• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اللہ ہر شے پر قادر ہے: مولانا احمد رضا خان بریلویؒ حضرت وہب کا ایک قول تحریر فرماتے ہیں کہ ’’سب سے پہلے جس شخص کو حضرت مریم ؑ کے حاملہ ہونے کا علم ہوا، وہ اُن کا چچا زاد بھائی یوسف نجار تھا، جو مسجد بیت المقدس کا خادم اور انتہائی عابد وزاہد شخص تھا۔ اُسے جب معلوم ہوا کہ حضرت مریم ؑ تو حاملہ ہیں، اُسے نہایت حیرت ہوئی۔ 

وہ جب بھی بی بی مریم ؑپر تہمت لگانے کا ارادہ کرتا، تو اُنؑ کی عبادت و تقویٰ اور ہر وقت کا حاضر رہنا، کسی وقت غائب نہ ہونا، یاد کرکے خاموش ہوجاتا اور جب حمل کا خیال کرتا، تو اُنھیں بُرا سمجھنا مشکل معلوم ہوتا۔ بالآخر ایک دن اُس نے حضرت مریم ؑسے کہا کہ ’’میرے دل میں ایک بات آئی ہے، ہرچند چاہتا ہوں کہ زبان پر نہ لائوں، مگر اب صبر نہیں ہوتا، آپ اجازت دیں گی، تو مَیں کہہ دوں گا، اس طرح میرے دل کی پریشانی رفع ہوجائے گی۔‘‘ حضرت مریم ؑ نے فرمایا۔ ’’اچھی بات ہے، کہو، کیا کہنا چاہتے ہو؟‘‘ 

اُس نے کہا۔ ’’اے مریم ؑ! مجھے بتائو کہ کیا کھیتی بغیر تخم کے، درخت بغیر بارش کے اور بچّہ بغیر باپ کے ہوسکتا ہے؟‘‘ حضرت مریم ؑ نے فرمایا کہ، ’’ہاں، تجھے معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو سب سے پہلی کھیتی پیدا کی، وہ بغیر تخم ہی کے پیدا کی اور اپنی قدرت سے بغیر بارش کے درخت اُگائے، کیا تُو یہ کہہ سکتا ہے کہ اللہ پانی کے بغیر درخت پیدا کرنے پر قادر نہیں؟‘‘ یوسف نے کہا۔ ’’مَیں یہ تو نہیں کہتا۔ بے شک، مَیں اس کا قائل ہوں کہ اللہ ہر شے پر قادر ہے۔ جسے کُن کہہ دے، وہ ہوجاتی ہے۔‘‘ 

حضرت مریم ؑ نے کہا کہ ’’کیا تجھے معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام اور بی بی حوّا علیہا السلام کو بغیر ماں، باپ کے پیدا کیا۔‘‘ حضرت مریم ؑ کے اس کلام سے یوسف نجار کا شُبہ رفع ہوگیا۔ حضرت مریم ؑ حمل کی وجہ سے ضعیف ہوگئی تھیں۔ اس لیے وہ خدمتِ مسجد میں اُن کی نیابت کا فریضہ انجام دینے لگا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم ؑکو الہام کیا کہ وہ اپنی قوم سے علیٰحدہ چلی جائیں، اس لیے وہ بیت اللحم میں چلی گئیں۔‘‘ (کنزالایمان، تفسیر سورئہ مریم ؑ، صفحہ441)۔

قرآنِ کریم میں حضرت عیسیٰ ؑ کا تذکرہ: قرآنِ کریم کی تیرہ سورتوں میں مختلف ناموں سے حضرت عیسیٰ ؑ کا تذکرہ موجود ہے۔ 26مقامات پرعیسیٰ ؑ، 23 مقامات پر ابنِ مریم ؑ، 11 جگہوں پر مسیح اور ایک مقام پر عبداللہ کہا گیا۔ قرآنِ کریم کی انیسویں سورت، سورئہ مریم ؑ آپ کی والدہ ماجدہ کے نام پر ہے۔ قرآنِ مجید کی تیسری سورت، سورئہ آلِ عمران آپؑ کے نانا اور حضرت مریم ؑ کے والد کے نام سے منسوب ہے۔ قرآن ِمجید کی پانچویں سورت، سورۃ المائدہ میں اُس کھانے کا ذکر ہے، جس کی فرمائش حضرت عیسیٰ ؑ کے حواریوں نے کی تھی۔ قرآنِ کریم میں انبیاء کے حوالے سے سب سے زیادہ ذکر،حضرت عیسیٰ ؑ کا کیا گیا ہے۔ قرآن اور حدیث میں اُن کے حالات تمام نبیوں سے زیادہ بیان کیے گئے ہیں۔

نبی آخرالزماںؐ کے آنے کی بشارت: اللہ تعالیٰ نے سب سے زیادہ انبیائے کرام ؑ، بنی اسرائیل پر مبعوث فرمائے، جب کہ اُن کے آخری نبی حضرت عیسیٰ ابنِ مریم ؑتھے۔ آپ نے قوم کو خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کی خوش خبری دی۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’اور جب ابنِ مریم ؑ نے کہا، اے بنی اسرائیل! مَیں تمہارے پاس اللہ کا بھیجا ہوا ہوں اور میں بشارت دیتا ہوں ایک پیغمبر کی، جو میرے بعد آئیں گے۔ جن کا نام احمدؐ ہوگا۔‘‘(سورۃ الصف، آیت 6)۔ چناں چہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد560سال تک کوئی رسول نہیں آیا۔ 

پھر اللہ تعالیٰ نے نبی آخرالزماں، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سارے جہانوں کے لیے رحمت بناکر مبعوث فرمایا اور اپنی آخری کتاب، قرآنِ مجید نازل فرمائی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر تیس سال کی عُمر میں انجیل نازل فرمائی اور تین سال بعد آپؑ کو آسمان پر اُٹھالیا، اُس وقت عُمرِمبارکہ تینتیس سال تھی۔ ارشادِ ربّانی ہے۔ ’’اور ہم نے ان پیغمبروں کے بعد عیسیٰ ابنِ مریم علیہ السلام کو انجیل عنایت کی، جس میں ہدایت اور نور ہے۔‘‘(سورۃ المائدہ، 46)۔

عیسیٰ ابنِ مریم ؑ کی ہجرت: جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام سات سال کے ہوئے، تو والدہ نے آپ کو مدرسے بھیجنا شروع کردیا۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب آپ دیگر بچّوں کے برعکس کھیل کُود میں وقت ضائع کرنے کے بجائے اللہ کی طرف سے الہام کردہ عجائبات کا نظارہ کرتے اور لوگوں سے حکمت و دانائی کی باتیں بیان فرماتے۔ چناں چہ اُس وقت کے بنی اسرائیل کے کاہنوں نے اُنہیں اپنے لیے بہت بڑا خطرہ سمجھتے ہوئے اُن کے خلاف سازشیں شروع کردیں۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب حضرت زکریا علیہ السلام بنی اسرائیل کے پیغمبر تھے، لیکن یہودی اپنی سابقہ روایات اور عاداتِ خبیثہ کے باعث اپنے نبی کی نافرمانی اور تکذیب کرتے تھے۔ 

یہ لوگ نہ صرف مشرکانہ طور طریقے اختیار کیے ہوئے تھے، بلکہ اُن کے مذہبی رہنمائوں نے اپنی خواہشات کے مطابق تورات میں بھی ردّوبدل کرلیا تھا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کے عقائد و اعمال بد سے بدتر ہوتے چلے جارہے تھے اور اب اُنہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بھی خطرہ محسوس ہونے لگا تھا، جب بیت المقدس کے حالات زیادہ خراب ہوئے، تو حضرت مریم ؑ آپ کو لے کر اپنے عزیزوں کے پاس مصر چلی گئیں۔ تیرہ سال بعد اللہ تعالیٰ کے حکم سے مصر سے واپس بیت المقدس آئیں۔ جہاں اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ ابنِ مریم ؑکو اپنی مقدّس کتاب، انجیل عطا فرمائی اور نو خاص معجزات سے سرفراز فرمایا۔

اللہ نے نبیوں کو معجزات عطا فرمائے: اللہ تبارک تعالیٰ نے ہر نبی کو اُس زمانے کے حالات و مشاہدات کے مطابق معجزے عطا فرمائے۔ جیسے حضرت دائود اور حضرت سلیمان علیہم السلام کو منطق الطیر، تسخیر، ہوا، طیور اور جنّات کی تابع داری کے معجزات سے نوازا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نو کُھلے معجزات عطا فرمائے، جن میں نشانِ عصا اور یدِ بیضا کے ساتھ بحیرئہ قلزم میں غرقِ فرعون اور نجاتِ قومِ موسیٰ کا واقعہ، عظیم معجزات میں سے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام پر دہکتی آگ کے شعلوں کو گُلِ گل زار کردیا۔ 

حضرت اسماعیل علیہ السلام کو آبِ زم زم کا عظیم معجزہ عطا فرمایا۔ حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی، حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی، حضرت یونس علیہ السلام کا مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہنا، یہ سب معجزات ہی تو تھے، اور پھر نبی آخرالزماں، حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے عظیم معجزہ، قرآنِ پاک عطا فرمایا۔ اس کے علاوہ شق القمر سے لے کر بدر کی فتح سمیت اَن گنت معجزات ہیں، جو حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائے۔ اسی طرح ربِّ ذوالجلال نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی معجزات سے سرفراز فرمایا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے، ترجمہ:’’اور عیسیٰ ابنِ مریم ؑ کو ہم نے کُھلی نشانیاں (معجزات) عطا کیں۔‘‘ (سورۃ البقرہ، آیت نمبر 253)۔

حضرت عیسیٰ ابنِ مریم ؑ کے نو معجزات: قرآنِ کریم میں ربّ العزت نے حضرت عیسیٰ ابنِ مریم علیہ السلام کے جن معجزات اور فضیلتوں کا ذکر فرمایا ہے، وہ مختصراً درج ہیں۔1۔ حضرت عیسیٰ ابنِ مریم ؑکو والد کے بغیر پیدا فرمایا۔2۔ آغوشِ مادر میں کلام کرکے اپنی والدہ کی پاکیزگی اور صداقت کی گواہی دی۔3۔ پرندے کی شکل یا مٹّی کا پرندہ بناتے، اس پر پھونک فرماتے، تو اللہ کے حکم سے اس میں جان پڑجاتی۔4۔ پیدائشی نابینا کی آنکھوں پر ہاتھ رکھتے، تو اللہ کے حکم سے اس کی بینائی واپس آجاتی۔5۔ برص، جذام اور کوڑھ کے مریضوں کواللہ کے حکم سے صحت یاب فرما دیتے۔6۔ اللہ کے حکم سے مُردوں کو زندہ کردیتے۔7۔ لوگ جو کچھ گھروں سے کھاکر آتے، یا جو کچھ اپنے گھروں میں ذخیرہ کرتے، اُس کی تفصیل بتادیتے۔8۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بنی اسرائیل کی پھانسی سے محفوظ فرماکر زندہ سلامت آسمانوں پر اُٹھالیا۔9۔ قُربِ قیامت، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دنیا میں نزول ہوگا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک امّتی کی حیثیت سے مسلمانوں کے ساتھ جہاد کریں گے۔ دجّال اور خنزیر کو قتل کردیں گے۔ صلیب توڑ ڈالیں گے۔ زمین میں امن و برکت کا دَور دورہ ہوگا اور صرف دینِ اسلام باقی رہ جائے گا۔ روضۂ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ کی تدفین ہوگی۔

اللہ تعالیٰ کے پانچ وعدے: قرآنِ کریم میں حق تعالیٰ نے یہودیوں کے مقابلے میں حضرت عیسیٰ ؑ سے پانچ وعدے فرمائے۔ جن کی تفصیل سورئہ آلِ عمران کی آیت 55میں ہے۔1۔ پہلےوعدے کے مطابق، حضرت عیسیٰ ابنِ مریم ؑکی وفات یہودیوں کے ہاتھوں سولی دیئے جانے سے نہیں ہوگی، بلکہ وقتِ مقررہ پر طبعی طور پر ہوگی۔2۔ سلامتی کے ساتھ عالمِ بالا کی طرف اُٹھا لینے کا جو وعدہ تھا، اُسی وقت پورا کردیا گیا۔3۔ تیسرا وعدہ، انہیں دشمنوں کی تہمتوں سے پاک کرنے کا تھا۔ وہ اس طرح پورا ہوا کہ جب نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، تو آپؐ نے یہود کے سب الزامات کی تردید فرماتے ہوئے حضرت عیسیٰ ابنِ مریم علیہ السلام کے نبی اور رسول ہونے کی تصدیق فرمائی۔4۔ چوتھا وعدہ، آپ کے تابع داروں کو آپ کے منکرین پر قیامت تک غالب رکھا جائے گا۔ جب سے اللہ نے یہ وعدہ فرمایا تھا، اُس وقت سے آج تک ہمیشہ یہی مشاہدہ ہوتا چلا آیا ہے کہ بمقابلہ یہود، نصاریٰ اور مسلمان غالب رہے۔ (جہاں تک اسرائیل کی موجودہ حکومت کا تعلق ہے، تو اس کی حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں کہ یہ امریکا اور یورپ کے نصاریٰ کی مرہونِ منّت ہے اور مسلمانوں کے خلاف اُن کی ایک مشترکہ چھائونی ہے، جس دن مغرب کے یہ نصاریٰ اس کے سر سے ہاتھ اٹھالیں گے، تو بہت جلد دنیا کے نقشے سے اس کا وجود مٹ جائے گا۔) 5۔ پانچواں وعدہ، قیامت کے روز ان مذہبی اختلافات کا فیصلہ فرمانے کا ہے، جو اپنے وقت پر ضرور پورا ہوگا۔ جیسا کہ سورئہ آلِ عمران کی آیت 55میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ترجمہ:’’پھر سب میرے پاس لوٹ کر آئوگے، تو جن باتوں میں تم اختلاف کرتے تھے، اُس دن تم میں اُن کا فیصلہ کردوں گا۔‘‘(معارف القرآن، 76/2)۔

حضرت عیسیٰ ؑ کے حواری: ’’حواری‘‘ حور سے ماخوذ ہے، جس کے لغوی معنی سفیدی کے ہیں۔ حضرت عیسیٰ ؑ کے چند مخلص ساتھی سفید پوشاک زیبِ تن کیا کرتے تھے، اِس لیے انہیں حواری کا لقب دیا گیا۔ جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کو ’’صحابی‘‘ کے لقب سے ملقّب کیا گیا ہے۔ حوارین کی تعداد کے بارے میں اختلاف ہے، تاہم، اکثر مؤرخین نے ان کی تعداد 12بیان کی ہے۔ حواری کا لفظ مددگار کے معنیٰ میں بھی بولا جاتا ہے۔ حدیثِ مبارکہ ؐ میں ارشاد ہے کہ ’’ہر نبی کا کوئی حواری، یعنی مخلص ساتھی ہوتا ہے، میرے حواری زبیرؓ ہیں۔‘‘ (صحیح بخاری، 2846-2847) لفظ حواری، انبیاء علیہم السلام کے مخلص مددگارساتھیوں کے لیے کہا گیا ہے، چناں چہ یہ لفظ کسی بُرے شخص کے ساتھیوں کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نہ تو کوئی گھر تھا اور نہ ہی بیوی، بچّے۔ آپ شہرشہر، قریہ قریہ دینِ حق کی تبلیغ فرماتے اور حسبِ ضرورت اپنے معجزات سے بندگانِ خدا کی مدد فرماتے، لیکن اس سب کے باوجود یہودی سردار اور کاہن انہیں اپنے خودساختہ اور گم راہ کُن نظریات کا دشمن سمجھتے ہوئے اذیت دینے، تکذیب پہنچانے اور رنج و غم میں مبتلا کرنے سے باز نہ آتے۔ 

نبوّت کے منکرین میں گنتی کے چند افراد ایسے ضرور تھے، جو آپؑ کے پیروکار، ہم درد و غم خوار تھے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جب یہ دیکھا کہ بنی اسرائیل معجزات کے ظہور کے باوجود آپؑ کی نبوّت کے منکر ہیں اور سختی سے کفر پر جمے ہوئے ہیں، تو پھر آپؑ نے فرمایا، (ارشادِ باری تعالیٰ ہے) ’’اللہ کی راہ میں میری مدد کرنے والا کون کون ہے؟‘‘ حواریوں نے جواب دیا، ’’ہم اللہ تعالیٰ کی راہ میں آپ کے مددگار ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور آپ گواہ رہیے کہ ہم تابعِ دار ہیں۔‘‘ (سورئہ آلِ عمران، 52)۔

آسمان سے مائدہ (دسترخوان) نازل کیے جانے کی فرمائش: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواری نہایت مخلص اور فرماں بردارتھے، لیکن ایک دن انہوں نے حضرت عیسیٰ ؑ سے ایک عجیب مطالبہ کردیا، جسے ربّ ذوالجلال نے قرآن میں یوں بیان فرمایا۔ ترجمہ:’’حواریوں نے کہا کہ اے عیسیٰ ابنِ مریم ؑ! کیا تمہارا پروردگار ایسا کرسکتا ہے کہ ہم پر آسمان سے طعام کا خوان نازل کرے؟‘‘ حضرت عیسیٰ ؑ نے اُن کا مطالبہ سُنا تو فرمایا۔ ’’اگر تم ایمان دار ہو، تو اللہ سے ڈرتے رہو۔‘‘ وہ بولے ’’ہماری یہ خواہش ہے کہ ہم اس میں سے کھائیں اور ہمارے دل تسلّی پائیں اور ہمیں یہ بھی یقین ہوجائے کہ تم نے ہم سے سچ کہا ہے اور ہم اس خوان کے نزول پر گواہ رہیں۔‘‘ 

حواریوں کے مطالبے پر حضرت عیسیٰ ابن مریم ؑ نے دُعا کی کہ ’’اے ہمارے پروردگار! ہم پر آسمان سے دسترخوان نازل فرما کہ وہ دن ہمارے لیے عید قرار پائے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ’’بے شک، میں وہ دسترخوان تم پر اُتاروں گا، پھر اس کے بعد جو کوئی تم میں سے ناشُکری کرے گا، تو میں اُسے ایسی سزا دوں گا، جو دنیا میں کسی کو نہ دی ہوگی۔‘‘ (سورۃ المائدہ، آیات نمبر111تا 115)۔ لفظ مائدہ، خوان یا دسترخوان کے لیے استعمال ہوا ہے۔ ایسا دستر خوان جس پر کھانا چُنا جائے، مائدہ کہلاتا ہے۔ (جاری ہے)