السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
اخبارات پر بُرا وقت
سنڈے میگزین سامنے ہے اور پڑھا جارہا ہے، ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا کی تحریر بہت پسند آئی، مرزا صاحب نے بالکل ٹھیک کہا کہ ’’احسان کا بدلہ احسان ہے، نہ کہ احسان فراموشی‘‘۔ افغانستان ہمارے لیے مستقل دردِسر بنا ہوا ہے اور ٹی ٹی پی بھی۔ ’’اسٹائل‘‘ میں شائستہ اظہر صدیقی کی تحریر کا جواب نہیں تھا۔ بلاشبہ آپ کی دعوت پر ایک اچھی تحریر پڑھنے کو ملی۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں پروفیسر سیّد منصور علی خان کا سنہری حروف سے لکھا ہوا خط بھی لاجواب تھا۔
بخدا پڑھ کے دل خوش ہوگیا۔3 ستمبر کے شمارے کے ’’حالات و واقعات‘‘ میں منورمرزا نے بہت عُمدہ مضمون عنایت کیا۔ ’’یومِ حجاب‘‘ کی مناسبت سے سرِورق پہ بہت اچھی فوٹوگرافی نظر آئی۔ پروفیسر سید منصور علی خان کا خط ’’اس ہفتے کی چٹھی‘‘ قرار پایا اور بے شک، آپ کا فیصلہ سوفی صد درست تھا کہ اُن کا خط تھا ہی اعلیٰ۔ ہمارے گھر یہ جنگ کوئی پون صدی سے آرہا ہے، مگر اخبارات پر اتنا بُرا وقت اِس سے پہلے نہیں دیکھا۔ صفحات مسلسل کم کیے جا رہے ہیں۔ میگزین کے صفحات بھی بہت محدود سے رہ گئےہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنارحم وکرم فرمائیں۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)
ج: اللہ پاک تو رحم وکرم فرماتا ہی ہے، بس بندوں نے جب خود کو نہ سنوارنے اور کوئی سبق نہ سیکھنے کی قسم کھالی ہوتو پھر قوموں، اداروں کو ایسے حالات دیکھنے ہی پڑتے ہیں۔
محاسبہ کرنا چاہیے
محمود میاں نجمی ’’قصۂ شیطان‘‘ سُنا رہے تھے کہ اُس نے صرف اللہ کا ایک حُکم نہ مانا اور راندۂ درگاہ ہوا، تو یہ آج کے انسان کے لیے کس قدر لمحۂ فکریہ ہے۔ خاص طور پر ہمارے حُکم رانوں، تاجروں، سوداگروں، ذخیرہ اندوزوں کو اپنا محاسبہ ضرور کرنا چاہیے۔ منور راجپوت نے کتابوں پر اچھا تبصرہ پیش کیا۔ محبوب حیدر سحاب کی جنگِ65 سے متعلق تحریر شان دار تھی۔
ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نے ’’یومِ حجاب‘‘ کے موقعے پر ایک لاجواب تحریر عنایت کی۔ منور مرزا بھارت کی خلائی تسخیر کا ذکر لائے۔ ڈاکٹرعزیزہ انجم نے بھی حجاب کو موضوعِ سخن بنایا۔ خطوط نگاروں میں شبینہ گل انصاری، سیّد زاہد علی، محمّد علی سحر، نواب زادہ بے کار ملک، شکیلہ ملک، رونق افروز برقی اور قاریہ کوثر وغیرہ شامل تھے، جب کہ بزم کے دولھا کا سہرا پروفیسر سیّد منصور علی خان کے سر بندھا۔ (شمائلہ نیاز، دائرہ دین پناہ، تحصیل کوٹ ادّو، ضلع مظفّر گڑھ)
ج: لوگ خود اپنا محاسبہ کرنے لگے، تو ’’نیب‘‘ کا دال دلیا کیسے چلےگا۔
کیسے ہوتے ہیں وہ خط…؟
نامہ بر تُو ہی بتا، تُونے تو دیکھے ہوں گے … کیسے ہوتے ہیں وہ خط، جن کے جواب آتے ہیں۔ ہفتہ بھر کام کے بعد بالآخر اتوار کا دن آہی جاتا ہے۔ سوچتے ہیں کہ چُھٹی والے دن خُوب دیر سے سو کر اٹھیں گے، لیکن اتوار کے روز نیند آنکھوں سے غائب ہوجاتی ہے کہ انتظارِ جریدہ(سنڈے میگزین) سونے نہیں دیتا۔ مطالعے کا آغاز ہوتاہے، ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ سے۔ اس بار ہابیل، قابیل کے تاریخی قصّے کو بیان کر کے نیکی و بدی کا تصوّر بڑی عُمدگی سے اجاگر کیا گیا۔ ’’عالمی افق‘‘ پر منور مرزا نے ’’ایک زمین، ایک خاندان، ایک مستقبل‘‘ کے عنوان سے روئے زمین پر برپا ہونے والی سنگین تبدیلیوں پر تفصیلاً روشنی ڈالی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ہمّت دے، اپنے آپ کو سنبھالنے کی۔
گھروں میں کام کرنے والی کم سِن بچیاں بے شک قابلِ تعظیم ہیں، پتا نہیں لوگ کیسے اُن پر اس قدر ظلم و ستم کرلیتے ہیں۔ سی پیک منصوبے کی اہمیت کو بھی بہت عام فہم انداز میں اجاگر کیا گیا۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ سے خوب صحت افزا ٹِپس ملیں۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ پر پہنچے تو ماڈل کا چہرہ دیکھ کر نسیم حجازی کے ناول کی ہیروئین یاد آگئی۔ معصوم، حسین چہرہ، غزالی آنکھیں، مشرقی پہناوے زیبِ تن کیے جریدے کو چار چاند لگا رہی تھی… پھر مدیرہ کا رائٹ اَپ، جو الفاظ کو حسین پیراہن پہنانے کا ہُنرخُوب جانتی ہی۔ ’’پیارا گھر‘‘ کے دونوں مضامین لاجواب تھے۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ کی دونوں داستانیں بھلی لگیں۔
سلمیٰ اعوان سے تو بطور سفرنامہ نگار ہی شناسائی تھی۔ سفر ناموں میں بھی بہت دل کش الفاظ، تشبیہات و استعارات جان سی ڈال دیتے تھے۔ اور اب ’’وی آئی پی کارڈ‘‘ پڑھ کے تو اُن کا یہ نیا ہی فن سامنے آگیا۔ بخدا بہترین افسانہ تھا، پڑھ کے دل خُوش ہوگیا۔ ’’متفرق‘‘ میں محاورات و استعارات کا پس منظر مدثر اعجاز بتا رہے تھے۔ اچھا معلوماتی مضمون تھا اور اب آتے ہیں، ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی حسین بزم کی طرف کہ جس کا کوئی مول ہی نہیں۔ تمام خطوط دل چسپ، تو جوابات خوب تر تھے۔ دریا کو کُوزے میں بند کرنے کی مثال آپ پر سو فی صد صادق آتی ہے۔ بہرکیف، ہمارے لیے ہر ہفتے اتنا اچھا شمارہ ترتیب دینے کا بےحد شکریہ۔ اس بزم کے توسّط سے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ آپ کے تین خطوط نگاروں کا تعلق شکار پور سے ہے۔ خود ہماری جنم بھومی بھی شکار پور ہی ہے۔ (شاہدہ ناصر، گلشن اقبال، کراچی)
ج: جی، بالکل ایسے ہی ہوتے ہیں وہ خط، جن کے جواب آتے ہیں۔ بس، صرف ایک شکایت ہے کہ آ پ نے صفحے کی بیک سائیڈ خالی نہیں چھوڑی۔ جب کہ بارہا تاکید کی گئی ہے کہ صفحے کی پشت سادہ رہنےدیاکریں اور حاشیہ، سطر چھوڑ کر خط لکھنے کی عادت اپنائیں۔
رنگا رنگ باغات کے پھول
پتا چلا، آج اتوار ہے۔ سنڈے میگزین کا انتظار ہے۔ سرورق فوری پلٹنا عادت، سامنے دینی تحریر کا نکھار ہے۔ مضمون میں رنگا رنگ باغات، مستند کتب سے جمع شدہ پھولوں کی بہار ہے۔ سعدیہ عبید خان کی رپورٹ دل مغموم کرگئی۔ جب کہ معروف شاعر کے بیٹے نے حقِ فرزندگی بخوبی ادا کیا، اُن کی خدمت میں سلام۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کچھ زیادہ نہیں بھایا۔ ہاں البتہ مجموعی طورپر’’سنڈے میگزین‘‘ اپنی مثال آپ ہی لگا۔ (غلام اللہ چوہان، گذدرآباد، کراچی)
ج: سیدھا سادہ اندازِ تبصرہ اختیار کرنے کی کوشش کیا کریں۔ نہ خُود مشکل میں پڑیں، نہ ہمیں ہی امتحان میں ڈالا کریں۔ اپنی طرف سے تو آپ نے منظوم تبصرہ نگاری فرمائی، لیکن بہت کچھ تو ہمارے سر کے بہت اوپر ہی سے گزر گیا۔
اتنی تعریفیں کیوں کرتے ہیں؟
اچھا کیا، اُن نامہ نگار کو صاف جواب دے دیا، جن کی پہلے ذرا تعریف کیا کردی، وہ موصوف تو خود کو علاّمہ ہی سمجھنے لگے۔ بات یہ ہے کہ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں مکمل حوالہ جات کی جو روایت ڈال دی گئی ہے، وہ بہت سے لکھاریوں ک ےگلے کی زنجیر بن گئی ہے۔ اب آئندہ جو بھی واقعہ تحریر ہوگا، اُس کا مفصّل حوالہ بھی ضرور دینا ہوگا۔ وفاقی اردو یونی ورسٹی کے تعلق سے ڈاکٹر عرفان عزیز کا مضمون سب کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ آج اردو یونی ورسٹی سمیت مُلک کے کئی تعلیمی ادارے، بدعنوانی، غنڈہ گردی، سیاست، بد انتظامی اورجرائم پیشہ افراد کی آماج گاہ بنے ہوئے ہیں۔
ہر طرح کی منشیات باآسانی دست یاب ہیں، حد تو یہ ہے کہ جسم فروسی کا دھندہ بھی شروع ہوچُکاہے، جس کی حالیہ مثال بہاول پور یونی ورسٹی ہے، جس میں چند اساتذہ بھی ملوث تھے، جب کہ اربابِ اختیار کی جانب سے اس کیس کو بھی دبانے کی کوشش کام یاب ہوتی نظر آرہی ہے، تابش دہلوی کے فرزند نے جس خُوب صُورت انداز میں والدِ محترم کی ذاتی زندگی سے پردہ اُٹھایا، بہت ہی عمدہ اور منفرد لگا۔
تمہاری تحریروں کی تعریف کرنا تو سورج کو ٹارچ دکھانے کے مترادف ہے، ڈاکٹر معین الدین عقیل کی تحریر کا بھی جواب نہیں تھا۔ اور اب آخر میں ایک بات تو بتاؤ کہ یہ پروفیسر سیّد منصور علی خان آخر تمہاری اتنی تعریفیں کیوں کرتے ہیں، مَیں جیلس ہوجاتی ہوں، اچھا خاصا کینیڈا چلے گئے تھے، پھر واپس آگئے۔ نرجس بٹیا، نرجس بٹیا کرتے۔ آفرین ہے، بزرگ وار پر کہ بچّوں کو چھوڑ کر یہاں دھکّے کھانے صرف اس لیے آگئے کہ کافروں کے مُلک میں مرنا نہیں چاہتے۔ اے وطن کی مٹّی! گواہ رہنا، یہ ہی تیرے وہ عظیم سپوت ہیں، جو بُرے وقتوں میں بھی تجھے چھوڑ کر بھاگ جانے پر موت کو ترجیح دیتے ہیں کہ اگر دَم بھی نکلے، تو تیری بانہوں میں نکلے، لحد بھی بنے، تو تیری آغوش میں۔ اور جب تک پاکستانی قوم میں ایسے لوگ موجود ہیں، اِس دھرتی پر اللہ تعالیٰ کا سایا برقرار رہے گا، ان شااللہ۔ (شاہدہ تبسم، ڈی ایچ اے، کراچی)
ج: غالباً ہماری دل جوئی کے لیے کرتے ہیں، ایسی تعریفیں کہ جب ہر طرف سے تابڑ توڑ حملے ہورہے ہوں۔ وہ گناہ بھی ہمارے کھاتے ڈالے جائیں، جن میں ہمارا سِرےسےکوئی دوش ہی نہ ہو، تو پھر ایسی بزرگ ہستیاں غالباً بےوجہ تعریف و توصیف اور حوصلہ افزائی ہی سے مداوے کی کچھ سعی کرتی ہیں۔
جنگِ ستمبر کو یاد رکھا
سرِورق پر’’یومِ حجاب‘‘ کے حوالے سے خاتون کی تصویر بہت خُوب صُورت تھی۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے ’’قصص القرآن‘‘ سلسلے میں ’’قصّہ شیطان لعین‘‘ بیان ہوا۔ کئی باتیں ایسی تھیں، جن سےمیں یک سرناواقف تھا۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نے بھی ’’سفرِ حجاب‘‘ کے عنوان سے تفصیلی تحریر عنایت کی۔ ایک تجویز ہے، اگر ممکن ہو توجرائم پیشہ خواتین کے حوالے سے بھی کوئی رپورٹ مرتّب کروائیں۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا نے پاکستان کی اسپیس ریس میں عدم دل چسپی کی طرف توجّہ مبذول کروائی۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں ونگ کمانڈر(ر) محبوب حیدر سحاب نے 1965ء کی جنگ کی یادیں تازہ کردیں۔
یہ کریڈٹ بھی ’’سنڈے میگزین‘‘ ہی کو جاتا ہے کہ 6 ستمبرکو یاد رکھا، وگرنہ مُلکی سطح پر تو اِس دن کی تعطیل بھی ختم کردی گئی ہے۔ محمّد سلمان عثمانی نے بھی غازیوں، شہیدوں کی بہادری کے قصّے بیان کیے۔ ’’یومِ حجاب‘‘ کی مناسبت سے فرحی نعیم کی تحریرلاجواب تھی۔ ثمینہ اقبال، عالیہ زاہد بھٹّی، افشاں یونس کے مضامین کا بھی جواب نہ تھا۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ میں ماہ جبیں نے آذربائجان کے کچھ علاقوں کی سیرکروائی۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں نظیر فاطمہ، کنول بہزاد کے افسانوں اور ڈاکٹر عزیزہ انجم کی نظم نے جان ڈال دی۔
’’آپ کا صفحہ‘‘ میں ایک بار پھر ہمارے دوخطوط کا مکسچر شایع کیا گیا اور ساتھ دوبار شکریہ ادا کرنے کی تاکید بھی کی۔ ہم چاربار شکریہ ادا کردیتے ہیں، لیکن خُوش نہیں ہیں۔ خادم ملک کا خط البتہ بہت خوشی دے گیا۔ انہوں نے کیا عُمدہ بات کہی کہ آپ لوگ اُن حُکم رانوں کے لیے کچھ نہیں لکھتے، جوآئے روز کشکول لیے سعودی عرب، چین اور آئی ایم ایف کے دَرپرپہنچے ہوتے ہیں۔ ( سیّد زاہد علی، شاہ فیصل کالونی نمبر3، کراچی)
ج: گرچہ خادم ملک نے ہرگز کوئی عُمدہ بات نہیں کی، جیسے وہ عموماً بلاوجہ اِدھراُدھر کی باتیں کرتے رہتے ہیں، یہ بھی ویسی ہی ایک بات تھی، لیکن خیر’’پسند اپنی اپنی‘‘۔ آپ خطوط کے مکسچر پر خُوش ہوں، نہ ہوں، ہم خطوط اپنے طریقۂ کار کے مطابق ہی شایع کریں گے۔
ہاں البتہ آپ کی تجویز اچھی ہے۔ ’’جرائم پیشہ خواتین‘‘ سے متعلق رپورٹ مرتّب کروائی جا سکتی ہے، بلکہ شفق رفیع نےاس پرکام کا آغاز بھی کر رکھا تھا، مگر پھر وہ استعفیٰ دے کے کسی اور ادارے سےمنسلک ہوگئیں۔ اب دیکھتے ہیں کہ کون اس موضوع سے انصاف کرپائے گا، تو اُسے اسائن کردیتے ہیں۔
فی امان اللہ
شمارہ موصول ہوا۔ سرِورق پر ’’مسز پاکستان ورلڈ‘‘تاج سجائےبراجمان تھیں۔ ’’قصص القرآن‘‘ میں سامری جادوگرکا قصّہ بیان کیا گیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اورسامری جادوگر کی پیدائش اور پرورش کی حیرت انگیز مماثلت میں بھی ربِ کریم کی کوئی مصلحت ہی پوشیدہ ہوگی۔ فرعون غرقِ آب ہوا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سُرخ رُو اور کام یاب۔ واقعے سےعیاں ہے کہ اللہ کے رسولوں کی نافرمانی قوموں کے لیے مصیبت اورعذاب ہی کا باعث بنتی ہے۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں شفق رفیع نے برین ٹیومر کی ماہر، پاکستان کی پہلی پیڈیاٹرک نیورو انکولوجسٹ، ڈاکٹر نورین سے تفصیلی بات چیت کی۔
واقعی اس مرض کی شکست کے لیے احتیاطی تدابیر کےساتھ علاج پرمکمل توجّہ کی اشد ضرورت ہے۔’’گفتگو‘‘ میں گلزارمحمّد خان، گورنرخیبر پختون خوا سے سیاسی صُورتِ حال اور امن و امان کے حوالے سے بات چیت کر رہے تھے۔ انہوں نے سو فی صد حقیقت پر مبنی اظہارِ خیال کیا کہ ’’چیئرمین پی ٹی آئی نے تکبّر، ضد، ہٹ دھرمی سے اپنی25سالہ سیاسی جدوجہد چار سال میں ختم کر ڈالی‘‘ اور اب ؎ پِھرتے ہیں میر خوار، کوئی پوچھتا نہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ متکبّر، اناپرست اوراپنےآپ کوعقلِ کُل سمجھنے والے حُکم رانوں کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوا۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ میں ڈاکٹر عبدالستار عباسی سفرنامے کی پہلی قسط میں وسط ایشیائی مُلکوں کی تہذیب و تمدّن اور بود و باش سے متعلق اظہارِ خیال کررہے تھے۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں ایڈیٹر صاحبہ نے خُوش لباس، خُوش دل، خُوش ادا فاطمہ فخر کو بطور’’مسز پاکستان‘‘ متعارف کروایا۔
اُن سے متعلق پڑھ کے خُوش گوارحیرت ہوئی۔ صحیح بات ہے کہ حُسن تو ہر عُمر کی عورت میں ہوسکتا ہے اور صرف ظاہری نہیں، باطنی بھی اور وہی دائمی حُسن ہے۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا شکوہ کُناں تھے کہ معاشی بہتری کے بغیر ہم کسی بھی عالمی فورم میں شامل نہیں ہو سکتے۔ وہ کیا ہے کہ ؎ ہر چند ہو، مشاہدۂ حق کی گفتگو… بنتی نہیں ہے بادۂ ساغر کہے بغیر۔ ’’یادداشتیں‘‘ میں محمود احمد لیٔق، باغی انقلابی شاعر حفیظ میرٹھی کی رُودادِ زندگی بیان کر رہے تھے، تو ’’متفرق‘‘ میں بنتِ عطا نے نئی مہارتیں سیکھنے کی ویب سائٹس سے آگاہ کیا۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں محمّد بشیر جمعہ ترقی و کام یابی کے رہنما اصول بتاتے دکھائی دیئے، حالاں کہ یہ اصول تو اسلام نے ساڑھے 1400 سال پہلے ہی بتا دیئے تھے۔ اے کاش! ہم اُن ہی پرعمل پیراہوجائیں۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے دونوں واقعات نصیحت آموز تھے۔ اور اب آ پہنچے ہیں، اپنے باغ و بہار صفحے پر، ’’اس ہفتے کی چٹھی‘‘ کا اعزاز ہمیں عطا ہوا، بہت شکریہ۔ نیز، نوآموز لکھاری ماہ نور شاہد احمد کی جس انداز سے حوصلہ افزائی کی گئی، وہ قابلِ تحسین ہے۔ (شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی، میرپور خاص)
ج: جی، کوشش تو یہی ہوتی ہے کہ اگر کسی میں ذرا سا بھی Spark (شعلہ، چنگاری) دکھائی دے، اُسے ہوا ضرور دی جائے۔
* مجھے سنڈے میگزین میں اپنی شاعری شایع کروانی ہے، اِس کا کیا طریقۂ کار ہوگا؟ (خالد محمود)
ج :آپ اردو اِن پیج میں شاعری کمپوز کر کے ای میل کردیں، بذریعہ ڈاک بھیجنا چاہیں تو ہاتھ سے لکھی تحریر بھی بھیجی جاسکتی ہے۔ کلام قابلِ اشاعت ہوا، تو باری آنے پر شائع کر دیا جائے گا۔
* سنڈے میگزین اِس عُمدگی سے ترتیب دینے پر تہہ دل سے مبارک باد قبول کریں۔ بخدا، آج ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے صفحے پر اقبال ٹاؤن، راول پنڈی کے محمّد جاوید کا واقعہ پڑھ کے آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے، لیکن دل اتنا خُوش بھی ہوا کہ بیان سے باہر ہے۔ بخدا، میرا پورا دن خوش گوار ہوگیا کہ الحمدُللہ، ہمارے یہاں آج بھی ایسے دردِدل رکھنے والے لوگ موجود ہیں۔
بےشک، دنیا ایسے ہی لوگوں کےسبب قائم ہے۔ میری دلی دُعا ہے کہ اللہ رب العزت بچّے اور بچّی کو ایک دوسرے کا بہترین لباس بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ اِس تحریر سے اندازہ ہوا کہ اللہ کاوعدہ کیسا برحق ہے کہ ’’نیک مَردوں کے لیےنیک عورتیں اورنیک عورتوں کےلیے نیک مرد ہیں۔‘‘ میری طرح اور بھی کئی دِلوں سے سمیع صاحب کے لیےبہت دُعائیں نکلی ہوں گی۔ (احسن ممتاز، قیوم آباد، کراچی)
* سنڈے میگزین دہائیوں سے مَن پسند جریدہ ہے۔ تاہم، اِس کی مزید بہتری کے لیے ایک تجویز پیشِ خدمت ہے۔ آپ کے الیکٹرانک ورژن (نیٹ ایڈیشن) پر جب ’’میگزینز‘‘ پر کِلک کیا جاتا ہے، تو یہ میگزین متعلقہ صفحہ نمبر یا عنوان کے بجائے سنڈے میگزین کے طور پر ایک فہرست دکھاتا ہے، براہِ کرم اِس میں کچھ بہتری لائیں۔ مثلاً فہرست میں صفحہ نمبر، مضمون یا صفحے کا عنوان بھی دیا جا سکتا ہے۔ اُمید ہے، تجویز پرغور فرمایا جائے گا۔ (ڈاکٹر عارف رحمٰن، اسلام آباد)
ج : آپ کی تجویز متعلقہ شعبے کو فارورڈ کر دی گئی ہے۔ اب دیکھیں، کیسے اور کتنا عمل ہوتا ہے۔
قارئینِ کرام !
ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk