دیگر شعبۂ ہائے زندگی کی طرح سائنس کے میدان میں بھی مسلمانوں نے کارہائے نمایاں انجام دیے، جن سے انسانیت آج بھی فیض یاب ہو رہی ہے۔ ان مسلمان سائنس دانوں میں جابر بن حیّان قابلِ ذکر ہیں، جنہیں دُنیا ’’بابائے کیمیا‘‘ کے نام سے یاد کرتی ہے۔ جابر بن حیّان 721ء میں ایران کے علاقے، طوس میں پیدا ہوئے۔ اُن کا آبائی پیشہ عطر فروشی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اُنہوں نے مختلف تجربات کی مدد سے کئی نئے عطر بھی ایجاد کیے۔
جابر بن حیّان ایران سے مدینہ منتقل ہوئے اور یہاں حضرت امام جعفر صادقؒ کے دستِ مُبارک پر بیعت کر کے اُن کے مُریدوں میں شامل ہو گئے۔ دُنیا سے بے رغبتی اور سادگی کی وجہ سے بعض روایات میں اُنہیں اسلام کا پہلاصوفی بھی قرار دیا گیا ہے۔بعدازاں، وہ مدینے سے کوفہ چلے گئے اور وہاں اُنہوں نے کیمیا گری کا آغاز کیا۔ اس مقصد کے لیے اُنہوں نے ایک باقاعدہ تجربہ گاہ بھی قائم کی، جس میں وہ ہمہ وقت مختلف کیمیائی دھاتوں پر تجربات میں مصروف رہتے۔
جابر بن حیّان کے دَور میں کیمیا گری ”مہوسی“ (پارے، تانبے یا چاندی جیسی دھاتوں کو سونے میں تبدیل کرنےکا علم) تک محدود تھی۔ گرچہ ابتدا میں انہوں نے بھی ان ہی تجربات پر توجّہ مرکوز رکھی، لیکن پھر کیمیا گری کو ایک باقاعدہ علم کے طور پر متعارف کروایا۔ جب جابر بن حیّان کی شُہرت بغداد پہنچی، تو اُنہیں وہاں طلب کر لیا گیا۔ وہاں انہیں سرکاری پزیرائی ملی، تو انہوں نے اس میدان میں ترقّی و استحکام حاصل کیا۔ وہ اکثر کہتے تھے کہ ’’کیمیا میں سب سے ضروری شے تجربہ ہے۔‘‘
جابر بن حیّان نے اپنے تجربات سے ثابت کیا کہ تمام دھاتیں گندھک اور پارے سے مل کر بنی ہیں۔ نیز، وہ اپنے ہم عصر کیمیا دانوں کی طرح اس نظریے کے بھی حامی تھے کہ عام دھاتوں کو سونے میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ چُناں چہ اُنہوں نے جو تجربات کیے، اُنہیں قلم بند کرتے رہے اور تجربات میں حد درجہ دِل چسپی کی وجہ سے سونے کی طلب کی جگہ علم کیمیا کا حصول اُن کی زندگی کا مطمحِ نظر بن گیا۔ جابر بن حیّان کا سب سے بڑا کارنامہ تیزاب کی ایجاد ہے اور ان میں گندھک، شورے اور نوشادر کے تیزاب شامل ہیں۔ انہوں نے سب سے پہلے ’’شورے کا تیزاب‘‘ ایجاد کیا۔
بعد ازاں، مختلف دھاتوں کے ساتھ نوشادر کو ملا کر تجربہ کیا، تو ایک ایسا تیزاب وجود میں آیا کہ جس نے سونے کو بھی پگھلا دیا۔ جابر بن حیّان نے اس تیزاب کو ”ماء الملوک“ (بادشاہوں کا پانی) کا نام دیا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ سونا زیادہ تر بادشاہ ہی استعمال کرتے ہیں۔ انہوں نے لوہے پر بھی کئی تجربات کیے اور بتایا کہ لوہے کو کس طرح فولاد بنایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح انہوں نے لوہے کو زنگ سے بچانے کا طریقہ بھی متعارف کروایا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے ’’موم جامہ‘‘ ایجاد کیا۔
یاد رہے، موم جامہ ایک ایسا کپڑا ہوتا ہے، جس پر پانی اثر نہیں کرتا۔ جابر بن حیّان نے چمڑے کو رنگنے کا طریقہ بھی دریافت کیا، پھرخضاب ایجاد کیا اور شیشے کو رنگین بنانے کے طریقے بھی متعارف کروائے۔
جابر بن حیّان نے بہت سی کُتب لکھیں، لیکن اُن کی سب سے مشہور کتاب، ”کتاب الکیمیا“ ہے، جس میں اُنہوں نے بہت سے کیمیائی تجربات اور دھاتوں کی خصوصیات کا ذکر کیا ہے۔ اس کتاب کا کئی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا اور اس سے مغرب نے بھی خاصا استفادہ کیا۔ انہوں نے اپنی اَن تھک محنت، ذہانت اور قابلیت کی بہ دولت کیمیا کے میدان میں ایک منفرد مقام حاصل کیا۔ جابر بن حیّان نے 815ء میں 94برس کی عُمر میں کوفے میں وفات پائی۔
ہمیں جابر بن حیّان کی زندگی سے جُستجو، ہمّت، لگن اور حوصلے کا پیغام ملتا ہے۔ نیز، یہ بھی پتا چلتا ہے کہ کسی ایک فن میں مہارت حاصل کرنا اور اُسی پر اپنی تمام تر توجّہ مرکوز کرنا ہی کام یابی کی کلید ہے۔ علاوہ ازیں، جابر بِن حیّان نے امام جعفر صادقؒ کی مُریدی اختیار کر کے یہ بھی باور کروایا کہ سائنسی اور یونانی علوم حاصل کرنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ انسان مذہب ہی سے دُور ہوجائے، بلکہ انہوں نے کیمیا گری کے ساتھ تصوّف اور اخلاقیات پر بھی خاصا زور دیا۔
آج ضرورت اس اَمر کی ہے کہ ہم بھی جابر بن حیّان کی طرح اپنے اخلاق و کردار کو سنواریں اور کسی ایک فن میں مکمل مہارت حاصل کریں۔ نیز، سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں خُوب آگے بڑھیں، کیوں کہ آج ان علوم کے بغیر ترقّی ممکن ہی نہیں۔