• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اچھے شعراء کا کمال یہی ہوتا ہے کہ وہ بڑے سے بڑے سانحے کو بھی دل گداز جذبوں اور بلند انسانی اقدار کے ساتھ ہم آہنگ کرکے آفاقی بنا دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لطیف احساسات رکھنے والے شعراء نے بڑی باریک بینی سے متحدہ پاکستان کے دو لخت ہونے کا تجزیہ کیا اور کئی نئے زاویوں سے سقوطِ ڈھاکا کے خوں چُکاں مناظر کو غیرجانب دارانہ انداز میں پیش کیا۔ اُنہوں نے مقتل میں بہنے والے ہر بے گناہ قطرۂ خون کو اپنے قلم کی روشنائی سے مشعلِ راہ بنادیا۔ 

سقوطِ مشرقی پاکستان کی دیدۂ عبرت نگاہ تصویرمیں، چند اہلِ فکرو نظر شعراء نے اپنےخونِ جگر سے دل فگار رنگ بَھرے اور ایک حقیقت پسندانہ متوازی تاریخ رقم کی۔ اس وادیٔ پُرخار میں نمایاں طور پر اگرچہ فیض احمد فیضؔ اپنی آبلہ پائی سے سُرخ لکیر کھینچتے نظر آتے ہیں، مگر اُن کے علاوہ دیگر سخن وَروں نے بھی نہایت پُر اثر انداز میں طبع آزمائی کی ہے۔1971ء کے المیے سے متعلق فیض احمد فیضؔ کی ایک غزل کو عوام النّاس سے بہت پذیرائی حاصل ہوئی۔ 

فیض نے جب جون 1974ء میں ذوالفقار علی بھٹّو کے وفد کا حصّہ بن کر بنگلا دیش کا دورہ کیا، تو قوی اُمید تھی کہ بنگلا دیش اور پاکستان کے دوطرفہ تعلقات خوش گوار ہو جائیں گے، لیکن شیخ مجیب الرحمٰن کی سرد مہری نے تمام اُمیدوں پر پانی پھیر دیا، جس کا تذکرہ آغا ناصر نے اپنی کتاب ’’ہم جیتے جی مصروف رہے‘‘ میں کیا ہے۔ فیض احمد فیضؔ نے واپسی پر فی البدیہہ چند اشعار سپردِ قرطاس کیے اور بذریعہ ڈاک شیخ مجیب الرحمٰن کو بھجوا دئیے۔ اُن میں سے دو شعر، جو اُس دورِ پُر آشوب کی الم ناک انداز میں عکّاسی کرتے نظر آتے ہیں، پیشِ خدمت ہیں۔؎’’ہم کہ ٹھہرے اجنبی، اِتنی مداراتوں کے بعد…پھر بنیں گے آشنا، کتنی ملاقاتوں کے بعد… کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار… خُون کے دھبّے دُھلیں گے، کتنی برساتوں کے بعد… تھے بہت بے درد لمحے ختمِ دردِ عشق کے… تھیں بہت بے مہر صُبحیں مہرباں راتوں کے بعد… دل تو چاہا، پر شکستِ دل نے مہلت ہی نہ دی…کچھ گلے شکوے بھی کر لیتے، مناجاتوں کے بعد… اُن سے جو کہنے گئے تھے فیضؔ جاں صدقہ کیے… اَن کہی ہی رہ گئی وہ بات، سب باتوں کے بعد۔‘‘ 1971ء کی پاک، بھارت جنگ نے، جس کے اثراتِ بد کے نتیجے میں مشرقی پاکستان، بنگلا دیش بنا، فیضؔ کے دل پر گہرے اثرات مرتّب کیے۔ اُنہوں نے نصف درجن سے زاید غزلوں اور نظموں میں اپنی کیفیتِ رنج و الم کو بھرپور شعریت کے ساتھ رقم کیا۔یوں تو سانحۂ مشرقی پاکستان کے خون آشام واقعے نے لاکھوں افراد کو دُکھوں کے ایک لامتناہی کرب میں مبتلا کر دیا، لیکن اسے فیض نے ایک اور غزل میں منفرد طرزِ اسلوب کے ساتھ بیان کیا ہے۔؎’’ کہیں تو کاروانِ درد کی منزل ٹھہر جائے…کنارے آلگے عمرِ رواں یا دل ٹھہر جائے۔‘‘

فیض کے ہم عصر شاعر، ناصر کاظمی بھی بڑے مؤثر انداز میں سقوطِ ڈھاکا پر خامہ فرسائی کرتے دِکھائی دیتے ہیں۔ اُن کی صدائے احتجاج تابہ محشر با ضمیر افرادِ عالم کے اذہان پر دستک دیتی رہے گا۔ اُدھر 71ء کی پہلی سہ ماہی کے بعد مشرقی پاکستان کی سر زمین مقتل گاہ بنی، اِدھر ناصر کاظمی علیل ہو کر اسپتال میں داخل ہو گئے۔ جس کے ساتھ، اُن کی رُوح بھی ایسی بیمار ہوئی کہ آنکھیں ہر وقت لہو روتی رہتیں۔یہاں تک کہ لہو رنگ مناظر نقشِ فریادی بن کر کاغذی پیراہن زیبِ تن کیے ماتم کُناں نظر آنے لگے۔ ایک غزل میں کہتے ہیں۔؎ ’’یہاں تک آئے ہیں، چھینٹے لہو کی بارش کے…وہ رَن پڑا ہے، کہیں دوسرے کنارے پر۔‘‘ 

ناصر کاظمی کا رنج و الم اُن کے چہرے سے زیادہ اُن کے شفق رنگ مصرعوں سے نمو پذیر دِکھائی دیتا ہے۔؎ ’’جنّت ماہی گیروں کی… ٹھنڈی رات جزیروں کی…سبز، سنہرے کھیتوں پر… پھواریں سُرخ لکیروں کی۔‘‘ اختر لکھنوی کا، جنہوں نے پہلی ہجرت بھارت سے ڈھاکا کی طرف کی اور پھر دوسری ہجرت ڈھاکا سے کراچی کرنی پڑی، شعری مجموعہ’’دیدۂ تر‘‘ عُمدہ و اعلیٰ کلام سے مرصع ہونے کے ساتھ ایک ایسی تاریخی دستاویز ہے، جس میں متاثرینِ المیہ کے دُکھوں کا تذکرہ ہے کہ کس طرح مکتی باہنی کے غنڈوں نے بے شمار شیر خوار بچّوں کے سر کاٹ کر اُنہیں نیزوں پر بلند کیا، عورتوں کی ناموس سے کھیلتے رہے، لاکھوں افراد گھروں سے محروم ہو گئے یا بے گناہ ہونے کے باوجود سفاکیت سے شہید کر دئیے گئے۔ 

اُن کی ایسی شعری تخلیقات سامنے آئیں جن جس سے دل لہو ہو کر آنکھوں سے بہہ نکلے۔؎ ’’دو نسلوں کی کشتی تھی، وہ پچھلے دنوں جو ڈوب گئی…بھیگے جسموں والو! لگے گا تم کو سنبھلتے وقت بہت۔‘‘ اختر لکھنوی اپنی ایک نظم میں مسلسل رِستے ہوئے زخموں کو کچھ اِس طرح دکھاتے ہیں۔؎ ’’ مفتوح ہے، پامال ہے، تاراج ہے ڈھاکہ…دشمن نے شکنجوں میں کَسا، آج ہے ڈھاکہ۔‘‘ اردو زبان اور شاعری سے عشق کرنے والے سخن وَر، نصیر ترابی نے بھی سقوطِ ڈھاکا پر ایک غزل نُما نظم لکھی، جو کسی جگر خراش نوحے سے کم نہیں۔؎ ’’وہ ہم سفر تھا، مگر اُس سے ہم نوائی نہ تھی… کہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا، جدائی نہ تھی… نہ اپنا رنج، نہ اوروں کا دُکھ، نہ تیرا ملال… شبِ فراق کبھی ہم نے یوں گنوائی نہ تھی… محبّتوں کا سفر، اِس طرح بھی گزرا تھا… شکستہ دل تھے مسافر، شکستہ پائی نہ تھی… عداوتیں تھیں، تغافل تھا، رنجشیں تھیں بہت…بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا، بے وفائی نہ تھی… بچھڑتے وقت اُن آنکھوں میں تھی ہماری غزل…غزل بھی وہ، جو کسی کو ابھی سُنائی نہ تھی…کبھی یہ حال کہ دونوں میں یک دِلی تھی بہت… کبھی یہ مرحلہ جیسے کہ آشنائی نہ تھی… عجیب ہوتی ہے راہِ سخن بھی دیکھ نصیرؔ… وہاں بھی آ گئے آخر، جہاں رسائی نہ تھی۔‘‘

المیۂ مشرقی پاکستان کے کثیر الجہتی اثرات نے شاعروں کے لیے ایک چیلنجنگ میدان فراہم کیا۔ مجید امجد نے شعوری طور پر سانحے کے اندوہ ناک واقعات کا ادراک کیا اور انہیں نئے زاویے سے اشعار کے پیراہن میں ڈھالا۔ اُن کی غزل ’’جنگ بھی، تیرا دھیان بھی، ہم بھی‘‘ اُن کے علم و فن کی غمّاز ہے۔؎’’ جنگ بھی، تیرا دھیان بھی، ہم بھی…سائرن بھی، اَذان بھی، ہم بھی۔‘‘ مجید امجد ایک دوسری نظم میں کچھ ایسے نغمہ خواں ہوتے ہیں۔؎ ’’پھولوں میں سانس لے کہ برستے بموں میں جی…اب اپنی زندگی کے مقدّس غموں میں جی…جب تک نہ تِری فتح کی فجریں طلوع ہوں…بارود سے اَٹی ہوئی اِن شبنموں میں جی۔‘‘16دسمبر 1971ء کو متحدہ پاکستان کا دولخت ہو جانا، تاریخِ پاکستان کا ایک ایسا خوں چکاں سانحہ ہے، جو ہمیشہ لہو کے آنسو رُلاتا رہے گا۔ 

معروف و جداگانہ لب و لہجے کے شاعر، حبیب جالبؔ نے بھی اس کرب کو بڑی شدّت سے محسوس کیا۔ اُن کی نظم ’’بگیا لہو لہان‘‘ اس المیے میں ہونے والی غارت گری کی عکّاسی کرتی ہے۔؎ ’’ ہریالی کو آنکھیں ترسیں، بگیا لہو لہان…پیار کے گیت سنائوں کس کو، شہر ہوئے ویران۔‘‘سانحۂ مشرقی پاکستان پر محمّد عبدالحمید صدیقی نظر لکھنوی نے بھی لہو میں ترمژگاں کے ساتھ ایک طویل نظم ’’سقوطِ ڈھاکا‘‘ کے عنوان سے لکھی۔ اُس کا ایک شعر ہے۔؎ ’’ ارزانیٔ اموات ہے، چیخوں کی صدائیں…نم ناک ہوائیں ہیں، تو غم ناک فضائیں۔‘‘ 

ڈاکٹر فخر عباس بھی مشرقی بنگال کے المیے سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ اُس دورِ الم ناک کی منظر نگاری ایسے کرب میں ڈوب کر اس طرح کرتے ہیں کہ قلم لہو اُگلتا نظر آتا ہے۔؎ ’’ جو کام ہوا، ناپاک ہوا…دھرتی کا سینہ چاک ہوا…وہ پیار نہیں ہے بانہوں میں…وہ گیت نہیں ہیں راہوں میں…اب ایک نہ ہو گا صدیوں میں…جب دیس بَٹا، دو ٹکڑوں میں۔‘‘ محمّد اظہارالحق دردِ ملّت رکھنے والے نہایت مخلص، محبّ ِ وطن شاعر ہیں، لہٰذا جب اس لہو آشام المیے سے اُن کے دل کو ٹھیس پہنچی، تو خون کے آنسو بہاتے ہوئے گویا ہوئے۔؎ ’’ سر پر کتنے ہی لڑھکتے ہوئے سنگ، آہ! گرے…ہم جو چوٹی پہ تھے، کس کھائی میں ناگاہ گرے…دل دہکتا ہے تِرے درد کے ہالے کی طرح…ایسا لگتا ہے کہ سینے میں شبِ ماہ گِرے…قربتیں، حوصلے، رگ رگ میں مچلتا ہوا خون…ایک اِک کر کے زمیں پہ مِرے بدخواہ گِرے۔‘‘

شہرِ لاہور کے جانے پہچانے شاعر، واجد میر نے المیۂ مشرقی پاکستان پر ایک کمال کی نظم لکھی، جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔اُنھوں نے بہترین تشبیہات، علامات اور اشاروں کنائیوں سےمرصّع کاری کی ہے۔ نظم کا ہر مصرع آہ وزاری کرتاہوا کلیمِ طورِ سخن نظر آتا ہے۔نظم اُجڑے شہروں اور دیاروں کی ایسی منظر نگاری کرتی ہے کہ بے اختیار دل، لہو بن کرآنکھوں سے بہہ جانا چاہتا ہے یا یوں سمجھیے کہ یہ نظم سقوطِ ڈھاکا کا ایسا نوحہ ہے، جس میں الفاظ کے پردے میں فرد کو ملّت سے مربوط رکھنے کا ڈھنگ سِکھایا جا رہا ہے۔؎ ’’ سرسراتے ہوئے، اِٹھلاتے ہوئے دھان کے کھیت…کھیت سے صحن تلک اُٹھتی مہک چاول کی…بوریا بُنتے تھے پٹ سَن کے سنہری ریشے…جس پہ ہم بیٹھ کے ایک ساتھ پڑھا کرتے تھے…ٹاٹ کا ٹھاٹ کوئی کیسے بُھلا سکتا ہے…چائے کے باغ وہ پوروں کی نگہبانی میں…جال مچھلی سے بَھرے، نائو بَھری کنبے سے…اِتنا پانی کہ جہاں حدِّ نظر کام کرے…ہم الائو کی بُجھی راکھ مَلے چہروں پر…اجنبی نظروں سے کب تک تمہیں دیکھیں بھائی۔‘‘16دسمبر 1971ء کو تقریباً چوتھائی صدی کے بعد ہی مشرقی پاکستان کا متحدہ پاکستان سے علیٰحدہ ہو کر بنگلا دیش بن جانا ایک ایسا زخم ہے، جو ہر محبِّ پاکستان کے سینے میں ہمیشہ ہرا رہے گا۔ اس سانحے نے لہو آمیز، شفق رنگ شاعری تخلیق کرنے میں نہایت مؤثر کردار ادا کیا۔ جدائی کا یہ گھائو اِس قدر گہراتھا کہ وہ شاعر، جو 1971ء کے وقت بہت کم سِن تھے یا پھر اُس کے بعد پیدا ہوئے، اُنہوں نے بھی اِس حسّاس موضوع پر خامہ فرسائی کی، کیوں کہ بہرحال شاعر کی وجدانی آنکھ، روزِ ازل سے روزِ ابد تک کے تمام واقعات کے مناظر اپنے ذہن کے پردۂ سیمیں پر ملاحظہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ 

رانا عرفان شہود 16 اپریل 1982ء کو عارف والا(ضلع پاک پتن) میں پیدا ہوئے۔ المیۂ سقوطِ ڈھاکا سے متعلق کیا خُوب لکھتے ہیں۔؎ ’’ہم بھی رمنا کے آنسو بہت پی چُکے…دوریوں کی خزاں جی چُکے…کاٹیے، یہ جو پہلوں کی غفلت سے بوئی ہوئی فصل ہے…عید ملیے کہ ہم دوسری نسل سے ہیں۔‘‘ عصرِ رواں کے ایک اور مسلّمہ شاعر، محمد سعید اللہ قریشی، جو28 دسمبر 1982ء کو پیدا ہوئے، اپنی نظم ’’ڈھاکا کا اندمال‘‘ میں تجزیاتی انداز کو شعریت میں سموتے ہوئے، چشمِ ادراک سے 1971ء کے عنوان پر کچھ ایسا طرزِ اسلوب اختیار کرتے ہیں۔؎ ’’ کائناتی صحیفوں میں مستور ہے…یہ ازل سے ہی فطرت کا دستور ہے…جب پرندے کے پر پھڑ پھڑانے لگیں…اور دیوار و دَر چر چرانے لگیں…یا کسی پھل سے رَس باہر آنے لگے…تو یہ سمجھو کہ وقت اس کا پُورا ہوا…اور وہ اگلے سفر کو روانہ ہوا۔‘‘

16 دسمبر1971ء، سقوطِ ڈھاکا کی شب وہ لہو رُلانے والی رات تھی، جس نے احمد ندیم قاسمی کی آنکھوں سے خون کا ایسا دریا جاری کر دیا، جو مرتے دَم تک رواں رہا۔ خون فشانی کی طغیانی لیے اُن کا قلم نوحہ خواں ہوا۔؎ ’’ مَیں روتا ہوں…مَیں روتا ہوں…اے ارضِ وطن…مَیں روتا ہوں…المیوں کی، تانبے کی طرح تپتی ہوئی زرد فصلوں کے آئینوں میں…جب خُود کو مقابل پاتا ہوں…مَیں روتا ہوں…مَیں جب بھی اکیلا ہوتا ہوں…مَیں روتا ہوں…اے ارضِ وطن مَیں روتا ہوں۔‘‘ امجد اسلام امجد نے بھی سانحۂ مشرقی پاکستان پر نظم کی صُورت عُمدہ و اعلیٰ اشعار کا گُل دستہ پیش کیا۔؎ ’’ہم گناہ گار ہیں…اے زمینِ وطن…ہم تیرے دُکھ سمندر سے غافل رہے…تیرے چہرے کی رونق دھواں ہو گئی…اور ہم رہینِ حدیثِ غمِ دل رہے…ظلم کے رُو برو لب کُشائی نہ کی…اِس طرح ظالموں میں بھی شامل رہے…حشر آور دِنوں میں جو سوئے رہے…ہم وہ بے دار ہیں…ہم گنہگار ہیں…اے زمین وطنِ…ہم گنہگار ہیں۔‘‘ پانچ کتب کے مصنّف، نجف علی شاہ بخاری نے بھی سقوطِ ڈھاکا پر ایک غزل کہی ہے اور 71ء کے المیے پر اس غزل کا مطلع گویا، دو مصرعوں میں پورے سانحے کی تاریخ سمیٹے ہوئے ہے۔؎’’ دولخت ہوا ہوں، کبھی تنظیم ہوا ہوں…مَیں منفی رویّوں سے ہی تقسم ہوا ہوں۔‘‘دو شعری مجموعوں کے خالق، سعید راجا نے بھی سانحۂ مشرقی پاکستان سے متاثر ہو کر غزل کہی، حالاں کہ جب یہ المیہ ظہور پذیر ہوا، اُس وقت وہ صرف ڈیڑھ سال کے تھے۔؎’’ ہنستے ہنستے رو پڑتا ہوں، خُود کو ہے سمجھانا مشکل…گھائو سعید ہے اِتنا گہرا، جیون میں بَھر جانا مشکل۔‘‘