• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
معروف مصنف، محقق اور صحافی، یار جان بادینی
معروف مصنف، محقق اور صحافی، یار جان بادینی

بات چیت :وحید زہیر، کوئٹہ

یار جان بادینی خُود کو بلوچی زبان اور بلوچوں کی شناخت کے لیے وقف کر چُکے ہیں۔ وہ دنیا بَھر میں آباد بلوچوں کے ادب و ثقافت کے گم شُدہ آثار کی تلاش میں سرگرداں نظر آتے ہیں اور اس ضمن میں اب تک ترکمانستان، افریقا اور دیگر ممالک میں بلوچوں کی موجودگی، تاریخ اور نقل مکانی کے اسباب معلوم کر چُکے ہیں، جنہیں مختلف رسائل اور کتب کے ذریعے عوام تک پہنچا رہے ہیں۔ 

اس کام کی پذیرائی میں اُنہیں ترکمانستان کے اعزازی قونصل کے اعزاز سے بھی نوازا گیا۔ بلوچی زبان و ادب سے وابستہ ادباء، شعراء، صحافیوں کے علاوہ مُلک بَھر کے اہم سیاست دانوں کے انٹرویوز کرچُکے ہیں اور اس حوالے سے بلوچی ماہ نامے’’ زند ‘‘ کے کئی خصوصی نمبر بھی شائع کر چُکے ہیں۔ گزشتہ دنوں اُن کے ساتھ ایک تفصیلی نشست ہوئی،جس میں ہونے والی گفتگو جنگ، ’’سنڈے میگزین‘‘ کے قارئین کی نذر ہے۔

س: اپنے علاقے، خاندان، تعلیم سے متعلق کچھ بتائیں؟

ج: میرا تعلق نوشکی ہے۔مَیں 1967ء میں پیدا ہوا، میٹرک تک تعلیم نوشکی ہی میں حاصل کی۔خُوب کرکٹ کھیلی اور کرکٹ کا اچھا کھلاڑی ہونے کی بنیاد پر ٹنڈو جام یونی ورسٹی میں داخلہ ملا، جب کہ میرے دوست، معروف سیاست دان، ثناء بلوچ کو فُٹ بال کا کھلاڑی ہونے پر داخلہ دیا گیا۔ ہم دونوں بعد میں کافی عرصے تک ریڈیو اور پاکستان ٹیلی ویژن پر کمپیئرنگ کرتے رہے۔ بعدازاں مَیں نے بلوچی زبان و ادب اور جرنلزم میں بلوچستان یونی ورسٹی سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ 

میرے والد، حاجی عبدالرحمٰن (مرحوم)ایک محنت کش تھے۔ زندگی بَھر کاروبار اور زمین داری میں مصروف رہے۔ ہم تین بہن، بھائی ہیں۔ والد کی خواہش تھی کہ ہم اچھی تعلیم حاصل کریں اور اُن کی یہ خواہش پوری بھی ہوئی۔وہ ہماری مثبت سرگرمیوں پر کُھل کر خرچ کرتے۔ اُنہوں نے ہمیں زمین داری یا تجارت کی طرف راغب کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی، ہمیشہ علم و ادب سے دوستی اور صحافتی امور کی حوصلہ افزائی کرتے۔

س: آپ کو اصل شہرت ترکمانستان اور افریقا کے بلوچوں تک رسائی سے ملی، یہ درست ہے؟

ج: جی، یہ بالکل درست ہے۔ جب مَیں بلوچی زبان کے ماہ نامے’’لبزانک‘‘ کا نمائندہ ہوا کرتا تھا، تو کھیلوں کی خبریں، کھلاڑیوں کے انٹرویوز کے ساتھ دیگر اخبارات و رسائل کی خاص طور پر ورق گردانی کرتا رہتا۔ ایک روز یہ خبر میری نظر سے گزری کہ ترکمانستان کے بلوچوں نے ممتاز سیاست دان، میر غوث بخش بزنجو کے اعزاز میں استقبالیہ دیا ہے، تو مجھے پتا چلا کہ بلوچ نہ صرف پاکستان، بلکہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی آباد ہیں۔یوں یہ جستجو پیدا ہوئی کہ دنیا بَھر کے بلوچوں کی بازیافت پر کام کیا جائے۔ اُن کے وہاں رہائش پذیر ہونے کے اسباب معلوم کیے جائیں اور اُن کے حالاتِ زندگی دنیا کے سامنے لائے جائیں۔

نمایندہ جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے.... عکّاسی: رابرٹ جیمس
نمایندہ جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے.... عکّاسی: رابرٹ جیمس

س: تو اِس ضمن میں کام کا آغاز کیسے کیا؟

ج: مَیں نے اور میرے دوست، نور خان محمّد حسنی نے ترکمانستان جانے کا پروگرام بنایا اور ہمیں یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ وہاں ایک لاکھ سے زائد نفوس پر مشتمل بلوچ آبادی موجود ہے۔ 1930ء میں اُن کے بچّوں کو رومن رسم الخط میں بلوچی زبان پڑھانے کے لیے نصاب مرتّب کیا گیا تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ وہاں کے حُکم ران بلوچی زبان زندہ رکھنا چاہتے ہیں اور اُنھوں نے بلوچ ثقافت کو زمانے کی دست بُرد سے محفوظ رکھنے کی بھی کوشش کی۔ 

یہاں تک کہ وہ اُنہیں جنگوں میں بھی شامل نہیں کرتے تھے تاکہ ان کی شناخت گُم نہ ہوجائے۔ ہماری تحقیق سے پتا چلا کہ وہاں کے بلوچ تجارت کی غرض سے یا قبائلی جنگوں اور خشک سالی سے چھٹکارے کے لیے پاکستان سے افغانستان، ترکمانستان، افریقا اور دیگر ممالک جاکر آباد ہوئے۔پھر ستّر، اسّی سال سے اُن کا اپنے آبائی علاقوں سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔ ہمارے طفیل ان خاندانوں کے ڈانڈے دوبارہ ملے۔ رشتے داروں کی دوبارہ ملاقات ہوئی، تو ان کی خوشی دیدنی تھی۔ بلوچ جہاں بھی آباد ہوتا ہے، وہاں کی ثقافت کے ساتھ جُڑ جاتا ہے۔ اُن کی نئی نسل اب جہاں ہے، وہیں کی زبان بولتی ہے۔

پاکستان ہی کو دیکھ لیں، بلوچی، پنجاب میں پنجابی اور سندھ میں سندھی بولتے ہیں۔اِسی طرح افغانستان میں پشتو، ایران میں فارسی اورعرب ممالک میں عربی بولتے ہیں۔ بہرحال، اِس دورے کے بعد مَیں نے اور نور خان نے وہاں کے بلوچوں پر مضامین لکھے اور اُن کے انٹرویوز شائع کیے۔نیز، ان پر لبزانک رسالے کے خصوصی شمارے بھی شائع کیے۔ مضامین کی اشاعت سے ترکمانستان کے سفارت خانے میں ہماری بہت پذیرائی ہوئی اور مجھے ترکمانستان کے اعزازی قونصل کا اعزاز دیا گیا۔

س: آپ نے افریقا کے بلوچوں پر بھی تو تحقیقی کام کیا ہے؟

ج: پتا نہیں کیسے ترکمانستان کے بلوچوں پر خصوصی رپورٹس کینیا کے بلوچوں تک پہنچی، جس پر اُنہوں نے خطوط کے ذریعے مجھ سے رابطہ کیا۔افغانستان، ترکمانستان اور افریقا کے بلوچ اپنی شناخت کے علاوہ وہاں کی قومی شناخت بھی رکھتے ہیں۔

اُن کے بزرگ ابھی تک مادری زبان ہی بولتے ہیں۔ ممباسا سے نواز بلوچ نے رابطہ کیا، تو مَیں نے اور نور خان نے کینیا جانے کا ارادہ باندھا۔اِس سلسلے میں صوبائی حکومت نے ہماری کافی مدد کی۔ وہاں یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ مختلف شہروں میں بلوچوں کے نام سے آبادیاں، شاہ راہیں اور کمیونٹی ہالز موجود ہیں۔

س: کیا اُن کی بھی یہاں رشتے داریاں نکلیں؟

ج: نہیں، اُن کی زیادہ تر رشتے داریاں ایرانی بلوچستان سے ہیں۔ اُنھیں زیادہ خوشی دوبارہ رابطے، زبان دوستی اور تاریخ سے واقفیت کے باعث ہوئی۔ حال ہی میں وہاں ایک میوزیم قائم کیا گیا ہے، جس کے لیے اُنہوں نے مجھ سے بھی رابطہ کیا، تو ہم نے اس میوزیم کے لیے یہاں سے تاریخی اشیاء، پوشاکیں اور موسیقی کے آلات وغیرہ بھجوائے۔ وہ اِس امر کو سیّاحت کے فروغ کا ذریعہ جانتے ہیں اور اس سلسلے میں سابق ڈائریکٹر ثقافت، عبداللہ بلوچ، سابق گورنر بلوچستان، ذوالفقار مگسی کی اہلیہ، پروین مگسی، سینئر بیورو کریٹ، علی احمد مینگل اور بعض دیگر افراد نے ہماری بھرپور معاونت کی۔

س: ویسے بلوچ دنیا میں کہاں کہاں آباد ہیں؟

ج: مسقط کی ستّر فی صد آبادی بلوچوں پر مشتمل ہے۔ اومان، بحرین، ایران، افغانستان، ممباسا، بھارت غرض بے شمار ممالک میں بلوچ نہ صرف آباد ہیں بلکہ وہاں اُن کی قدیم آبادیاں ہیں۔ کئی ممالک میں وہ بڑے بڑے عُہدوں پر بھی کام کر رہے ہیں اور محنت مزدوری کے شعبے سے بھی وابستہ ہیں، جب کہ تجارت میں بھی الگ پہچان رکھتے ہیں۔ گویا ہر شعبے میں کام یاب ہیں اور ان کی اخلاقی اقدار و روایات اِتنی مستحکم ہیں کہ اُنہیں ہر جگہ قبولیت نصیب ہوئی۔

س: آپ کا جمع کیا ہوا مواد کس شکل میں موجود ہے؟

ج: میرے بھائی باری بلوچ نے’’ زند اکیڈمی‘‘ بنائی ہے، جس کے تحت ہم صوبائی اور قومی سطح پر مختلف سیمینارز کرواتے رہتے ہیں۔ پھر خود بھی مُلک اور بیرونِ مُلک سیمینارز میں شریک ہوتے ہیں۔ لٹریری فیسٹیولز میں رسائل اور کتب کے اسٹالز لگاتے ہیں۔ یہ مواد اردو، انگریزی، بلوچی اور براہوی زبانوں میں دست یاب ہے۔دراصل بلوچستان کے اردو، بلوچی، براہوی، پشتو، فارسی اور دیگر زبانوں کے ادباء و شعراء لگ بھگ ایک جیسی سوچ رکھتے ہیں۔ 

یہ زبانوں کے فروغ میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے ہیں۔ انسانی اقدار کے ساتھ جینے کو اوّلیت دیتے ہیں اور اِس لسانی گُل دستے کی ہر جگہ مثال دی جاتی ہے، مگر اِن کی اُس طرح حوصلہ افزائی نہیں ہوتی، جس کے یہ حق دار ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ علمی و ادبی، صحافتی و ثقافتی اداروں کو سیاست سے پاک رکھنے ہی میں سب کی بہتری ہے۔ بلوچستان میں صحافت مشکل ترین کام ہے۔مختلف پابندیوں کے علاوہ یہاں پرنٹنگ میٹریل بھی کافی منہگا ہے۔

نواب اکبر خان بگٹی کی تصاویر اسمبلی، گورنر ہائوس میں تو آویزاں ہیں، مگر کسی کتاب یا رسالے میں اُن کی تصویر کی اشاعت یا اُن کا تذکرہ ممنوع ہے، تو میڈیا کی آزادی سے بھی کافی غلط فہمیاں دُور ہوسکتی ہیں۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن جیسے قومی اداروں کی عمارات بوسیدہ ہوتی جارہی ہیں۔ حکومتی سطح پر میڈیا انڈسٹری کے فروغ کی کوئی کوشش کی جارہی ہے اور نہ ہی اُس کی تعلیمی سرگرمیاں عام کرنے میں کوئی دل چسپی ہے۔

س: آپ کِن کِن ممالک کا دورہ کر چُکے ہیں؟

ج: افریقا، ازبکستان، کرغزستان، آسٹریلیا، افغانستان، ترکمانستان سمیت کئی ممالک جا چُکا ہوں۔ آسٹریلیا میں بھی کافی بلوچ آباد ہیں۔ وہ ایک صدی قبل یہاں سے اونٹوں کے قافلے لے کر گئے تھے اور پھر وہیں آباد ہوگئے۔

س: آپ اپنا کام کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

ج: قلم اور کتاب دوستی میں ہمارا کردار اہم ہے۔ ہماری ہی کوششوں سے ڈگری کالج، تربت عطا شادؔ جیسے ممتاز شاعر کے نام سے منسوب ہوا۔ پھر ہم تحقیق کے شعبے میں بھی طلبہ کی رہنمائی کر رہے ہیں۔ نئی نسل کو ایک پُرامن اور انصاف پر مبنی ماحول کی فراہمی کے لیے اکابرین کی خواہشات سے آگاہ کرتے ہیں۔میری کوشش ہے کہ نام وَر شخصیات کے زیرِ استعمال اشیاء محفوظ کی جائیں اور اُن کی رہائش گاہوں کو میوزیم کا درجہ دِلوایا جائے۔ 

بلوچستان میں ایک قومی سطح کا میوزیم ہو، جہاں تمام ثقافتیں یک جا ہوں، لیکن حکومتی سطح پر دقیانوسی خیالات کے حامل افراد کے رویّے پر افسوس ہوتا ہے۔ ہر مُلک میں کئی اقوام بستی ہیں، درجنوں زبانیں بولی جاتی ہیں، کئی مذاہب کے پیرو کار ملتے ہیں، لیکن وہاں عوام غیر ضروری معاملات پر دست و گریبان نہیں ہوتے اور نہ ہی ہماری طرح عدم تحفّظ کا شکار ہیں۔ ہمارے ہاں عوام میں ایک دوسرے کے لیے نفرت پیدا کرنے کا معاملہ تشویش ناک ہوتا جارہا ہے۔ 

تعلیمی اداروں کو اکھاڑے کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ ماورائے عدالت سزائیں دی جا رہی ہیں۔ عدالتی نظام شدید تنقید کی زَد میں ہے۔ عوام ہر جگہ عدم تحفّظ کا شکارہیں۔ بدعنوانیاں روکنے کے لیے کوئی ٹھوس کام نہیں ہو رہا، مافیاز ہر جگہ موجود ہیں۔ حکومت کو زبانوں کی ترویج و ترقّی میں دل چسپی لینی چاہیے۔ قوموں اور زبانوں میں اختلافات کی بجائے باہمی محبّت و احترام کے فروغ کے لیے کام کی ضرورت ہے،جس کے لیے آئین کی پاس داری اور قانون کی صحیح معنوں میں حکم رانی اوّلین شرط ہے۔

س: آپ کے رسالے کے کن موضوعات پر خصوصی نمبرز شایع ہوئے؟

ج: مَیں نے 1999ء میں’’ زند ‘‘ کے نام سے جس رسالے کا ڈیکلریشن لیا، وہ چاغی کا پہلا باقاعدہ رسالہ ہے۔ نام وَر صحافیوں ملک پناہ، کریم شورش، آزاد جمالدینی، عطا شادؔ، عبداللہ جان جمالدینی، سیاست دانوں میں سردار فاروق لغاری، گل خان نصیرؔ، عطاء اللہ مینگل، بلخ شیر مزاری، میر غوث بخش بزنجو، حاصل خان بزنجو، ترکمانستان کے بلوچ، اومان، مسقط، افریقا کے بلوچ اور کئی دیگر موضوعات پر خصوصی نمبرز شایع کرچُکا ہوں۔تین سفرنامے بھی چَھپ چُکے ہیں اور انٹرویوز بھی جلد کتابی شکل میں سامنے آ رہے ہیں۔

س: آپ کے خیال میں بلوچستان کے اہم مسائل کیا ہیں؟

ج: باقی باتیں تو چھوڑیں، حالیہ سیلاب سے تین چار پُل کوئٹہ، کراچی شاہ راہ پر زمین بوس ہوئے، جنہیں سال بھر ہونے کو ہے،مگر ابھی تک مرمّت یا ازسرِنو تعمیر کا کام شروع نہیں ہوسکا۔بولان میں ریلوے کا ایک پُل گر چُکا ہے۔ کوئٹہ سے ٹرین کے ذریعے دیگر صوبوں کو جانے والوں کو مچھ اور سبّی سے ٹرین سروس دی جارہی ہے، مگر پُل بنانے کے کوئی آثار نہیں۔ 

باقی گیس، سیندک، ریکوڈک اور گوادر سے متعلق بلوچوں کے مطالبات بھی سب کے سامنے ہیں۔ان کے مطالبات میں تعلیم، روزگار اور تعمیر و ترقّی بھی شامل ہے، جسے غلط طور پر سازش کا نام دیا جاتا ہے۔ پاکستان کا ہر باشعور، حسّاس دل رکھنے والا شخص بلوچستان کے معاملے پر ناراض ہے۔ سندھ، پنجاب اور کے پی کے عوام بھی اِسی قسم کے مطالبات پیش کرتے رہے ہیں، اُن کے لیے ہمیشہ نرم گوشہ رکھا گیا، تو اگر ایسا ہی نرم گوشہ بلوچستان کی حساسیت سمجھتے ہوئے وہاں کے عوام کے لیے بھی رکھا جاتا، تو حالات اِس نہج تک نہیں پہنچتے۔