• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں جب کبھی کراچی جیم خانہ یا سندھ کلب جاتا ہوں تو مجھے تقسیم ہند سے قبل کا وہ دور یاد آجاتا ہے جب ہندوستان پر انگریزوں کا تسلط تھا اور ان عمارتوں کے باہر ایک تختی نصب تھی جس پر تحریر تھا کہ ’’یہاں کتوں اور ہندوستانیوں (مقامی افراد) کا داخلہ ممنوع ہے۔‘‘ اس دور میں ان کلبوں اور جیم خانہ میں شام ڈھلتے ہی انگریزوں کی رقص و سرود کی محفلیں اور شراب کا دور شروع ہوجاتا تھا۔ حالانکہ ان محفلوں میں شریک انگریزوں کو ویٹروں کی یونیفارم میں ملبوس مقامی افراد شراب اور سور کے گوشت سے تیار کئے گئے کھانے پیش کیا کرتے تھے لیکن یہاں مقامی افراد کا داخلہ ممنوع تھا۔ آج انگریزوں کا تسلط ختم ہوچکا ہے لیکن ان کلبوں اور جیم خانہ کی دیواروں پر آج بھی انگریز دور کے حکمرانوں کی تصاویر آویزاں ہیں جو اُن کی عصبیت اور نسل پرستی کی بنیاد پر ہمارے بزرگوں کے ساتھ کی گئی زیادتیوں کی یاد دلاتی ہیں۔
انگریزوں کے تسلط کے خاتمے اور قیام پاکستان کے بعد ہم اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ اب نسل پرستی اور عصبیت کا دور ختم ہوچکا ہے مگر گزشتہ دنوں اخبار میں شائع ہونے والی ایک خبر مجھے ایک بار پھر انگریز دور میں لے گئی۔ خبر کے مطابق اسلام آباد کی انتظامیہ اور پولیس نے دارالحکومت کے متمول علاقے میں واقع ایک فرنچ ریسٹورنٹ کو اس بنیاد پر بند کردیا کہ ریسٹورنٹ میں پاکستانیوں کا داخلہ ممنوع تھا۔ اطلاعات کے مطابق مقامی انتظامیہ کو کافی عرصے سے یہ شکایات موصول ہورہی تھیں کہ ریسٹورنٹ میں پاکستانیوں کو داخلے کی اجازت نہیں دی جارہی۔ ان اطلاعات پر انتظامیہ اور پولیس کے دو اہلکاروں نے ریسٹورنٹ میں داخلے کے لئے خود کو جرمن اور کینیڈین شہری ظاہر کیا جس پر ریسٹورنٹ کی انتظامیہ نے صورت سے پاکستانی نظر آنے والے ان اہلکاروں سے پاسپورٹ طلب کیا اور پاسپورٹ نہ دکھانے پر ریسٹورنٹ کی انتظامیہ نے انہیں داخلے سے روک دیا جس کے بعد اسسٹنٹ کمشنر اسلام آباد نے پولیس کے ہمراہ ریسٹورنٹ پر چھاپہ مار کر بڑی تعداد میں شراب کی بوتلیں برآمد کرلیں جبکہ اس دوران ریسٹورنٹ میں موجود امریکی اور یورپی باشندے شراب پیتے ہوئے پائے گئے۔ کمشنر کے مطابق ریسٹورنٹ میں کیسینو بھی قائم تھا اور یہ انوکھا ریسٹورنٹ تھا جہاں مقامی افراد کو داخلے کی اجازت نہیں تھی۔
تعجب اور حیرانی اس بات پر ہے کہ پولیس نے محض خانہ پری کے لئے ریسٹورنٹ کے 2 پاکستانی ملازموں کو گرفتار کرلیا جبکہ ریسٹورنٹ کا مالک فرانسیسی شہری فلپ لافورگ ابھی تک آزاد گھوم رہا ہے اور غیر ملکی میڈیا کو اپنی مظلومیت کی داستان سنارہا ہے۔ فلپ لافورگ کا موقف ہے کہ فرانسیسی لفظ ’’لامیزاں‘‘ کا مطلب گھر ہوتا ہے، اس طرح یہ ریسٹورنٹ میرا گھر ہے اور مجھے کسی کو مدعو کرنے یا نہ کرنے کا مکمل اختیار حاصل ہے۔ اس کے بقول لامیزاں ریسٹورنٹ خالص فرانسیسی کھانوں کے لئے کھولا گیا ہے جو سور کے گوشت سے تیار کئے جاتے ہیں اور ان میں شراب کی آمیزش بھی کی جاتی ہے، اس طرح یہ کھانے مسلمانوں کے ایمان سے مطابقت نہیں رکھتے اور وہ پاکستانیوں کے لئے فرنچ کھانوں کی ترکیبیں نہیں بدل سکتا، اس لئے یہاں پاکستانیوں کو داخلے کی اجازت نہیں۔
فرانس نے شاید مادی ترقی کی معراج کو پالیا ہے مگر یہ ترقی اُسے مذہب، انسانیت اور تہذیب و تمدن سے دور لے گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فرانس اخلاقی و معاشرتی لحاظ سے انتہائی پستی کی جانب گامزن ہے۔ فرانس کا صدر فرانسوا اولاند جو کئی سالوں سے شادی کے بغیر اپنی گرل فرینڈ جسے خاتون اول کا اعزاز حاصل تھا، کے ساتھ زندگی گزار رہا تھا، آج اُس کے ایک اداکارہ کے ساتھ معاشقے کے چرچے دنیا بھر میں عام ہیں۔ فرانس میں بڑی تعداد میں مسلمان آباد ہیں اور ایک اندازے کے مطابق فرانس میں تقریباً 65 لاکھ مسلمان مقیم ہیں، اس طرح اسلام، فرانس کا دوسرا بڑا مذہب ہے۔ فرانس میں کچھ عرصے قبل مسلمان خواتین کے حجاب پہننے پر پابندی کا قانون نافذ کیا گیا تھا جس کی رو سے اگر کوئی مسلمان خاتون اس قانون کی خلاف ورزی کرتی ہے تو اسے گرفتار کرلیا جاتا ہے۔ فرانس ہی وہ ملک ہے جس نے تعلیمی اداروں میں مسلمان بچیوں کے اسکارف پہننے پر پابندی عائد کررکھی ہے جو انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کے خلاف ہے۔ یہ بڑی حیران کن اور تعجب خیز بات ہے کہ ایک جانب فرانس میں مسلمان خواتین کے حجاب پہننے اور اسکارف اوڑھنے پر پابندی عائد ہے تو دوسری جانب وہاں کے لوگوں کو ساحلوں پر کپڑوں کے بغیر جانے کی کھلی اجازت ہے، اس طرح عریانیت قانون کے زمرے میں جبکہ جسم ڈھانپنے کا عمل خلاف قانون ہے۔
افسوس کہ پاکستان جیسےاسلامی ملک میں آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فرانس کا ایک شہری اپنے ریسٹورنٹ میں سور کے گوشت کے کھانے اور شراب فروخت کررہا ہے اور اس نے وہاں پاکستانیوں کا داخلہ ممنوع قرار دے رکھا ہے لیکن بالفرض اگر کوئی مسلمان یا پاکستانی، فرانس میں حلال کھانوں کا کوئی ریسٹورنٹ کھولے اور وہ وہاں مقامی لوگوں کا داخلہ ممنوع قرار دے تو کیا فرانسیسی حکومت اس کی اجازت دے گی؟ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ ریسٹورنٹ کے مالک نے مقامی انتظامیہ سے درخواست کی ہے کہ وہ ریسٹورنٹ کو پرائیویٹ کلب کا درجہ دیدے تاکہ اُسے پاکستانیوں کو داخلے سے روکنے کی قانونی حیثیت حاصل ہوجائے۔ اگر انتظامیہ ایسا کرتی ہے تو اُسے شدید عوامی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا اور قوم سراپہ احتجاج بن جائے گی۔رنگ و نسل اور مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ تفریق کرنا پاکستان کے آئین کے منافی ہے۔
حکومت پاکستان کو چاہئے کہ آئین کی خلاف ورزی کرنے پر ریسٹورنٹ کے مالک کو گرفتار کرکے اُسی طرح سزا دے جس طرح فرانس میں خواتین کو حجاب پہننے اور اسکارف اوڑھنے کے جرم میں دی جاتی ہے تاکہ آئندہ کوئی انگریز دور کے نسل پرستی کی بنیاد پر بنائے گئے کالے قانون کو پاکستان میں نافذ کرنے کی جرأت نہ کرسکے۔
تازہ ترین