عشرت جہاں، (لاہور)
چُھٹّی کے بعد سدرہ نے سارہ کو ساتھ لیا اور دونوں مرکزی بازار کی طرف چل دیں۔ آج اُنہیں تن خواہ ملی تھی اور دونوں بہت خوش تھیں۔ جیب اگر نوٹوں سے بَھری ہو، تو دل بھی خُوشی اور اطمینان سے لب ریز ہو جاتا ہے۔ دونوں کا تعلق ہی متوسّط گھرانے سے تھا، جہاں خواہشات کو غیر ضروری اخراجات کی مد میں گنا جاتا ہے۔ کچھ تو وقت گزاری اور کچھ تنگ دستی دُور کرنے کے لیے دونوں نے کالج سے فراغت کے بعد ایک اچّھے سے مقامی اسکول میں ملازمت اختیار کر لی تھی۔
سدرہ کا رشتہ طے ہو چُکا تھا اور اب گھر میں اُس کی رُخصتی کی تیاریاں جاری تھیں۔ جہیز کے کچھ روایتی سامان کا بندوبست ہو گیا تھا، جو روبینہ بیگم نے سینت سینت کر رکھا ہوا تھا۔ ان میں اُن کے اپنے جہیز کے کچھ بھاری برتن، کام دار کپڑے اور زیورات وغیرہ شامل تھا، لیکن زمانے کے چلن اور تیز رفتاری نے اُنہیں بوکھلا سا دیا تھا۔
نفیس کراکری، شان دار فرنیچر اور ملبوسات وغیرہ سب سونے کے بھائو مل رہے تھے اور اُنہیں سمجھ نہیں آرہی تھی کہ بیٹی کو کس طرح رُخصت کریں۔ پھر پارلر، شادی ہال اور فوٹو سیشن سمیت نہ جانے اور کون کون سی خرافات تھیں، جن سے اس گھرانے کو نمٹنا تھا۔ انہوں نے سدرہ کو ہدایت کر رکھی تھی کہ وہ اپنی تن خواہ اللّوں تللّوں پر اُڑانے کی بہ جائے جہیز کی چھوٹی موٹی چیزیں خرید لیا کرے۔
سو، اس بار سدرہ کا ارادہ بیڈشیٹس خریدنے کا تھا۔ سارہ ہی نے اُسے بتایا تھا کہ ایک اچّھے برانڈ کی سالانہ سیل لگی ہوئی ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ اُسے وہاں مطلوبہ بیڈشیٹس مل جائیں۔ ’’ایک سے بھلے دو‘‘ کے مصداق دونوں نے ایک ساتھ شاپنگ کے لیے جانے کا فیصلہ کیا۔ مارکیٹ میں وِنڈو شاپنگ کرتے ہوئے سدرہ کی نظر فُٹ پاتھ پر لگے کُتب کے ڈھیر پر پڑی، تو وہ بے اختیار ان کی طرف کھنچی چلی گئی اور اپنے من پسند رائٹرز کی کُتب تلاش کرنے لگی۔ ’’اس قوم کا حال تو دیکھو، کتابیں فُٹ پاتھ پر اور جُوتے شان دار، چمکتی دمکتی، ایئر کنڈیشنڈ دُکانوں میں سجا رکھے ہیں۔‘‘ سارہ نے تبصرہ کیا۔
سدرہ اپنے پسندیدہ مصنّفین ممتاز مفتی، مشاق احمد یوسفی، ابنِ انشا اور کرنل محمد خان سمیت دیگر کی کُتب کی خریداری میں اس قدر محو ہو گئی کہ اُسے امّی کی ہدایت یاد ہی نہ رہی اور کچھ ہی دیر میں اُس نے ڈھیر ساری کُتب خرید لیں۔ وہ شاداں و فرحان کُتب سینے سے لگائے گھر میں داخل ہوئی، تو امّی اُسی کی منتظر تھیں۔ ’’امّی دیکھیں، تو سہی… مُجھے اپنے تمام پسندیدہ رائٹرز کی کُتب ایک ہی جگہ مل گئیں۔ ‘‘سدرہ اس قدر خوش تھی کہ بے اختیار چہکتے ہوئے بولی۔ ’’کیوں اُٹھا لائیں اتنی ساری کتابیں…؟‘‘ کتنے پیسے ضایع کردیےتم نےان پر۔تمہیں معلوم نہیں ہے کہ جہیز میں کتابیں نہیں، بلکہ قیمتی سامان دیا جاتا ہے۔ رہتی رہو، احمقوں کی جنّت میں…‘‘امّی نے اُسے گھور کر دیکھا اورجھڑکتی ہوئی باورچی خانے کی طرف چل دیں۔
سدرہ کے لیے امّی کی ڈانٹ غیر متوقع نہیں تھی، لیکن … ’’جہیز میں کتابیں نہیں دی جاتیں۔‘‘ اس جملے نے نہ جانے کیوں، اس کا اندر کاٹ کر رکھ دیا۔ وہ وہیں کتابوں کے ڈھیر کے پاس جیسے خود بھی ڈھیر ہو گئی۔ آنسو پلکوں کی باڑ توڑ کر بہتے رہے اور اُس کی من پسند کتابوں میں قطرہ قطرہ جذب ہوتے چلے گئے۔