• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حضرت مریم ؑ کی والدہ کی دُعا اور منّت: حنّہ بنتِ فاقوذ بن قبیل نہایت برگزیدہ خاتون تھیں۔ حضرت دائود علیہ السلام کے خانوادے سے تعلق تھا۔ اللہ تعالیٰ نے مال و دولت سمیت ہر طرح کی آسائش سے نوازا، لیکن اولاد کی نعمت سے محروم تھیں۔ اُن کے شوہر عمران بن ہاشم بھی عابدوزاہد، متقّی و پرہیزگار شخص تھے، جن کا شمار بنی اسرائیل کے بڑے عالموں میں ہوتا تھا۔ گرمیوں کی ایک سہ پہر کا ذکر ہے، بی بی حنّہ اپنے گھر کے صحن میں درختوں کے نیچے آرام کررہی تھیں کہ اچانک اُن کی نظر درخت کی ایک ٹہنی پر پڑی، جہاں ایک چڑیا اپنے معصوم بچّے کو دانہ کِھلانے میں مصروف تھی۔ 

بچّے سے ماں کی بے لوث محبّت کے اس منظر نے حنّہ کی ماں بننے کی خواہش کو دوبارہ جگا دیا۔ بے اختیار ربّ ِذوالجلال کی بارگاہ میں ہاتھ بلند کردیئے اور عاجزی و انکساری کے ساتھ دُعا گو ہوئیں، ’’اے پروردگار! اسی طرح مجھے بھی اولاد عطا فرما۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے اپنی نیک بندی کی دُعا قبول فرمائی اور بی بی حنّہ کا حمل ٹھہرگیا۔ 

اس خُوش خبری کے بعد انہوں نے اللہ تعالیٰ سے منّت مان لی، جس کا ذکر قرآنِ کریم میں باری تعالیٰ نے یوں فرمایا، ترجمہ: ’’جب عمران کی بیوی نے کہا، اے میرے ربّ! جو کچھ میرے پیٹ میں ہے، سب سے آزاد کرکے مَیں نے تیری نذر کیا۔ سو، تُو مجھ سے قبول فرما، بے شک تُو ہی سُننے والا، جاننے والا ہے۔‘‘ اور جب بچّی پیدا ہوئی، توکہنے لگیں کہ ’’اے میرے ربّ! مَیں نے تو وہ لڑکی جَنی ہے۔ اور جو کچھ اُس نے جنا ہے، اللہ اُسے خُوب جانتا ہے، اور بیٹا، بیٹی کی طرح نہیں ہوتا، اور مَیں نے اِس کا نام مریم رکھا اور میں اِسے اور اِس کی اولاد کو شیطان مردود سے بچا کر تیری پناہ میں دیتی ہوں۔‘‘ (سورۂ آلِ عمران، آیات نمبر 35،36)۔

حضرت مریم ؑ بیت المقدس میں: لڑکی پیدا ہونے پر بی بی حنّہ کو یہ احساس ضرور ہوا کہ میں نے جو منّت مانی تھی، وہ تو پوری نہ ہوسکے گی، اس لیے کہ ایک لڑکی کس طرح بیت المقدس کی خدمت کرسکے گی؟ لیکن اللہ تعالیٰ نے اُن کے اس افسوس کو یہ کہہ کر بدل دیا کہ ’’ہم نے تیری لڑکی ہی کو قبول کیا ہے اور اس کی وجہ سے تمہارا خاندان بھی معزّز اور مبارک قرار پایا۔‘‘ حضرت حنّہ نے بیٹی کا نام مریم رکھا۔ سریانی زبان میں اس کے معنی خادم کے ہیں۔ چوں کہ یہ مسجد کے لیے وقف کردی گئی تھیں، اس لیے یہ نام موزوں سمجھا گیا۔ 

ابنِ اسحاقؒ کہتے ہیں کہ حنّہ ابھی حاملہ ہی تھیں کہ اُن کے شوہرعمران کا انتقال ہوگیا۔ (فتح الباری، جِلد6،صفحہ نمبر364)۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے والد کا نام بھی عمران تھا اور حضرت مریم علیہا السلام کے والد کا بھی۔ مضمون میں عمران سے مُراد مریم علیہا السلام کے والد ہیں۔ والدہ حنّہ وصیت کے مطابق حضرت مریم علیہا السلام کو لے کر بیت المقدس پہنچ گئیں۔ یہ وہی مقدس جگہ ہے، جہاں کے سب سے بڑے امام، مریم علیہا السلام کے والد عمران تھے، لیکن اُن کا انتقال ہوچکا تھا، گو کہ اُس وقت مسجد کے مکمل انتظامات حضرت زکریا علیہ السلام کے پاس تھے، لیکن سب سے بڑے امام کی بیٹی ہونے کے ناتے اماموں میں سے ہر ایک کی خواہش یہ تھی کہ اس مقدّس امانت کا کفیل اُسے بنایا جائے، لیکن حقیقت یہ تھی کہ اس امانت کی پرورش و تربیت کا اہل، حضرت زکریا علیہ السلام سے زیادہ کوئی نہیں تھا۔

اس لیے کہ وہ مریم علیہا السلام کی خالہ ایشاع (ایشع) کے شوہر بھی تھے۔ بیت المقدس کے معزز امام اور اللہ کے نبیؑ بھی تھے۔ اس لیے سب سے پہلے انہوں نے نام پیش کیا، مگر جب سب اماموں نے اس خواہش کا اظہار کیا، تو باہمی کش مکش کے اندیشے کے پیشِ نظر آپس میں یہ طے پایا کہ قرعہ اندازی کے ذریعے فیصلہ کرلیا جائے۔ بنی اسرائیل کی روایت کے مطابق، تین مرتبہ قرعہ اندازی کی گئی، لیکن ہر مرتبہ حضرت زکریا علیہ السلام کا نام نکلا۔ اماموں نے جب یہ دیکھا کہ اس معاملے میں تائیدِ غیبی حضرت زکریا علیہ السلام کے ساتھ ہے، تو انہوں نے بخوشی اس فیصلے کے سامنے سرِتسلیم خم کرلیا۔ اور اس طرح یہ ’’سعیدامانت‘‘ حضرت زکریا علیہ السلام کے سپرد کردی گئی۔ (قصص القرآن، حفظ الرحمٰن سیوہاروی 304/4)۔

قرآنِ کریم میں بی بی مریم ؑکا ذکر: حضرت مریم علیہا السلام کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ ربّ ذوالجلال نے انہیں جہانِ عالم کی بیبیوں کے مقابلے میں منتخب فرماکر ولایت کے اعلیٰ ترین درجے پر فائز کیا۔ قرآنِ کریم کی انیسویں سورت آپ کے نام سے منسوب ہے، جس میں حضرت مریم ؑ بنّتِ عمران اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قصّہ تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ قرآنِ کریم کی تیسری سورت، سورۂ آلِ عمران، حضرت مریم علیہا السلام کے والدِ ماجد کے نام پر ہے۔

جس میں حضرت مریم علیہا السلام کی پیدائش کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ قرآنِ کریم میں لفظ ’’مریم‘‘ کا ذکر چار سورتوں میں گیارہ بار آیا ہے۔ (سورۂ آلِ عمران، آیات 36،37، 42، 43، 44،45میں6مرتبہ)، سورۃ النساء کی آیات16اور27میں (2مرتبہ)، سورۂ مریم ؑ آیات16اور27(دو مرتبہ) اور سورئہ تحریم، آیت12 (1بار) یعنی باقاعدہ نام کے ساتھ کل گیارہ مرتبہ ذکر آیا ہے۔جب کہ’’ابنِ مریم ؑ ‘‘ کے طور پر23مرتبہ ذکر آیا ہے۔ سورۂ مریم ؑ میں 10مرتبہ، سورۂ توبہ، سورۃ المومنوں، سورۃ الاحزاب، سورۃ الزخرف، سورۂ حدید، سورۃ المومنوں میں ایک ایک مرتبہ اور سورۃ الصف میں دو مرتبہ۔

فضائل و مناقب: حضرت مریم بنتِ عمران علیہا السلام، اللہ تعالیٰ کی برگزیدہ ہستی تھیں۔ انبیاء علیہم السلام کے خاندان سے تعلق تھا۔ حضرت دائود علیہ السلام کی اولاد سے تھیں۔ آپ کے والد حضرت عمران کا شمار، بنی اسرائیل کے بڑے عابد و زاہد افراد میں ہوتا تھا۔ مفسّرین و ائمہ کرام نے آپ کو بہت سے ناموں سے یاد کیا ہے۔ جن میں سے چند یہ ہیں۔ مادرِعیسیٰ علیہا السلام، صائمہ، راقبہ، ساجدہ، صدیقہ، طاہرہ، پاک بی بی وغیرہ۔ آپ ہر وقت، ہر لمحہ عبادتِ الٰہی میں مصروف رہتی تھیں۔ 

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلام نے حضرت مریم علیہا السلام کو اپنے زمانے کی سب سے بہترین خاتون قرار دیا۔ ایک اور حدیث میں حضرت مریم علیہا السلام کو دنیا کی چار بہترین خواتین میں سے ایک قرار دیا۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے، صحیح بخاری احادیث 3433، 3769، 3432، 3418)۔حضرت مریم علیہا السلام کے فضائل و مناقب کی تائید خود قرآنِ کریم نے بھی فرمائی ’’اور جب فرشتوں نے کہا ’’اے مریم ؑ ! اللہ تعالیٰ نے تمہیں برگزیدہ کرلیا اور تمہیں پاک کردیا اور سارے جہانوں کی عورتوں میں سے تمہارا انتخاب کرلیا۔‘‘ (سورئہ آلِ عمران، آیت نمبر 42)۔

حضرت زکریا ؑکی کفالت میں: حضرت زکریا علیہ السلام نے معصوم مریم علیہا السلام کو گود میں لیا، ہیکل سے متصل اپنے گھر میں داخل ہوئے اور بچّی کو اپنی اہلیہ ایشاع کی گود میں دے دیا۔ خالہ نے نہایت ناز و نعم کے ساتھ بچّی کی پرورش کے فرائض انجام دیئے۔ بعض روایات کے مطابق، ایک انّا کو خادمہ رکھ کر دودھ پلوایا اور بعض روایات میں ہے کہ حضرت مریم علیہا السلام کو دودھ پینے کی حاجت ہی نہ ہوئی۔ 

حضرت مریم علیہا السلام جب کچھ سمجھ دار ہوئیں، تو حضرت زکریا علیہ السلام نے بحکمِ خداوندی انہیں مسجد سے متصل ایک عمدہ مکان میں رکھا۔ حضرت زکریا علیہ السلام جب کبھی کہیں باہر جاتے، تو اس دروازے کو قفل لگا کر جاتے، پھر آکر کھولتے اور جب حضرت مریم علیہا السلام کے پاس جاتے، تو وہاں کھانے پینے کی عمدہ چیزیں اور بغیر موسم کے تازہ ترین پھل دیکھ کر حیران رہ جاتے اور پوچھتے ’’اے مریم ؑ ! یہ لوازمات تمہارے پاس کہاں سے آتے ہیں؟‘‘ جواب دیتیں، ’’میرا اللہ میرے لیے بھیجتا ہے۔ بے شک، وہ جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے۔‘‘ اس واقعے کا ذکر سورۂ آلِ عمران کی آیت 37میں ہے۔ اس موقعے پر حضرت زکریا علیہ السلام نے بھی اپنے لیے اولاد کی دعا فرمائی۔ حالاں کہ حضرت زکریا ؑ اور اُن کی اہلیہ ضعیف العُمر تھے، لیکن اُنھیں قدرتِ الٰہی پر کامل یقین تھا، چناں چہ اللہ تعالیٰ نے انہیں یحییٰ علیہ السلام کی صُورت، بیٹا عطا فرمایا اور اُنھیں بھی نبوّت سے سرفراز کیا۔

حضرت مریم ؑ کو بیٹے کی بشارت: ایک روز بی بی مریم علیہا السلام گھر کے اندر مشرقی جانب ایک گوشے میں تشریف لے گئیں۔ اُن کا مشرقی گوشے میں جانا کسی غرض کے لیے تھا۔ اس میں مختلف احتمالات اوراقوال ہیں۔ بعض نے کہا کہ وہ غسل کے لیے اس گوشے میں گئی تھیں، جب کہ بعض کے مطابق، انھوں نے حسبِ عادت عبادتِ الٰہی میں مشغول ہونے کے لیے محراب کی مشرقی جانب کے کسی گوشے کو اختیار کیا تھا۔ علامہ قرطبیؒ نے اس دوسرے احتمال کو احسن قرار دیا ہے۔ 

حضرت ابنِ عباسؓ سے منقول ہے کہ نصاریٰ نے اپنا قبلہ مشرق کی جانب بنایا اور اس جانب کی تعظیم کرتے ہیں، اس کی وجہ یہی ہے۔ علامہ شبیر احمد عثمانیؒ، سورۂ مریم کی تفسیرمیں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت جبرائیل علیہ السلام، نوجوان خُوب صُورت مَرد کی شکل میں اُن کے پاس پہنچے، جیسا کہ فرشتوں کی عادت ہے کہ عموماً خوش نُما صُورتوں میں حاضرہوتے ہیں۔ حضرت مریم علیہا السلام گوشۂ تنہائی میں اچانک ایک مَرد کے سامنے آجانے سے قدرتی طور پر خوف زدہ ہوگئیں اور اپنی حفاظت کی فکر کرنے لگیں، مگر پھر فرشتے کے چہرے پر تقویٰ و طہارت کے انوار کِھلتے دیکھ کر صرف یہی کہنا کافی سمجھا کہ ’’مَیں تیری طرف سے رحمٰن کی پناہ میں آتی ہوں۔ 

اگر تیرے دل میں خدا کا ذرا سا بھی ڈر ہوگا، تو میرے پاس سے چلا جائے گا اور مجھ سے کوئی تعرّض نہ کرے گا۔‘‘ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے جواب دیا، ’’اے مریم ؑ ! آپ گھبرائیں مت، میری نسبت کوئی خیال آپ کے دل میں آیا ہے، تو نکال دیں، مَیں، آپ ؑ کے ربّ کا بھیجا ہوا فرشتہ ہوں اور اس لیے حاضر ہوا ہوں کہ خالقِ کائنات کی طرف سے آپ کو ایک پاکیزہ اور مبارک و مسعود بیٹے کی بشارت دوں۔‘‘ مریم علیہا السلام کے دل میں اللہ نے یہ یقین تو ڈال دیا کہ بے شک یہ فرشتہ ہی ہے، مگر انہیں تعجب ہوا کہ جس عورت کا شوہر ہی نہیں تو پھر اسے پاکیزہ اولاد کیوں کر مل پائے گی؟ بیٹے کی بشارت کے بعد حضرت جبرائیل علیہ السلام نے پھونک ماری اور وہاں سے چل دیئے۔ کچھ ہی روز بعد حضرت مریم علیہا السلام کو بچّے کی پیدائش کے آثار محسوس ہونے لگے۔ جیسے جیسے بچّے کی پیدائش کے دن قریب آتے جا رہے تھے، آپ کی پریشانی میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا۔ 

جب پیدائش کا وقت قریب آیا، تو لوگوں کے خوف سے بیت المقدس سے تقریباً 8میل دُور جنگل کی جانب ایک پہاڑی کوہِ سراۃ کی جانب چلی گئیں۔ شاید یہ وہی جگہ ہے، جسے ’’بیت اللحم‘‘ کہتے ہیں۔ اسی دوران دردِ زہ کی تکلیف شروع ہوگئی، تو قریب ہی واقع ایک کھجور کی جڑ کا سہارا لیا۔ ایک طرف شدید درد، تکلیف، تنہائی و بے کسی، سامانِ ضرورت کا فقدان اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک پاک باز عفیفہ کو آئندہ بدنامی اور رسوائی کا تصوّر سخت بے چین کیے ہوئے تھا۔ حتیٰ کہ اس کرب و اضطراب کے غلبے میں زبان سے نکلا، ترجمہ:(سورۂ مریم، آیت 23) تفسیر:’’اے کاش! مَیں اس وقت کے آنے سے پہلے ہی مرچکی ہوتی کہ دنیا میں میرا نام و نشان نہ رہتا اورکسی کو بھولے سے بھی یاد نہ آتی۔‘‘ 

وہ مقام جہاں حضرت مریم علیہا السلام کھجور کے درخت کے نیچے تشریف رکھتی تھیں، قدرے بلند تھا۔ اُسی وقت فرشتے کی آواز سُنائی دی کہ غم گین و پریشان مت ہو، خدا کی قدرت سے ہر قسم کا ظاہری و باطنی اطمینان حاصل کرو، نیچے کی طرف دیکھو، اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے چشمہ و نہر جاری کردیئے ہیں، تاکہ پانی پیو۔ اور ذرا اس کھجور کو تو ہلائو، پکی اور تازہ کھجوریں ٹوٹ کر گریں گی، یہ تمہارے کھانے کے لیے ہیں۔ انھیں کھائو، چشمے کا پانی پیو اور بیٹے کو دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی کرو اور آگے کا غم نہ کرو، اللہ تعالیٰ سب مشکلات دُور کرنے والا ہے۔ اگر کوئی سوال کرے، تو اشارے سے کہہ دینا کہ مَیں روزے سے ہوں، مزید گفتگو نہیں کرسکتی۔‘‘ اُن کے دین میں نہ بولنے کا روزہ رکھنا بھی جائز تھا۔ حضرت جبرائیل ؑ کے اس پیغام سے حضرت مریم علیہا السلام کو اطمینان ہوگیا کہ میرا ربّ مجھے ضرور بدنامی اور رسوائی سے بچالے گا۔ (تفسیرِ عثمانی، صفحہ 409)۔

آغوشِ مادر میں کلام: حضرت ابنِ عباسؓ بیان فرماتےہیں کہ ولادت کے چالیس روز بعد جب طہارت ہوچکی، تو بچّے کو اٹھا کر اپنی قوم کے لوگوں کے پاس آئیں۔ لوگ نومولود بچّے کو دیکھ کر تعجب میں آگئے اور بدگمان ہوکر بولے’’اے مریم! یہ تو تُونے بُرا کام کیا۔ اے ہارون کی بہن! نہ تو تیرا باپ ہی بداطوار آدمی تھا اور نہ ہی تیری ماں بدکار تھی۔‘‘ تو مریم علیہا السلام نے اس بچّے کی طرف اشارہ کیا۔ وہ بولے کہ ’’ہم اس گود کے بچّے سے کیوں کر بات کریں۔‘‘ (سورۂ مریم آیت،27 تا 29)۔

روایت میں ہے کہ جب خاندان کے لوگوں نے حضرت مریم علیہا السلام کو ملامت کرنا شروع کیا تو آپ دودھ پی رہے تھے۔ دودھ چھوڑ کر والدہ کی جانب دیکھا، پھر خاندان کے لوگوں کی جانب متوجّہ ہوئے اور انگشتِ شہادت سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ’’انّی عبداللہ‘‘ یعنی میں اللہ کا بندہ ہوں، اُس نے مجھے کتاب دی ہے اور نبی بنایا ہے اور مَیں جہاں ہوں، مجھے صاحبِ برکت کیا ہے اور جب تک زندہ ہوں، مجھے نماز اور زکوٰۃ کا پابند بنایا ہے اور مجھے اپنی والدہ کے ساتھ نیک سلوک کرنے والا بنایا ہے۔ 

مجھے سرکش اور بدبخت نہیں بنایا اور جس دن مَیں پیدا ہوا اور جس دن مَروں گا اور جس دن زندہ کرکے اُٹھایا جائوں گا، مجھ پر اللہ کی سلامتی ہے۔‘‘ (سورۂ مریم آیت 27تا 33)۔ لوگوں نے جب نومولود بچّے کے منہ سے یہ الفاظ سُنے، تو حیرت زدہ رہ گئے اور اُنہیں یقین ہوگیا کہ بی بی مریم علیہا السلام پاک دامن ہیں۔ اور یہ بچّہ اللہ کا برگزیدہ بندہ ہے۔ اس واقعے کے بعد خاندان کے اور بنی اسرائیل کے سمجھ دار لوگ اُن دونوں کی بے حد عزّت کرنے لگے اور انہیں خیر و برکت کا باعث سمجھنے لگے۔