مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
29اکتوبر2023ء کے روزنامہ جنگ میں پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ قاضی کی وفات کے حوالے سے چھپنے والی ایک کالمی خبر پڑھتے ہی اُن کی مختصر زندگی کے ماہ و سال، کسی فلم کے رِیل کی طرح ذہن کے پردئہ اسکرین پر چلنا شروع ہوگئے۔ دل اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہی نہیں ہورہا تھا کہ ڈاکٹر شاہدہ قاضی اب اس دنیا میں نہیں رہیں۔ میڈم شاہدہ قاضی سے میری پہلی ملاقات جامعہ کراچی کے شعبۂ ابلاغِ عامہ میں ایم اے پریویس، فرسٹ سیمسٹر کی انگریزی کی کلاس میں ہوئی۔
اس کے بعد پھر پورے دوسال تک روایتی طالبہ کی حیثیت سے تعلق قائم رہا۔ وہ ڈیپارٹمنٹ کی چیئرپرسن اور خاصی رُعب دار شخصیت کی حامل تھیں۔ ہم کلاس فیلوز اکثر اُن کے کمرے کے سامنے والی سیڑھیوں پر بیٹھ کرباتیں کیا کرتے تھے، لیکن جیسے ہی وہ کمرے سے باہر آتیں، سب ڈرکر بھاگ جاتے کہ میڈم ناراض ہوں گی۔
تاہم، تعلیمی مراحل طے کرنے کے بعد جب مجھے جناح یونی ورسٹی برائے خواتین کے شعبۂ ابلاغِ عامہ میں لیکچرر شپ ملی، تو اگلے ہی ماہ میڈم شاہدہ نے بھی جامعہ کراچی سے ریٹائرمنٹ کے بعد بطور چیئرپرسن، شعبۂ ابلاغِ عامہ، جناح یونی ورسٹی برائے خواتین جوائن کرلی اور پھر یہاں سے میرا اور ان کا وہ تعلق شروع ہوا، جس کا زمانۂ طالب علمی میں، مَیں کبھی تصوّر بھی نہیں کرسکتی تھی۔
میڈم انتہائی حسّاس اور انسان دوست شخصیت کی حامل ایک پُروقارخاتون تھیں۔ انھیں جامعہ کراچی کے شعبۂ صحافت کی پہلی طالبہ، پاکستانی صحافت میں پہلی خاتون رپورٹر، پی ٹی وی کی پہلی خاتون پروڈیوسر اور جامعہ کراچی کے شعبۂ ابلاغِ عامہ کی پہلی خاتون استادہونے کا اعزاز حاصل تھا، لیکن بطورکولیگ انھوں نے ہمیں کبھی احساس ہی نہیں ہونے دیا کہ ہم کوئی بہت جونیئر یا ناتجربہ کار ٹیچر ہیں۔
مَیں نے ایم اے کے فوراً بعد ہی ٹیچنگ شروع کردی تھی۔ طالبات اور میری عُمر میں بھی کوئی خاص فرق نہیں تھا، لیکن اس کے باوجود میڈم نے مجھے اسٹوڈنٹس افیئرز کا انچارج مقرر کرکے بِنا کسی روک ٹوک کے، کام کرنے کی مکمل آزادی بھی دے دی۔
مجھے یاد ہے، ایک بار ایک طالبہ کی والدہ نے میڈم کو فون کیا اور کہا کہ ’’ٹیچر،صائمہ فرید، اسائنمنٹ بہت زیادہ دیتی ہیں، جن کی وجہ سے ہماری بیٹی صرف ایک ہی سبجیکٹ کے اسائنمنٹ بنانے میں مصروف رہتی ہے۔‘‘ اس پر میڈم نے خاتون کو جواب دیا کہ ’’صائمہ فرید تو ایسے ہی رپورٹس بنواتی رہیں گی، اگرآپ اپنی بیٹی کو پڑھوانا نہیں چاہتیں، تو یونی ورسٹی چھڑوادیں۔‘‘ اِسے مَیں اپنی خوش قسمتی ہی سمجھتی ہوں کہ میڈم نے ڈیپارٹمنٹ کو ترقی دینے میں جتنی محنت خود کی، اتنا ہی دیگر اساتذہ سمیت مجھے بھی موقع دیا کہ مَیں اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لاسکوں۔
وہ اکثر کہا کرتی تھیں کہ ’’تم ٹیچنگ میں ضائع ہورہی ہو، اتنے اچھے پروگرامز آرگنائز کرتی ہو، اسٹوڈنٹس کو بھرپور انداز میں گائیڈ بھی کرتی ہو، کوئی پی آر فرم جوائن کرلو۔‘‘ انھوں نے کچھ اس طرح پُرخلوص انداز میں حوصلہ افزائی کی کہ مَیں نے جناح یونی ورسٹی برائے خواتین میں بطور پی آر او ایڈیشنل ڈیوٹی بخوبی انجام دے کر جلد ہی اُن کی یہ خواہش بھی پوری کردی۔ میڈم شاہدہ قاضی اُن دنوں جناح یونی ورسٹی برائے خواتین میں ڈین آف آرٹس اور چیئرپرسن، شعبۂ ابلاغِ عامہ تھیں۔ یہ شعبہ اب ’’میڈیا اسٹڈیز‘‘ کہلاتا ہے۔
وہ ہر ایک کے دُکھ درد میں شریک رہتیں، یونی ورسٹی میں اساتذہ کی سال گرہ پر کسی اچھے ریسٹورنٹ میں خصوصی دعوت کا اہتمام کرتیں۔ ہم اُن سے ہر قسم کے موضوع پر بلاجھجک گفتگو کرلیا کرتے تھے، حتیٰ کہ ایک فیملی کی طرح اپنے ذاتی مسائل تک ڈسکس کیا کرتے۔ میڈم دفتری سیاست کو سخت ناپسند کرتی تھیں۔ ہمارے ڈیپارٹمنٹ میں صرف چار کُل وقتی اور تین جزوقتی اساتذہ تعینات تھے، لیکن اس کے باوجود شعبے نے بہت ترقی کی۔ ہم یونی ورسٹی سے باہر کے پروگرامز، مختلف ورکشاپس یا پکنک وغیرہ پر جاتے، تو اکثر میڈم بھی ہمارے ساتھ ہی جاتیں اور اُن کی موجودگی سے ہمیں خاصی تسلّی رہتی۔
میڈم اپنے جذبات کا اظہار بہت کم کیا کرتی تھیں، لیکن اگر ناانصافی، ظلم اور انسانیت کے خلاف کوئی بات ہوتی، تو اس کا بھرپور جواب دیتیں، ایک بار کسی ایونٹ پر ایک صاحب نے اعلیٰ عہدے پر فائز، گندمی رنگت کی حامل کسی خاتون پرطنز کرتے ہوئے کہا کہ ’’جب اُن جیسی خاتون کی شادی ہوسکتی ہے، تو کسی کی بھی ہوسکتی ہے۔‘‘ خالقِ کائنات کی تخلیق کی اس قدر توہین پر وہ صرف بے حد افسردہ ہوئیں، بلکہ اس قدر دل برداشتہ ہوئیں کہ اُسی وقت ملازمت چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا اور پھرجلد ہی استعفیٰ بھی دے دیا۔
میڈم شاہدہ قاضی کے ساتھ بارہ تیرہ برس بطور کولیگ، ہمیں بہت کچھ سیکھنے، سمجھنے کا موقع ملا،اور اُن کی وہ تربیت آج ہمارے بہت کام آرہی ہیں۔ وہ کہا کرتی تھیں کہ ’’کسی کے شر سے محفوظ رہنا چاہتی ہو، تو غلط بات کبھی نہ مانو، نہ ہی کسی ناپسندیدہ بات پر خاموش رہو، اگر کسی کا کوئی عمل ناقابلِ برداشت ہوجائے، تو وہ جگہ ہی چھوڑ دو۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے میڈم کو اولاد کی شکل میں صرف ایک بیٹا ہی عطا کیا، اُن کی کوئی بیٹی نہیں تھی، وہ اپنی زندگی کا اثاثہ اپنے طلبہ ہی کو قرار دیتی تھیں، لیکن مجھے اس بات پربہت فخر ہے کہ وہ مجھے اپنی بیٹی کا درجہ دیتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے، آمین۔ (صائمہ فرید)