مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
اُردو کا مشہور محاورہ ہے، ’’کر بھلا، ہو بھلا‘‘ یعنی اس دنیا میں ہم جو بھی عمل کرتے ہیں، اُس کا یقینی ردِّعمل ہوتا ہے، اگر ہم کوئی اچھا کام کرتے ہیں، تو اس کا اچھا اجر ملتا ہے، اسی طرح برائی کا بُرا نتیجہ نکلتا ہے۔ مذکورہ محاورہ ہم بچپن سے سنتے آرہے تھے، لیکن اس کا عملی مظاہرہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس عُمر میں دکھادیا۔ ہوا یوں کہ میری بیٹی کی ساس کی طبیعت بہت خراب تھی، انھیں دیکھنے اور اُن کی مزاج پُرسی کے لیے مَیں ہر ہفتے اُن کے پاس جاتی۔
واپسی میں کبھی میرا داماد یا کبھی نواسا رکشا کروادیتا۔ ایک دفعہ جب مَیں اُن کے یہاں گئی، تو واپسی میں میرا داماد مجھے رکشا کرواکے دینے کے لیے میرے ساتھ ہی گھر سے باہرآگیا۔ ہم گلی میں آکر کھڑے ہی ہوئے تھے کہ عین اُسی وقت ایک رکشا میری بیٹی کے مکان کے قریب رُکا اور اُس میں سے ایک بزرگ اُترے، جب وہ اپنے گھر کے اندر چلے گئے، تو میرا داماد اُسی رکشے والے سے مجھے گھر تک پہنچانے کے لیے کرایہ طے کرنے لگا۔
اس دوران مَیں رکشے میں بیٹھ گئی۔ غیرارادی طورپرمیری نظریں اپنے پیروں کی طرف گئیں، تو وہاں پانچ پانچ ہزار کے کئی نوٹ پڑے نظر آئے۔ مَیں نے حیرت سے اٹھا کر گِنے تو وہ کُل چھے نوٹ تھے، یعنی تیس ہزار روپے۔ یک بارگی دل میں خیال آیا کہ یہ رقم رکشے سے ملی ہے، لہٰذا رکشے والے کے حوالے کردوں، لیکن پھر کچھ سوچ کر اپنے داماد، احمر کو آوازی دی۔ وہ واپس جانے کے لیے مُڑچکا تھا۔
میرے آواز دینے پر قریب آیا، تو مَیں نے اُس سے کہا، ’’دیکھو یہ روپے شاید اُن بزرگ کے گرگئے ہیں، اُنھیں بُلا کردے دو۔‘‘ رکشے والے کا دھیان ہماری طرف تھا، اس نے یہ سُنتے ہی کہا، ’’امّاں!یہ بزرگ ابھی اپنی پینشن لے کر آئے ہیں۔ لائیں، میں اُن کی رقم انھیں دے آئوں۔‘‘ مَیں نے کہا، ’’نہیں، میرا داماد دے کر آئے گا، تم ساتھ جائو۔‘‘ خیر، اُن دونوں نے گھر کے دروازے پر پہنچ کر دستک دی، تو وہی بزرگ باہر آگئے، وہ میرے داماد کو پہچانتے تھے۔
احمر نے کہا کہ ’’انکل! آپ ابھی کہاں گئے تھے؟‘‘ انہوں نے حیرت و استعجاب سے میرے داماد کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ’’بیٹا! میں پینشن لینے گیا تھا اور ابھی آیا ہوں، خیریت تو ہے، تم یہ بات مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہو؟‘‘ مگر احمر نے الٹا دوسرا سوال پوچھ لیا ’’کہاں ہے آپ کی پینشن؟‘‘ انہوں نے جیب سے چھوٹا پرس نکالا اور کھولا تو رقم ندارد، وہ ایک دَم پریشان ہوگئے۔ کہنے لگے ’’اسی میں تو تھی میری پینشن کی رقم۔‘‘
میرے داماد نے کہا ’’انکل! پریشان مت ہوں، میری ساس صاحبہ کو یہ روپے ملے ہیں، وہ سامنے رکشے میں بیٹھی ہیں، انہوں نے ہی یہ رقم آپ کے حوالے کرنے کے لیے مجھے بھیجا ہے۔‘‘ یہ سُن کر وہ ایک دم خوش ہوگئے اور ڈھیروں دعائیں دینے لگے۔ پھر شام کو وہ بزرگ میری بیٹی کے گھر مٹھائی کے دو ڈبّے لے کر آئے اور میرے داماد احمر کو تھماتے ہوئے ایک بار پھر اظہارِتشکّر کیا اور کہا کہ ’’ایک ڈبّا آپ کے اور دوسرا آپ کی ساس کے لیے۔‘‘
اس واقعے کے چند روز بعد مَیں بھی اپنی پینشن کی رقم، چالیس ہزار روپے بینک سے نکلوا کر اپنی بہن کے ساتھ گاڑی میں گھر واپس آرہی تھی، گاڑی میری خالہ زاد بہن چلارہی تھی۔ گھر کے قریب پہنچتے ہی اچانک مجھے خیال آیا، کیوں نہ درزی سے پردے بھی لیتی چلوں، جو چند روز قبل اُسے سلنے کو دیئے تھے۔ یہ سوچ کر مَیں نے اپنی بہن سے کہا کہ ’’ذرا گاڑی آگے گلی میں درزی کی دکان کے پاس روک دو، میں اپنے پردے اٹھالوں۔‘‘ بہن نے گاڑی واپس موڑ لی اور آگے جاکر ٹیلر کی دکان کے پاس روک دی۔
مَیں فوراً اُتر کر ٹیلر کی دکان پر گئی اور وہاں سے پردے لے کر گاڑی میں رکھنے کے بعد ہم گھر کی طرف روانہ ہوگئے۔ گھر کے قریب پہنچ کرمَیں نے پردے سنبھالے اور گاڑی سے اُترکر دروازے کی طرف بڑھی ہی تھی کہ اچانک میرا دھیان پرس کی طرف گیااور احساس ہوا کہ پرس تو میرے پاس ہے ہی نہیں۔ گاڑی کی سیٹ پر، جہاں مَیں بیٹھی تھی، وہاں اچھی طرح دیکھا، مگر وہاں بھی نہیں تھا، میں نے بہن سے کہا ’’جلدی گاڑی موڑو، میرا پرس کہیں گرگیا ہے۔‘‘ خیر، بھاگم بھاگ ٹیلر کی دکان پر پہنچے، تو خوش گوار حیرت سے آنکھیں کُھلی کی کُھلی رہ گئیں۔
پرس ٹیلر کی دکان کے سامنے ہی پڑا تھا، شاید ابھی تک اس پر کسی کی نظر نہیں پڑی تھی۔ مَیں نے تیزی سے گاڑی سے اُترکر فوراً اٹھالیا اور اللہ تعالیٰ کا شُکر ادا کرنے لگی۔ اُس وقت ذہن میں ایک دَم یہ خیال آیا کہ یہ یقیناً اللہ تعالیٰ نے اُن بزرگ کے ساتھ میری بھلائی کا صلہ دیا ہے۔ اُن بزرگ کے تو 30ہزار تھے، لیکن اس بھلائی کے بدلے اللہ نے میرے چالیس ہزار روپے مجھے لوٹادیئے۔ سچ ہے، ’’کر بھلا، ہوبھلا۔‘‘ (سلمیٰ پروین، کراچی)