السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
چند اہم تجاویز…؟
سنڈے میگزین کے ضمن میں کچھ اہم تجاویز پیش کرنے کی جسارت کررہا ہوں۔ منہگائی کے خلاف جنگ میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے، روزنامہ جنگ کو ہفتے کے چھے ایّام میں آٹھ صفحات پر مشتمل رکھ کر قیمت 20روپے مقرر کی جاسکتی ہے اور خواتین، بچّوں اور سیاسی ایڈیشنز وغیرہ کو سنڈے میگزین میں شامل کیا جاسکتاہے۔’’ایک پیغام، پیاروں کےنام‘‘کو قارئین کی دل چسپی کےپیشِ نظر مستقل کالم کی شکل دی جاسکتی ہے۔ شوبز سے وابستہ افراد، کھلاڑی، والدین، رشتے دار سب اپنے پیارے ہی تو ہوتے ہیں۔ تاہم، موقعے کی مناسبت سے موضوع کی قید رکھی جا سکتی ہے۔
وطنِ عزیز کا باتصویر تعارف، شہروں کے تعارف کی صُورت شائع ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ سیاحتی مقامات سے متعلق معلوماتی رپورٹس بھی میگزین میں شامل ہوسکتی ہیں۔ مختصر خوف ناک واقعات، کہانیوں، افسانوں کی اشاعت کا سلسلہ بھی میگزین میں شروع کیا جا سکتاہے۔ نیز، ماہرڈاکٹرزاور حکماء کے انٹرویوز کاسلسلہ شروع کرنے پربھی غور کیا جاسکتا ہے۔ تاکہ عوام دو نمبریوں کی لُوٹ کھسوٹ سے محفوظ رہ سکیں۔ (چوہدری قمر جہاں علی پوری، لوہاری گیٹ، ملتان)
ج: آپ نے کبھی زندگی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کھول کے بھی دیکھا ہے۔ اتنی اہم تجاویز پیش کرنے سے پہلے ایک نظر جریدے پر تو ڈال لیتے۔ وطنِ عزیز کے شہروں کا باتصویر تعارف وقتاً فوقتاً کروایا ہی جاتا ہے۔ ڈاکٹرز کے انٹرویوز کی اشاعت بھی برس ہا برس سے جاری ہے۔ مختصر، خوف ناک واقعات، افسانے مستقلاً جریدے کا حصّہ ہیں اور اطلاعاً عرض ہے کہ ہمارا مُنحنی سا جریدہ صرف 16 صفحات پرمشتمل ہے، جس میں دوصفحات سینٹر اسپریڈ کے، ایک ٹائٹل اور دو تین اشتہارات کے بعد صرف اتنا ہی بچ رہتا ہے کہ مستقل سلسلے ایک ایک دو دو ہفتوں کے وقفےسے شائع کر دیئے جائیں۔ جب کہ اب فن و فنکار کا صفحہ بھی سنڈے میگزین ہی کا حصّہ بنا دیا گیا ہے۔ بجائے اس کے کہ آپ کہتے، اخبار کی قیمت بےشک 50روپے کردیں، لیکن قاری کو روزانہ پڑھنے کا کچھ نہ کچھ مواد ضرورملنا چاہیے، اُلٹا اپنے10 روپے بچانےکے لیے ایسی نادر و نایاب تجاویز اٹھا لائے ہیں۔
بھاگ ان بردہ فروشوں سے
شمارہ موصول ہوا، سرِورق پر خوب رُو ماڈل کے ساتھ یہ مصرع درج تھا ؎ مَیں اک شام چُرا لوں، اگر برا نہ لگے۔ نہ بابا نہ، ہم تو چوری کو بہت بُراجانتے ہیں۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے سلسلے ’’قصص القرآن‘‘ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضرعلیہ السلام کا قصّہ پیش کیا گیا، جس کا ذکر سورۂ کہف میں تفصیل سے ہوا ہے۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا افغان حکّام کی احسان فراموشی پرنالاں تھے۔ بلاشبہ ہم نے اُن کی خاطر ستّر ہزار سے زائد پاکستانیوں کی قربانی دی ہے اور آج جو طالبان حکومت قائم ہے، وہ بھی ہمارے ذریعے دوحا مذاکرات کی کام یابی ہی کا نتیجہ ہے۔ پھر ہم25 لاکھ افغان پناہ گزینوں کا بوجھ کوئی چالیس برس سے اُٹھا رہے ہیں، مگر وہ ہمارے ذرا بھی احسان مند نہیں۔ ہم اُنہیں زندگی دیتے ہیں اور وہ ہمیں موت۔
وہ دہشت گردوں کو ٹھکانے فراہم کر رہے ہیں، جو پھر یہاں آکر ہمارے ملک کو لہو رنگ کرتے ہیں۔ کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ ؎ بھاگ ان بردہ فروشوں سے کہاں کے بھائی… بیچ ہی دیویں، جو یوسف ؑ سا برادر ہووے۔ پوری دنیا نے ان سے تعلقات توڑ لیے ہیں، تو کیا ہم نے اِنہیں پالنے کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے۔ دفاعی اصطلاح ’’اٹیک ہی بہترین دفاع ہے‘‘ کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہمیں اِن کے افغان ٹھکانوں کو ختم کرنا ہوگا۔ تاکہ نہ رہے بانس، نہ بجے بانسری۔ دنیا اِن کی حکومت ہی تسلیم نہیں کرتی، پھر ہم کیوں سرحدوں کے احترام میں اپنا جانی و مالی نقصان کروا رہے ہیں۔
ہم صرف ڈالر کی اسمگلنگ ہی روک لیں، توآئی ایم ایف سے بھیک مانگنے کی نوبت نہ آئے۔ ہم بھیک مانگ مانگ کر ڈالرز لاتے ہیں اور وہ افغانستان اسمگل ہوجاتے ہیں۔ کوئی دنیا میں ہے ایسی مثال؟ رائو محمّد شاہد اقبال دنیائے انٹرنیٹ کے دو بڑے سرمایہ داروں کے درمیان باکسنگ کی طرز کے مقابلوں کا ذکر کررہے تھے۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں رئوف ظفر پاکستانی تعلیمی اداروں میں منشیات کے بڑھتے ہوئے رجحان سے متعلق ایک الم ناک رپورٹ لائے۔ ہم اس نوجوان نسل کو معمارانِ قوم سمجھے بیٹھے ہیں مگر یہ تو خُود اپنی ہی تباہی کے درپے ہیں۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ کے لیے شائستہ اظہر صدیقی نے اچھا رائٹ اَپ تحریر کیا۔
اشعار کا تڑکا بھی خُوب تھا۔ سچ ہے کہ خُود کو پالینا ہی اصل زندگی ہے۔ ’’رپورٹ‘‘ میں ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی ملائیشیا میں ’’مباحثہ، مکالمہ کانفرنس‘‘ کا احوال بیان کررہی تھیں، تو ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر انجم نوید نے نوزائیدہ بچّوں کے کانوں کا ٹیسٹ کروانے پر زور دیا، جب کہ ’’متفرق‘‘ میں افراح عمران آرٹی فیشل اینٹی جینس کے فروغ پر مضمون لائیں اور اب ذکر اپنے باغ و بہار صفحے کا، جس کی اعزازی چٹھی کا اعزاز ہمارے حصّے آیا۔ سوری، ہمیں پتا نہیں تھا کہ نیّرہ نور عالمِ بالا کو سدھار گئی ہیں۔ اللہ مغفرت کرے۔ (آمین) (شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی، میرپورخاص)
ج: جی بس، اب کچھ ایسی ہی نفسانفسی کا عالم ہے، پڑوس میں کوئی مرجائے، خبر نہیں ہوتی، ہمیں توخُودبعض شخصیات کے نام گوگل کرنے پڑجاتے ہیں کہ پتا نہیں حیات بھی ہیں یا چل بسے۔
پیاس بُجھا رہا ہوں
بعد از سلام، گزشتہ سنڈے میگزین سے متعلق اپنی رائے کا اظہار کرتا ہوں۔ ازراہِ کرم اِسے اپنے موقر جریدے میں جگہ دے کر شُکرگزار فرمائیں۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کا سلسلہ دِل میں ایک عجیب سی راحت پیدا کرتا ہے۔ ’’متفرق‘‘ میں پروفیسر سیّد وسیم الدین نے نواب بہادر یار جنگ کے حوالے سے مضمون تحریر کیا، جس سے میری تاریخ سے متعلق معلومات میں خاصااضافہ ہوا۔
ڈاکٹر جمیل ریسرچ لائبریری کا جو تعارف کروایا گیا ہے، وہ قابلِ تعریف ہے۔ مگر ’’جشنِ آزادی اسپیشل‘‘ پڑھ کر افسوس ہوا کہ نسلِ نو تو بس شوروغُل ہی میں پھنس گئی ہے۔ مَیں کئی روزسےاپنےعلاقے میں کسی لائبریری کی تلاش میں ہوں، مگرناکام ہوں۔ سو، مختلف اخبارات و جرائد پڑھ کر ہی اپنی پیاس بُجھا رہا ہوں۔ (عمّاد نظامی، راول پنڈی)
ج: ہمارے لیے تو یہی بات کافی تسلّی بخش ہے کہ اِس’’سوشل میڈیائی دَور‘‘ میں کوئی ایسا بھی ہے، جسےحصولِ علم، مطالعے کی تشنگی محسوس ہو رہی ہے۔ اللہ آپ کا یہ ذوق و شوق قائم و دائم رکھے۔
بیٹے ناخلف، نااہل، ڈاکو ہوجائیں، تو…
نرجس بٹیا! سدا خوش رہو! تمہاری اجازت سے چند الفاظ اپنے پیارے وطن کی زبوں حالی پر لکھنا چاہتا ہوں۔ صاحب زادے فیملی کے ساتھ واپس منٹریال جاچُکے ہیں، مگر ہم اور ہماری مسز نہیں گئے۔ اس مرتبہ بجلی کا بِل75 ہزار، گیس کا4 ہزار روپے آیا۔ سبزیاں، دالیں، پھل سب پہنچ سے باہرہوگئےہیں۔ کیلا2 سو روپے درجن، پوچھا، اتنا منہگا کیوں، جواب ملا، صاحب ڈالر325 روپے کا ہوگیا۔ کہا،بے وقوف! کیلے کا ڈالر سے کیا تعلق؟ بولا، صاحب! یہ باتیں آپ کےسمجھنے کی نہیں۔ ابھی ٹی وی کھولا، پیٹرول15روپے لیٹر اوربڑھ گیا۔.
بیگم نے کل بیٹے کو فون پر منہگائی کا بتایا، تو جواب دیا۔ ’’پپا کو وطن کی مٹّی بڑی یاد آرہی تھی ناں‘‘ بات یہ ہے کہ اس میں میری پاک دھرتی کا کیا قصور، اگراُس کے بیٹے ہی ناخلف، نااہل، ڈاکو ہوجائیں تو اس کی سزا میں اپنے پاک وطن کو کیوں دوں؟ جیسا بھی ہے، مجھے اِس سے پیار ہے۔ سب سے پہلے ’’قصص القرآن‘‘ کی بات کرلیں۔
اصحابِ کہف، یاجوج ماجوج، ذوالقرنین، مسیح الدجال، کشتیٔ نوح، حکیم لقمان اوراب طالوت وجالوت… ہر قصّے میں جو درسِ ہدایت، نصیحت و عبرت ہے، وہ ایمان کو تازہ کرنے کا باعث ہے۔ ان مضامین کی خاص بات یہ ہے کہ اِن میں نام نہاد روایتوں کا ذکر نہیں، ہر واقعہ مستند کتب، قرآنِ پاک اور احادیث کےمکمل حوالہ جات کے ساتھ تحریر کیاجاتاہے۔میرےخیال میں تو یہ’’سنڈے میگزین‘‘ کا قوم پر احسان عظیم ہے کہ اسے قرآن فہمی کی جانب راغب کیا۔ گلوبل وارمنگ کی سنگینی پر منور مرزا کی تحقیق بہترین تھی۔ اے کاش! امیر ممالک اس اہم معاملے پرمکمل سنجیدگی سے غور کریں۔ رئوف ظفر وقت کی نبض پر ہاتھ رکھ کر چلتے ہیں۔
ہر تحریر وقت کے تقاضوں کے مطابق ہوتی ہے اور خُوب ہوتی ہے۔ پاک، چین راہ داری نوازشریف کے دَور میں بڑی کام یابی سے ترقی کی منازل طے کررہی تھی، مگر پھر مغرب نواز عمران نے اپنے آقائوں کی ہدایت پراُسے لپیٹ دیا۔ اللہ کرے کہ یہ جلد کام یابی سے مکمل ہو، فرّخ شہزاد کا مضمون اچھا تھا۔ ڈاکٹر یاسمین شیخ اور ڈاکٹر امجد علی کے مضامین بھی معلومات افزا تھے۔ ’’پیارا گھر‘‘، ’’اک رشتہ، اک کہانی‘‘، ’’ڈائجسٹ‘‘ میں پڑھنے کا کافی مواد ملا۔
سلمیٰ اعوان پراللہ کا بڑا کرم ہے۔ پیسا بھی ہے، شوق بھی، قلم بھی، الفاظ بھی، سفر کا فن بھی جانتی ہیں اور لکھنے کا بھی۔ ہر تحریر خُوب سے خُوب ترہوتی ہے اور تمہاری تحریروں کی تعریف کرنا تو گویا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ مجموعی طور پر میگزین میں تمہاری اور ٹیم کی محنت صاف نظر آتی ہے لیکن بہرحال، پھر کہوں گا کہ اس کا دارومدار کپتان کی صلاحیت اورکام لینے کے فن سے واقفیت ہی پر ہے۔ (پروفیسر سیّد منصور علی خان، کراچی)
ج: جی، بےشک، جب تک اولاد سیدھے رستے پر گام زن نہیں ہوتی، دھرتی ماں کے آنسو خشک ہونا مشکل ہیں۔
خط ہے، کوئی ڈراما، فلم نہیں!!
اُمید ہے کہ آپ اور آپ کی ٹیم خیریت سے ہوگی۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے ’’قصص القرآن‘‘ سلسلے میں قصّہ طالوت و جالوت بڑی محنت و عرق ریزی سے مختلف حوالہ جات کے ساتھ قلم بند کیاگیا۔ ’’جشنِ آزادی اسپیشل‘‘ میں ارسلان خان نے سو فی صد درست کہا کہ قیامِ پاکستان کے مقاصد پورے کیے بغیر کام یاب ریاستوں میں شمولیت ناممکن ہے۔ فرحی نعیم نے خواہش ظاہر کی کہ اپنی وفاداری وطن کے نام کریں اور مثالی ریاست بنائیں۔ رائو محمّد شاہد اقبال نے ایک واقعے سےمضمون کو بہت پُراثر بنایا۔ منور مرزا نے اپنی خُوب صُورت نگارش میں تعمیر و ترقی کےمختلف پہلوئوں کا بڑی عُمدگی سےجائزہ لیا۔
ایڈیٹر صاحبہ نے بھی اپنی تحریر سےجشنِ آزادی میں گویا جان ڈال دی۔ ’’متفرق‘‘ میں پروفیسر ڈاکٹر سیّد وسیم الدین نے نواب بہادر یار جنگ کا تعارف کروایا تو ڈاکٹر نسیم فاطمہ، ڈاکٹر جمیل جالبی ریسرچ لائبریری کا احوال لائیں۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں ڈاکٹر عزیزہ انجم نے بھی اہم حقائق کی طرف توجّہ دلائی۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں نظیر فاطمہ زبردست افسانہ لائیں، بخدا پڑھ کر آنکھیں نم ہوگئیں۔ ’’وطن ہمارا‘‘ خیام الپاک ظفر محمّد خان کا اچھا خراجِ تحسین تھا اور اب ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی بات، آپ نےمیراخط شائع کیا، بہت بہت شکریہ، لیکن ہمارے ایک سے خطوط پر آپ کا اعتراض غلط ہے، کیوں کہ ہم خط لکھتے ہیں، کوئی کہانی، ڈراما یا فلم نہیں لکھتے، جو ہر بار مختلف لکھے جائیں۔ (سید زاہد علی، شاہ فیصل کالونی، کراچی)
ج:واہ بھئی! کیا منطق پیش کی ہے آپ نے، مختلف النّوع مندرجات پر اگر ہر بار ایک سا تبصرہ کیا جا سکتا ہے، تو پھرکہانیوں، فلموں، ڈراموں کی یک سانیت بھی قطعاً کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ ہم پچھلے25 برس سے’’سینٹر اسپریڈ‘‘ کا رائٹ اَپ لکھ رہے ہیں۔ ہر بار وہی ایک ماڈل اور4 سے5 پہناوے… ذرا سوچ کے بتایئے کہ کتنی بار آپ کو محسوس ہوا کہ رائٹ اَپ میں یک سانیت ہے۔ ہمیں تو پھر اتنے بھانت بھانت کے رائٹ اَپ لکھتے لکھتے اب تک فوت ہوجانا چاہیے تھا۔
فی امان اللہ
ہماری مقدّس ترین کتاب، قرآنِ پاک کا موضوع ’’انسان‘‘ ہے کہ اُس میں بیان کردہ قصّے ہمارے اورآنےوالی نسلوں کےلیےبہت سبق اورعبرتیں لیےہوئے ہیں۔ اِس بار’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں حضرت آدم علیہ السلام اور بی بی حواؑ کے دونوں بیٹوں ہابیل و قابیل کا قصّہ بہت تفصیل سے، عُمدہ الفاظ کی مالا میں پرویا گیا۔ منور مرزا کے مضامین بھی بِکھری قوم کی ہمّتیں بندھاتے ہیں کہ اُن کا لفظ لفظ وطن کی محبّت کی چاشنی میں ڈوبا ہوتا ہے۔ اور پورا سچ یہ بھی ہے کہ اِس دَور میں اِک ’’سنڈے میگزین‘‘ ہی علم دوستی، کتاب دوستی، امن دوستی اور انسان دوستی کی شمع روشن کیے ہوئے ہے۔ پتا نہیں، ہم انسان اس زمین پرایک خاندان کی مانند کیوں نہیں رہتے؟ گھروں میں کام کرنے والے کم سِن مزدوروں کےحوالےسے رئوف ظفر نے جوکچھ لکھا، آنکھیں کھولنے کے لیے کافی تھا۔
اللہ کرے، ان معصوموں، مظلوموں کی بھی کہیں سُنوائی ہو۔ ’’چین ہمارا یار ہے، اُس پہ جاں نثار ہے‘‘ چین سے ہماری دوستی واقعی ہمالیہ سے بلند اور بحرالکاہل سے گہری ہے۔ پاک، چین اقتصادی راہ داری کے10 سال مکمل ہو چُکے اور دونوں ممالک اِن سالوں میں مزید قریب آئے ہیں۔ خدا کرے کہ سی پیک کواُس کی رُوح کے مطابق بروقت مکمل کرلیاجائے۔ فرّخ شہزاد ملک کے قلم سے نکلے معطّر الفاظ بہت بھلے لگے۔ ڈاکٹر یاسمین شیخ کا ’’چنبل‘‘ سے متعلق مضمون بےحد معلوماتی تھا۔ ڈاکٹر امجد علی جعفری نے بھی ’’ بدن میں زنک کی کمی‘‘ پرروشنی ڈالی۔
ماڈل حیا خان کے پیرہن کی خُوشبو بڑی انوکھی لگی، تو آپ کا قلم بھی آپ ہی گنگنا اُٹھا ؎ وہ نازنیں ادا میں اعجاز ہے سراپا … خُوبی میں گل رخاں سوں ممتاز ہے سراپا۔ بلاشبہ آج کے دَور میں اپنے کام سے کام رکھنابھی ایک کمال ہی ہے۔ طلاق کے موضوع پر فائزہ مشتاق کا قلمی نسخہ جھنجھوڑ سا گیا کہ دوسروں کی مشکل زندگیوں کو بلاوجہ مزید مشکل بنانا کس قدر غیر اخلاقی بلکہ غیر انسانی حرکت ہے۔ محنتی شخص اللہ کا دوست ہے اور حلال میں برکت ہی برکت ہے، حفصہ نسیم امیر عالم نے بالکل درست کہا۔
سچ یہی ہے کہ اپنے ہاتھ سے کمائی روٹی کا ذائقہ فائیو اسٹار ہوٹلز کے کھانوں سے بدرجہا بہتر ہوتا ہے۔ ’’جَوکا پانی، مشروبات کا بادشاہ ہے‘‘، یہ بھی ’’پیارا گھر‘‘ ہی سےپتا چلا۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ کی دونوں کہانیاں خُوب صورت تھیں۔ سلمیٰ اعوان کے ’’وی آئی پی کارڈ‘‘ نے تو کیا شان دار اینٹری دی۔ ہم تو سلمیٰ آپا کو بس سفرنامہ نگار ہی سمجھتے تھے۔ ’’محاورات واستعارات‘‘ کو موضوعِ سخن بنایا،مدثراعجاز نےاورخُوب بنایا۔ ’’بچّے، توپھر بچّے ہی ہوتے ہیں‘‘۔ بنتِ عارف بھی اچھوتے انداز سے رقم طراز تھیں۔ واقعی ہم حقوق العباد کی اہمیت سمجھتے ہی نہیں، حالاں کہ دینِ اسلام کا75 فی صد اِن ہی کا احاطہ کرتا ہے۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ اِس بار راول پنڈی کے محمّد جاوید کے نام رہا، بہت بہت مبارک ہو۔ دیگر نامہ نگاروں نے بھی بشمول میرے، اچھی کاوشیں پیش کیں۔ (ضیا الحق قائم خانی، جھڈو، میرپورخاص)
ج: یقیناً آپ کی پچھلی کاوش بھی اچھی ہوگی، لیکن آج کی تو سب ہی پر بازی لے گئی۔
* مَیں اور میرا خاندان روزنامہ جنگ کے بہت پرانے قارئین ہیں۔ عرض یہ ہے کہ سنڈے میگزین میں ’’قصص القرآن‘‘ کے عنوان سے ایک سلسلہ شایع ہو رہا ہے۔ ہم کافی عرصے سے نوٹ کر رہے ہیں کہ اِس میں تحقیق کی شدید کمی ہے، جس کی وجہ سے قاری کے گُم راہ ہونے کا اندیشہ ہے ۔ 10 ستمبر کے جریدے میں سامری جادوگرسےمتعلق شائع ہوا کہ اُس کا اصل نام بھی موسیٰ تھا اور اُس کی پرورش حضرت جبرائیلؑ نے کی۔ یہ بات انتہائی کم زور اسرائیلی روایات کا حصّہ ہے۔ مستند دینی علماء نے اِسے کبھی نقل نہیں کیا۔ اِسی طرح حضرت خضرعلیہ اسلام والے مضمون میں بھی کئی انتہائی کم زور روایات کا سہارا لیا گیا۔ ہابیل قابیل والے واقعے میں بھی غیرمستند حوالے موجود تھے۔ سو، مودبانہ گزارش ہے کہ یہ چوں کہ دین کا معاملہ ہے، تو بہت احتیاط لازم ہے۔ (کامران سلیم، لالہ زار، راول پنڈی)
ج : ’’قصص القرآن‘‘ اور ’’قصص الانبیاؑ ‘‘ پر مشتمل یہ سیریز متعلقہ موضوع پر لکھی گئی مستند کتب سے استفادے کی روشنی میں قدیم و جدید ماخذ و مراجع سے اخذ کرتے ہوئے تحریر کی جا رہی ہے۔ نیز، تحریر میں متعلقہ کتب و ماخذ کا حوالہ لازماً درج ہوتا ہے۔ جس واقعے کی آپ نے نشان دہی کی، وہ معروف عالمِ دین، مفتیٔ اعظم ہندو پاک، حضرت مولانا مفتی محمّد شفیع ؒ کی معروف تفسیر’’معارف القرآن‘‘ سے استفادہ کرتے ہوئے قلم بند کیا گیا۔
یاد رہے، ’’معارف القرآن‘‘ دنیا بھر میں قرآنِ کریم کی سب سے مستند تفسیر مانی جاتی ہے اوراُس کی جِلد نمبر6 کے صفحہ نمبر 134 پر یہ واقعہ درج ہے۔ اِسی طرح مولانا مفتی محمّد شفیع ؒ کی کتاب ’’قصص الانبیاؑ‘‘ کے صفحہ نمبر398 میں بھی بعینیہ مذکور ہے۔ جب کہ امامِ زمانہ، حضرت علامہ شہاب الدین محمود آلوسی بغدادی کی عربی تفسیر ’’رُوح المعانی‘‘ میں بھی تحریر ہے۔ اطلاعاً عرض ہے کہ اِن تمام واقعات کے ضمن میں حد درجہ احتیاط برتی جا رہی ہے۔ مضمون نگار کی ہر تحریر کمپوزنگ کے بعد باقاعدہ ’’اقراء‘‘ صفحے کے انچارج، حافظ محمّد ثانی بھی عمیق نگاہی سے چیک کرتے ہیں اور پھر اُس کے بعد ہی شایع کی جاتی ہے، لہٰذا براہِ مہربانی آپ بلاوجہ عام قاری کوگُم راہ کرنے کی کوشش نہ کریں۔
قارئینِ کرام !
ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk