۔ خصوصاً سرورق کی تو کیا ہی بات ہے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ کی کہانی ’’دیا‘‘ بھی بہت ہی پسند آئی۔ جو نظم شامل کی گئی، وہ بھی خُوب صُورت تھی۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں بھی گویا بہار آئی ہوئی تھی۔ ’’نئی کتابیں‘‘ میں پروازِ خاک پر تبصرہ پسند آیا۔ گوشئہ برقی خطوط میں سید ظہیر احمد گیلانی کو آپ نے جو جواب دیا، اُس کا تو کوئی جواب ہی نہ تھا۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

ج: جواب کا جواب ہونا بھی نہیں چاہیے، ورنہ تو پھر جواب الجواب کا ایک سلسلہ ہی چل نکلے۔

’’رپورٹ‘‘ کا نچوڑ

’’حرفِ آغاز‘‘ کے طور پر دُعا ہے کہ پھول سداکِھلتے،مہکتےرہیں، کلیاں مُسکراتی، فضائیں گنگناتی رہیں اور میری دھرتی ماں کا ہر اِک فرد خوش باش، خوش حال رہے، آمین۔ محمود میاں نجمی ’’قصص القرآن‘‘ کے ضمن میں ’’قصّۂ حکیم لقمان‘‘ زیرِ قلم لائے۔ علم و حکمت، عقل و فہم اور دانائی و بصیرت کے پیکر، حکیم لقمان کی باتیں بےشک آبِ زر سےلکھے جانے کےلائق ہیں۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں عقابی نگاہ رکھنے والے قلم کار، منور مرزا اِس بار بھارت کی امریکا اور مغرب سے بڑھتی دوستی سے متعلق رقم طراز تھے۔ ڈاکٹر فلزہ آفاق اور ڈاکٹر نوید بٹ کا مضمون ’’ماں کا دودھ، نومولود کے لیے مکمل غذا‘‘عوام النّاس، خصوصاً مائوں کے لیے ایک تحریر ہی نہیں،قیمتی تحفہ تھا۔ ’’موسمِ گرما‘‘ کو موضوعِ سخن بنایا، ڈاکٹر عزیزہ انجم نے۔

ڈاکٹر عزیزہ تو سنڈے میگزین کے ماتھے کا جھومرہیں، کیا کیا پھول چُن لاتی ہیں۔ 100بچّوں کی ماں، صوفیہ وڑائچ کو سلام کہ یہی ہیں دراصل ہمارے اصل ہیروز، جو دل سے خدمتِ خلق کررہے ہیں۔ اِس بہترین ’’رپورٹ‘‘ کا نچوڑ یہ جملہ تھا کہ ’’جب ہم ’’اپنا گھر‘‘ پہنچے، تو پورا گھر بچّوں کے قہقہوں، کھیل کود، مسرت انگیز شور شرابے، معصوم شرارتوں اور ایک دوسرے کے پیچھے دوڑنے کی آوازوں سے گونج رہا تھا۔‘‘ صوفیہ وڑائچ اوراُن کے شوہر کو ایک بارپھرسیلوٹ کہ ؎ رکھتے ہیں جو اوروں کے لیے پیار کا جذبہ … وہ لوگ کبھی ٹُوٹ کے بِکھرا نہیں کرتے۔ 

ماڈل آرزو شاہ کی خُوب صُورت ماڈلنگ پر نرجس ملک کا قلم خُود بخود گنگنا اُٹھا کہ ؎ تم نہ مانو، مگر حقیقت ہے… عشق انسان کی ضرورت ہے… اُس کی محفل میں بیٹھ کر دیکھو… زندگی کتنی خُوب صُورت ہے۔ ’’غیرضروری سرجریز کی بڑھتی شرح‘‘ کے موضوع پر معروف معالجین سے شفق رفیع کی بات چیت مفید ثابت ہوئی۔ سیّد حیات النبی رضوی امروہوی کے اوراقِ زندگی، پیر زادہ سید خالد حسن رضوی نے ستاروں کی مانند آسمان میگزین پرخُوب ٹانکے۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں ملک محمّد اسحاق راہی اور ایم شمیم نوید کے واقعاتِ حیات سبق آموز تھے۔ اور اب آ پہنچےہیں’’آپ کاصفحہ‘‘ پر، ملک محمّد رضوان چھے چِٹھیوں کے بیچ مُسکراتے بہت اچھے لگے۔ آخرمیں دُعا ہےکہ ربِّ دوجہاں ہم سب کو محبّت کی لڑی میں ایسے پرو دے، جیسے کہ ہار کے پھول، تسبیح کے دانے۔ (ضیاء الحق قائم خانی، جھڈو، میرپورخاص)

قلم کا نشتر

عمران خان کے دَور میں آپ نے اُنہیں ہمیشہ کھل کر تنقید کا نشانہ بنایا۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں گاہے بگاہے آپ نئے پاکستان، کنٹینرز اور دھرنوں پر تنقید کرتی رہیں، تو شہباز شریف پر بھی تنقید کریں ناں، انوارالحق کاکڑ اور مولانا فضل الرحمٰن پربھی تنقید کیا کریں، جن کی پالیسیوں سے ڈالر اور پیٹرول 300 تک پہنچ گئے۔ آپ کے قلم کا نشتر سب کے لیے برابر ہونا چاہیے، نہ کہ صرف عمران خان کے ہم نوائوں ہی کوکاٹتا رہے۔ براہِ مہربانی جو سیاست دان بھی غلط کام کرے، اُسے تنقید کا نشانہ بنائیں، صرف لٹھ لے کرعمران خان کے پیچھے پڑ جانا انصاف نہیں۔ یا انصاف صرف قاسم جلالی کے ڈرامے ہی تک محدود رہ گیا ہے۔ (نواب زادہ بے کار ملک، سعید آباد، کراچی)

ج: ہماری طرف سے تو وقتاً فوقتاً سب ہی کو ’’حصّہ بقدرِ جُثّہ‘‘ ملتا ہی رہتا ہے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ محترم عمران خان صاحب جتنے سبز باغ دکھا کے، جتنے بلندبانگ دعوے کر کے اور اپنے سوا ہر ایک کو چور، ڈاکو، لیٹرے، کرپٹ جیسے خطابات سے نواز کے، جو ایک یک سر’’نئے پاکستان‘‘ کا چورن بیچنے آئے تھے، وہ نیا تو پچھلے پورے 75 برس کے پُرانوں پر بھاری ثابت ہوا۔

مُلک میں جو تباہی وبربادی پچھلے پونے چار برسوں میں آئی ہے، پون صدی میں نہیں آئی۔ جو بُرے تھے، وہ تو بُرے تھے ہی، لیکن اِس اچھے نے تواچھے اچھوں کے کس بل نکال دئیے۔ بخدا ’’نیا پاکستان‘‘ تواب ایک ایسا ڈرائونا خواب ہے کہ جس کے خوف سے لوگوں نے سونا ہی چھوڑدیاہے۔ اورسچ تو یہ ہے کہ سابقہ دورِ حکومت میں جس قدر بگاڑ آیا ہے، وہ یہ ایک شہباز، کاکڑتوکیا، اگلے کئی شہبازوں، کاکٹروں سے سنورنے والا نہیں۔ تو بھئی، میڈیا کا یہ چابک تو اب سب پر برستا ہی رہے گا۔

کئی شمارے مل جائیں گے

’’ سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں حضرت موسیؑ اور حضرت خضرؑ کا قصّہ بیان کیا گیا اور بہت عُمدہ انداز سے۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا نے’’احسان کا بدلہ، احسان فراموشی نہیں‘‘ لکھ کرکمال کردیا۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں رئوف ظفر نے تعلیمی اداروں میں منشیات اور ویڈیو اسکینڈلز کے ضمن میں چشم کُشا رپورٹ تیار کی، جو خاصی فکرانگیز تھی۔ ایک رپورٹ ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نے بھی پیش کی، جواُن کےسفرِملائشیاسےمتعلق تھی۔ 

اس رپورٹ میں لکھا تھا، ’’ہر مسلمان بنیادی طور پر داعی ہے‘‘ تو اِس کا کیا مطلب ہے۔ کیا داعی، دعوت دینے والے کو کہتے ہیں یا اِس کے کچھ اور معنی ہیں۔ ویسے ’’رپورٹ‘‘ شان دار تھی۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر انجم نوید کا مضمون بہت ہی معلوماتی لگا۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے دونوں واقعات سبق آموز تھے۔ ’’متفرق‘‘ میں افراح عمران نے آرٹی فیشل انٹیلی جینس کے فروغ پر روشنی ڈالی۔ اور اب بات، ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی۔ ہمارا خط شائع کرنے کا بےحد شکریہ۔ آپ پوچھتی ہیں کہ بھلا کس جریدے میں ہمارا خط شامل نہیں ہوتا۔ تو آپ پچھلے کئی میگزین اُٹھا کر دیکھ لیں، ایسے کئی شمارے مل جائیں گے، جن میں ہمارا خط شامل نہیں ہوگا۔ (سید زاہد علی، شاہ فیصل کالونی، کراچی)

ج : آپ نے ’’داعی‘‘ کے جو معنی سمجھے ہیں، وہ درست ہیں۔ ویسے عمومی طور پر کارِخیر کی دعوت دینے والے مبلّغ کو داعی کہا جاتا ہے۔ رہی بات، ہمارے سوال اور آپ کے جواب کی، کہ کئی جریدوں میں آپ کا خط شامل نہیں ہوتا، تو بھائی! کیا یہ فرض ہے کہ ہر اشاعت میں آپ کا خط لازماً شامل ہوگا۔ ہم نے تناسب کے اعتبار سے ایک عمومی بات کی تھی کہ لگ بھگ ہر دوسرے جریدے میں تو آپ کا خط شامل ہوتا ہی ہے۔

عوام النّاس کا بُراحال

بہت سے سلام، بہت ساری دُعائیں!!! اُمیدِ قوی ہے کہ آپ شاداں و فرحاں ہوں گی اور ہونا بھی چاہیے، اتنے ڈھیروں قارئین کی دِلی دعائیں جو لیتی رہتی ہیں۔ البتہ عوام النّاس کا اِس ہوش رُبا منہگائی اور جان لیوا گرمی میں سخت بُراحال ہے۔ بس، ایک اتوار کے اتوار، جریدے کی رُونمائی سے دل کے تار بج سےاُٹھتے ہیں اور اِس بار تو حجاب میں لپٹی ماڈل بہت ہی اچھی لگی۔ پیاری سی ماڈل کے سرورق سے لے کر ’’آپ کا صفحہ‘‘ تک سب ہی صفحات ایک سے بڑھ کرایک تھے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ سے سیراب ہوتے آگے بڑھے۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ سے بھرپوراستفادہ کیا کہ کیا سحرانگیز تحریر تھی۔ 

ہم تو بس آپس میں لڑتے بھڑتے ہی مرجائیں گے، جب کہ بھارت چاچا چندانگری کی سیریں کرتا پِھررہا ہے۔ ’’یومِ دفاعِ پاکستان‘‘ کی مناسبت سے اچھی تحریر پڑھنے کو ملی۔65ء کی جنگ کا سارا منظر آنکھوں کے سامنے گھوم گیا۔ پاکستانی فوج اور عوام کا جوش و جذبہ، میڈم نورجہاں، مہدی حسن جیسے استادوں کے ملّی نغمے، ہائے! جانے کہاں گئے وہ دن۔ ’’پیارا گھر‘‘کی تمام تحریریں خُوب تھیں۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ میں باکو اور قبالا کی باتصویر تحریر بہت ہی شان دار تھی، پڑھ کر لُطف آگیا۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ کی تحریریں بھی اچھی لگیں اور’’آپ کا صفحہ‘‘ تو بھئی، بس آپ ہی کی طرح لاجواب ہے۔ دوشالے میں لپیٹ لپیٹ کر ایسے برجستہ جوابات دیتی ہیں کہ پھر سارا دن ہنستےمُسکراتے ہی گزر جاتا ہے۔ آخر میں، مَیں تمام قارئینِ کرام سے استدعا کرتی ہوں کہ پاکستان کواِس وقت بہت دُعائوں کی ضرورت ہے۔ سو، پلیز اپنے مُلک کی بقا و سلامتی کے لیے خاص دُعائیں کریں۔ (نرجس مختار، خیرپورمیرس)

ج: ہمیں کہاں ’’خواص‘‘ میں شامل کرلیا، ہم بھی، آپ ہی کی طرح مسلسل بڑھتی منہگائی اور گرمی سےنبرد آزما ہیں۔ اورچاند کی سیریں تو پھر وہی کریں گے، جو محنت وہمّت کریں گے۔ جو75 برسوں سے اقتدار کے میوزیکل چیئر ہی سے باہر نہیں نکلے، تو وہ گھروں کی چھتوں سے چاند کا نظارہ اورچاند کی درست رویت کا فیصلہ ہی کرلیں، توغنیمت ہے۔

لازوال، سدا بہار، یادگار

اپنے خط میں رونق افروز برقی نے لکھا کہ ’’مَیں نے ٹارزن کے حوالے سے بشیر احمد بھٹی کے تاثرات پڑھے۔‘‘ بے شک، ٹارزن کی کہانیوں کا ایک بہترین، یادگار دَور گزرا ہے۔ مَیں ممنوں ہوں، برقی صاحب کا کہ وہ خطوط اتنی باریک بینی سے پڑھتے ہیں۔ ویسے اطلاعاً عرض ہے کہ 1964ء کے بعد تین سال تک ٹارزن کی بہترین کہانیاں شائع ہوئیں، خصوصاً 1968ء کی ’’تلاش‘‘ نامی کہانی اور 1968ء سے 1971ء تک ’’نیا سفر‘‘ کےعنوان سے شایع ہونے والی کہانی۔ اِن دونوں کہانیوں نے تو قارئین کو اپنے سحر میں جکڑے رکھا۔ نہ صرف غضب کی اسٹوریز تھیں بلکہ ساتھ بہترین تصویر کشی بھی تھی۔ بات یہ ہے، دنیا لاکھ جدید تر ہو جائے، کچھ چیزیں لازوال اور سدا بہار ہیں اور ٹارزن کہانی بھی ایک ایسی ہی یادگار ہے۔ میری تو تجویز ہے، سنڈے میگزین میں یہ سلسلہ دوبارہ شروع کر دیا جائے۔ (بشیراحمد بھٹی، فوجی بستی غربی، بہاول پور)

ج: اور پھر لوگ پوچھتے ہیں کہ مُلکی ترقی کو ریورس گیئر کیوں لگا ہوا ہے۔ جوقوم اتنی فارغ ہو کہ ایک ’’ٹارزن کہانی‘‘ کی قصیدہ گوئی میں 5 سے 6 صفحات کالے کردے۔ (80فی صد خط ایڈٹ کیا گیا ہے) مشورہ عنایت ہو کہ60 کی دہائی کی مافوق الفطرت کہانیاں آج 21ویں صدی کے قارئین کے لیےسلسلے وارشروع کی جائیں۔ (کہ آج کا نوجوان بلکہ بچّے بھی ایسی باتیں سن کے ہی لوٹ پوٹ ہوجاتے ہیں) تو پھراُس قوم کی عقل پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔ ابھی پچھلے دنوں ایک میم پڑھی کہ ’’پڑوسی چاند پر پہنچ گئے ہیں اور یہاں پیٹ درد کے مسئلے ہی حل نہیں ہورہےکہ ہرچوک، چوراہے پر لگے بینرز پہ یہی پڑھنے کوملتا ہے، ’’پورا پاکستان رہا ہے گھول… اسپغول‘‘ تولگا، جیسے دو جملوں میں پوری قوم کی نفسیات سموکے رکھ دی گئی ہے۔

                 فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

نرجس بٹیا! سدا خوش رہو۔ ماشااللہ تمہاری محنتوں کی جیتی جاگتی تصویر 10 ستمبر کے ’’سنڈے میگزین‘‘ کا کافی حد تک مطالعہ مکمل کرچُکا ہوں۔ بچپن میں امّاں مرحومہ سُنایا کرتی تھیں، جس کا لبِ لباب یہ ہی تھا کہ ایک موسیٰ ؑ کو فرعون نے پالا اور دوسرے کو جبرائیلؑ نے۔ پھر دوسری مرتبہ کسی مستند کتاب میں یہ واقعہ پڑھا، لیکن ریفرنس نہ مل سکا۔ اب جب مضمون میں واقعےکےآخر میں ریفرنس دیکھا، تو کمان سےنکلےتیرکی طرح اپنی بند لائبریری کا دروازہ کھولا اورگردآلود شیلف سے ’’معارف القران‘‘ کی چَھٹی جِلد نکالی۔ حرف بہ حرف وہی سب کچھ لکھا تھا، جو فاضل مصنّف نے تحریرکیا۔ ’’معارف القرآن‘‘ مفتیٔ اعظم برِعظیم، حضرت مفتی محمّد شفیع صاحب کی وہ اَن مول اوربیش بہا تفسیرہے، جو دنیا بھر میں سب سے زیادہ مستند سمجھی جاتی ہےاورجس کا دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ ہوچُکا ہے۔

پھر باپ اگر مفتیٔ اعظم ہند تھے، تودونوں بیٹےحضرت رفیع عثمانی اور حضرت مفتی تقی عثمانی مفتیٔ اعظم پاکستان۔ دوسرا اہم موضوع، سرطان سے جنگ کے تعلق سےڈاکٹر نورین مشتاق کا انٹرویو تھا، جو شفق رفیع نے لیا۔ گورنر کے پی کے، نے اپنے ابّا کی قبر پر جا کر کہا۔ ’’ابّا! مَیں گونر بن گیا ہوں‘‘ تو حاجی غلام علی! اگر باپ کی رُوح کو ثواب پہنچانا چاہتے ہو، توعوام کے لیے کچھ کر کے دکھائو۔ ڈاکٹر عبدالستار عباسی کو خوش آمدید۔ بہترین سفرنامہ آغاز ہوا، جس میں سیر و تفریح کے ساتھ معلومات میں اضافے کا بھی خاصا مواد موجود ہے۔ 

منور مرزا ’’برکس‘‘ کے ساتھ شاملِ محفل تھے۔ آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں کے مقابلے میں برکس کا قیام، چین کی بڑی کوشش ہے تاکہ ایشیا کی دولت مغربی بینکوں کے بجائے ایشیا ہی میں رہے۔ دیکھیں، اِسے امریکا کام یاب بھی ہونے دیتا ہے یا اس کا حشر بھی بی سی سی آئی بینک جیسا ہوگا۔ بچپن سے حافظ کا ملتانی حلوہ سُنتے اور کھاتےآئے ہیں، لیکن آج کل حافظ کے ڈنڈے کی بڑی دھوم ہے۔ ہمارے مرزا جی اگر اِس پر بھی کچھ روشنی ڈالیں، توکیا بات بنے۔ محمود احمد لئیق نے حفیظ میرٹھی کی خُوب یاد دلائی۔ کیا انقلابی شاعر تھے۔ 

محمّد بشیر جمعہ ’’شاہ راہِ زندگی پر کام یابی کا سفر‘‘ جیسی اَن مول کتاب کے مصنّف ہیں۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے واقعات میں ہمایوں ظفر کی محنت نظر آتی ہے۔ اور اب آخر میں میگزین کے سب سے مقبول سلسلے ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی بات، شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی مسندِ بادشاہت پر براجمان دکھائی دیئے۔ دیگر خطوط نگاروں میں اشوک کمار کولہی، رونق افروز برقی، جاوید اقبال اور ماہ نور شاہد نمایاں تھے۔ ایک بات اور بیٹا جی! حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ مندرجات سے متعلق مثبت تنقید کو شائع کیا جائے، لیکن جو باتیں معاشرے میں کنفیوژن کا باعث بنتی ہوں، اُن سےاجتناب ہی برتا کریں۔ (پروفیسر سیّد منصور علی خان، کراچی)

ج: جی سر! ہماری اپنی بھی ہمیشہ یہی کوشش رہتی ہے۔

گوشہ برقی خطوط

* سنڈے میگزین کے آن لائن ایڈیشن میں ایک غلطی نوٹ کی ہے۔ اکثر ’’آپ کا صفحہ‘‘ کو ’’آپ کا صحفہ‘‘ لکھا ہوتا ہے۔ براہِ کرم اِسے درست کروا دیں۔ (عبدالرشید)

ج: جی، یہی غلطی اکثر کمپوزرز اور لکھاری بھی کرتے ہیں اور بارہا نشان دہی کے باوجود بھی دہرائی جاتی ہے، اللہ جانے کیوں، ہم تو درست کرکر کے تھک گئے۔ اِسی طرح ’’چِٹھی‘‘ کو’’چھٹی‘‘ لکھنا بھی عام پریکٹس ہے۔ بہرحال، اس دفعہ تو نیٹ ایڈیشن پر بھی درست کروا دی گئی ہے۔

* مَیں ہر ہفتے جنگ، سنڈے میگزین کا بہت باقاعدگی سے مطالعہ کرتا ہوں۔ خُود مَیں نے بھی ایک تحریر لکھ کے بھیجی تھی، جو تاحال شایع نہیں ہوئی۔ (عبدالجبار شاہد)

ج :کسی بھی تحریرسے متعلق انفرادی طور پر بتانا تو بہت مشکل ہے۔ آپ جریدے کا مطالعہ جاری رکھیں۔ اشاعت یا عدم اشاعت دونوں صُورتوں میں آپ کو جلد یا بدیر معلوم ہو جائے گا۔

*میرے پاس ایک تیار ناول موجود ہے، جو میری بہن نے لکھا ہے۔ مَیں آپ کو اِس فرضی، اصلاحی ناول کی (جسے ہلکا سا مزاحیہ انداز دیا گیا ہے) ایک قسط بھیج رہی ہوں، آپ پڑھ کے اشاعت کا فیصلہ کیجیے گا۔ یاد رہے، اس ناول کے تمام کردار فرضی ہیں۔ (عبدالفہیم)

ج: آپ نے ہمیں ناول کی 21ویں قسط کے دو صفحات ای میل کیے۔ بخدا یہ ہلکا سا مزاحیہ انداز نہیں، یہ توہنس ہنس کے پیٹ درد کر دینے والا مزاحیہ انداز ہے۔ ایک صفحے کا آغاز ہوتا ہے، ’’ھبا اپنےگھرپر‘‘ سے۔ ھبا: السلامُ علیکم۔ امّی : وعلیکم السلام۔ امّی: کیسا رہا تمہارا دن؟ ھبا :بہت اچھا رہا میرا دن۔ اور پھر دوسرے صفحے کا آغاز ہوتا ہے۔ ’’حدیقہ اپنے گھر پر‘‘ سے۔ حدیقہ: السّلامُ علیکم۔ امّی : وعلیکم السلام۔ امّی: کیسی ہو تم حدیقہ، کیسا رہا تمہارا دن؟ حدیقہ: اچھی ہوں امّی، صبح دیکھا تو تھا آپ نے۔ ہاہاہا… قسم سےناول کیا ہے، اچھا خاصا مذاق ہے۔ ہمارا نہیں خیال، کوئی کے۔ جی، نرسری کا بچّہ بھی اِسے ناول ماننے پر تیار ہوگا۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk